شوق کا مزار

5 مئی 2016 کو لندن میں ریفرنڈم کے بعد مئیرکے انتخاب کا پانچواں الیکشن تھا۔ اس  الیکشن کی خاص بات یہ تھی کہ لندن کے مئیر شپ کے تین امیدواروں میں سے ایک پاکستانی نژاد بھی تھا ۔ صادق خان کے والد بہت کم عمری میں ہی لندن چلےگئے تھے۔ انھوں نے وہاں سخت محنت کی اور ان سے زیادہ محنت ان کے بیٹے نے کی اور برطانیہ بلکہ خاص طور پر لندن کی سیاست میں اپنا مقام بنالیا ۔ صادق خان لیبر پارٹی کے امیدوار تھے ۔ صادق خان کی خاص بات یہ بھی ہے کہ انھوں نے وہاں کے باسی ہونے کے باوجود کبھی بھی پاکستانیوں کو فراموش نہیں کیا   اور اس کی سب سے بڑی مثال حال ہی میں ” لنکن ان ” میوزیم میں قائداعظم کے یادگاری مجسمے کا افتتاح بھی ہے۔

بہرحال، اس الیکشن کے دوسرے امیدوار ” زیک گولڈ اسمتھ ” تھے ۔ یہ جمائمہ گولڈ اسمتھ کے بھائی اور نسلی اعتبار سے یہودی ہیں ۔ ہمارے موجودہ وزیر اعظم صادق خان کے بجائے زیک گولڈ اسمتھ کی مہم چلانے کے لئیے باقاعدہ پاکستان سے لندن تشریف لے گئے ۔ وہاں انھوں نے پورے لندن میں جگہ جگہ پاکستانی کمیونٹی سے خطاب کیا  اور پاکستانیوں کو یہ پیغام دیتے رہے کہ ” آپ صادق خان کے بجائے گولڈ اسمتھ کو ووٹ ڈالیں “۔لندن میں پاکستانیوں نے خان صاحب سے پوری محبت کے باوجود اپنی بھلائی کا فیصلہ کرتے ہوئے صادق خان کو 11 فیصد ووٹوں کی برتری کے ساتھ 44 اعشاریہ 2 فیصد سے کامیاب کروا کر لندن  کا مئیر منتخب کرلیا ۔ اہم بات یہ تھی کہ اس پوری مہم کے دوران خان صاحب نے جہاں جہاں خطاب کیا وہاں ڈائس اور پس منظر میں جو پینا فلیکس لگا نظر آیا اس پر ایک چھوٹا سا نشان بھی بنا ہوا تھا  اور اس  پر سی – ایف  لکھا تھا اور ساتھ ہی اس کا مخفف بھی موجود تھا  یعنی ” کنزرویٹیو فرینڈز آف اسرائیل “۔

14 اگست کو ٹھیک یوم آزادی کے موقع پر خان صاحب نے ڈی چوک میں دھرنے کا اعلان کردیا ۔ یہ دھرنا 126 دن تک جاری رہا ۔ اس دھرنے میں قبریں کھودنے سے لے کر پی- ٹی – وی  اسٹیشن پر حملے تک اور پارلیمنٹ ہاؤس کی دیواروں پر شلواریں سکھانے سے لے کر اس کے درختوں کی چھاؤں میں رفع حاجت تک سارے کام ہوتے رہے ۔ اسلام آباد اندھی نگری چوپٹ راج کا منظر پیش کرتا رہا ۔ چینی صدر جن کو سی – پیک کے معاہدوں کے لئیے پاکستان آنا تھا   وہ اس دھرنے کی وجہ سے نہ آسکے اور چین  کو پوری کوشش کے باوجود  اپنے صدر کا دورہ پاکستان ملتوی کروانا پڑا  اور اس کا خمیازہ خان صاحب کو اس طرح بھگتنا پڑا کہ چین میں  ائیر پورٹ  پر ان کا ستقبال ٹرانسپورٹ کے نائب وزیر نے کیا ۔اسی دھرنے کے دوران خان صاحب نے میاں عاطف کا نام لے کر اس کی قابلیت کے گن گائے اور اسے مشیر لگانے کا عندیہ بھی دے دیا ۔ وزیر اعظم بنتے ہی یہ کام بھی کر گئے بعد ازاں شدید عوامی دباؤ پر انھیں اس فیصلے پر  بھی ” یوٹرن ” لینا پڑ گیا۔

