آغوش ۔۔بے سہارا بچوں کا سائبان

اسلام یتیموں، مسکینوں، بیواؤں، بے سہارا اور غریب طبقے کو سہارا دینے، ان کی مکمل کفالت کرنے، ان سے پیار کرنے اور انہیں کھانا کھلانے، انہیں وسائل مہیا کرنے اور انہیں آسودگی فراہم کرنے کی ناصرف ترغیب دیتا ہے بلکہ معاشرے کے بے کس، محروم، نادار طبقے اور سوسائٹی کے محتاج، بے سہارا اور معصوم بچوں کی کفالت کے اہتمام کا حکم بھی دیتا ہے۔ معاشرے کے اس طبقے کو محروم رکھنے والوں کے لیے اسلام نے سخت وعید سنائی ہے اور کہا ہے کہ دین اسلام کو جھٹلانے والے وہ لوگ ہیں جو یتیموں کو دھکے دیتے ہیں، ان سے پیار نہیں کرتے، ان کی کفالت نہیں کرتے اور انہیں آسودگی دینے پر اپنا مال خرچ نہیں کرتے۔ وہ یتیموں کی ایسی کفالت نہیں کرتے جیسے اپنے بچوں کی کرتے ہیں۔ معاشرے کے ایسے افراد جو وسائل رکھتے ہوئے بھی اپنے مال سے یتیموں اور محتاجوں کا حصہ نہیں نکالتے ان کی نمازیں، حج و دیگر اعمال اللہ رب العزت رد فرما دیتا ہے۔

ایسے لوگوں کو دوزخ کے عبرتناک عذاب کی وعید سنائی گئی ہے کہ جو اپنی نمازوں کی تو بڑی فکر کرتے ہیں مگر سوسائٹی کے محروم و محتاج بچوں کے سروں پر سایہ نہیں بنتے۔ انہیں اپنی نماز کا تو بڑا فکر رہتا ہے مگر وہ ان محتاجوں، یتیموں اور بیواؤں کی فکر نہیں کرتے، ایسے نمازیوں کو قرآن پاک میں ریاکار کہا گیا ہے، جو نمازیں تو پابندی سے پڑھتے ہیں، لیکن وہ نماز کی اصل روح سے غافل ہیں، دراصل یہ نمازیں ان نادار اور بے بس وبے کس طبقے کی مدد کا سبق دیتی ہیں۔ جو لوگ محتاج طبقے کو برتنے کی کوئی معمولی چیز مانگنے پر بھی نہیں دیتے اور وہ ان محتاجوں کو دھتکار دیتے ہیں، انہیں بخیل کہا گیا ہے۔

کہاجاتا ہے کہ آفرین ہے اس گھر پر جس میں یتیم پلتا ہو، یتیم کی حق رسی ہوتی ہواسے شفقت وپیار ملتا ہو اورہلاکت ہے اس گھر کیلئے جس گھر میں یتیم کی دادرسی اوراس کے حق کی پہچان نہیں ہوتی۔مروی ہے کہ بارگاہ رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم میں ایک شخص حاضر خدمت ہواعرض کی یا نبی اللہ صلی اللہ علیک وسلم !میں ایک یتیم کی پرورش کرتا ہوں کس حدتک اس کی سرزنش کرسکتا ہوں؟حضور نبی مکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشادفرمایا کہ جس حدتک اپنی اولاد کی سرزنش کرتے ہویعنی اسے ادب سکھانے کیلئے سرزنش کرنے میں کوئی حرج نہیں لیکن اسی طرح جس طرح ایک والداپنی اولادکے ساتھ کرتا ہے۔یتیم کو بلاوجہ مارنا عتاب الٰہی کا سبب ہے۔ امیر المؤمنین حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے: جب کوئی یتیم کو مارتا ہے تو اس کے رونے سے عرش الٰہی ہل جاتا ہے۔ اللہ تعالیٰ فرشتوں سے کہتا ہے اے میرے فرشتوں !اس بچے کو کس نے رلایا ہے جس کے باپ کو سپرد خاک کردیا گیا ہے حالانکہ اللہ جل مجدہ خوب جانتا ہے۔ فرشتے عرض کرتے ہیں یا رب العالمین ! ہم نہیں جانتے ،اللہ تعالیٰ ارشادفرماتا ہے فرشتو! میں تمہیں گواہ بناکر کہتا ہوں کہ جو یتیم کو میرے لئے راضی رکھے گا میں روز قیامت اپنی طرف سے اسے خوشیوں سے مالا مال کردوں گا۔

الخدمت فاؤنڈیشن مبارک باد کی مستحق ہے کہ اس نے معاشرے کے ایسے محروم، محتاج، بے کس وبے بس یتیموں کو سہارا دینے اور ان کی مکمل کفالت کا اہتمام کیا ہے یہی دین کی اصل روح ہے۔ معاشرے کا وہ طبقہ جنہیں اللہ رب العزت نے وسائل دے رکھے ہیں ان کے وسائل میں ایسے یتیموں، بے سہارا محتاجوں اورمسکینوں کا بھی حق ہے۔

