اقبالؒ علماء وادباء کی نظر میں

(’’بانگِ درا ‘‘سے خوشہ چینی)
’’ ۔۔مشرق کو جیسے عظیم انسان کی ضرورت تھی، اقبال اسی قالب میں ڈھلے ہوئے انسان تھے، جو صرف اسی دور کے لئے نہیں ہر زمانے کی ضرورت تھے کیونکہ ان کی عظمت مادی دنیا یا دنیا سے صرفِ نظر کرتے ہوئے محض آخرت کی عظمت نہیں تھی، وہ دنیا و آخرت کے دو کناروں پر عملی رہنما تھے اور دونوں عالموں کا حسین قوّام ۔۔۔۔‘‘ ۔استاذ عباس محمود العقاد

’’دو اسلامی شاعر جنہوں نے اسلامی آداب کو ان کی چوٹی تک پہنچایا اور زمانے تک اس کی دھاک بٹھائے رکھی، ان میں پہلے شاعرِ ہند و پاک اقبال ہیں اور دوسرے عرب کے شاعر ابو العلاء ‘‘۔ڈاکٹر طہ حسین

میں اقبال کے سوا کسی شاعر سے واقف نہیں ہوں جو زندگی کی پہچان دینے والا، اس کی طرف بلانے والا، انسان کی عظمت اور دنیا میں اس کے مرتبے کے گیت گانے والااور انسان کے دل میں امید، ہمت اور پیش قدمی کی جوت جگانے والا ہو ۔‘‘۔ڈاکٹر عبد الوھاب عزّام

’’عالمِ اسلامی بلکہ تمام عالم کے سامنے ایک ایسے شخص کا ظہور ہوا، جس نے جدید فلسفے کو کچھ اس انداز میں اپنے شعر میں ڈھالا کہ دل اور روح جھوم اٹھے، ایسی آواز جس سے بڑے بڑے علماء متاثر ہوئے اور وہ حیرت سے اس مسلمان کی جانب دیکھنے لگے جو ہند میں پیدا ہوا، وہیں پرورش پائی اور لوگوں کے سامنے ایسے شعری فلسفے کے ساتھ نمودار ہواجو کسی بھی طرح فلسفہء ہند سے مماثلت نہیں رکھتا تھا ۔۔ ‘‘۔ڈاکٹر محمد حسین ہیکل

’’ ۔۔ اگر حسّانؓ شاعرِ رسولؐ ہیں تو اقبال شاعرِ رسالتؐ ہیں، اگر صوفی شعراء نے مجالسِ ذکر کو فضائلِ اسلام اورشمائلِ نبوت سے معطر کیا،تو ان میں سے فقہِ شریعت اور علمِ حقیقت میں کوئی بھی اقبال کے مقام کو نہ چھو سکا اور کتاب اللہ میں تدبر اور کلامِ رسول میں علمی نظر اور قدیم مشرق اور جدید مغرب کے مابین قوتِ تمیز، سلامتِ فہم اور صحتِ حکم میں کوئی بھی اقبال کا ہم پلہ نہیں ہے ۔‘‘۔استاد احمد حسن الزیّات
’’ ۔۔ مجھے ان سے محبت ہے، میں نے انہیں بلند افکار، محبت اور ایمان سے لبریز شاعر پایا ہے، وہ ایسے شاعر ہیں جن کا ایک عقیدہ ہے، ایک دعوت اور ایک پیغام ہے،وہ مغرب کی مادہ پرست تہذیب کا پردہ چاک کرنے والے، اس کے بڑے ناقداور اس سے کدورت رکھنے والے ہیں، وہ اسلامی شان کے داعی اور مسلمانوں کے غلبے کے خواہش مند ہیں، وطنیت اور قومیت کی تنگ نظری کے محارب ہیں، اس کی جگہ انسانیت اور اسلامیت کے جامع معانی اختیار کرنے کی دعوت دیتے ہیں ۔۔‘‘

’’ ۔۔ میرا اعتقاد ہے کہ اللہ تعالی نے اپنے احکام کے بیان اورحقائق سے پردہ کشائی کی خاص زبان اقبال کو عطا کی، اسے اس نے قوتِ نطق دی جس نے ہر زبان کو گویائی عطا کی، جس نے اس کے زمانے اور اس سے پہلے کے تمام شاعروں اور شعلہ بیان مقرروں کو بولنا سکھایا۔۔ ‘‘۔