جنوری 2018 میں یورپی یونین نے پاکستان کو بطور خاص ہدایت کردی تھی کہ آپ کی یورپی منڈیوں تک رسائی آسیہ بی بی کی رہائی سے مشروط ہے ۔ بھیک مانگنے کے لئیے سعودیہ عرب اور چین نہ جانے کی قسمیں کھانے اور آئی – ایم  – ایف کے پاس جانے سے پہلے ہی خود کشی کرنے والے وزیر اعظم نےملک میں بد ترین مہنگائی  اور ڈالر کو 134 روپے لے جانے کے باوجود اپنے 100 دن پورے ہونے سے بھی پہلے گھٹنے ٹیک دئیے ۔ آپ ہماری عدالتوں کے ” آزاد ” ہونے کا اندازہ بھی اس بات سے لگالیں کہ اتنے حساس ترین مقدمے کا فیصلہ جس میں ٹرائل کورٹ نے 2010 میں  اور لاہور ہائیکورٹ نے 2014 میں اس فیصلے کی توثیق کرتے ہوئے سزائے موت برقرار رکھی ۔ خود محترم ثاقب نثار صاحب اس بینچ کا حصہ تھے ۔ صرف 3 گھنٹے اور 3 ججوں کی موجودگی میں آسیہ بی بی کی رہائی کا فیصلہ سنا دیا ۔ امریکا سے لے کر یورپ تک  اور ویٹی کن سٹی سے لے کر روم تک خوشیاں منائی گئیں ۔ خوشی کے شادیانے بجائے گئے ۔ حضرت علی نے فرمایا تھا کہ ” اگر حق کی پہچان کرنا چاہتے ہو تو باطل کے تیروں پر نظر رکھو ” اور بد قسمتی سے باطل کے سارے تیر نئی حکومت اور خان صاحب کی کمان سے ہی باہر آرہے ہیں ۔

25 اکتوبر  2018 کو ایوی شراف جو کہ ایک اسرائیلی صحافی ہے نی اپنے ٹیوئیٹ میں اس بات کا نکشاف کیا کہ  اسرائیلی طیارہ جو تل ابیب سے آیا تھا وہ دس گھنٹے تک اسلام آباد  میں کیا کرتا رہا ؟ ایوی شراف نے اپنی ایک اور ٹوئیٹ میں یہ انکشاف بھی کیا کہ جہاز کو اسرائیلی نہ دکھانے کے لئیے ایک چھوٹی سی “ٹِرک” یہ استعمال کی گئی کہ جہاز کو عمان ائیر پورٹ لینڈ کروا کر اس کا کوڈ تبدیل کروادیا گیا  اور اس طرح یہ طیارہ عمان سے  اسلام آباد آیا  کیونکہ یہ طیارہ کینیڈا کی ایک کمپنی کا بنا ہوا تھا جو کہ آف شور بھی ہے اس لئیے  اس  کو چھپانا بظاہر آسان تھا لیکن پھر بھی بی- بی – سی جیسے ادارے نے پورے نقشوں اور شواہد  کے ساتھ ثابت کیا کہ طیارہ واقعی پاکستان آیا تھا اور دس گھنٹے رُکا بھی تھا ۔ دو دن بعد حکومت نے اس واقعے کی تردید  کی لیکن جب تک پانی سر سے گذر چکا تھا  کمال تو یہ ہوا کہ اس واقعے کے ٹھیک 5 دن بعد آسیہ بی بی کیس بھی سنا دیا گیا جو بالکل غازی علم دین شہید کا یوم شہادت تھا ۔ اسرائیلی طیارے کے آنے میں کتنی صداقت تھی یا نہیں اسکا اندازہ تو اس وقت ہوتا جب حکومت بی- بی – سی کو ہرجانے کا نوٹس دیتی اور اتنی بے بنیاد اور من گھڑت خبر پر کاروائی عمل میں لاتی لیکن دو دن تک خاموشی اور پھر خاموشی سے تردید نے اس بات کا چیخ چیخ کر اعلان کردیا کہ دال میں کچھ کالا تھا یا شاید پوری دال ہی کالی تھی۔حکومت نے آسیہ بی بی کے کیس کو دبانے کے لئیے ربیع الاول میں ” ختم نبوت کانفرنس ” کرنے کا اعلان کردیا لیکن پھر شاید عاشق رسول عامر لیاقت حسین اور محافظ ختم نبوت شیخ رشید احمد کے کہنے پر اس کا نام بھی خاموشی سے ” رحمۃ اللعالمین  کانفرنس ” کردیا گیا ۔

