زندگی آپ کی اپنی ہے

آپ کبھی غور کرلیں آپ کو اندازہ ہو جائے گا ہم ساری زندگی تین قسم کے ہی لوگوں سے ملتے ہیں۔ لوگوں کی ایک قسم وہ ہوتی ہے جو آپ سے جب اور جہاں ملیں گے بس لوگوں کا ہی ذکر کریں گے۔ ان کے پاس لوگوں کی خرابیاں ان کےعیب  اور ان کی کمیاں  بیان کرنے کے لئے اتنی لمبی فہرست ہو گی کہ آپ کا وقت چھوٹا پڑ جائے گا۔ یہ اشاروں اور آنکھوں تک سے لوگوں کا ہی ذکر کرتے رہیں گے۔

لوگوں کی دوسری قسم وہ ہوتی ہے جو ” قصے پر قصہ” ہوتی ہے۔ جن سے مل کر زندگی سے “بیزار” ہو جائیں وہ لوگ۔ ان کو ہر کہانی میں سے ایک کہانی ہر حادثے میں سے ایک حادثہ اور ہر انتقال میں سے بھی ایک وفات مل جائے گی۔ یہ جب کسی کی عیادت کرنے بھی جاتے ہیں تو بیمار کو ضرور بتا کر آتے ہیں کہ ٹھیک اس ہسپتال اور اس مرض میں ان کے رشتے دار کا بھی انتقال ہو گیا تھا۔  انکی تعداد پہلے والوں کے مقابلے میں ذرا کم ہوتی ہے۔

 جبکہ تیسری قسم ان لوگوں کی ہوتی ہے جو “نمک کا پانی” ہوتے ہیں۔ ان کا دماغ لوگوں اور قصوں سے باہر نکل کر سوچتا ہے۔ یہ خیالات کی دنیا میں رہنے والے لوگ ہوتے۔ ان کے پاس سوچنے اور کرنے کو اتنا کچھ ہوتا ہے کہ ان کے پاس قصے کہانیوں اور لوگوں کا مذاق اڑا کر مزے لینے کا وقت نہیں ہوتا،  ان کے پاس اپنی شرٹس تک بدلنے کا وقت نہیں ہوتا ہے۔ اگر آپ کو یقین نہ آئے تو کبھی مارک زکر برگ اور اسٹیو جابز کو گوگل کر کے دیکھ لیں ان کی شرٹس کا رنگ تک ہر دفعہ ایک جیسا ملے گا کیونکہ ان کے پاس برانڈڈ سوٹ چھانٹنے کا وقت نہیں ہے  یہ اپنے لئے نہیں لوگوں کے لئے جیتے ہیں۔دنیا میں بڑے بڑے کام کرنے والوں کی ایک “چھوٹی” سی عادت یہ بھی ہوتی ہے کہ وہ “آئیڈیاز” تلاش کرتے ہیں، وہ لوگوں کی زندگیوں میں آسانیاں پیدا کرنے کی تلاش میں رہتے ہیں۔

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث کا مفہوم ہے “جو شخص دوسروں کے کاموں میں لگ جاتا ہے اللہ اس کے کاموں میں لگ جاتا ہے”۔ ہم اپنی ساری زندگی دو دائروں میں بسر کرتے ہیں۔ ایک دائرہ وہ ہوتا ہے جو اصل میں ہمارا دائرہ کار ہی نہیں ہوتا ہے اور لوگوں کی اکثریت اسی دائرے میں زندگی گزار دیتی ہے۔ ہم کچرا پھینک کر کچرا نہ اٹھانے والے کو گالیاں دیتے ہیں، سیٹ بیلٹ نہ باندھ کر اور ہیلمٹ نہ پہن کر ٹریفک پولیس والے کو رشوت خور بولتے ہیں، اپنے کام اور ڈیوٹی میں کرپشن کر کے حکمرانوں کو کرپٹ بولتے ہیں۔ آپ کبھی فہرست بنائیں اور جائزہ لے لیں۔ ہم صبح سے شام تک جن 80 فیصد لوگوں، واقعات اور حادثات کا ذکر کرتے رہتے ہیں جن ٹاک شوز،  مارننگ شوز،  ٹی وی ڈراموں اور فلموں  کو دیکھتے اور سنتے رہتے ہیں ان کا ہماری اپنی زندگی سے دور کا بھی کوئی تعلق نہیں ہوتا۔ ہماری40 فیصد سے زیادہ آبادی شوگر اور بی-پی کی مریض ہے۔ سارے جہاں کا درد ان کے جگر اور انہیں کے پیٹ میں ہے۔ ان سے اپنا گھر نہیں سنبھلتا لیکن باقی سارے جہاں کی نااہلی کی فکر صرف انھیں ہی کھائے جاتی ہے۔

