حالیہ اجلاس اقوام متحدہ اور عالم اسلام 

اقوام متحدہ کا 73 واں اجلاس ماہ ستمبر میں انعقاد پزیر ہوا ، صدرجنرل اسمبلی ماریہ فرنینڈاجو کہ اسی سال جولائی میں منتخب ہوئیں، انہوں نے اس سال اجلاس کے ایجنڈے کے لئے جس موضوع کا انتخاب کیا بلا شبہ وہ وقت کی اہم ضرورت خیال کا جاتا جاہے یعنی معاشرتی امن،غیر جانبداری اور قابل تائید معاشروں میں عالمی راہنماؤں کا کردار۔یقیناً آج کے دور میں لوگوں میں ایک دوسرے کو برداشت کرنے کا جذبہ کم سے کم بلکہ ناپید ہی ہوتا جا رہا ہے۔ابتدائی اجلاس میں صدر جنرل اسمبلی ماریہ فرنینڈا نے سات ترجیحاتی موضوعات کو تمام سربراہان کے سامنے رکھا جو اس طرح سے تھے۔
صنفی مساوات کی تائید و فروغ ،
مہاجرین کی آباد کاری کے مسئلہ کا حل،
جدید اختراعی کام کی مستقبل میں اہمیت،
ماحولیات کا تحفظ خاص کر پلاسٹک آلودگی کے بارے میں دنیا کو آگاہ کرنا،
خصوصی افراد کے بارے میں آگاہی،
امن کا قیام اور اقوام متحدہ کی اصلاحات کا اطلاق و نفاذ۔
اگر ہم مذکور تمام نکات کی تاریخ اور موجودہ صورت حال کا اندازہ لگائیں اور اس کے اطلاق کی بات کریں تو کہیں نہ کہیں اس کے تانے بانے مسلم بلاک یا امت مسلمہ سے جوڑ دیے جاتے ہیں۔مثلاً صنفی مساوات کی اگر بات کی جائے تشدد نسواں،تعلیم نسواں،حقوق نسواں یا خواتین کی تعلیم کا تذکرہ ہو تو صرف مسلمان ممالک کی بات ہو گی،مہاجرین کی آباد کاری کا مسئلہ ہو تو بھی مسلم ممالک ہی زیر عتا ب آئیں گے،جدید تکنیک کے استعمال کو مسلمانوں کے لئے شجر ممنوعہ خیال کر لیا جا تا ہے،اس سلسلہ میں مسلمان دقیا نوسی خیالات کے حامل سمجھ لئے جاتے ہیں حالانکہ مسلمان سائنسدانوں کے سائنس پر احسانات کی ایک لمبی فہرست کی تاریخ مقروض ہے،امن کے قیام کی بات کو بھی تقریباً مسلمان ممالک کے ساتھ ہی منسوب کر دیا جاتا ہے کہ مسلمان تو ایک دوسرے کے خون کے پیاسے دکھائی دیتے ہیں،ظاہراً ایسا نظر بھی آتا ہے۔اگر ہم دنیا میں موجود پچاس سے زائد اسلامی ممالک کی موجودہ سیاسی ،معاشی،معاشرتی،سرحدی تنازعات کی صورت حال کا جائزہ لیں تو بات کسی حد تک سچ بھی دکھائی دیتی ہے۔سعودی عرب اور قطر کی صورت حال،یمن اور سعودی عرب،شام،فلسطین،کشمیر اور روہنگیا مسلمانوں کے حالات کسی سے ڈھکے چھپے نہیں ہیں۔
اسلامی ممالک کے سیاسی،معا شی اور ثقافتی تناظر کو مد نظر رکھتے ہوئے تقریباً تمام سربراہان ملت اسلامیہ نے اپنے اپنے علاقوں کی سیاسی اورسرحدی مسائل پر دل کھول کر تقاریر فرمائیں اور عالمی طاقتوں کی توجہ ان مسائل پر مبذول کروانے کی بھر پور سعی بھی کی۔پاکستانی وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے مسئلہ کشمیر کو اجاگر کرنے کے ساتھ ساتھ دونوں ممالک میں امن اور انتشار کے اسباب اور ان کے حل کو مل بیٹھ کر حل کرنے پر زور دینے کے ساتھ ساتھ اس بات کی طرف بھی اشارہ کیا کہ ہم برابری کی سطح پر ہر وقت ڈائیلاگ کرنے کو تیار ہیں۔ہم اپنی خود مختاری پر کسی قسم کی سودے بازی نہیں کریں گے۔انہوں نے مشرق وسطیٰ کے حالات پر روشنی ڈالتے ہوئے اقوام عالم کی توجہ اس طرف مبذول کروائی کہ مسئلہ فلسطین آج بھی اپنی جگہ موجود ہے اس کا حل ہمیں مل بیٹھ کر تلاش کرنے کی ضرورت ہے۔ناموس رسالتﷺ پر متعصبانہ یورپی خیالات کی مذمت اور مسلمانوں کے جذبات کو ٹھیس پہنچانے کو انہوں نے اسلام دشمنی قرار دیا۔مسئلہ کشمیر کا حل انہوں نے حق رائے دہی کو قرار دیتے ہوئے کہا کہ مسئلہ کشمیر ستر سال سے اقوام متحدہ کے ایجنڈے میں شامل ہے اب وقت آ گیا ہے کہ اس کا حل کشمیری عوام کو حق رائے دہی کے استعمال کے ساتھ دے دیا جائے۔