الیکٹرانک میڈیا کے  معاشرے پر اثرات

1970 کی دہائی سے لیکرآج تک اس ملک کا المیہ  یہ رہا ہے اس ملک میں حکمرانی کرنے والی کوئی ایسی  قیادت اس ملک کو نصیب نہیں ہوئی جو اپنے مفادات کو اس ملک کی فلاح و بہبود اور عوام الناس پر فوقیت دیتی۔مگر اسکے باوجود 80 کی دہائی تک لوگ کسی قدر  مطمئن اور پُر سکون زندگی گزار رہے تھے،شاید اسکی ایک وجہ یہ بھی تھی کہ ذرا یع  ابلاغ کا اتنا چرچہ  نہ تھا،اور یوں لاعلمی بھی لوگوں کے لیے ایک نعمت بنی ہوئی تھی،ایک عدد ریڈیو  تھا  جس کے ذریعےملکی حالات کا  پتہ چلتا رہتا تھا ،جو مزید سیاسی صورتحال  سے با خبر رہنا چاہتا  وہ   بی بی سی لندن کی اردو  نشریات  سُن لیتا تھا،مجھے آج تک یاد ہے  ایک خاص لب ولہجہ میں  جو میرے کانوں میں آج بھی محفوظ ہے،  خبریں شروع ہونے سے پہلے  کہی جاتی تھیں ، یہ بی بی سی لندن کی اردو کی نشریات ہے،  اب آپ ادریس بختیار سے خبریں سُنیں ، خبروں کے بعد ایک مخصوص سی میوزک  کے بعد   خبروں پر تبصرے کا پروگرام  آتا تھا جس کو سیربین  کے نام سے جانا جاتا تھا اور بس  ،یہ تھیں کُل معلومات ،ایک تھوڑا سا  طبقہ     اخبار  سے بھی  شغف  رکھتا تھا ، اس کے بعد کوئی ایسی  مصروفیت نہیں ہوا کرتی  تھی  جو رات رات بھر  جاگنے کا سبب بنتی   ،لوگ جلدی سوتے تھے  علی الصبح  اُٹھنے کے عادی تھے  ،نوجوان طبقہ  اپنی تعلیم  میں مصروف رہتا تھااور جو وقت ملتا اس میں       اسپورٹس  کی طرف اُن کی  توجہ مرکوز رہتی-      چھٹی کے دنوں میں ہر محلے کے میدان تقریباً      بھرے ہوتے تھے     جو واحد ان کی تفریح    تھی-    جس کے باعث  ایک صحت مند معاشرہ بھی  جنم لیتا تھا-

70 اور 80 کی دہائی میں  ٹی وی تقریباً          ہر گھر  کی ضرورت بن چکا تھا ۔    نشریات 5بجے شام سے شروع ہوتی تھیں اور  ساڑھے گیارہ بجے رات  اپنے اختتام  کو پہنچتیں، رات  کو 8 بجے سے 9 بجے تک  ڈرامے کا سلسلہ رہتا تھا جس کو خواتین بڑے شوق سے دیکھتی تھیں  وہ سارے ڈرامے  ہماری ثقافت کا آینئہ   دار تھے اور   ہماری حقیقی زندگی سے قریب تر اور کسی حد تک مہذب بھی ، رات 9 بجے خبرنامہ  شروع ہوتا تھا   جس کو صرف گھر کا سربراہ    ہی سُنتا تھا   اور اس کے بعد  رات  کے کھانے کا سلسلہ شروع ہوتا تھا۔    یہ   معمولات ِزندگی  تقریباً   ہر گھر  کی ہوا کرتی تھیں ،مگر اس کا ایک نقصان یہ ہو کہ اس نے لوگوں کو رات 12 بجے تک    جگانے کا کام تو کردیاتھا۔

