پس آئینہ 99 ہی ہے

آج مجھے اپنا ہی ایک شعر یاد آرہا ہے

یہ دور جیسے یارو دور مطالبہ ہے

ہر شخص احتجاجی بینر بنا ہوا ہے

سنا ہے کہ ایک جج کو اس کے عہدے سے سے فارغ کر دیا گیا ہے۔ جرم کیا جائے تو سزا تو لازمی ہے۔ جرم ایک عام سا انسان کرے تو درگزر کی گنجائش نکل ہی آتی ہے لیکن کوئی اہم عہدے پر فائز کسی جرم کا مرتکب ہو تو گنجائش کیسے نکالی جا سکتی ہے۔ لہٰذا فیصلہ تو مخالفت میں آنا ہی آنا تھا۔ جس کو سزا سنائی گئی اسے تو آٹھ دس ماہ پہلے ہی علم تھا کہ ایسا ہی ہونا ہے بلکہ زندگی کا بھی کوئی بھروسہ نہیں۔ جب یہ بھی معلوم ہو کہ سزا لازماً ملے گی اور ممکن ہے کہ جرم کی قیمت جان سے بھی بڑھ کر چکانی پڑے تو پھر ایسے شخص کو صحیح الدماغ کہتے ہوئے ہچکچاہٹ تو لازماً ہوگی۔ ہمیں تو ہچکچا ہٹ بھی ہوئی اور تردد بھی لیکن جس کو معلوم تھا کہ ایسا ہونا ہی ہے وہ نہ تو ہچکچایا اور نہ ہی جھجکا اور سب کچھ جانتے ہوئے بھی پیچھے پلٹنا گوارہ نہیں کیا۔

مذکورہ شعر آج کا نہیں، یحیٰ کے دور کا ہے جب اس کے دور میں الیکشن کا اہتمام کیا جا رہا تھا۔ ایوب خان کے آخری دور سے ہی ملک احتجاجات کی لپیٹ میں آیا ہوا تھا اور ہر بھرپور احتجاج کے بعد حکومتی رد عمل کرفیو کی صورت میں سامنے آیا کرتا تھا۔ ادھر کسی بھی زیادتی کے خلاف عوام کا سڑکوں پر باہر نکل کر احتجاج کرنا اور ادھر کرفیو کا نفاذ۔ یہ شعر اس زمانے میں تو بہت پسند کیا گیا لیکن اس کے بعد سے اب تک میں نے یہی دیکھا ہے کہ لوگ ہر دور میں احتجاجی بینر ہی بنے نظر آئے۔ اگر کبھی بینرز ہٹے بھی تو ان کا وقفہ بہت ہی کم عرصے دیکھنے کو ملا۔

آج بھی ملک کا کوئی نہ کوئی شہر کسی نہ کسی احتجاج کی لپیٹ میں نظر آتا ہے۔ پہلے ہوتا یہ تھا کہ یا تو افراد کسی پارٹی قیادت کے بغیر ہی سر تا پا احتجاج بن جایا کرتے تھے یا پھر سیاسی اور مذہبی پارٹیاں کسی بھی مسئلے کو مسئلہ بنا کر سڑکوں پر آجایا کرتی تھیں۔ جواب میں حکومت کے رد عمل کے طور پر سیاسی و مذہبی رہنما اور متعلقہ پارٹیوں کے کارکنان زیر عتاب آتے، گرفتار کئے جاتے، ڈنڈے کھاتے، جیل جاتے اور اپنی کئے کی سزا کو پہنچتے۔ ایوبی دور سے لیکر پرویز مشرف کے دور تک یہی دیکھا گیا کہ جو بھی سختیاں ٹوٹیں وہ سب کی سب سیاسی و مذہبی رہنماؤں اور ان کے کارکنان پر ہی ٹوٹیں۔ تاریخ میں مشرف کے دور میں پہلی بار کسی حکومت کا ہدف عدالتوں کے ججز بنے۔ ان کے خلاف حکومت وقت (مشرف) نے ریفرنس دائر کیا، ان کو کام کرنے سے روکا اور نہ صرف روکا بلکہ برطرف کرنے کے بعد مجبور کیا گیا کہ وہ “پی سی او” کے تحت حلف اٹھائیں۔ چنانچہ جو جھک گئے وہ رہ گئے جو نہ جھک سکے وہ گئے۔

