پیچھے کی جانب مت پلٹیں

کہتے ہیں کہ امید پر دنیا قائم ہے۔ جس کو یقین نہ آئے تو وہ پاکستانی عوام اور پاکستانی حکومت کو آ کر دیکھ لے۔ ہر آنے والے الیکشن سے پہلے ایک امید سر ابھارتی ہے کہ شاید کھال ادھیڑنے والے اپنے کاروبار سے باز آجائیں گے اور اذیت میں افاقہ ہو جائے گا لیکن چناؤ کے بعد کی صورت حال پہلے دور حکومت سے بھی زیادہ اذیت ناک ثابت ہوتی ہے۔ چناؤ ہو یا بن بلائے مہمانان گرامی، کوئی بھی ایسا نہیں آتا جو عوام کیلئے ابر رحمت بن کر چھائے۔ ہر حکومت عوام کے مسائل اور تکالیف میں اضافہ ہی کرجاتی ہے۔ زخموں پر مرہم رکھنے کی بجائے نمک پاشی کرنے کے علاوہ کوئی اور کام نہیں کرتی۔

پہلے تو عوام کے سامنے دو بڑی پارٹیوں کے علاوہ کوئی تیسری امید ہی نہیں ہوا کرتی تھی۔ یہ پہلی مرتبہ ہوا تھا کہ ایک تیسری امید سامنے آئی اور تیسری امید کی کرن ایسی ابھری کہ سورج ہی بن گئی اور پہلی تمام کرنوں کو معدوم تر کر گئی۔ گیس، بجلی، کی قیمتوں میں اضافہ، ڈالرز کے مقابلے میں پاکستان کے روپے کی قدر میں گراوٹ، اشیا کا مہنگا ہو جانا، ہوائی جہازوں، ریل گاڑیوں اور بسوں کا کرایہ بڑھ جانا، بہت ساری مدآت میں غیر معمولی ٹیکس جیسے اقدامات نے امید و آس لگائے والے عوام کو مایوس کر کے رکھ دیا اور امید کی وہ کرن جو تبدیلی کی آس میں طلوع ہوتی نظر آرہی تھی وہ مایوسیوں کے ظلمات میں اضافہ کرتی نظر آنے لگی ہے۔

یہ سب باتیں اپنی جگہ، جس جمہوریت کی خاطر عوام قربانیاں دیتے چلے آرہے ہیں، جس آزادی رائے کے وہ طالب ہیں اور جس آزادانہ سوچ کو وہ پھولتا پھلتا دیکھنا چاہتے ہیں، اس کا سورج غروب ہوتا دکھائی دینے لگا ہے۔ عام عوام تو پھر بیچارے ہی ہوتے ہیں، اب تو وہ طبقہ جس کو “بیچارہ” سمجھا ہی نہیں جاتا تھا اب وہ طبقہ بھی بیچاروں کے برابر آن پہنچا ہے۔ اس پر بھی پابندیوں کے وہی قوانین لاگو کئے جارہے ہیں جو “بیچاروں” کیلئے ہی رو بہ عمل ہوا کرتے تھے۔

خبر ہے کہ سپریم جوڈیشل کونسل نے اسلام آباد ہائی کورٹ کے جج جسٹس شوکت عزیز صدیقی کو ضابطہ اخلاق کی خلاف ورزی کرنے پر اُنھیں ان کے عہدے سے ہٹانے کی سفارش کی ہے بلکہ انھیں برطرف کرنے کی سمری صدر مملکت کو ارسال بھی کر دی گئی ہے۔

سپریم جوڈیشل کونسل کی طرف سے جاری کی جانے والی سفارشات کے مطابق چیف جسٹس میاں ثاقب نثار کی سربراہی میں سپریم جوڈیشل کونسل کے پانچ ارکان نے متفقہ طور پر جسٹس شوکت عزیز صدیقی کو عہدے سے ہٹانے کی رائے دی۔ اس کے مطابق ’جسٹس شوکت عزیز صدیقی نے 21 جولائی سنہ2018 کو راولپنڈی ڈسٹرکٹ بار ایسوسی ایشن میں خطاب کے دوران ملکی ادارروں کے خلاف جو تقریر کی ہے اس کی وجہ سے وہ ججز کے لیے بنائے گئے ضابطہ اخلاق کی خلاف ورزی کے مرتکب ہوئے ہیں۔ جسٹس شوکت صدیقی نے اس تقریر کے دوران فوج کے خفیہ ادارے آئی ایس آئی پر الزام عائد کیا تھا کہ اس ادارے کے اہلکار عدالتوں میں مداخلت کرتے ہیں اور اپنی مرضی کے بینچ بنوا کر اپنی مرضی کے فیصلے لیتے ہیں۔ جسٹس شوکت صدیقی نے یہ بھی الزام عائد کیا تھا کہ اُنھیں جان بوجھ کر سابق وزیراعظم میاں نواز شریف کی اپیلوں کی سماعت کرنے والے بینچ میں شامل نہیں کیا گیا تھا کیونکہ بقول ان کے آئی ایس آئی کے اہلکاروں کو خطرہ تھا کہ جسٹس شوکت صدیقی سابق وزیراعظم کو ریلیف دیں گے۔