مہاتیر محمد نے اپنے خیالات کا اظہار فرماتے ہوئے کہا کہ عالمی امن کے لئے ملائشیا کا ہر فرد اقوام متحدہ کے ساتھ کھڑا ہے۔انہوں نے نئے ملائشیا کی خصوصیات بیان کرتے ہوئے کہا کہ میرا ملک غیر جانبداری کی پالیسی اپنائے گا،مسئلہ فلسطین پر اظہار خیال فرماتے ہوئے انہوں نے اپنے جذبات کا اظہار ان الفاظ میں کیا کہ 1948 کے بعد یہودی آباد کاری نے فلسطین کے لوگوں کو ان کے گھروں میں قید کر دیا ،ہزاروں فلسطینیوں کو پکڑ لیا گیا اور انہیں گولیوں کا نشانہ بنایا گیا،یہ کھلم کھلا بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزی ہے،آبادی کو نشانہ بنانا،اسکول،بستیاں اور نہتے بچوں پر بارود کی بوچھاڑ کرنا،یہ سب اسرائیلی جارحیت ہے۔یہ وہ رویہ ہے جس نے مسلمانوں کے اندر اضطراب برپا کر رکھا ہے،بلاشبہ یہ ایک دہشت گردی ہے جس نے فلسطینیوں کو خوف زدہ کر رکھا ہے،ملائشیا دہشت گردی کے خلاف ہے اس لئے وہ چاہتا ہے کہ فلسطینی اپنے ملک میں اپنی مرضی کے مطابق زندگی گزاریں۔شیخ تمیم امیر قطر نے اپنے خطاب میں فرمایا کہ اس وقت دنیا سیاسی ،معاشی اور جنگی چیلنجز کا سامنا کر رہی ہے،عالمی برادری کو اقوام متحدہ کی قرار دادوں کے مطابق ان مسائل کا حل تلاش کرنے کی ضرورت ہے۔ہمیں قانون کی بالا دستی کا احترام کرنا ہوگا۔اگر قطر کی بات کی جائے تو میرے ہمسائے مسلسل بین الاقوامی قانون کی خلاف ورزی کر رہے ہیں جو کہ ترقی کی راہ میں رکاو ٹ کا باعث ہیں،انہوں نے مسئلہ فلسطین کے بارے میں کہا کہ عرب دنیا فلسطین کے ساتھ کھڑی ہے۔سکیورٹی ان کا حق ہے۔دیگر اسلامی ممالک کے سربراہان نے بھی ایسے ہی خیالات کا اظہار فرمایا اور اپنے اپنے ممالک کی حالیہ صورت حال اقوام عالم کے سامنے پیش کی۔ایرانی صدر حسن روحانی کے خیالات سب سے مختلف اس لئے تھے کہ انہوں نے اقوام متحدہ کے بارے میں کہا کہ یہ ایک آزاد اور خود مختار ادارہ ہے امریکہ کے زیر تسلط نہیں جو لوگ علاقے میں تسلط چاہتے ہیں وہ امن کے دشمن ہیں۔اس لئے ہم سے دھمکی اور تشدد کی بات نہ کریں بلکہ ڈائیلاگ کی بات کریں ،اس کے لئے ہم ہر وقت تیار ہیں۔ہم گلف ممالک کے ساتھ بھی اچھے تعلقات چاہتے ہیں۔اگر ان تمام سربراہان کے خطاب و خیالات پر غور کیا جائے تو ہم دیکھتے ہیں کہ سب نے اپنا اپنا رونا رویا ہے جو سب کا استحقاق ضرور ہے مگر سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جو مسئلہ بھی اقوام متحدہ میں مسلمان سربراہان کی طرف سے پیش کیا گیا ان میں سے کو ئی بھی مسئلہ ایسا نہیں جو پانچ، سات دہائیوں سے مسلسل چلا نہ آ رہا ہو۔اگر ستر سالوں میں بھی مسئلہ فلسطین وکشمیر ویسے کا ویسا ہی پڑا ہوا ہے تو پھرکیا اقوام متحدہ اور کیا قراردادیں اور کیا بین الاقوامی قوانین؟

حصہ
mm
مراد علی شاہد کا بنیادی تعلق کمالیہ پنجاب سے ہے ،تاہم بسلسلہ روزگار عرصہ بیس سال سے دوحہ قطر میں مقیم ہیں ،اور ایک پاکستانی تعلیمی ادارے میں بطور ہیڈ آف سوشل اسٹڈیز ڈیپارٹمنٹ میں فرائض منصبی ادا کر رہے ہیں ۔سنجیدہ موضوعات کے ساتھ ساتھ طنز و مزاح پر لکھنا پسندیدہ موضوع ہے ۔ان کی طنزومزاح پر مشتمل مضامین کی کتاب "کھٹے میٹھے کالم"منصہ شہود پر آ چکی ہے۔دوسری کتاب"میری مراد"زیرطبع ہے۔قطر کی معروف ادبی تنظیم پاکستان ایسوسی ایشن قطر میں بحیثیت جنرل سیکرٹری اپنے فرائض سرانجام دے رہے ہیں ۔

جواب چھوڑ دیں