’’ ۔۔ میں گواہی دیتا ہوں کہ میں نے جب بھی اس کا شعر پڑھا ، میرے دل کی دھڑکن تیز ہو گئی، میرے احساس کے تار جھنجھنا اٹھے اور کسی شے نے ہولے ہولے میرے سارے وجود کوجکڑ لیا، اور مجھے اپنی رگوں میں اسلامی حمیت دوڑتی ہوئی محسوس ہوئی، یہی اس شاعری کی قیمت ہے اور اس کے ادب کا یہی مقام میرے دل میں ہے ۔‘‘۔علامہ ابو الحسن علی الحسنی الندوی

’’۔۔ میں اور اقبال ایک ہی سوچ رکھتے ہیں اور کبھی ہمارے الفاظ بھی ایک سے ہوتے ہیں ۔ ‘‘۔سید قطب شہید

’’۔۔ میری رائے میں کسی شاعر نے مسلمانوں کی ایسی اعلی مثالی تصویر نہیں بنائی جیسی اقبال نے اپنے شعر سے تراشی، وہ مسلمان کو کبھی تو پانی سے بھی زیادہ رقیق بنا دیتے ہیں اور کبھی ایسا لوہا جس سے مصائب کے پہاڑ لرز جاتے ہیں، وہ اسے زمین سے بلند کرتے ہیں اور افلاک پر پہنچا دیتے ہیں اور کبھی شاہ نشین بنا دیتے ہیں ۔ ‘‘۔ڈاکٹر احمد الشرباصی

’’ ۔۔ اقبال شعر کو محض فلسفیانہ قالب میں نہیں ڈھالتے کہ کبھی کسی باغ سے خوشہ چینی کر لیں اور باد نسیم کی سرگوشیاں سن لیں اور افلاک پر ستاروں کی محفلِ جدل میں شریک ہو جائیں یا معبد خانوں کے اوہام و خرافات بیان کریں اور ان غیبی علوم کے پیچھے پڑ جائیں جن کا کوئی انجام نظر نہیں آتا ۔لیکن وہ اپنے شعر کو فکر کے رنگوں، سچے نظریات ، حقیقت الوجود، اورکائنات کے ادراک سے سینچتے ہیں، وہ بادِ نسیم سے سرگوشیاں کرتے اور عقل کو صیقل کرتے ہیں، ان کا قلم حریت کی تاریخ رقم کرتا ہے، وہ مشقت کی تعلیم دیتا ہے، وہ انسانی اور معاشرتی مسائل کو اپنا موضوع بناتے ہیں۔

اقبال کا شعری خیال شرابِ حقیقت میں گندھا اور عقل اور عواطف کا حسین امتزاج ہے ۔ ‘‘۔استاد نجیب الکیلانی
’’اقبال سے پہلے کسی غیر عرب شاعر نے عربی اور اسلامی شان و شوکت کو اتنے اہتمام سے بیان نہیں کیا، انہوں نے ہم عصر اور بعد میں آنے والے شعراء کے لئے اس باب کو کھولا۔انہوں نے عربوں کی شان بیان کی اور امت کی رگوں میں ایک ولولہء تازہ دوڑا دیا، انہوں نے بعض خالص عربی مسائل کو اپنے شعر کا موضوع بنایا، جیسے، مسئلہء فلسطین اور عرب ممالک کی شان میں قصیدے لکھے جن میں صقلیہ، قرطبہ وغیرہ ہیں، انہوں نے عرب فرقہ بندی کا ماتم کیا اور اکثر مجموعوں میں ان پر سرسری انداز سے بڑھ کر خطاب کیا ۔‘‘۔شیخ صاوی شعلان

’’میری حیرت کی انتہا نہ رہی جب مجھے معلوم ہوا کہ اقبال نے پیرس مسجد میں داخل ہونے سے انکار کردیا اور کہا: ’’بلا شبہ یہ مسجددمشق کی بربادی کی ہلکی سی قیمت ہے‘‘۔
اور ایسا کیوں نہ ہوتا کہ یہ شخص حقیقت پسند ہے اور اس کی ہر بات میں دنیا میں آنے کا مقصد اور غلبہ پانے کا شدید احساس ابھرتا ہے۔ ہم میں اور ہماری قوم میں کتنے ہی ایسے غافل اور بے وقوف ہیں جنہیں تاریخ میں جینے اور دین کی تاریخ رقم کرنے کا موقع دیا گیا، اس کلمے کے ساتھ مگر آپ نے انہیں اسی ذلت، کمزوری اور عبودیت کے حال میں دیکھا، جسے اللہ نا پسند فرماتا ہے اور وہ اس فتنے میں پڑ گئے جو اللہ اور اس کے رسول ﷺ کے دشمنوں نے ان کے لئے خوشنما بنا دیا۔‘‘علامہ محمود محمد شاکر