اس نازک صورت حال کے پیشِ نظر یتیم بچوں کی کفالت کے حوالے سے ’’الخدمت کفالت یتامیٰ پروگرام‘‘کے تحت کام کر رہی ہے ،جس کا مقصد یتیم بچوں کا سہارا بن کر انہیں تعلیم و تربیت اور دیگر بنیادی ضروریات کے یکساں مواقع فراہم کرنا ہیں تاکہ وہ با اعتماد اور صحت مند شہری کے طور پرملک و ملت کی ترقی میں اہم حصہ لے سکیں۔

الخدمت کفالت یتامیٰ پروگرام کے دو حصے ہیں، جن میں آغوش الخدمت ہومز اور گھروں میں یتیم بچوں کی کفالت کا منصوبہ شامل ہے۔ اس وقت الخدمت آغوش سینٹرز اٹک ،راولپنڈی ، راولا کوٹ ، باغ ،پشاور ، مانسہرہ ، اسلام آباد، شیخوپورہ راولپنڈی ، مری اور ڈیرہ اسماعیل خان  میں700 سے زائدبچے قیام پذیر ہیں،جبکہ کراچی ، لوئر دیر، گجرانوالہ  میں آغوش کے منصوبوں پر کام تیزی سے جاری ہے۔

پاکستان  کا پندرہواں     اور اندرون سندھ کا پہلا   آغوش   کا منصوبہ    سپر ہائی وے   پر ہالا بائی پاس سے  5 کلو میٹر فاصلے    پر طے کیا گیا  جس کی تعمیرات کا آغاز تیزی سے جاری ہیں ۔ آغوش  ہالا  میں مجموعی طور پر 200 یتیم بچوں کو قیام و طعام، صحت و تعلیم اور ذہنی و جسمانی نشوونما کیلئے سازگار ماحول فراہم کیا جائیگا۔4ایکٹر رقبہ پر مشتمل آغوش سنٹر کی تعمیر پر مجموعی طور پر7 کروڑ  25 لاکھ روپے لاگت آئے گی اور یہ منصوبہ  دو سال میں مکمل ہوگا۔