یہاں یہ بات بھی یاد رکھنے کی ہے کہ جسٹس شوکت صدیقی کی اس تقریر کے بعد فوج کے شعبہ تعلقات عامہ کی طرف سے ایک بیان جاری ہوا تھا جس میں اسلام آباد ہائی کورٹ کے جج کے الزامات کی نفی کی گئی تھی۔ یہ بات بھی اہم ہے کہ وزارت دفاع کی طرف سے جسٹس شوکت صدیقی کے خلاف تحریری طور پر کوئی ریفرنس دائر نہیں کیا گیا تھا اور سپریم جوڈیشل کونسل نے اس تقریر کا از خود نوٹس لیا تھا۔

ماضی قریب کی بات ہے کہ ججوں کے خلاف حکومت وقت کی جانب سے ایک ریفرنس دائر کیا گیا تھا اور اس ریفرنس کے تحت ججوں کو نہ صرف کام سے روک دیا گیا تھا بلکہ عدالتی کارروائی کو جاری رکھنے کیلئے ان تمام ججوں کو جو پی سی او کے تحت حلف اٹھانے کیلئے تیار تھے، حلف لیکر عدالتوں کو بحال کردیا گیا تھا اور جن جن ججوں نے پی سی او کے تحت حلف اٹھانے سے انکار کر دیا تھا وہ سب کے سب بر طرف کر دیئے گئے تھے۔ وہ بھی ایک نیم جمہوری دور تھا لیکن اس دور کی سالاری اس وقت کے سالار پرویز مشرف ہی کر رہے تھے۔

اگر غور کیا جائے تو فی زمانہ بھی بالکل وہی دور ہے جو پرویز مشرف کا دور تھا۔ ایک منتخب حکومت کے ہوتے ہوئے بھی اس جمہوری حکومت کا انداز، لب و لہجہ اور طرز تکلم پرویز مشرف کا سا ہی ہے۔ حکومت کے سرکردہ افراد میں بھی اکثریت انھیں کی ہے جو پرویز مشرف کے دور میں اہم عہدوں اور وزارتوں پر متمکن ہوا کرتے تھے اور وزیر اعظم کا انداز بھی کچھ مختلف نہیں۔

جسٹس شوکت صدیقی گزشتہ چند مہنوں سے کیا کیا کہتے رہے ہیں ذرا ان کی باتوں کو بھی سامنے رکھا جائے تاکہ اندازہ ہو سکے کہ ان کے خلاف کارروائی کس بنیاد پر کی جانے والی ہے۔

قانون کیا کہتا ہے اور کیا نہیں لیکن یہاں ایک بات پر ضرور غور کرنا چاہیے کہ ایک عام آدمی اور ایک جج کے کہنے میں فرق ضرور ہونا چاہیے۔ مجھ جیسا قانون سے نہ بلد اور کج فہم اگر حساس اداروں کے متعلق کوئی بات کہتا ہے تو اس کے پس پشت کوئی ناانصافی یا زیادتیاں ہو سکتی ہیں اور کم فہمی کے سبب میں اپنے قد اور اپنی عقل سے بڑھ کر بات کر سکتا ہوں لیکن قانون کی کرسی پر بیٹھنے والا جج بہر حال کوئی بات کر رہا ہو اور علی الاعلان کر رہا ہو تو اس کی بات پر غور کرلینے میں کوئی مضائقہ نہیں ہونا چاہیے۔ کونسا انسان ایسا ہے جس میں خطا کا کوئی پہلو نہ ہو۔ جہاں ایک جج کی باتوں میں سقم ہو سکتے ہیں وہیں اداروں کے رویوں میں بھی کوئی نہ کوئی کمی کا امکان موجود ہے.

اگر ملک میں حقیقی جمہوریت ہے تو بہتر ہے کہ جائز اظہار رائے پر کسی قسم کی کوئی قدغن نہیں ہونی چاہیے۔ امید کی جا سکتی ہے کہ لوگوں کو جمہوری انداز میں اپنی اپنی آرا کا اظہار کرنے کے حق سے نہیں روکا جائے گا ورنہ عوام جمہوریت سے بھی بدظن ہو جائیں گے اور اپنے رہنماؤں سے بھی باغی ہو جائیں گے جو ریاست پاکستان کیلئے کوئی اچھی بات نہیں ہوگی۔

حصہ
mm
حبیب الرحمن ایک کہنہ مشق قلم کار ہیں وہ بتول، اردو ڈائجسٹ، سرگزشت، سنڈے میگزین(جسارت)، جسارت اخبار میں "صریر خامہ" ٹائیٹل اور کچھ عرحہ پہلے تک "اخبار نو" میں "عکس نو" کے زیر عنوان کالم لکھتے رہے ہیں۔انہوں نے جامعہ کراچی سے سیاسیات میں ماسٹرز کیا ہے۔معالعہ اور شاعری کا شوق رکھتے ہیں۔

جواب چھوڑ دیں