اقبال نے صرف مسلمانوں ہی کے نہیں بلکہ ساری دنیا کے انسانوں کے غموں کو محسوس کیا، وہ سرمایا دارانہ نظام کی مشکلات سے بھی واقف تھے اور ظلم کے مسائل سے بھی، وہ اقتصادی مشکلات سے بھی آگاہ تھے اور سیاسی مشکلات سے بھی اور غلامی اور جبر کی مشکلات کو بھی جانتے تھے، ان کی سب انسانوں کی مشکلات پر نظر تھی، لیکن اقبالؒ نے آگے بڑھ کر ان تمام مشکلات کے حل کی کنجی دریافت کر لی کہ اگر مسلمان اس کو تھام لیں تو ان کی تمام اقتصادی مشکلات بھی دور ہو جائیں اور وہ ذلت، پستی اور غلامی کے جبر سے نکل آئیں اور وہ فرقہ بندی اور آپس کی لڑائیوں سے چھٹکارا پا لیں، مسلمانوں کو باہم جتھوں میں تقسیم دیکھ کر وہ بہت غمزدہ ہوتے، اس لئے وہ ہمیشہ مسلمانوں کو پکار کر کہتے:
اے لوگو، تمہاری پریشانیوں کا حل میرے ہاتھ میں ہے، یہ ہے وہ کنجی ! تم اسے پہچان لو، اور اس کو خود استعمال کرو۔اقبال کی شاعری میں یہ بات متواتر بیان ہوئی ہے، انہوں نے ارد گرد کے سب لوگوں کو پکارا، بلکہ ان کی شاعری آج بھی سب مسلمانوں کو پکار رہی ہے اور ان کے شعر ان کی آنکھوں کے آنسو نہیں بلکہ انکے دل سے ٹپکنے والا لہوہے۔وہ متنبہ کرتے ہیں کہ ان کے ارد گرد انسانوں کی تمام مشکلات کی بنیاد اپنی ذات اور ’’خودی‘‘ کو نہ پہچاننا ہے، اور ذات کی پہچان شرق و غرب کو فتح کرنے سے نہیں،اپنے اندر کی واقفیت سے ہو گی اور یہ ہم اسی وقت جانیں گے جب ہمیں اپنی پہچان ہو جائے گی۔ڈاکٹر محمد سعید رمضان البوطی

