فیری میڈوز

فیری میڈوز کو پاکستان کی جنت کہا جائے تو اس میں شک و شبُہہ کی کو ئی گنجا ئش نہیں ہے ۔اس وادی کو دیکھنے کے بعد سب سے پہلا احساس آپ کے دما غ میں جو آتا ہے وہ یہی ہے کہ آپ اس دُنیا سے باہر کہیں اور ہیںآپ ایسا محسوس کرتے ہیں کہ جیسے یہ کو ئی افسانوی جگہ ہے جو صرف خوابوں میں نظر آتی ہے ۔
اس جگہ فیری میڈوز کو رئیس خاندان نے ۱۴ روپے میں خریدا اور اب تک یہ جگہ اس خاندان کے پا س ہے ۔یہ ۱۵۰ گھرانے ہیں جو اس تمام جگہ کے مالک اور کرتا دھرتا ہیں ۔یہاں کے تمام معا ملا ت اور سیاحت کو خو د چلاتے ہیں ،حکو متِ وقت کا ا س میں کو ئی کردار نہیں۔اس خاندان کے دو بھا ئی غلام نبی اور رحمت نبی نے اپنی کا وشوں سے اس علا قے کو مشہور کیا اور سیاحوں کی تو جہ اس جا نب کھینچی۔ہمارے گائیڈ طفیل نبی اسی خاندان کے چشم و چراغ ہیں ۔
ہر سال ہم چند بچپن کے دوست کہیں نہ کہیں گھومنے پھرنے کی منصوبہ بندی کر تے ہیں اور پا کستان کے شمالی علا قہ جا ت سے بڑھ کر اور کو ئی ایسی خو بصورت جگہ ذہن میں نہیں آتی جہاں آپ جائیں ۔ چنا نچہ اس با ر ہم دوستوں کا پرو گرا م گلگت بلتستان کابنا بالخصوص نا نگا پربت کے دامن کی وادی فیری میڈوز کا ۔
کراچی سے ہم دوست بذریعہ ٹرین لا ہو ر پہنچے ۔رات کے دو بجے ہم اسٹیشن پر اُترے اور سیدھے لاری اڈے کے لیے چل دئیے تا کہ صبح تک ہم راولپنڈی پہنچ سکیں ۔یہاں یہ بات قابلِ ذکر ہے کہ جب بھی آپ سیا حت کے ارادے سے گھر سے نکلیں تو مکمل منصوبہ بندی کر لیں تاکہ دورانِ سفر کسی قسم کی پریشانی کا سامنا نہ کرنا پڑے۔منصوبہ بندی کے فقدان کا سب سے بڑا نقصان پیسوں کے ضیا ع کی صورت میں سامنے آتا ہے ۔گھر سے نکلنے سے پہلے آپ کو یہ معلوم ہو نا چاہیے کہ آپ کہاں جارہے ہیں،کس کس جگہ رُکنا ہے ، کتنے گھنٹوں کا سفر ہو سکتا ہے اور کتنی رقم خرچ ہو سکتی ہے؟ یہ سب یقینی نہیں ہو تا اس میں اونچ نیچ ہو جاتی ہے لیکن منصوبہ بندی کرنے سے بہت حد تک آپ صحیح فیصلہ لے پا تے ہیں ۔گھر سے نکلتے ہو ئے آپ کو یہ بات ذہن میں رکھنی چاہیے کہ آپ اپنے گھر ، خاندان سے سیکڑوں میل دور پر دیس جا رہے ہیں جہاں آپ نے اپنا خیال خود رکھناہے۔انٹرنیٹ کے ذریعے راستے،جگہوں کے نقشے حتی کہ وہاں کے مقامی افراد جو گا ئیڈ کے فرائض انجام دیتے ہیں اُن کے رابطہ نمبر تک حا صل ہو سکتے ہیں جن کے ذریعے آپ کو اُن علاقوں کی صحیح تصویر مل جا ئے گی۔یہاں یہ بات قابلِ ذکر ہے کہ کراچی سے جانے والے افراد کو یہ بات ذہن نشین ہو نی چاہیے کہ سفر طویل اور تھکا دینے والا ہو گا اور شمالی علا قہ جات کے علاقوں میں پیدل چلنا اور پہا ڑوں کی چڑھائی جا بجا آئے گی لہذا سامان جتنا کم کے کر جا ئیں اُتنا اچھا ہے بصورتِ دیگر آپ زیا دہ ساما ن کے ساتھ سفر نہیں کر پا ئیں گے ۔آپ کو ضروری سامان کی فہرست بنا لینی چاہیے جو کچھ اس طرح کی ہو سکتی ہے۔


