خوشیاں کشید کی جاسکتی ہیں

(خدا تعالیٰ کے عطا کردہ تحفوں سے محبت کریں،پھر چاہے وہ اپنے ہوں یا کسی اور کے)

ایک ویب سائٹ کھنگالنے کے دوران ایک تصویر پر نظر جا رکی۔ ایک ڈاکٹر آپریشن تھیٹر میں اوزار لیے کھڑاہے، سامنے اسٹریچر پر ایک بھالو لِٹا رکھا ہے۔ تعجب ہوا کھلونے کا آپریشن؟ پھر نظر جا کر ایک خبر پر رکی، جس کی تفصیل کچھ یوں تھی؛ ’’ایک بچہ کینیڈا کے ہیلتھ سینٹر پہنچا اور ڈاکٹر سے اپنی معصوم خواہش کا اظہار کیا کہ میرے بھالو کا آپریشن کر دیں، یہ ٹھیک سے سو نہیں پاتا۔‘‘ انہوں نے بھالو کو ہسپتال داخل کیا پھر باقاعدہ بیہوشی کی دوا دے کر، اوازر اٹھا کر آپریشن کیا۔ ننھا مریض آپریشن مکمل ہونے کے بعد بھالو کو گھر لے گیا اور اب وہ سکون سے سونے لگا ہے۔

ڈاکٹر کہتے ہیں: ’’بچے کو خوش کرنے کے لیے اس کی ضد پوری کی۔‘‘ انہوں نے ڈرامائی سرجری کی تصاویر شیئر کی تھیں۔ سماجی رابطوں کی ویب سائٹس پر تصویریں خاصی پسند کی گئیں۔ ڈاکٹر کا کہنا تھا ’’بچے کو خوشی دے کر وہ بہت سکون محسوس کر رہے تھے۔‘‘

میں نے جب یہ خبر پڑھی تو اپنے وجود کے اندر گھنٹی سی بجتی محسوس کرنے لگا، ایک انجان سی خوشی کا احساس ہوا تھا۔ پھر میں سوچنے لگا ہم اپنے بچوں کی معصوم خواہشات کا کتنا احترام کرتے ہیں؟ یاد کیجیے اپنے بچوں کی معصوم خواہش، آخری بار کب پوری کی تھی؟ آپ کی بیٹی نے جب اپنی گڑیا آپ کو دی کہ یہ بیمار ہے؛ تو آپ نے کیا کہا؟ جب اس نے کہا: بابا! اس کے بالوں میں کنگھا کر دیں تو آپ کا جواب کیا تھا؟ جب بیٹی نے کہا: مما! اس کے کپڑے بدلیں، دھوئیں؛ تو آپ نے کیا جواب دیا؟ جب آپ بہ آوازِ بلند باتیں کر رہے تھے اور بچے نے آپ کی نقل کرتے ہوئے؛ شش! کی آواز کے ساتھ اشارہ کر کے چپ کر جانے کو کہا کہ’’ شور نہ مچائیں‘‘ گڑیا سو رہی ہے۔ تب آپ نے کیا کیا؟ اسی طرح کی دیگر باتیں بھی ہو سکتی ہیں۔ اگر تو آپ نے اپنے بچے/بچی کی بات مانی، اسے احساس دلایا کہ ہاں بیٹا تم ہمارے لیے اہم ہو، تب تو ٹھیک ہے۔ لیکن اگر ایسا نہیں تو آپ کو اپنے رویے پر ضرور غور کرنا چاہیے۔

یاد رکھیں! جب بچوں کی معصوم خواہش اور ان کی رائے کے ساتھ ہم انہیں بھی اہمیت دیں گے تو ان کے اعتماد میں اضافہ ہوگا، وہ خوددار بنیں گے۔ احساس کمتری کے شکار نہیں ہوں گے۔

 کیا کبھی سوچا کہ معصوم لعل کو دھتکارنے، ڈانٹنے، پھٹکارنے سے اس کی خود داری مجروح ہوگی؟ کبھی سوچا کہ ہم بچوں کو مطمئن کرنے کے لیے ان کے کتنے سوالوں کے جواب دیتے ہیں؟ ننھی خواہشات کا کتنا احترام کرتے ہیں؟ اپنے بچوں کے ساتھ بچہ بننے میں حرج ہی کیا ہے؟ کیا انہیں کندھے یا کمر پر بٹھا کر ان کے لیے گھوڑا بننے سے آپ کی عزت، وقعت، مقام میں کمی آئے گی؟ کیا ان کے ساتھ آنکھ مچولی کھیلنے سے آپ کا وقار کم ہو جائے گا؟ کیا بچے کو باہر لے جانے سے آپ کے پر جل جائیں گے؟ آپ بچوں کے ساتھ بیٹھیے تو۔ آپ کا عمل اس کی یاداشت پر ثبت ہو جائے گا۔ اور ایسی یاد جو ہمیشہ ترو تازہ رہے گی۔ آپ انہیں توجہ تو دیں۔ پھر دیکھیے کیسے کیسے بھالوؤں کا آپریشن کروائیں گے۔ اپنی کھلونا گاڑیاں ٹھیک کروائیں گے۔ غبارے پھلائے جائیں گے۔ اور صرف اداکاری سے آپ نہ صرف ان کا دل جیت لیں گے بلکہ اپنے دلوں میں بھی خوشیوں کی کونپلیں اگتی محسوس کریں گے۔