 یہ وہ لوگ ہوتے ہیں جو ناشکری کی معراج پر ہوتے ہیں۔ ان کو خدا سے لے کر پاؤں میں چبھنے والی سوئی تک سے شکوہ ہوتا ہے۔آفس لیٹ جانے سے لے کر نماز نکل جانے اور گاڑی مس  ہوجانے سے لے کر پاؤں پھسل جانے  تک سب میں دوسروں کا قصور  ہوتا ہے۔ان سے جب کوئی غلطی ہوتی ہے اس کا ذمہ دار ہمیشہ کوئی دوسرا ہی ہوتا ہے۔ دنیا میں جتنے لوگ آپ کو ناکام ملیں گے ان سب کے پاس شکوے،شکایتوں اور وسائل کی کمی کا لمبا چوڑا رونا ہوگا۔”یہ ملا نہیں،وہ ہوا نہیں، یہ کیا نہیں اور وہ دیا نہیں” میں ان کی ساری زندگی کٹ جاتی ہے۔ان کے پاس مسائل کی ایک نہ ختم ہونے والی فہرست ہوتی ہے۔ یہ “امی”  قسم کے لوگ ہوتے ہیں اگر برتن بچوں سے ٹوٹتا ہے تو قصور بچوں کا ہوتا ہے لیکن اگر برتن، کپ یاشیشہ امی سے ٹوٹ جائے تو قصور ہمیشہ برتن، کپ اور شیشے کا ہوتا ہے کیونکہ وہ غلط جگہ پر رکھا ہوا تھا۔ ٹھیک اسی طرح ان سے کچھ بھی ہوجائے ذمہ دار ہمیشہ دوسرے ہی ہوتے ہیں۔  جب کہ دنیا میں کامیاب ہونے والے لوگوں  کے پاس بھی مسائل کی اتنی ہی لمبی فہرست ہوتی ہے  جتنی ناکام ہوجانے والوں کے پاس ہوتی ہےلیکن ان کے پاس صرف ایک “وجہ” ایسی ہوتی ہے جو ان کو شکوے سے شکر کے مقام  پر لے آتی ہے ۔وہ مسائل کے بجائے موجود  وسائل پر نظر رکھتے ہیں۔دنیا کی پچانوے فیصد آبادی ذرائع کا رونا روتی  ہے اور یہ نتائج پر نظریں گاڑ کر رکھتے ہیں۔ بس یہ ” ذرا ” سا فرق اصل میں فرق پیدا کردیتا ہے۔

 اس دنیا میں قسمت کی صرف ایک قسم پائی جاتی ہے اور وہ “خوش قسمتی” کہلاتی ہے۔ کہتے ہیں کوئی بھی صورت حال اس وقت تک مسئلہ نہیں بنتی جب تک اس کے متعلق آپ کا رویہ اسے “مسئلہ” نہیں بناتا ہے۔ دنیا میں ہر چیز مذاق ہے جب تک دوسروں کے ساتھ ہو لیکن جب وہ ہمارے ساتھ ہوتی ہے تو یہ ہمارے سوچنے کا زاویہ ہوتا ہے جو دوسروں کے ساتھ ہوتے مذاق کو ہمارے لیے دنیا کا سنگین ترین مسئلہ بنا دیتا ہے۔ یہ ہمارا  کسی بھی چیز کو دیکھنے کا  اپنا بنایا  ہوا  زاویہ نگاہ اور نقطہ نظر ہوتا ہے جو ہمارے لئے آسانی یا مشکل پیدا کرتا ہے۔ دنیا میں لوگوں کی اکثریت ساری زندگی اپنے دائرہ عمل میں گزارنے کے بجائے اس سے باہر اس لیے گزارتی ہے کیونکہ تنقید کرنا دنیا کا سب سے آسان کام ہے لیکن اپنی اصلاح کرنا اور خود میں تبدیلی لانا دنیا کا مشکل ترین عمل ہے۔ جب ہم دوسروں پر الزام دھرتے ہیں تو ہم اپنے آپ کو اصلاح سے مبرا ٹھہرادیتے ہیں اور اس طرح اپنی اصلاح کرنے کے بجائے دوسروں پر تنقید کرتے ہیں اور بچپن سے  یہ عمل کرتے کرتے ہم اتنے پختہ ہو چکے ہیں کہ اپنے قصوروں اور اپنی غلطیوں کا ذمہ دار دوسروں کو ٹھہرانا ہماری قومی عادت بن چکی ہے۔ بقول اسٹیفن کووی کہ “ہم  جو کچھ ہوتے ہیں وہ ہمارے حالات  کا نہیں بلکہ ہمارے فیصلوں کا نتیجہ ہوتا ہے”۔ ہمیں اپنی نظر سے زیادہ نظریہ بدلنے پر توجہ دینی ہو گی۔ سقراط نے کہا تھا کہ  “تمھارا دماغ ہی سب کچھ ہے کیونکہ تم جو کچھ سوچتے ہو وہ تم بن جاتے ہو”۔ دنیا کا بڑے سے بڑا آنکھوں کا ڈاکٹر آپ کی نظر بدل سکتا ہے آپ کا نظریہ نہیں بدل سکتا اس لئے اپنے نظریے پر کام کریں۔ سوتے میں خواب دیکھنے والوں کے لئیے رات چھوٹی پڑ جاتی ہے اور جاگتے میں خواب دیکھنے والوں کے لئیے دن چھوٹا پڑ جاتا ہے۔ اپنے خواب  کو تلاش کریں، زندگی آپ کی اپنی  ہے اور اس کا اختیار بھی آپ ہی کے پاس ہے کسی دوسرے کے پاس نہیں۔

حصہ
mm
جہانزیب راضی تعلیم کے شعبے سے وابستہ ہیں،تعلیمی نظام کے نقائص پران کی گہری نظر ہے۔لکھنے کے فن سے خوب واقف ہیں۔مختلف اخبارات و جرائد اور ویب پورٹل کے لیے لکھتے ہیں۔

جواب چھوڑ دیں