نمبر۱: بیگ (یہ خصوصی بیگ عام مارکیٹ میں دستیاب ہے اس میں کئی خانے اور خاصی جگہ ہو تی ہے اسے آپ کندھوں پر لٹکا سکتے ہیں ایسا بیگ اُن علاقوں میں بہت منا سب رہتا ہے کیونکہ اسے لٹکا کر پیدل چلنے میں آسانی رہتی ہے)
نمبر۲: دو جینز اور تین سے چار شرٹ کا فی ہیں۔
نمبر۳: ٹو تھ بُرش ، صابن ، تو لیہ وغیرہ۔
نمبر۴: فرسٹ ایڈ کا سامان۔
نمبر۵: بخار ،اُبکا ئی ، سر درد، جسم کے درد وغیرہ کی گو لیاں۔
نمبر۶: پی کیپ، سن بلاک۔
نمبر۷: جو گرز، چپل۔
نمبر۸: بھُنے ہو ئے چنے،کھجو ر۔( پیدل چلنے کے دوران[ہائیکنگ] میں یہ چیزیں مدد گار ہو تی ہیں۔
نمبر۹: پا نی کی بو تل۔
ان چیزوں کے علا وہ بھی آپ اپنے حساب سے اس فہرست میں اضافہ کر سکتے ہیں لیکن مذکو رہ بالا سامان لے کر جا ناضروری ہے۔راولپنڈی ہم صبح ۹ بجے پہنچے ۔ پیر ودھائی بس اسٹیشن پر پہنچے ۔ وہاں سے معلوم ہو اکہ گلگت کے لیے چلنے والی گاڑیا ں شام پا نچ بجے کے بعد چلتی ہیں اس کی وجہ یہ ہے کہ شاہراہِ قراقرم سے گزرنے والی تمام گا ڑیو ں کو کا نوائے کی صورت سیکو رٹی میں لے جا یا جاتا ہے ۔ ماضی میں کچھ ناخوشگوار واقعات کی بناء پر ایسا انتظام کیا گیا ہے جو آج تک جا ری ہے ۔ یہ تمام گاڑیاں ما نسہرہ سے کا رواں کی صورت اختیار کر تی ہیں ۔بہر حال ہم نے نیٹ کو (Natco) بس سروس سے ٹکٹ لیے ۔ یہ گو رنمنٹ کی طرف سے سیا حوں کے لیے خصوصی بس سروس ہے لیکن اس سے یہ خیا ل مت ذہن میں لائیے گا کہ کو ئی خصوصی کمی ہو گی کرایو ں میں ۔ایسا کچھ نہیں ہے ان کے کرائے بھی وہی ہیں جو پرائیوٹ ٹرانسپو رٹ کے ہیں ۔ہماری منزل را ئی کو ٹ تھی۔جہاں سے فیری میڈوز کے لیے راستہ دستیا ب تھا ۔ راولپنڈی سے رائی کو ٹ گلگت کا کرایہ ۲۰۰۰ فی کس ہے۔را ئی کو ٹ تک کا سفر کم از کم ۱۸ سے ۲۰ گھنٹے کا ہے ۔ راولپنڈی سے را ئی کو ٹ کافا صلہ ۵۴۰کلو میٹر ہے ۔پیر ودھا ئی بس اسٹیشن پر سستے ہو ٹل دستیاب ہیں ۔ ہم نے دو کمرے کرائے پر لیے۔نہا کر سب آرام کرنے لیٹ گئے ۔ دو پہر میں سب نے سیور پلاؤ(Savor pulao ) سے پلا ؤ کھایا ۔آپ راولپنڈی آئیں اور یہاں سے پلاؤ نہ کھائیں تو یہ خو د سے زیا دتی ہے۔شام میں ایک با ر پھر نئے سفر کا آغا ز ہو ا۔ رات میں ہم ما نسہرہ پہنچے ۔یہاں کچھ دیر رُک کر کا نوائے میں سفر شروع ہو ا۔