اگر آپ کوئی کام کر رہے ہیں تو بچے کی کوشش ہو گی کہ وہ بھی کرے۔ جیسے مطالعہ کے وقت وہ بھی کتاب لے کر بیٹھ جائے گا۔ کاغذ قلم لے کر دنیا جہان کے نقشے بنا کر آپ کو دکھائے گا۔ صرف ”ہوں، ہاں” سے ٹال دیں گے تو اس کا اثر آپ پر تو نہیں، بچے پر ضرور پڑے گا۔ لیکن اگر آپ اس پر اسے داد دیں گے تو وہ خوشی سے کپڑوں میں نہیں سمٹ پائے گا۔ اور وہ بے نام لکیریں بقول شخصے ٹیڑھی ترچھی لکیریں نہیں’’ صحیفے‘‘ ہیں ؛ انہیں اہمیت دینی ہی چاہیے۔ اسی طرح آپ کوئی اور چھوٹا موٹا کام کر رہے ہیں تو آپ پر لازم ہے کہ آپ انہیں بھی شریک کریں، یعنی ان پر ذمہ داری ڈالیں کہ ”آپ یہ کام کرو۔” اگر نقصان کرے تب بھی نہ روکیں، یہ نہ کہیں کہ ’’نہ نہ تم نہیں کر سکتے، نقصان کر لو گے، توڑ دو گے‘‘ وغیرہ۔ اس سے بچے احساس کمتری کا شکار ہو جاتے ہیں اور سمجھنے لگتے ہیں کہ وہ ناکارہ ہیں، کوئی کام کر ہی نہیں کر سکتے۔ بلکہ آپ اس نقصان کو تجربے کا نام دیں اور دل بڑا کر کے شاباش بھی دیں۔ اس سے بچے میں جہاں اعتماد پیدا ہوگا، وہیں دوسری بار احساسِ ذمہ داری سے وہ کام کرنے کی کوشش کرے گا۔ بچوں کا خیال رکھنے، انہیں وقعت دینے سے ان میں حوصلہ پیدا ہوگا۔

جن بچوں کو تضحیک، تنقید کا نشانہ بنایا جائے وہ باغی ہو جاتے ہیں۔ اس لیے کوستے رہنے سے گریز کریں تاکہ بچوں میں نفرت، غصہ، جلن جیسے جذبات نمودار نہ ہو سکیں۔

اپنی مصروفیات میں سے چند لمحے نکال کر بچوں کو دیں۔ سوشل میڈیا سے نکل کر تو دیکھیے کہ باہر کی دنیا کتنی حسین ہے۔ آپ کا بچوں کے ساتھ گزرا وقت، آپ کا چھوٹا سا عمل ان کے ذہن کے کینوس پر رقم ہو جائے گا۔ وقت گزر جاتا ہے، یادیں رہ جاتی ہیں۔ بچپن بھی ایک حسین یاد ہے۔ اپنا وقت تو گزر گیا اب بچوں کے بچپن کو تو یادگار بنائیں۔ انہیں ایسی یادیں دیں کہ ان کا بچپن رنگین بن جائے۔ آپ جانتے ہیں کہ بچوں سے تو وجہِ کائنات بھی محبت کرتے تھے۔ ان کے توسط سے خدا تعالیٰ سے تعلق بنایا جا سکتا ہے۔ ہمارے اردگرد بیسیوں بچے ہیں۔ ہم کچھ وقت نکال کر خوشیاں کشید کر سکتے ہیں۔ ہمارے اپنے بچے ہیں؛ ہم انہیں وقت دے سکتے ہیں۔ سیکڑوں بچے ہماری نگاہوں کے سامنے پھرتے ہیں۔

گلی محلے میں، سگنل، چوک، چوراہے پر۔ کوڑا دان سے کچرا چنتے، بڑی سی گاڑی کے دروازے پر نظریں ٹکائے بچے۔ جن کے سپاٹ چہروں پر محبت کی پیاس کا نقش ہوتا ہے۔ جو محبتوں کو ترس جاتے ہیں۔ جو محبت کے نام تک سے واقف نہیں ہوتے۔ کبھی کسی بچے کو بلا کر، دو ٹافیاں، ایک کھلونا دے کر تو دیکھیے۔ مہربان نظریں، دوستانہ برتاؤ، شفقت اور پیار بھرا رویہ ان معصوموں کو وہ اعتماد اور بھروسہ دے سکتا ہے جو شاید انہیں زندگی بھر نصیب نہ ہوا ہو۔ آپ خوشی دے کر بھول جائیں گے مگر وہ بچہ زندگی بھر نہ بھلا پائے گا۔ وہ زندگی کی گھاٹیاں سر کرتا سفیدی بالوں میں لیے بیٹھا ہوگا تب بھی ’’آپ‘‘ اس کی یادوں کے دریچے میں تروتازہ ہوں گے۔

 تو کیا آپ کسی کی یادوں میں تازہ رہنا چاہتے ہیں؟ کیا آپ کو خوشیاں چاہئیں؟ اگر ہاں تو بسم اللہ کریں۔ روٹین بدلیں؛ خوشیاں کشید کریں۔ خدا تعالیٰ کے عطا کردہ تحفوں سے محبت کریں؛ پھر چاہے وہ اپنے ہوں یا کسی اور کے۔

حصہ
mm
مانسہرہ سے تعلق رکھنے والے عبد الباسط ذوالفقارمختلف سماجی موضوعات پر انتہائی دل سوزی سے لکھتے ہیں،جو براہ راست دل میں اترتا ہوا محسوس ہوتا ہے۔مختلف اخبارات و جرائد میں ان کے مضامین شایع ہوتے رہتے ہیں۔

جواب چھوڑ دیں