یہ وہ دور تھا جب ملک کی معروف سیاسی پارٹیوں کا راستہ بہت ہی مسدود کردیا گیا تھا اور ان کے جمہوری حقوق سلب کر دیئے گئے تھے۔ جو بول اٹھتا تھا وہ اٹھ جاتا تھا اور جو خاموش تھا وہ سخت نگرانی میں ہوا کرتا تھا۔ کئی مرتبہ سیاسی جماعتوں کی جانب سے اس بات کی کوشش کی گئی کہ وہ جمہوری حقوق کیلئے عوام کو باہر نکلنے پر مجبور کریں لیکن ان کی ساری کوششیں سعی لاحاصل ہی رہیں۔ ججوں کے خلاف اٹھائے جانے والے حکومت کے قدم نے پاکستان بھر کے وکلا میں غم و غصے کی ایک لہر دوڑا دی۔ حکومت “آمرانہ جمہوریت” کی مثل ہی تھی اور حکمرانی بھی پس پردہ سالار ہی کررہا تھا لیکن غم و غصے کا ایک طوفان تھا جس کے آگے بند باندھنا کوئی آسان کام نہ تھا۔ جلتی پر تیل کا کام یہ ہوا کہ اس احتجاج میں سیاسی و مذہبی پارٹیاں بھی شامل ہو گئیں اور ملک انتہائی مخدوش حالت میں چلا گیا اور ایک سخت گیر حکومت کو بالآخر گھٹنے ٹیکنے پڑ گئے۔ میں نے اس کو شعری زبان میں کچھ یوں کہا تھا کہ

مظلوموں کے آگے بھی جھکنا پڑجاتا ہے

مغروروں کے دانت بھی اکثر گھٹے ہوتے ہیں

حالات بتا رہے ہیں کہ ہم اسی 99 والے دور میں ہی ہیں۔ اس وقت بھی سرآئینہ کوئی اور ہوا کرتا تھا اور پس آئینہ کوئی اور۔ آج بھی سرآئینہ کوئی اور ہے اور پس آئینہ کوئی اور۔ وہی سارے چہرے جو اس دور میں تھے وہی ساری صورتیں اب بھی ہیں۔ پہلے بھی جن لوگوں کے ہاتھ میں “بے اختیاریاں” تھیں آج بھی وہی لوگ بڑی بڑی “بے اختیار وزارتوں” اور عہدوں پر براجمان ہیں۔ ایک فرق ضرور ہے اور وہ یہ ہے کہ گزشتہ دور میں سرآئینہ والا بھی دکھائی دیا کرتا تھا اور پس آئینہ کون تھا وہ بھی سب کو معلوم ہوا کرتا تھا لیکن آج سر آئینہ تو بہت صاف صاف نظر آرہا ہے لیکن پس آئینہ کون ہے اس کو صرف محسوس ہی کیا جاسکتا ہے اس لئے کہ اس نے وہ ٹوپی پہنی ہوئی ہے جس کو عرف عام میں “سلیمانی” کہا جاتا ہے۔

حالات کی شکل و صورت بھی ویسی ہی ہے۔ بے کیفیت ہے، بے چینی ہے، بے یقینی ہے، ابتری ہے، بحران ہے اور ہر فرد احتجاجی بینر بنا نظر آتا ہے۔ اس کیفیت میں ایک اور قدر مشترک بھی ہے۔ اب اس کو محض اتفاق کہیں یا حسن اتفاق، عدالت کے خلاف بھی ایسا ہی طرز عمل دیکھنے میں آرہا ہے جو 99 کی باغیانہ طرز انقلاب کے دور میں دکھائی دیا تھا۔