1990 کے بعد سے جس تیزی کے ساتھ  سائنس و ٹیکنالوجی  نے ترقی کی اس کے    ساتھ ساتھ   ہماری تہذیب اورثقافت،میانہ روی،صبر ِشکُر،قناعت،تعلقات بھائی چارگی،بزرگوں کا اداب  ،لباس کا چناو ،غرض کہ اُٹھنا بیٹھنا،یہ وہ تربیت تھیں جو نئی نسل اپنے والدین اور بزرگوں سے سیکھتی تھی اور اس پر عمل پیرا بھی ہوتی تھیں ، اور ہمیشہ اپنے ماں باپ  کے فیصلوں کو اپنے  بہتر مستقبل  کا  آیئنہ دار سمجھتے تھے مگر سب ہلکے ہلکے دم  توڑنے لگیں ۔

پھرذرایع  ابلاغ نے ان کو     اتنا خود سر کردیا کہ یہ  با آسانی یہ بات کہ دیتے ہیں کہ آپ کو کیا  پتہ ،جنکی اُنگلیاں پکڑ کر یہ جوان ہوے  ہیں اپنے ماں باپ کو  سمجھتے ہیں کہ شاید یہ لوگ بوڑھے ہی پیدا ہوے تھے۔

 میڈیا  ان کو اب یہ بتا تا ہے  کہ زندگی تمھاری ہے ،تمھیں اپنی مرضی سے جینا ہے،  یہ وہ  ابتدا تھی جو نئی نسل کو  خود سر   اور اسکے ذہین کو بدلنے کا سبب بنی ۔آج اس دور میں جب   ٹی وی چینلوں کی بھرمار ہے  اور چوبیس گھنٹے نشریات چلتی ہیں  تو یہ کیسے ممکن ہے کہ اسکے منفی  اثرات معاشرے پر اثر انداز نہ ہوں ،آپ کویاد ہو گا  کہ خبر نامہ   ایک سنجیدہ  پروگرام ہوتا تھا        خبریں پڑھنے والے بھی  ایک مہذب انداز سے خبریں پڑھا کرتے تھے ، جو عورتیں اس شعبے سے وابستہ تھیں وہ بھی سر پر ڈوپٹہ  رکھ کر مہذب انداز  سے پڑھتی تھیں   -مگر آہستہ آہستہ    صیہونی طاقتوں نے    چینل کے  مالکان   کو بے پناہ رقم دے کر   بے حیائی اور بے غیرتی کو اس حد تک پہنچا دیا کہ زمانے کی چمک دمک نے   ان کو   اپنی طرف کھینچ لیا   اور پھر کوئی برائی ،برائی نہ رہی –

یہ سب کچھ  ایک پلاننگ کے تحت ہو  اور اس کے پیچھے  آزاد خیال اور اسلام دشمن  طاقتیں  کام کرتی رہیں  اور ان آزاد خیال لوگوں کو لاکھوں روپے ماہوار دیکر ان سے اپنے مقاصد پورے کروانے میں کامیاب ہوے- اس دوران وہ ہماری غیرت اور حمیت   کا بھی جائزہ   لیتی رہے  اور ہمارے ردَعمل   کا انتظار بھی کرتی رہیں      مگر ہماری خاموشی اور بےحسی نے ان کو     اپنے مقاصد  پورے کرنے میں آسانی فراہم کی ۔

یوں  خبریں  پڑھنے والی  عورتوں کے سر سے  ڈوپٹہ  گر کر کندھوں تک آگیا   مگر ہم خاموش رہے  پھر ڈوپٹہ گردن  سے جا لگا     ہم پھر بھی خاموش رہے اور پھر وہ ڈوپٹہ    غائب   ہو گیا    اور ہم خاموش رہے   – جب  ہماری   ماں بہنوں کے سروں سے ڈوپٹے   اُتار دیے جائیں         اور ہم خاموش تماشہ بنے دیکھتے رہیں    تو پھر اُن آزاد خیال لوگوں نے اور صیہونی طاقتوں نے ہماری تہذیب ہماری ثقافت ہمارا کلچر   خواتین کا مشرقی  پن   ،مردوں کی مردانہ وجاہت ،بچوں کی معصومیت  سب کچھ ہم سے چھین لیا اورہمیں وہ کچھ   دکھایا   اور دکھا رہے ہیں کہ  الامان الحفیظ

