انیس اکتوبر، جمعہ، یوم دعا ۔۔ ڈاکٹر عافیہ صدیقی‎

میں یونہی بےمقصد اپنی آئی ڈی کھولے بیٹھی تھی, جب عافیہ موومنٹ کا آفیشل پیج میری نظروں کے سامنے سے گزرا جہاں یوم دعا کی پرزور اپیل کی جارہی تھی ، جہاں قوم کی بیٹی ڈاکٹر عافیہ صدیقی کی رہائی کے لیے ان کی بہن ڈاکٹر فوزیہ صدیقی حکمرانوں سے مایوس ہوکر مسلمانوں سے “دعا” کی اپیل کررہی تھیں۔۔
“دنیا بھر میں 19 اکتوبر بروز جمعہ یوم دعا منایا جائے گا ” ۔۔۔

اچانک میرا ذہن ماضی کے دریچوں کی سمت بڑھنے لگا ۔۔۔ یہاں تک کہ سر پر ہیٹ پہنے مسکراتے چہرے اور ذہانت سے پُر آنکھوں پر ٹھہر گیا  ۔۔ وہ زندگی سے بھرپور مسکراہٹ اور کچھ کردکھانے کا عزم لیے وہ کوئی اور نہیں تھی وہ امریکہ سے تعلیم حاصل کرنے والی پاکستانی شہری ڈاکٹر عافیہ صدیقی تھیں۔ دل ابھی جی بھر کے خوش بھی نہ ہوسکا تھا کہ نہ چاہتے ہوئے بھی ذہن لاشعوری طور پر سات سمندر پار تیرنے لگا ، جیسے کچھ دکھانا چاہتا ہو کچھ انہونی ، کچھ خوفناک یادیں ۔۔۔ ڈوبنے تیرنے کا یہ سلسلہ ختم ہوا اورایک اندھیری کال کوٹھری نے ماحول کو خوفناک بنادیا اس خوفناک جگہ سے دردناک چیخیں سنائی دینے لگیں۔۔۔ ایسی چیخیں جو بےبسی کی داستان رقم کررہی تھیں جو حکمرانوں کی بےحسی کا منہ بولتا ثبوت تھیں، جو کتنے ہی وقت کے فرعونوں کے لیے آزمائشوں کے دروازے کھول رہی تھی ، کون جانے کہ یہ آزمائشں کب عذاب کی صورت انہیں آجکڑے ۔۔۔ ذہن تھوڑا مزید سلاخوں کے قریب چلا گیا ۔۔ نہیں ۔۔۔ یہ وہ ڈاکٹر عافیہ نہیں جو روشن خیال ، اعتدال پسند تھیں جس کے ثبوت کے طور پر امریکہ نے ہی انہیں نیوروسائنس دان کا خطاب اور ڈاکٹریٹ کی ڈگری عنایت کی تھی ۔۔ یہ تو ڈری ، سہمی ، مسلمانوں کی بےحسی کی جیتی جاگتی ایک مظلوم عافیہ تھی ۔۔۔ جو ناحق 86 سال کی قید کاٹنے پر مجبور تھیں ۔۔۔۔ ذہن نے پرواز کے لیے اڑان بھری اور ۔۔۔۔ یہ ایک گھر تھا جہاں ایک مغموم ماں بیٹھی تھی ، گردن بائیں کندھے پر ڈھلکی نظریں اپنی بیٹی کی تصویر پر آنکھیں اشکبار ۔۔۔ اندھیرا پھیلتا گیا ہر سو چاند کی روشنی بکھرتی گئی یہاں تک کہ سورج طلوع ہوا یہ پیغام دیتا کہ ظلمت کی تاریکی بھی ایک دن چھٹ جائے گی ۔۔ نظریں سورج کی تیز روشنی میں چندھیانے لگیں منظر دھندلاتا گیا شور سے کان پڑی آوازیں سنائی نہ دے رہی تھی جب نظریں ایک باہمت خاتون پر ٹہر گئیں ۔یہ ڈاکٹر فوزیہ صدیقی تھیں ۔۔ عافیہ صدیقی کی بہن جو زور و شور سے اپنی بہن کی رہائی کے لیے کوشاں تھیں ۔۔ اور اب وہ مسلمانوں سے اپیل کررہی تھیں کہ ان کی بہن کی رہائی کے لیے اجتماعی دعا کریں ۔۔ ۔ !!
اب نہ جانے کیوں دل اس بات کی گواہی دے رہا ہے کہ عافیہ کی واپسی کا وقت آن پہنچا ہے ( ان شاءاللہ) کیونکہ دعا ہی ایک ایسی طاقت ہے جو تقدیر تک کو بدل دیتی ہے ، جو سمندر کی تاریکی ، رات کی تنہائی، مچھلی کے پیٹ تک سے رہائی دلا سکتی ہے ۔ جو ہر دکھ تکلیف کو راحت میں بدل دیتی ہے ۔۔ کتنا روح پرور منظر ہوگا وہ جب تمام امت مسلمہ متحد ہوکر یکجاں ہوکر اپنے ہاتھوں کو بارگاہ الٰہی کے سامنے پھیلائے گی۔۔ جمعہ کا مبارک دن ہوگا ، قبولیت کی گھڑی ہوگی ،  میرا رب عرش پر موجود ہوگا ، فرشتوں کی صفیں بندھی ہوں گی  اور زمین پر اشرف المخلوقات کے اٹھے ہاتھ ہوں گے اور لبوں پر عافیہ کی رہائی کی درخواست ہوگی ۔۔۔”الٰہی عافیہ کو رہائی دلوادے ” !!  میرے رب سے بڑا بھی کوئی بادشاہ ہوگا بھلا ؟؟؟اور میرے پروردگار کا کہنا ہے کہ وہ کسی کو خالی ہاتھ نہیں لوٹاتا ، یہاں تو سبھی کے لبوں پر ایک ہی جملہ ہوگا ۔۔

