” یہ دورِ ترقی کیسا ہے ؟؟”

سورج کی پہلی کرن جب آسمان پر پڑتی ہے تو چرند پرند آغاز ِصبح کی نغمہ گوئی شروع کردیتے ہیں ۔۔ہر شے نکھری نکھری اور ترو تازہ نظر آتی ہے اور یوں لگتا ہے جیسے ہر ذی روح رب کائنات کی حمد میں مصروف ہے۔۔۔۔دن کا اجالا ہوتے ہی گھروں میں ٹی وی کا ریموٹ ہاتھ میں لیا جاتا ہے اور صبح کی نشریات “مارننگ شوز” وغیرہ دیکھے جاتے ہیں۔۔۔ایک طرف ٹی وی کی آواز پورے گھر میں گونج رہی ہوتی ہے تو دوسری طرف پراٹھوں کی خوشبو ماحول میں مہک رہی ہوتی ہے مگر افسوس کی بات ہے کہ  اب ہمارے یہاں روزصبح جو مارننگ شوز نشر کیے جارہے ہیں ان کا معیار پہلے جیسا نہیں رہا ہے ان پروگرامز میں نازک مسائل پر  بحث کی جاتی ہے ۔۔گھریلو جھگڑوں کو ابھارا جاتا ہے۔۔۔کوئی گانے بجانے کے مقابلے کروارہا ہوتا ہے تو کوئی اداکاروں کی ذاتی زندگی پر تبصرہ دکھا رہا ہوتا ہے اور اس ترقی پر ماشااللہ اور الحمداللہ کے الفاظ کا استعمال کیے جارہے ہوتے ہے۔۔گویا گناہ کو گناہ سمجھنے کی تمیز بھی ختم کردی۔۔۔کسی چینل پر شادی کی رسومات ہیں تم کوئی مہنگے ملبوسات اور میک اپ کے کمال دیکھانے میں مصروف  ہے اور اس دوران نا صرف عوام کو اسراف اور ہوس جیسی بیماریوں میں مبتلا کیا جارہا ہوتا ہے بلکہ ذو معنی باتوں اور فحش گفتگو پر کھلکھلا کر ہنسا جارہا ہوتا ہے۔

                         نجانے ہمارے پروگرامز کس کی عکاسی کرنے کے لیے اسلا می اقدار کا پلّو چھوڑ دیتے ہیں۔۔۔ہر ملک میں اس کی اپنی ثقافت،کلچر اور مذہب کے مطابق میڈیا پر نشریات پیش کی جاتی ہیں۔۔۔مگر ہم اس اصول سے بہرامند ہیں اور اس ماحول میں رہتا ہر ذی شعور يہ سوچنے پر مجبور ہے کہ

                       یہ دورِ ترقی کیسا ہے،آثار بہاراں کیسا ہیں؟

                    ہم نے انٹرٹینمنٹ اور تفریحات کو فحاشی سے جوڑدیا ہے جبکہ عوام کے لیےتفریح فراہم کرنی ہے تو وہ اسلامی قاعدوں میں رہ کر بھی مہیا کی جا سکتی ہے مثلاً مقابلہ کروانا ہے تو تقریر کا۔۔بیت بازی کا،تلاوت ونعت کا،ترانوں اور نظموں کے مقابلے کراۓ‎ جائیں،۔۔۔۔کھیل کھیلنا ہے تو کوئز یا  ذہنی آزمائش پر منحصرمثلاً پہلیاں بوجھوائیں جائیں۔۔۔اداکاروں کو آئیڈیل بنانے کے بجاۓ عظیم ہستیوں،قوم کے رہنماؤں،خدمت گاروں کو دعوت دے کران سے گفتگو کی جاۓ۔۔۔قصے کہانیوں کے پروگرام رکھے جائیں۔۔۔منظر کشی یا فی البدیہہ جیسے ہنر کو سامنے لایا جاۓ۔

              غرض طریقے بہت ہیں بس ضرورت اس امر کی ہے کہ اس نقطہ نظر پر سوچا جاۓ کہ میڈیا کا کام عوام کو وہ تفریح و مشاغل فراہم کرنا ہے جو معاشرے کو منفی سوچ کے بجاۓ مثبت سوچ کی طرف راغب کرے۔

حصہ

جواب چھوڑ دیں