شاید کہ اتر جائے تیرے دل میں میری بات

پہلا منظر :

وہ کھیتوں میں کام کررہی تھی اور دھوپ کی سخت کرنیں اس کے چہرے کے خدوخال کو مزید ڈرائونا بنارہی تھی ، ٹخنوں سے اوپر گھیردار شلوار کا تنگ پائنچہ ، دائیں کندھے سے پٹی کی شکل کا ڈوپٹہ جسے بائیں بازو کے نیچے کمر کے پاس کس کے باندھا گیا تھا۔ سیاہ رنگت اور اس پر پھیلے نقش ۔ کہتے ہیں کسی بھی شخصیت کو سمجھنے میں اس کی وجاہت بہت بڑی مدد دیتی ہے۔ انسان کا سراپا ، اور خصوصاً اس کا چہرہ ایک ایسا قرطاس ہوتا ہے جس پر انسانی کردار اور کارناموں کی ساری داستان لکھی ہوتی ہے اور اس پر ایک نظر ڈالتے ہی ہم کسی مقام کا تصور کرسکتے ہیں۔ ہر انسان کا چہرہ اس کے ذہنی ، اخلاقی اور جذباتی مرتبے کا  آئینہ دار ہوتا ہے۔ وہ بار بار پیشانی پر آئے پسینے کو ہاتھ کی ہتھیلی سے صاف کرتی اور کام میں جت جاتی ۔۔

دوسرا منظر :

صدیوں تک دنیا کی حکومت اس کے قبضے میں رہی ۔کوئی قوم ترچھی نگاہ ڈالنے کی تاب نہ رکھتی تھی، اس کے فرزنداسلامی جھنڈالے کرجدھر رخ کرتے بڑھتے ہی چلے جاتے تھے۔ وہ ہواؤں کا رخ موڑدیتے ،ہرمیدان ان کے ہاتھ ہوتا۔ انکی ایک صداپر جنگل کوجانوروں نے خالی کردیا، ان کے قدموں میں سپرطاقت(قیصروکسریٰ )آگئی جن کے سپوتوں کے عزم وحوصلے، جواں مردی وبہادری وحکمرانی کے واقعات رہتی دنیا تک کے مسلمانوں کے لیے ایک مشعل راہ بنے ۔۔۔  زمانہ کروٹ لیتا ہے  مصائب و آلام میں گرفتار،ہرظلم وستم سہنے پر مجبور، ذلت ونکبت کے دلدل میں پھنسی ہوئی اور اپنے حقوق سے محروم، اس دھرتی پر وہ کون سی قوم ہے جن کے بیٹے آج ہتھکڑیوں میں جکڑے ہوئے،جانوروں کی طرح پنجروں میں اور ناکردہ جرم کی پاداش میں جیلوں کی تاریک کوٹھریوں میں بندہیں ،ان کی مائیں ماتم کناں اور بہنیں نوحہ خواں ہیں ، جن پر دشمن حملہ آورہے ،ان کے شعائرکا مذاق سرِراہ اڑایا جارہا ہے، انھیں اپنے پیغمبرﷺ کے تعلق سے اہانت آمیز باتوں کا سامناہے،جن کی پیروی کو قدامت پسندی کا طعنہ دیاجارہے؟ اور اپنے شعائروکلچرکواپنانے والے افرادکو ”دہشتگرد“کی گالی دی جارہی ہے۔ تویقینا آپ کا جواب ہوگا کہ یہ ” مسلم “قوم ہے۔ ۔۔۔

مسلم قوم آپس میں ہی انتشار کا شکار ہے ۔۔۔۔ ان کی بربادی کی وجہ ہی آپس میں ایک دوسرے سے بدظن ہونا ہے ۔۔ مسلم قوم اب بکھر چکی تھی کوئی مہاجر تھا ، کوئی پٹھان ، کوئی پنجابی ، تو کوئی بلوچی ہاں اگر کوئی نہیں تھا تو وہ : “مسلمان”؟

ایک طرف ہم مسلمان اپنے مولویوں کو گالی دے رہے تھے ، نبیؐ کی شان میں ہونے والی گستاخی پر احتجاج کرنے والوں پر ہم برہم تھے اور ایک دوسرے کے ایمان جانچنے میں مگن کہ

 “عمل سے خالی کھوکھلی آواز بلند کرنا منافقت ہے ۔۔ ٹائر جلانا ، عوام کو پریشان کرنا بھی “گناہ عظیم ہے” اور غریب غربا کا نقصان ہورہا ہے” ہمارے ایک مولوی کو شہید کردیا گیا تو ہم اس میں بھی فکرمند کہ “اسے شہادت کہا جائے یا موت”

دوسری جانب اسلام دشمن  کھیتوں میں کام کرنے والی ایک معمولی مزدور عورت کے لیے “وٹیکن سٹی کے پاپ سے لے کر یورپی پارلیمنٹ کے صدر تک ” حرکت میں آگئے اور اس کو رہائی دلوادی گئی ، آزادی اظہار رائے پر شاندار جشن منایا گیا کیا یہودی ،کیا کافر سب ایک جگہ جمع تھے اور ملعونہ آسیہ کو آزادی رائے پر ایوارڈ سے نوازا گیا ۔۔۔۔ !!

علی نے اسکرین بند کردی اور اپنا سر دونوں ہاتھوں سے تھام لیا ۔۔

مسلم قوم کی پستی کی اصل وجہ وہ کچھ کچھ  جان گیا تھا ۔۔ مسلمانوں کے کئی نام تھے ۔۔ کئی فرقے تھے ، کئی پارٹیاں، جماعتیں ، مسلک تھے ، کئی رسم و رواج تھے ، کئی اصول و ضوابط تھے کئی ماڈرن بھی اور کئی شدت پسند بھی امیری اور غریبی کا فرق بھی تھا۔

 بس اگر کوئی “ایک” (متحد) تھا تو وہ اسلام دشمنان تھے ۔۔ !!

حصہ

جواب چھوڑ دیں