اسما ء حدید جو کہ  مخصوص نشست پر تحریک انصاف کی ممبر قومی اسمبلی ہیں اور پاکستان کی مشہور و معروف سابق پاکستانی اداکارہ عائشہ خان کی ساس بھی ہیں ۔ انھوں نے قومی اسمبلی کے فلور پر جس قسم کی لاف زنی کی ہے اس پر بھی سلام ہے ۔ انھوں نے مسجد اقصی کو رسول اللہؐ کی مرضی کے عین مطابق یہودیوں کا ” خانہ ء کعبہ ” ڈکلئیر کردیا ۔ درودِ ابراہیمی  میں بھی یہودیوں  تک ہمارا سلام بھی پہنچا دیا  اور نعوذ باللہ رسول اللہ ﷺ کا تعلق بھی بنی اسرائیل سے جوڑ دیا۔

ام المومنین حضرت صفیہؓ  جن کا تعلق ایک یہودی خاندان سے تھا ان کے  باپ اور چچا  دونوں  یہودی عالم  تھے ۔ وہ فرماتی ہیں کہ جب نبی ﷺ نئے نئے  مدینے میں وارد ہوئے تو میرے چچا آپ ﷺ سے ملنے گئے ۔ جب واپس آئے تو میرے والد نے  ان سے پوچھا کیا دیکھا ؟ تو کہا خدا کی قسم یہ وہی نبی ہے جس کا ذکر ہماری کتابوں میں ہے ۔ میرے والد نے پوچھا تو کیا سوچا ؟ اس پر میرے چچا نے جواب دیا بخدا جب تک زندہ ہوں اس کی مخالفت کرونگا کیونکہ یہ ہماری قوم سے نہیں  ہے ” اور دوسری طرف آپ اسماء حدید کی علم سے عاری گفتگو ملاحظہ فرمائیں اور اس پر مستزاد تحریک انصاف کے چئیر مین  اور وزیر اعظم خان سمیت پوری پارٹی  کی مجرمانہ خاموشی یہ بتانے کے لئیے کافی ہے کہ یہ تقریر کی نہیں کروائی گئی ہے اور جنھوں نے کروائی ہے پوری حکومت کو بھی انھوں نے ہی خاموش کروایا ہے ۔

خاں صاحب ! آپ مہنگائی کریں۔ پورے پاکستان کے لوگوں سے روزگار چھین ہی رہے ہیں اور چھین لیں لیکن ہم کمزور ایمان کے بے بس لوگوں ہیں ،خدارا ! ہم سے ہمارا ایمان تو نہ چھینیں ۔ ہمارے اباؤاجداد  40 لاکھ کی تعداد میں  اس لئیے تو نہیں کٹے تھے ۔ ہماری ماؤں نے اور ان کی جوان بچیوں نے اس لئیے تو اپنی عزتیں اور عصمتیں نہیں لٹوائی تھیں اور بزرگوں نے اپنی بے حرمتی اس لئیے تو گوارا نہیں کی تھی کہ ملک خداداد کے حکمران ” ایاک نعبد وایاک نستعین ” بول بول کر ، اسلام ، اللہ ، رسول اور مدینہ جیسی ریاست کی لولی پاپ دے دے کر ہم سے ہماری اساس ہی چھین لینگے ؟ پوری کی پوری قوم آپ کو پانچ سال کیا بچاس سال دینے کے لئیے تیار ہے لیکن خان  صاحب  ! آپ نے تو 100 دنوں میں ہمارے ایمان کے ساتھ ہی کھیلنا شروع کردیا ۔ہمارے بے کس و کمزور اسلام کی قبروں پر اپنی حکومت کے شوق کا مزار نہ بنائیں۔

حصہ
mm
جہانزیب راضی تعلیم کے شعبے سے وابستہ ہیں،تعلیمی نظام کے نقائص پران کی گہری نظر ہے۔لکھنے کے فن سے خوب واقف ہیں۔مختلف اخبارات و جرائد اور ویب پورٹل کے لیے لکھتے ہیں۔

جواب چھوڑ دیں