” لاالہ الا انت سبحانک انی کنت من الظالمین۔
اے اللہ کوئی معبود برحق نہیں سوائے تیرے ،تو پاک ہے بے شک میں ہی ظالموں میں سے ہوں
یا اللہ ، یا الٰہ العالمین، ہماری پیاری بہن عافیہ کو مکمل عافیت کے ساتھ اپنے گھر واپس لے آ… حکمرانوں کو ہمت و ہدایت عطا فرما… قوم کو پھر غیرت مسلم عطا فرما… یا الٰہی، ظالموں کے چنگل سے ہماری بہن کو نکال دے…ہم تو کمزور اور بے بس ہیں… آپ سے معافی مانگتے ہیں… آپ سے کرم مانگتے ہیں… اپنی بہن کی باعزت رہائی مانگتے ہیں… بے شک آپ ہر چیز پر قادر ہیں۔  “

ہم کہتے ہیں ناں کہ کیا پتا اللہ کس کی دعا سن لے ۔۔ ؟؟ میں کہتی ہوں میرا رب سب کی سنتا ہے ۔۔ ہمارے پاس بس ایک دن ہے جمعرات کا دن اس دن خوب خوب نیکیاں کریں ۔۔ خالص اللہ کی رضا کے لیے اور پھر اس نیکی کے عوض عافیہ کی رہائی مانگیں ۔۔ میرا رب کبھی مایوس نہیں لوٹائے گا ۔۔ میرا رب کبھی کسی کا احسان اپنے اوپر نہیں رکھتا ۔۔ ابھی سے کمر کس لیں اور جمعہ کی تیاری کریں کہ جب اللہ کے سامنے ہاتھ اٹھانے کا وقت آجائے تو کوئی بھی ندامت ، پچھتاوا یا تہی داماں کا احساس نہ ہو ۔۔ ایک یقین ہو ۔۔ پختہ یقین اور بےشک یقین سے مانگی جانے والی ہردعا قبول ہوتی ہے ۔!!

حصہ

جواب چھوڑ دیں