خبر ہے کہ سپریم جوڈیشل کونسل کے شوکت عزیز صدیق کو جج کے عہدے سے ہٹائے جانے کے فیصلے پر جہاں ملک کے مختلف حصوں میں وکلاء برادری احتجاج کر رہی ہے وہیں اسلام آباد ہائی کورٹ جج کی حیثیت سے ان کے رویے کے بارے میں اعتراضات بھی سامنے آ رہے ہیں۔

یہ خبر بھی ہے کہ کراچی بار ایسوسی ایشن نے شوکت عزیز صدیقی کو اسلام آباد ہائی کورٹ کے جج کے عہدے سے برطرفی کے خلاف منگل کو عدالتی کارروائی کا بائیکاٹ کرنے کا اعلان کیا ہے۔ اسی طرح کئی دیگر شہروں کی بار ایسوسی ایشنز نے بھی اس پر احتجاج کیا ہے۔ شوکت عزیز صدیقی جو اپنے طالب علمی اور اس کے بعد وکالت کے زمانے میں جماعت اسلامی کے سرگرم کارکن رہے وہ ہائی کورٹ کے جج کی حیثیت سے اپنے ریمارکس اور بیانات کی وجہ سے اکثر خبروں میں نظر آتے رہے۔ انہیں گزشتہ ہفتے چیف جسٹس میاں ثاقب نثار کی سربراہی میں سپریم جوڈیشل کونسل کے پانچ ارکان نے متفقہ طور پر جج کے عہدے سے ہٹانے کی رائے دی تھی، جس کے بعد صدر ڈاکٹر عارف علوی نے اس فیصلے کی توثیق کی تھی۔ سپریم جوڈیشل کونسل کی سفارشات کے مطابق ‘جسٹس شوکت عزیز صدیقی نے 21 جولائی سنہ2018 کو راولپنڈی ڈسٹرکٹ بار ایسوسی ایشن میں خطاب کے دوران ملکی ادارروں کے خلاف جو تقریر کی ہے اس کی وجہ سے وہ ججز کے لیے بنائے گئے ضابطہ اخلاق کی خلاف ورزی کے مرتکب ہوئے ہیں۔ دوسری جانب، خاص طور پر سوشل میڈیا پر ان کے ماضی کے بعض بیانات کو تنقید کا سامنا رہا اوراب یہ کہا جا رہا ہے کہ انہیں خفیہ ادارے سے متعلق دیئے گئے بیانات کی بنیاد پرگھر بھیجا گیا۔ مزید یہ کہ انہوں نے کئی ایسے بیانات دیئے جو ایک جج کی جانب سے ملک میں انتشار پھیلانے کا سبب بن سکتے تھے۔

راقم نہ تو قانون کا طالب علم ہے اور نہ ہی قانونی موشگافیوں میں پڑنا چاہتا ہے۔ راقم کا یہ خیال بھی ہے کہ ایک جوڈیشل کونسل جو کہ قانونی ماہرین پر مشتمل تھی، اگر اس کی تحقیق کسی کو مجرم ثابت کرتی ہے تو پھر وہ فیصلہ کسی طور بھی غلط ہو ہی نہیں سکتا اس لئے ایسے مجرم کیلئے جو سزا بھی تجویز کی گئی ہوگی وہ عین قانون کے مطابق ہی ہوگی۔ یہاں میں صرف ایک جانب اشارہ ضرور کرونگا کہ ان کے خلاف تنقید کرنے والوں کا یہ بھی کہنا ہے کہ “توہینِ رسالت اور ختمِ نبوت” سے متعلق مقدمات کے دوران جسٹس شوکت عزیز صدیقی کے بعض ریمارکس ایسے تھے جن سے معاشرے میں انتشار کی کیفیت پیدا ہو سکتی تھی۔