بے سہارا یتیم بچوں کی رہائش کا منصوبہ  “آغوش ” صحیح معنوں میں ماں کی آغوش فراہم کرنے کی کوشش کرتا ہے  جس میں ان بچوں کی تعلیم و تربیت کے لئے تعلیم یا فتہ انتظامی عملہ موجود ہ  ہوتا ہے  جو بچوں کے لیے نصابی اور غیر نصابی سرگرمیوں کے لیے صحت مند ماحول کا اہتمام کرتاہے۔  آغوش میں مقیم بچوں کو قریبی   معیاری ا سکول میں داخلہ دلوایا جاتا ہے  تاکہ دین و دنیا دونوں لحاظ سے معاشرے کا کار آمد شہری بن سکیں  ۔ اس کے علاوہ  ماہانہ طبی معائنہ، کمپیوٹر لیب ، لائبریری،سپورٹس گراؤنڈ، ان ڈور گیمز اوربچوں کی نفسیاتی نشو نما کے لیے مختلف لیکچرز اور تعلیمی ٹورز کا بھی  اہتمام کیا جاتا ہے۔آغوش میں مقیم ایک بچے پر 10000 روپے ماہانہ اور 120،000روپے سالانہ خرچ آتا ہے۔ آغوش ہوم کی بلڈنگ  بہترین طرز  پر تعمیر کی جاتی ہے جس میں کشادہ کمرے، ڈائننگ ہال ، لائبریری، کمپیوٹر لیب ،مسجد ، لان ، انڈور گیمنگ زون  ، لانڈری ، سپورٹنگ اسٹاف روم، ایڈمنسٹریڑ آ فس ، وارڈن رومز،گیسٹ روم ،اسٹور  کارپارکنگ اور سکیورٹی گارڈ ر روم شامل ہوتا ہے ۔
پاکستان میں یتیم بچوں کی تعداد لاکھوں میں ہے اور اتنی بڑی تعداد میں یتیم بچوں کی کفالت کااہتمام صرف یتیم خانے (Orphanage)بنانے سے ممکن نہیں ۔اِسی ضرورت کے پیشِ نظرالخدمت فاؤنڈیشن نے ’’آرفن فیملی سپورٹ پروگرام‘‘ کے نام سے یتیم بچوں کی کفالت کا ایک منصوبہ پیش کیا ہے جس کے تحت ایسے یتیم بچوں اور بچیوں کی کفالت کا اہتمام اُن کے گھروں میں کیا جارہا ہے ،جو اپنے خاندان کے کفیل کے نہ ہونے کے باعث بنیادی ضروریاتِ زندگی سے محروم ہو جاتے ہیں۔یہ بچے اپنی والدہ، نانا ، چچا یا کسی بھی عزیز رشتہ دار کے گھر رہ رہے ہوں، اگر ان کی عمر 5 سے 15 برس ہے اور وہ سکول جاتے ہیں تو وہ آ رفن فیملی سپورٹ پروگرام کا حصہ بن سکتے ہیں۔الخدمت فاؤنڈیشن نے آرفن فیملی سپورٹ پروگرام کے منصوبے کا آغاز2012ء میں کیا ۔ عوام کو اِس اہم مسئلے کی طرف توجہ دلانے اور ان یتیم بچوں کی کفالت کی دعوت دینے کے لئے ملک بھر میں مہم چلائی گئی۔الحمدللہ اِس وقت الخدمت فاؤنڈیشن ’’آرفن فیملی سپورٹ پروگرام‘‘ کے تحت تمام صوبہ جات بشمول آزاد کشمیر ، گلگت و بلتستا ن اور فاٹا میں 8000 سے زائد یتیم بچوں کی کفالت کر رہی ہے۔ ان8000بچوں کو ملک بھر میں38 کلسٹر(Clusters) میں سے چُنا گیا ہے۔ہر کلسٹر(Clusters)میں 1 انچارج مقرر کیا گیا ہے جسے ایف ۔ایس ۔او(فیملی سپورٹ آرگنائزر) کا نام دیا گیا ہے۔ یہ فیملی سپورٹ آرگنائزر بچوں، ان کے خاندان اور تعلیمی ادارے کے سربراہ سے مسلسل رابطہ رکھتے ہیں۔ فیملی سپورٹ آرگنائزرز اس بات کو یقینی بناتے ہیں کہ بچے سکول جاتے ہوں۔ بچوں کو گھروں اور سکولوں میں کسی بھی قسم کی مشکلات کا سامنا نہ کرنا پڑے اورا لخدمت کی جانب سے جاری کیے گئے وظائف ان بچوں کی فلاح و بہبود کے لئے ہی استعمال ہوں۔بچوں میں سکول بیگ اور سٹیشنری کی تقسیم کے حوالے سے مختلف  تقاریب کا اہتمام بھی کیا جاتا ہے۔ تعلیمی اور دیگر بنیادی ضروریات کے ساتھ ساتھ بچوں کو سیر و تفریح کے مواقع بھی فراہم کیے جاتے ہیں۔اِس کے علاوہ لیکچرز، دستاویزی فلمیں اور کھیلوں کے مقابلوں کا انعقاد بھی کیا جاتا ہے، جس سے بچوں میں احساس محرومی کم کرنے میں مدد مل رہی ہے اور بچوں میں خود اعتمادی پیدا ہو رہی ہے ۔ ایک بچے کی کفالت پر 3500روپے ما ہا نہ اور، 42000 روپے سالانہ خرچ آتا ہے جس میں اُس کی تعلیم ،خواراک اور صحت کے اخراجات شامل ہیں۔ الخدمت فاؤنڈیشن، فیملی سپورٹ آرگنائزر کے لئے بھی مختلف ٹریننگ ورکشاپس کا انعقاد کر رہی ہے،جس میں بچوں سے ہمددری، دوستانہ ماحول اور ذمہ داری کا احساس اجاگر کیا جاتا ہے تاکہ وہ اس اہم ذمہ داری کو احسن طریقے سے سر انجام دے سکیں۔الخدمت فاؤنڈیشن، اندون  سندھ میں 700بچوں کی کفالت کر رہی ہے اور اس رواں سال  1000بے سہارا بچوں کی کفالت کا عزم رکھتی ہے  ۔ یتیم بچوں کے ساتھ ساتھ اُن کی ماؤں کو ہنر مند بنانے اور چھوٹے قرضے فراہم کرنے کے لئے الخدمت مواخات پروگرام کے تحت مدد فراہم کرے گی، جس کا مقصد انہیں اُن کے پاؤں پر کھڑا کرنا ہے۔
الخدمت فاؤنڈیشن نے یتیم بچوں کی کفالت میں جس بات کو خاص اہمیت دی وہ یہ ہے کہ بچوں کو یہ احساس نہ ہو کہ یتیم ہونا خدا نخواستہ کوئی بری بات یا عیب ہے۔ہمارے پیارے نبیﷺ بھی یتیم تھے۔اور یہ وجہ ہے کہ الخدمت کے زیرِ کفالت بچے احساس کمتری کے بجائے پُر اعتماد رہتے ہیں ۔

حصہ
mm
سلمان علی صحافت کے طالب علم ہیں، بچپن سے ہی پڑھنے پڑھانے اور لکھنے لکھانے کا شوق ہے ۔ کافی عرصہ ریڈیو سے وابستہ رہنے کے بعد کچھ عرصہ ایک اخبار سے وابستہ رہے ، فی الوقت ایک رفاعی ادارے کے شعبے میڈیا اینڈ مارکیٹنگ سے وابستہ ہیں ۔معاشرتی مسائل، اور سیر و سیاحت کے موضوعات پر لکھتے ہیں۔

1 تبصرہ

  1. بہت تفصیلی لیکن دلچسپ انداز تحرر، اللہ ان کوششوں میں ہر ایک کے حصے کو قبول فرمائے، تصاویر کی کمی محسوس ہو رہی ہے۔

جواب چھوڑ دیں