ہم اور ہمارا دعویٰ عشق

بڑی عجیب با ت ہے کہ ہم مسلما ن کہتے ہیں کہ ہم عا شق رسو لﷺ اور عا شق صحا بہؓ ہیں لیکن جب ان کی طرح زندگی گذا رنے کی با ت کی جا ئے تو کہتے ہیں کہ ان جیسی زندگی گذارنا تو ممکن نہیں ہے وہ دور بہت پہلے ہوا کر تا تھا اب زما نہ اور ہے اب بہت مشکل ہے سا ری مصلحتیں اور سا رے مسئلے یاد آ جا تے ہیں تو ان سے میرا سوا ل ہے کہ فرعو ن ، قارون ، شداد ، نمرو د تو ان سے بھی پہلے کے لو گ ہیں لیکن آ پ صرف نا م ہٹا کر پو ری زندگی تقریبا ان کی طرح گذا ر رہے ہیں اور آ پ کو اس زما نہ میں کوئی مشکل بھی نہیں ہو رہی تو فورا برا ما ن جا تے ہیں (جہا ں کھڈا ہو تا ہے پا نی وہیں مر تا ہے)اور کہتے ہیں کہ ما ل و دو لت جمع کر نے اور پُر آ سا ئش زندگی گذا ر نے کو اسلا م کہا ں منع کر تا ہے پہلا جوا ب تو یہ کہ بھائی منع کو چھو ڑو یہ بتا ؤ حکم کہا ں دیتا ہے ہمیں پہلے حکم وا لے کا م کر نے ہیں نہ کہ وہ کا م جسے روکا نہ ہو تو برا ما ن جا تے ہیں اور فور اًاکثریت درویش صفت و فقرا صحا بہؓ اور محمد ﷺ کو چھو ڑ کرانگلی اٹھا تے ہیں کہ حضرت عثما نؓ اور حضرت عبد الر حما ن بن عو فؓ بھی تو کتنے امیر تھے تو میں آ ج یہی بتا نے کے لئے کچھ تحریر کر رہا ہو ں کہ آ پ ان دو نو ں صحا بہؓ سے زیا دہ مال رکھنے وا لے بن جا ئیں لیکن ذرا اس طا لب علم کی با ت غو ر سے سمجھ لیں کہ یہ دو نو ں بقو ل آ پ لو گو ں کے امیر کیسے تھے۔۔ ان کے پا س جتنا ما ل تھا وہ بنا سو دی لین دین کے تھا ، بنا جھو ٹ بو لے ، بنا بے ایما نی کئے ہو ئے ، بنا کسی کا حق ما رے ہو ئے، بنا کسی قسم کی رشوت کے لینے دینے کے ، بنا اپنی زندی پر تعیش گذا رنے کے ، بنا دنیاوی زندگی کو آ خرت کی زندگی پر فو قیت دے کے ، بنا دکھا وے کے، بنا فضو ل خر چی و اسرا ف کے اور تما م فرا ئض ، وا جبا ت و سنت مثلاً( نما ز ، رو زہ ، حج ، زکو ۃ ، جہا د فی سبیل اللہ ، تبلیغِ دین ، صدقا ت ، خیرا ت اور قرآ ن پڑھنے و پڑھا نے)وغیرہ کو ادا کر نے کے بعد ما لدا ر تھے اور پھر یہ ما ل اللہ کی اما نت سمجھتے ہو ئے اللہ کی را ہ میں لا کھو ں ، کرو ڑو ں خرچ کر تے اور اپنے اور اپنے گھر والوں کے اوپر سینکڑو ں ، ہزا رو ں میں خرچ کیا کر تے تھے۔ ان سب معا ملا ت کو بشمو ل اللہ کی را ہ میں خرچ کر نے وا لے Ratioکو ضرو ر مد نظر رکھ لیجیے جو کہ اگرہم اپنے الفاظ میں کہیں تو 80, 90فیصد اللہ کی را ہ میں اور 10,20فیصد اپنی جا ئز ضرو ریا ت کے اوپر خرچ کر تے تھے۔ اب سو چ لیجیے کہ ما لدا ر بننے کا شو ق جو ہر انسان کو تقر یباًہو تا ہے۔ اس جیسا تو ہر گز Ratioنہیں رکھ سکیں گے آپ لیکن اگر اس کے قریب قریب رہ سکتے ہیں تو میری دعا ہے کہ اللہ آ پ کو ان دو نو ں صحا بہ سے بڑا ما لدا ر بنا ئے(آمین)۔ بھائی جان دراصل ہم لو گ چند فتوو ں اور کچھ مو لویوں کو دیکھ کر یہ ما ل و دو لت جمع کر نے اور Status بنا نے کو دلیل کے طو ر پر پیش کر تے ہیں ذرا سو چیے اگر یہ ما ل و دو لت جمع کرتے ہو ئے زند گی گذا رنا اور ایک کا میا ب مسلما ن مو من بننا اتنا آ سا ن ہو تا تواکثریت اصحا بؓ ، آ ئمہ ، اولیا ، صلحاء اس فعل کو اپنا نے کی بھر پو ر کو شش کر تے اور تر غیب بھی دیتے نہ کہ خو د اختیا ری درویشی ،سا دگی اور غر بت کو اختیا ر کر تے۔لیکن کیا کریں ہمیں تو شو ق ہے جا ئیدا دیں بنا نے کا عمدہ قسم کی سوا ریا ں رکھنے کا ، عمدہ و اعلیٰ اقسا م کے کھا نے کھا نے کا مہنگی مہنگی جگہو ں پر گھو منے پھر نے کے غرض سے ما ل لٹا نے کا ،عمدہ اور مہنگے مہنگے لبا سو ں کو زیب تن کر نے کا ،اسرا ف اور فضو ل خر چی سے بھری شا دیا ں کرنا جس کی وجہ سے نکاح مشکل اور زنا آسا ن ہو تا جا رہا ہے وغیرہ وغیرہ۔اور بھو ل جا تے ہیں کہ فضو ل خرچی کر نے وا لے کو تو اللہ تعا لیٰ نے شیطا ن کا بھا ئی قرار ر دیا ہوا ہے لیکن ہما را کیا کہنا ہے کہ بھئی اسلا م منع کہاں کر تا ہے ان سب چیزو ں کو کر نے سے ۔۔نبیﷺ انتقال کے وقت اپنے گھر وا لو ں کے لئے ایک درہم بھی چھو ڑ کر نہیں گئے،حضرت ابو بکر صدیقؓ جب اسلا م میں داخل ہوئے تو تقریبا ۴۰ ہزا ر درہم تھے اور خلیفہ وقت ہو تے ہو ئے انتقا ل ہو رہا ہے تو ۴۰ درہم بھی نہ تھے، حضرت عمرؓ خطبہ دے رہے ہیں اور حضرت حسنؓ فر ما تے ہیں کہ میں نے ان کے کپڑو ں میں ۱۲ پیوند لگے ہو ئے دیکھے، حضرت علیؓ کے پا س شا دی کے وقت اپنا ذا تی ایک حجرہ بھی نہ تھا، عمر بن عبد العزیز ؒ ۳ بر اعظمو ں کے خلیفہ وقت اپنے ہر بچے کے لئے ایک درہم چھو ڑ کر رحلت فر ما رہے ہیں ( پتہ نہیں ان سب کو اسلا م نے کیو ں منع کیا ہوا تھا ما ل و دولت جمع کر نے کا )
شا ید (میرے منہ میں خا ک) آپ سب لو گ انبیا ء ؑ اور اصحا بؓ سے اونچے رتبے وا لے اور زیا دہ عقلمند ہو گئے ہیں کیو ں کہ ایسے کا م نہ تو انہو ں نے اختیا ر کئے اور نہ ہی ان باتو ں کی تر غیب دی جن با تو ں کی تر غیب انہو ں نے دی اور عمل کئے وہ تو بہت معذرت کے ساتھ 1فیصد بھی کر نے پر جا ن جاتی ہے ہما ری۔۔۔ایک وا قعہ یا مثا ل پیش کر تا ہو ں کہ ایک دفعہ ایک بینک مینجر نے اپنے Account holderسے پو چھا کہ اگر برا نہ مانیں تو ایک با ت پو چھوں انہو ں نے کہا جی با لکل۔ اس نے کہا ما شا ء اللہ سے آ پ کے اکا ؤ نٹ میں ہمیشہ کرو ڑو ں رو پے مو جو د ہو تے ہیں اور ٹرا نزکشن بھی بڑی رقو م کی ہو تی رہتی ہے لیکن آ پ کو کبھی بھی میں نے پر تعیش Life styleاور دکھا وے وا لے معا ملا ت میں نہیں دیکھا ان صا حب نے کہا جنا ب یہ اکا ؤ نٹ میرے نا م پر ضرو ر ہے لیکن اس کا ما لک کو ئی اور ہے جو امریکہ میں رہتا ہے یہ مال ان کا ہے میرا نہیں ہے وہ جہا ں خرچ کر نے کو کہتے ہیں میں کر دیتا ہو ں اور مجھے تو بس جتنی ضرو رت ہو تی ہے اتنا مل جا تا ہے اور میں اسے استعما ل کر تا ہو ں بس۔۔۔ جنا ب در اصل مسئلہ یہ ہے کہ ہم نے قا رو ن و شدا د وغیرہ کی طرح یہ سمجھ لیا ہے کہ ہم اس ما ل کے ما لک ہیں ہم جہا ں چا ہیں جیسے چا ہیں کما ئیں اور جیسا دل چا ہے خرچ کریں یہ ہما ری محنت اور علم کی بدو لت حا صل ہوا ہے تو پھر ان لوگوں کا انجا م یا د ہونا چا ہیے کہ کیا ہوا تھا ان کے سا تھ۔لیکن ہما رے اکثر لو گو ں کی دلی خوا ہش اور سو چ یہی ہوتی ہے کہ زندگی تو ہم قا رو ن و شدا د کی طر ح گذرے لیکن مر نے کے بعد جنت میں ہما رے پڑو س میں محمد ﷺ و مو سیٰ ؑ ہوں تو بھا ئی سو چنے پر تو کو ئی پا بندی نہیں ہے خو ب سو چیے لیکن یہ یا د رکھیں اگر یہ مال اتنا اہم ہو تا تو نبیﷺ و مو سیٰ ؑ ۔قارون و شداد سے کئی زیادہ ما لدا ر ہو سکتے تھے۔ بلکہ نبی ﷺ نے تو اپنی امت کا سب سے بڑا فتنہ و آ زما ئش ما ل و دو لت کو ہی قرا ر دیا ہے۔
ارشا د با ری تعا لیٰ ہے: ترجمہ : جس کا ارا دہ آ خرت کی کھیتی کا ہو تو ہم اسے اس کی کھیتی میں تر قی دیں گے اور جو دنیا کی کھیتی چاہتاہو ہم اسے اس میں سے ہی کچھ دے دیں گے لیکن ایسے شخص کا آخرت میں کو ئی حصہ نہیں ہو گا۔سو رۃ شو ریٰ ۴۲ آیت ۲۰
تر جمہ : جس نے سر کشی کی اور دنیا کی زندگی کو فو قیت دی ہو گی تو اس کاٹھکا نا جھنم ہی ہے۔ہا ں جو شخص اپنے رب کے سامنے کھڑے ہو نے سے ڈرتا رہا اور اپنی خوا ہشِ نفس کو رو کے رکھا اس کا ٹھکا نہ جنت ہی ہے۔(سورۃ النزعٰت۷۹ آیا ت ۳۷ ۔۴۱)
تر جمہ:جس کا ارا دہ صرف دنیا کا ہی ہو تو ہم اسے جس قدر چا ہیں اس میں سے دے دیتے ہیں لیکن پھر اس کے لئے جھنم مقرر کر دیتے ہیں جہا ں وہ برے حا لو ں دھتکا را ہوا داخل ہو گا۔اور جس کا ارا دہ آخرت کا ہو اور جیسی کو شش اسے کر نی چاہیے وہ کرے بھی اور وہ مو من بھی ہو پس انہی لو گو ں کی کو شش کی اللہ کے ہا ں پو ری قدر دا نی کی جا ئے گی۔
(سو رۃ بنی اسرا ئیل ۱۷ آیا ت ۱۹۔۱۸ ) ان آ یا ت کو غو ر سے پڑھیے اور سمجھیے کہ اللہ تعا لیٰ بندے سے چا ہتا کیا ہے اور کتنی سخت با ت کی ہے اللہ نے طا لبِ دنیا لو گو ں کے لئے اللہ تعالیٰ اپنے بندو ں سے چا ہتے ہیں کہ طا لبِ آخرت بنیں اور اس کے لئے بھر پو ر کو شش بھی کریں ۔یہی با ت ہما رے اصحا بؓ اور بزرگا نِ دین نے سمجھ لی تھی اسی لئے ان لو گو ں نے اپنی پو ری زندگی طا لبِ آخرت بن کر گذا ر دی پتہ نہیں ان کو اسلا م نے کیو ں روکا ہوا تھا۔۔ ۔ خو ب جمع کرو ہیرے اور مو تی لیکن یہ یا د رکھنا کہ کفن میں جیب نہیں ہوتی
بقو ل علا مہ اقبا ل کہ

کا فر کی ہے پہچا ن کہ آ فا ق میں گُم ہے
مو من کی ہے پہچا ن کہ گُم ہے اس میں آ فا ق

حصہ

جواب چھوڑ دیں