ساری رات سفر کے بعد صبح ہم بشام پہنچے ۔سب مسافر نیچے اُترے یہاں آدھے گھنٹے کا وقفہ تھا ۔ کو ئی واش روم بھا گا تو کوئی وضو کر کے نما زکی طرف چلا گیا ۔کچھ مسا فر نا شتہ کر نے بیٹھ گئے ۔ ہم لو گو ں نے بھی منہ ہا تھ دھو نے کے بعد ناشتہ زہر ما ر کیا ۔یہاں یہ با ت بھی ضروری ہے بتانا کہ جیسے جیسے آپ پہا ڑی علا قوں میں بلندی کی طرف سفر کریں گے کھانا غیر معیاری اورذائقے سے پر ے ہو گا بس یہ ہی غنیمت ہے کہ آپ کو کھانا پانی میسر ہو ۔مسلسل سفر نے ہمیں تھکا دیاتھا لیکن آگے بڑھنے کی جستجو اور حسین منا ظر کی کشش نے ہمارے ارادوں کو جو اں رکھا ۔بشام سے شاہرا ہ قراقرم کا آغا ز ہو جا تا ہے اور پھر ایک ایسا طویل ، تھکا دینے والا اور خطر نا ک سفر کا آغا ز ہو تا ہے جس کی تفصیل کے لیے ایک الگ نشست چاہیے۔شاہراہ قراقرم پر سفر کرنا کوئی آسان کام نہیں ہے آغا ز میں تو بہت مزہ آتاہے لیکن جب یہ شاہراہ ایسے موڑ اور گھماؤ پر پہنچتی ہے جہاں ڈرائیورکی ذرا سی غفلت سے آپ سیدھے دریا میں جا گریں کا خطرہ سامنے نظر آتا ہے تو آپ اپنی آنکھیں بند کر کے کوئی وظیفہ شروع کر دیتے ہیں اور سا تھ ہی خو د پر لعنت بھیجتے ہو ئے آئندہ ایسے سفر سے تو بہ کر تے ہیں ۔لیکن ان علاقوں کی خو بصورتی کا ایک یہ بھی راز ہے اور بعد میں آپ ان حسین یا دوں کو یا د کر کے بس آہ بھرتے ہیں ۔ یہاں پر یہ با ت غور طلب ہے کہ حکو مت اس شاہرا ہ کی مرمت اور دیکھ بھا ل پر تو جہ دے کیو نکہ یہ شاہراہ ٹوٹ پھو ٹ کی شکار ہے ۔بشام سے داسو ، داسو سے کو ہستا ن اورپھر چلا س۔یہاں تک پہنچتے پہنچتے آپ کا خا نہ خراب ہو جا تا ہے اور آپ کو ایسا محسوس ہو تا ہے جیسے کہ آپ شاید چاند کے سفرپر نکل کھڑے ہوئے ہیں یا آپ یہ بھی سوچ سکتے ہیں کہ جیسے آپ صدیو ں سے اسی بس کے مسافر ہیں اور آپ کی زندگی کا اختتام بھی اسی بس میں ہو گا اس سو چ کا انحصار آپ کی دماغی حالت پر ہے۔


۲۲ گھنٹوں کے مسلسل سفر کے بعد ہم را ئی کو ٹ پہنچے ۔را ئی کو ٹ اُترتے ہی آپ کہتے ہیں یہ کیاہے ؟ سارے را ستے ہم ر ائی کو ٹ را ئی کو ٹ سُنتے رہے ذہن میں ایک تصویر تھی کہ یہ کو ئی سر سبز و شا داب کو ئی علا قہ ہو گا لیکن سڑک کے ساتھ بہتے ہو ئے دریا کے ساحل پر ایک کمرہ اور برآمدہ سا بنا ہو ا ہے جہاں رُ ک کر آپ چائے پی سکتے ہیں اور سستا سکتے ہیں لیکن آرا م نہیں کر سکتے.یہاں سے آپکو فیری پو ائنٹ کے لیے جیپ ملتی ہے۔
ہم ۱۱ لڑکے تھے لہذا ہم نے دوجیپ کرا ئے پر لیں ایک جیپ کا کرایہ ۶۰۰۰ ہے اور اس میں کو ئی کمی بیشی نہیں کی جاتی۔اہم بات یہ ہے کہ اُسی وقت جیپ والے سے واپسی کے لیے وقت کا تعین کر نا ضروری ہے کیو نکہ اوپر مو بائل سگنلز نہیں آتے لہذا آپکو ڈرا ئیورکو پہلے بتا نا ہو تا ہے کہ ہم کل یا پر سوں واپس فیری پو ائنٹ آجا ئیں گے تو وقتِ مقررہ پر ڈرا ئیور مو جو د ہو گا۔