ان کا یہی جرم نہیں تھا کہ انھوں نے ایک انتہائی حساس ادارے کو ہدف تنقید بنایا تھا بلکہ ایک ٹویٹر صارف “یاسر لطیف ہمدانی” نے لکھا کہ اقلیتوں کے حقوق کے معاملے پر سابق جج شوکت عزیز صدیقی کا کردار ہرگز ججوں کے شایانِ شان نہیں تھا۔ ان کا اشارہ اس کیس کی طرف تھا جس میں سابق جج شوکت عزیز صدیقی نے یہ فیصلہ سنایا کہ حساس ادارے اور سول سروس میں ملازمت کے لیے مذہب ظاہر کرنا لازمی ہے۔ یہ کیس ملک کی اقلیتی برادری احمدیہ سے متعلق تھا اور مقدمے کی سماعت کے دوران جج کی جانب سے سخت ریمارکس بھی سامنے آتےرہے جن پر انسانی حقوق کے کارکنوں نے تشویش کا اظہار کیا۔

99 کے پس منظر میں عدالت کے ایک معزز جج کو برطرف کیا گیا، ممکن ہے یہ مماثلت محض اتفاقی ہی ہو لیکن اس حقیقت سے مفر بھی ممکن نہیں کہ تاریخ اپنے آپ کو دہراتی ضرور ہے۔

راقم کے نزدیک جسٹس شوکت عزیز صدیقی جج ہوتے ہوئے بھی بہت نادان ہی نکلے، کیا ان کو معلوم نہیں کہ پاکستان کے آئین میں وہ باتیں اور شقیں بھی درج ہیں جن کو قانون کی کتاب پڑھنے والا ہر قانون کا طالب علم نہیں پڑھ سکتا لیکن وہ قانون ہی ہے۔ مثلاً 56 کے آئین کے ہوتے ہوئے بھی 58 کا مارشل لا۔ 73 کے آئین کا موجود ہوتے ہوئے بھی ضیا الحق کا مارشل لا، پھر پرویز مشرف کا مارشل لا۔ اگر یہ سب آئین پاکستان میں درج نہیں تھا اور اس کو پڑھا یا دیکھا نہیں جاسکتا تھا تو ان اوقات میں موجود عدلتیں یقیناً اس قسم کے غیر قانونی اقدامات کے خلاف رد عمل کا اظہار کرتیں اور آئین و قانون کے خلاف ورزی کرنے والوں کے خلاف مقدمات قائم کرتیں۔ ثابت ہوا کہ ایسے سارے اقدامات اٹھائے جانے کا آئین پاکستان اور قانون پاکستان اجازت پہلے بھی دیتا تھا اور آج بھی اجازت دیتا ہے لیکن اس قسم کی شقیں مخصوص آنکھیں ہی دیکھ سکتی ہیں۔

اب جسٹس شوکت عزیز اپنے کرسی انصاف سے فارغ ہو چکے ہیں تو میں امید کرتا ہوں کہ وہ اپنے گزرے ہوئے ماضی کو ٹھنڈے دل سے ٹٹولیں گے اور اپنی ذاتی لائیبریری میں موجود قانون کی ساری کتابوں کا دوبارہ مطالعہ کریں گے۔ مجھے یقین ہے کہ وہ کتابوں میں دکھائی نہ دینے والی ان ساری شقوں کو ڈھونڈ نکالنے میں ضرور کامیاب ہو جائیں گے جو بظاہر ان میں درج ہی نہیں۔ باقی اللہ ہر فرد کی مشکل کو آسان کرنے والا ہے۔

حصہ
mm
حبیب الرحمن ایک کہنہ مشق قلم کار ہیں وہ بتول، اردو ڈائجسٹ، سرگزشت، سنڈے میگزین(جسارت)، جسارت اخبار میں "صریر خامہ" ٹائیٹل اور کچھ عرحہ پہلے تک "اخبار نو" میں "عکس نو" کے زیر عنوان کالم لکھتے رہے ہیں۔انہوں نے جامعہ کراچی سے سیاسیات میں ماسٹرز کیا ہے۔معالعہ اور شاعری کا شوق رکھتے ہیں۔

جواب چھوڑ دیں