خواتین کا ایک مہذب  لباس ہوتا تھا جس کو شلوار قمیص  کہا جاتا تھا   اس میں بھی ایسی ایسی جدت  کی کہ  ہر گھر کی خواتین نے   اس کا پہنا اپنے اوپر   اس طرح فرض کیا گویا وہ نہیں پہنیں گی تو   معاشرے میں کیا منہ دیکھائیں گی ،شلوار نے  پجامے کی شکل اختیار کر لی   ،رنگ برنگ کے پجامے    آگئے  کچھ نے تو اس کو ٹخنے  سے اوپر کر کے     اپنی پنڈلیوں اور ٹانگ کی نمایش کرنی شروع کر دی ،مگر  ہر طرف کی خاموشی نے  میڈیا کی سازش کو کامیاب بنانے میں مواقع  فراہم کیے ، ان کو ایک قدم اور آگے بڑھایا   ۔  اس پجامے سے نکل کر بات     چُست  پجامے پر آگئی   جس کو  ٹائٹس   کا نام دیا گیا             یہ بے غیرتی کا وہ     اخری لباس  ہے،جس کے پہنے سے جسم کے خد و خال    کا جائزہ  ہر ایک با آسانی لگا سکتا ہے اور پھر یہ لباس  کسی ایک سوسائٹی  تک محدود نہ رہا             -مگر  ہم اس پر بھی خاموش ۔  اب میڈیا  کھلم کھلا      انکی تربیت بھی کر رہا ہے اور انکو       یہ بات باور کرارہا ہے کہ اصل شرم و حیا تو  دل میں ہوتی ہے ،پردہ تو آنکھوں کا ہوتا ہے  اس قسم کے حیلے بہانوں سے  ان کو مطمئن  کرتا ہے ،اور  اسکا تعلق ٖ صرف امراء کے گھرانے تک محدود   نہ تھا  بلکہ   معاشرے کے ہر طبقے   نےاسکا اثر قبول کیا۔

ایک زمانہ تھا جب بچے اپنے والدین کی  محدود آمدنی پر بھی اُنکے مطیع و  فرمانبردار ہوتے اپنی خواہشات  کا اظہار کرتے ہوئے بھی سوچتے تھے کہ کہیں ابا پریشان نہ ہو جائیں –مگر اس میڈیا نے اشتہارات کے ذریعے ہمارے بچوں سے اُنکی معصومیت تک چھین لی –ایک 10 سال کا بچہ اشتہار میں یہ بول رہا ہے کہ اگر پیسے نہیں تھے تو ہم کو پیدا کیوں کیا تھا  -مگر ہم پھر بھی خاموش رہے –اس خاموشی نے  پھر  اشتہار کے ذریعے وہ  کچھ دکھایا جس کا ادراک  ازواجی  زندگی  کے بعد ہوا کرتا تھا   -مگر جب  اوائل عمری میں اس کا ادراک ہو  تو اس کا تجس بڑھ جانا    اور خرابی کا جنم لینا    ایک  فطری عمل ہے –

شیمپو کا اشتہار   غسل خانے میں شوٹ  کر کے دیکھایا جا رہا ہے  کریموں کے استعمال سے اپنی کلائی      اور ٹانگوں  کو دکھا کر  اس کی تشہیر کی جا رہی ہے    ،   کوکا کولا  پی کر اس طرح اُچھل  رہی ہیں  کہ اس بات کی فکر ہی نہیں کہ  بے پردگی ہو رہی ہے –اسکول اور کالج  کی بچیوں کو اُچھلتا  کودتا  دکھا کر  ان کی    حرمت اور ان کی عزت کو تار تار  کیا جا رہا ہے اور ہم خاموش تماشائی بنے  سب کچھ دیکھ رہے ہیں  اورجو لوگ ان کے مقاصد  کو  پورا کرنے میں ان کا  ساتھ دے رہے ہیں  بلا کی خود اعتمادی  ان کے چہروں سے جھلک رہی ہے  دیکھنے والا شرمندہ ہو جائے مگر یہ نہیں –