آپ مقامی جیپ کے علا وہ اور کسی بھی گا ڑی میں سفرنہیں کر سکتے کیو نکہ فیری پو ائنٹ کا را ستہ انتہا ئی دشوار گزاراور پتھریلا ہے۔جہاں جیپ پتھروں کے اوپر چلتی ہے ۔ یہ را ستہ پہاڑوں کے اوپر ہے عام گا ڑی کا چلنا نا ممکن ہے ۔فیری پو ائنٹ کا سفرشرو ع ہو ا تو حقیقتاَ َ ایسا محسوس ہو تا ہے کہ جیسے مو ت کا سفر شرو ع کر دیا ہو ۔ را ستہ اتنا تنگ ہے کہ اگر سامنے سے جیپ آرہی تو ایک جیپ کو رُک کر سائیڈ پر ہو نا پڑتا ہے اور جیپ کا ایک ٹا ئر ہو ا میں ہو تا ہے اور یو ں محسو س ہو تا ہے کہ جیسے اب گرے توتب گرے ۔ سینکڑوں فُٹ گہری کھائیاں جن کے نشیب میں بہتا دریا دل دہلا دینے کے لیے کا فی ہے ۔ہمارے گروپ میں سے ایک ہمارے دوست ہمت ہا ر بیٹھے اور واپس را ئی کو ٹ چلے گئے۔ ہمارا سفر جا ری رہا ۔اس جیپ نے ہمیں کیل گا ؤں تک چھو ڑا یہ نو کلو میٹر کا فا صلہ بنتا ہے ۔یہ علا قہ ٹیٹو کہلا تا ہے ۔کیل گا ؤں سے فیری پو ائنٹ کا راستہ پیدل طے کر نا پڑتا ہے جہاں ایک ہو ٹل ہے یہاں یہاں تک پہنچتے پہنچتے ہمیں مغرب ہو چکی تھی اور بارش بھی شروع ہو چکی تھی ،لہذا ہمیں اس کا ٹیج نما ہو ٹل میں رُکنا پڑا ۔یہاں ہمارے علاوہ اور بھی سیاح مو جو د تھے۔یہاں ایک کمرہ ۲۰۰۰ سے ۵۰۰۰ میں حاصل کیا جا سکتا ہے ۔
کھانے کا حساب بو فے سسٹم ٹا ئپ ہے ،لیکن یہ شہروں کے ہو ٹلز والا بو فے نہیں ہو تا ۔کھانے میں صرف دال ،چاول اور سبزی تھی ۔کھانا فی بندہ ۲۵۰ روپے تھا ۔اسی طرح نا شتہ ۱۵۰ روپے ۔ہمیں مسلسل سفر کرتے ہو ئے ۵۰ گھنٹوں سے اوپر ہو چکے تھے تھک کر چو ر ہو چکے تھے لہذا بستر ملتے ہی ہم ایسے مدہو ش ہو ئے کہ صبح دوست احباب نے لا تیں ما ر مار کر اُٹھایا ۔
فیری پو ائنٹ سے اوپر جنگل شروع ہو جا تا ہے یہاں سے پیدل راستہ فیری میڈوز کو جا تا ہے ۔اس کے علا وہ خچر ، گدھے اورگھو ڑے بھی دستیا ب ہیں جو ۱۸۰۰ سے ۲۰۰۰ میں لیے جاسکتے ہیں ۔لیکن اگر آپ ہا ئیکنگ کا لُطف لینا چاہتے ہیں تو یہ راستہ پیدل طے کریں۔اپنے ساتھ پا نی ، چنے ، کھجور لا زمی لیں ۔فیری پو ائنٹ سے فیری میڈوز کا راستہ ۶ کلو میٹر ہے ۔ اس راستے میں آپ کو مختلف دیدہ زیب منا ظر ملیں گے ۔۲ سے ۳ فُٹ کی پگڈنڈی ہے جس پر آپ چلتے ہیں دائیں ہا تھ پر پہا ڑ اور درخت ہیں جبکہ با ئیں ہا تھ پر گہری کھا ئیاں جن کے نشیب میں پا نی کے بہنے کی زوردار آواز آپ کے اندر ایک عجیب سنسناہٹ پیدا کرتی ہے ۔ مُہم جو طبیعت کے افرا د کے لیے یہ ہائیکنگ انتہا ئی پُر لُطف اور دلچسپ ہے ۔تقریباَ ایک گھنٹے پیدل چلنے کے بعد جنگل شروع ہو جا تا ہے ۔