ڈاکٹر محمد اقبالؒ شاعرِ اسلام ہیں، ایسا شاعر جو صدیوں بعد پیدا ہوتا ہے، وہ اپنی فکر، خیال، فلسفے اور فن میں اپنی مثال آپ ہیں،انسانی زندگی اور دنیا میں مسلمانوں کے مرتبے کے بیان میں ان کی آراء محکم اور سوچ بہت گہری ہے۔ آپ کا کلام بہت طاقت ور اوراثر انگیز ہے، جو قاری کے دل کے تار ہلا دیتا ہے اور سامع کے اندر انقلاب پیدا کرتا ہے، ان کے افکار کی ایک قیمت ہے، وہ عالمِ اسلامی کے لئے بڑی اہمیت کے حامل ہیں اور امتِ مسلمہ کو جھنجھوڑ دینے والے ہیں۔عالمی فکر، عقلی بلندی اور گہرا درس، جو ان کی مشرق و مغرب میں گزرنے والی زندگی کے تجربات سے کشید کیا گیا ہے، جس میں مختلف معاشروں کے فلسفے، اجتماعی زندگی اور مختلف فکر و نظر کی چھاپ ہے، خواہ ان کا تعلق قدیم سے ہو یا جدید سے۔استاذ محمد الرّابح الحسنی الندوی،صدر جامعہ ندوۃ العلماء۔ ہند
اقبالؒ کو مشرقِ اسلامی کے فلسفی کے طور پر جانا جاتا ہے، جنہوں نے زندگی، کائنات اور انسان کو کتاب اللہ اور سنتِ رسول اللہ کا گہری توجہ سے مطالعہ کر کے سمجھا، تو وہ فاسد نظریات کے خلاف ایک انقلابی شاعر کے روپ میں ابھرے، وہ اسلام اور اس کی تعلیمات کا دفاع اپنی خداداد شعری صلاحیت کے ذریعے کرتے ہیں۔ان کا شعر اللہ کی خاص عنایت ہے، ان کا ادب بڑا قوی ہے اور ان کی پکار اسلامی اتحاد کی ہے۔اسلامی سوچ بہترین الفاظ اور سنہرے معانی سے مزین ہے، وہ کہتے ہیں:
ایک ہوں مسلم حرم کی پاسبانی کے لئے نیل کے ساحل سے لے کر تابخاکِ کاشغر
ان کے شعر کسی جھرنے کی مانند ہیں اور دل میں بھی پھوار کی مانند اثر کرتے ہیں، انہوں نے تمام اسلامی اور انسانی موضوعات میں شاعری ہے اور اسلام اور اس کی تہذیب کو تمام معاشروں کے لئے اور ہر جگہ اور زمانے کے لئے کامیابی کی ضمانت بیان کیا ہے۔ہر زمانے اور نسل کے لئے، ان کا شعر متوسط اسلامی ذہن کے لئے شاعری کا خوبصورت تحفہ ہے، جسے قریب و دور ہر جگہ گنگنایا جاتا ہے اور ہر ملک اور طبقے کے لوگ اس پر سر دھنتے ہیں۔ڈاکٹر سعید الاعظمی الندوی،ایڈیٹر ان چیف مجلہ ’’البعث الاسلامی‘‘
***

حصہ
mm
ڈاکٹر میمونہ حمزہ نے آزاد کشمیر یونیورسٹی سے ایم اے اسلامیات امتیازی پوزیشن میں مکمل کرنے کے بعد انٹر نیشنل اسلامی یونیورسٹی سے عربی زبان و ادب میں بی ایس، ایم فل اور پی ایچ ڈی کی تعلیم حاصل کی۔ زمانہء طالب علمی سے ہی آپ کی ہلکی پھلکی تحریریں اور مضامین شائع ہونے لگیں۔ آپ نے گورنمنٹ ڈگری کالج مظفر آباد میں کچھ عرصہ تدریسی خدمات انجام دیں، کچھ عرصہ اسلامی یونیورسٹی میں اعزازی معلمہ کی حیثیت سے بھی کام کیا، علاوہ ازیں آپ طالب علمی دور ہی سے دعوت وتبلیغ اور تربیت کے نظام میں فعال رکن کی حیثیت سے کردار ادا کر رہی ہیں۔ آپ نے اپنے ادبی سفر کا باقاعدہ آغاز ۲۰۰۵ء سے کیا، ابتدا میں عرب دنیا کے بہترین شہ پاروں کو اردو زبان کے قالب میں ڈھالا، ان میں افسانوں کا مجموعہ ’’سونے کا آدمی‘‘، عصرِ نبوی کے تاریخی ناول ’’نور اللہ‘‘ ، اخوان المسلمون پر مظالم کی ہولناک داستان ’’راہِ وفا کے مسافر‘‘ ، شامی جیلوں سے طالبہ ہبہ الدباغ کی نو سالہ قید کی خودنوشت ’’صرف پانچ منٹ‘‘ اورمصری اسلامی ادیب ڈاکٹر نجیب الکیلانی کی خود نوشت ’’لمحات من حیاتی‘‘ اور اسلامی موضوعات پر متعدد مقالہ جات شامل ہیں۔ ترجمہ نگاری کے علاوہ آپ نے اردو ادب میں اپنی فنی اور تخلیقی صلاحیتوں کا بھی مظاہرہ کیا،آپ کے افسانے، انشائیے، سفرنامے اورمقالہ جات خواتین میگزین، جہادِ کشمیر اور بتول میں شائع ہوئے، آپ کے سفر ناموں کا مجموعہ زیرِ طبع ہے جو قازقستان، متحدہ عرب امارات اور سعودی عرب میں آپ کے سفری مشاہدات پر مبنی ہے۔جسارت بلاگ کی مستقل لکھاری ہیں اور بچوں کے مجلہ ’’ساتھی ‘‘ میں عربی کہانیوں کے تراجم بھی لکھ رہی ہیں۔

جواب چھوڑ دیں