ٹی وی ڈرا موں  میں سوائے  محبت   محبت اور محبت کے علاوہ کوئی چیز  دکھانے کو نہیں رہ گئی   گویا  محبت  نہ  ہو ئی دین کا کوئی  رکن ہو گیا۔   20 منٹ کے ڈراموں  میں کوئی 20 مرتبہ  یہ لفظ   سننے کو ملتا ہے  -محبت کو ایک عبادت بنا کر پیش کیا جا رہا ہے- شادی شدہ عورت   بھی کسی  کی محبت میں

 گرفتار ہے  اور یہی حال شادی شدہ مرد کا –   بیوی ہوتے ہوے بھی کسی عورت  کی محبت میں گرفتارٍ ہیں    -جوان لڑکیاں  ماں باپ سے کھلم کھُلا  اس بات کا اظہار کر رہی ہیں کہ میں فلاں سے محبت  کرتی ہوں – ڈوپٹے کا تو اب ڈراموں میں نام و نشان ہی نہیں رہا         لباس۔۔۔ اللہ کی پناہ             بیڈ روم  میں شوٹ  کیا جا رہا ہے    دونوں کو ایک بیڈ اور ایک بیڈ شیٹ میں سوتا دکھایا جا رہا ہے یہ سب کیا ہے – اس قسم کے ڈرامے لکھنے والے اور  ان سے لکھوانے والے  کیا پیغام دینا چاہتے ہیں اور یہ کس معاشرے کی ترجمانی کر رہے ہیں – نئی نسل کو کیا پیغام  دینا چاہ رہے ہیں؟۔

سوچتا ہوں اب اس سے زیادہ کیا لکھوں زمانہ بدل گیا دُنیا بدل گئی  زندگی کی جدوجہد  کا لطف باقی نہ رہا تصورات میں نہ وہ رنگینی باقی رہی  نہ حرارت نہ عزائم رہے ،مانا کہ موجودہ عہد کے مسائل اور مطالبات کچھ اور سہی ،ذمہ داریاں بھی بدل گئیں۔

مانا میں پُرانے وقت کا ہوں ، راگنی بے وقت کی ہے  زمانہ ترقی کر چکا ،زندہ رہنے اور زندگی گزارنے  کے اسلوب جو ہمارے تھے  وہ بس اب کتابوں میں رہ گئے  جو ہماری تہذیب کی حاصل حیات  تھی،زمانہ اور زندگی کی رفتار ہی نہیں اسکے رُخ ہی بدل گئےاور اب یہ ترقی یافتہ نسل ہمیں  دقیانوس   سمجھے جانے لگی۔

لیکن یاد رکھیں  آزاد معاشرے  کو پسند کرنے والے  سائنس کے کرشموں کو انسانیت   کی معراج  کیسے  اقرار  دے سکتے ہیں جہان غم اور خوشی  کے جذبا ت ایک جیسے دیکھائی دیتے ہوں۔

اللہ تعالیٰ  ہم سب کو  اپنے    حفظ و امان میں رکھے اور ان  صیہونی    اور   آزاد خیال لوگوں کی   بے حیائی سے ہماری  نسلوں کو  محفوظ رکھے  ۔آمین

حصہ

3 تبصرے

  1. Bohot hi umda tajziya💐
    Allah ham sab ko nek hidayat de deen ke raah par
    🤲chalae ghalat rahon se bachae ba haya banae

  2. Js Islam or tehzeeb ki AP bat kr rhy Hain usny larkiyon ko apni Pasand sy Shaadi krny ka haq diya ha or woh apny maa bap Sy ic k bary MN bat kr skti Hain. Or apko ni lgta k Jo AP fashion ya news anchors k dupattay ko criticize kr rhy Hain woh apni merzi sy ni krtein blky us channel ki requirements hoti or UN channels k owners males hoty. Apka pora blog SRF or srf aurton py criticism ha

جواب چھوڑ دیں