جہاں سے را ستہ بھی قدرے بہتر ہو جاتا ہے ۔پا نی کے چشمے ، جا نوروں کی آوازیں ، گھنے درخت ، صاف آب وہو ایہ سب آپ کے سفر کو انتہا ئی خو شگو ار بنا دیتا ہے ۔یہ ہا ئیکنگ آپ کی صحت پر نہایت مفید اثرا ت مرتب کرتی ہے ۔شہری افرا د کے لیے یہ کسی جنت کی نعمت سے کم نہیں ۔را ستے میں وادی سے نیچے اُتر تے ہو ئے کئی افراد ملے ۔جن سے ہم بڑی اشتیا ق سے پو چھتے کہ کیسی جگہ ہے اور کتنی دور ہے ؟ کچھ خو اتین بھی ملیں جنھیں دیکھ کر رشک اوراپنی حا لت پر افسوس ہو ا۔
ہا ئیکنگ کرتے ہو ئے کچھ با تو ں کا خیا ل رکھنا ضروری ہے۔
نمبر۱: اپنے ہا تھ میں چھڑی یا لکڑی لا زمی رکھیں جو آپ کو سہا را دے گی۔
نمبر ۲: چھوٹے چھو ٹے قدم اُٹھا ئیں اور آہستہ چلیں ۔تھو ڑی تھو ڑی دیر بعد آرا م کر یں تھکنے کا انتظا ر نہ کر یں ۔
نمبر۳: گھو نٹ گھو نٹ پا نی پیتے رہیں ، کھجو ر اور چنے کھا تے رہیں ۔ آپ خو د کو ترو تا زہ محسوس کر یں گے۔
۳ گھنٹے کا سفر ۶ گھنٹے میں طے ہو ا۔ آخر کا ر ہم فیری میڈوز پہنچ گئے ۔
یہاں پہنچتے ہی ایسے محسوس ہو ا جیسے صحرا میں چلتے چلتے اچانک نخلستا ن سامنے آجائے ۔سا ری تھکا ن چٹکیوں میں اُڑ گئی ۔یہ وادی سطح سمندر سے ۸۸۶،۱۰ فُٹ بلند ہے ۔جیسے ہی آپ اوپر پہنچتے ہیں وہاں کا اسٹا ف آپ کو خو ش آمدید کہتا ہے اورلکڑی سے بنی کا ٹیج نما کنٹین میں خو ش آمدید چائے (Welcome tea ) پیش کر تا ہے ۔یہ خصوصی جڑی بو ٹی سے بنی چائے ہے جو آپ کو اتنی بُلندی پر آکسیجین کی کمی محسوس نہیں ہو نے دیتی اور آپکی تھکا ن کو بھی دور کر تی ہے ۔اس وادی میں آپکو کم از کم ۲ سے ۳ دن رُ کنا چاہیے تب ہی آپ قدرت کی اس کا ری گری سے لُطف اندوز ہو سکتے ہیں ۔ یہ پہا ڑوں کے درمیان گھرا ایک چھو ٹا سا سر سبز ٹُکڑاہے ۔ اس وادی کے ایک طرف جنگل،دوسری طرف بُلند با لا پہا ڑ، سامنے کی طرف گہری کھائیاں ہیں ۔اس وادی کو با دلوں نے چا روں طرف سے ڈھکا ہو ا ہے ۔جنگل میں نشیب کی طرف ایک جھیل بھی ہے ۔ مقامی افرا دکی آبا دی بھی وہا ں رہا ئش پذیر ہے ۔اس وادی میں سیا حو ں کی رہا ئش کے لیے لکڑی کے بنے کا ٹیج نماگھر ہیں جبکہ خیمے بھی میسر ہیں ۔آپ اپنی طبیعت کے مطا بق انتخا ب کر سکتے ہیں ۔یہاں پر ۳۰۰۰ سے ۸۰۰۰ کی رینج میں آپ کو کمرہ مل سکتا ہے۔اس وادی کی پُشت پر نا نگا پربت کا پہا ڑ پو ری شا ن و شو کت سے کھڑا ہے ۔بر ف سے ڈھکا یہ پہا ڑ وادی کے بہت قر یب ہے اور آپ چا ہیں تو پیدل ۲ گھنٹوں میں نا نگا پر بت بیس کیمپ پہنچ سکتے ہیں۔نا نگا پر بت کلر ما ؤ نٹین کے نا م سے مشہو ر ہے ۔ اسے سر کر نا آسان نہیں اور لا تعداد کوہِ پیما ء اسے سر کرنے کے چکر میں جا ن سے ہا تھ دھو بیٹھے ۔نا نگا پربت کو سب سے پہلے جر من کو ہِ پیما ء ، ہر من با ل نے سر کیا۔فیری میڈوز با دلوں سے گھری رہتی ہے ۔ با دل آپکے گرد طو اف کر تے نظر آتے ہیں ۔آرا م کر نے کے بعد ہم وادی گھومنے نکل کھڑے ہوئے ۔ہما رے علا وہ بھی سیا حوں کی ایک بڑی تعدا دوہاں مو جو د تھی۔ فیری میڈوز پہنچتے ہی مو سم کی تبدیلی کا احساس ہو تا ہے ۔آپکے پا س گرم کپڑے لا زمی ہو نے چا ہیے۔ اس کے بغیر گزارہ نہیں ۔فیری پو ائنٹ سے گا ئیڈ کو لا زمی سا تھ لیں ۔گا ئیڈ ۱۸۰۰ سے ۲۰۰۰ میں مل جا ئے گا ۔یہ گا ئیڈ نہ صرف سامان اُ ٹھا نے میں مدد کر تا ہے بلکہ وہاں کی ضروری معلو ما ت بھی فرا ہم کر تا ہے ۔ ہما رے گا ئیڈ کا نا م طفیل نبی تھا ۔
وادی کی سر سبز زمین دیکھ کر ایسا محسوس ہو تا ہے کہ جیسے آپ سر سبز قالین پر چل رہے ہو ں ۔با دل آپکے قدموں کو چھو تے ہیں ۔ ہر طر ف اتنی خا مو شی ،سکو ن اور ٹھہرا و ہو تا ہے کہ آپ خود کو کسی ایسے سیا رے پر محسوس کر تے ہیں جہاں بس آپ ہو ں ۔ اتنی اونچا ئی پر پہاڑوں کے درمیان ایسی وادی کا تصور محا ل ہے لیکن خدا کی قدرت بے مثال اور لا جو اب ہے ۔سارا دن ہم وادی گھومتے رہے اور تصا ویر کھنچواتے رہے ۔ قریب ہی بکریو ں کا ایک ریو ڑ گھوم رہا تھا میں نے کا فی بھا گ دوڑ کے بعد ایک خوبصورت بکری کا بچہ پکڑا اور ڈھیر سا ری تصا ویر لیں۔یہاں کھا نے میں سبزی ، دالیں ، چکن ، مٹن دستیاب ہے ۔ با لخصوص یہاں کی ایک خا ص سبزی سو نچل بھی میسر ہے ۔ یہاں کھا نے کا نظام بو فے کی صورت ہے ۔ فی کس بندہ ۴۵۰ ہے ۔ مٹن ۷۵۰ فی بندہ ہے ۔یہا ں کی مقامی زبان شیناء ہے ۔ یہاں اچانک با رش شرو ع ہو جا تی ہے لہذا آپکے سامان میں رین کو ٹ ہو نا چاہیے۔ اگر آپ مُہم جو طبیعت کے مالک ہیں اور ایسے مناظر دیکھنا چاہتے ہیں جو آج بھی اپنی خوبصورتی کو قائم رکھے ہو ئے ہیں۔تو ہی اس مشکل سفر پر نکلیں آرام پسند طبیعت کے مالک افراد اس کو شش سے با ز رہیں ۔
۱۵ ما رچ سے سیا حتی سیزن کا آغا ز ہو تا ہے اور ۳۰ اکتو بر پر اختتام ۔ جون ، جو لا ئی اور اگست ان علا قوں میں گھومنے کے لیے بہترین ماہ ہیں ۔اس وادی کو چھوڑ کر واپس آنے کا دل تو نہیں تھا لیکن ہر مسافر کی طرح ہمیں بھی گھر لو ٹنا تھا ۔اپنے مُلک کی ان حسین وادیوں کو ہمیں ضرور دیکھنا چاہیے میرا آپکو یہ ہی مشورہ ہے کہ زندگی میں ایک با ر کم از کم ایک با ر اس وادی کو ضرور دیکھیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سہیل رضا تبسم
ایم اے اُردو،ایم اے ما س کمیو نیکشن۔
لیکچرار بحریہ کا لج کر اچی۔

حصہ

جواب چھوڑ دیں