’’آٹھ اکتوبر کی یاد میں‘‘

انسانی تاریخ حوادث سے خالی نہیں۔دنیا کا اختتام بھی ایک ایسے حادثے سے ہوگا جس کے بارے میں سائنس دانوں کا نظریہ قریب قریب ایک ہے۔زمین جسے دھرتی ماں کہا جاتا ہے ،کائنات کا حقیر سا ٹکڑاہے۔خلامیں زمین سے کئی گناہ بڑے سیارے موجود ہیں ،سائنس دانوں کا ماننا ہے کہ اگر خلا سے کچھ بھی اس کرہ پہ گرِا، یا ٹکرایاتوزمین پر ہزاروں زلزلے آئیں گے۔پہاڑ ٹوٹ جائیں گے۔سمندر اپنی حدودسے باہر آجائے گا۔ہر طرف انسانی لاشوں کاانبار لگا جائے گااور جدید سائنس ایسے ہی بپاہونے والے کسی حادثہ کو قیامت کے مشابہ سمجھتی ہے۔اس لیے کہ دنیا کی ترقی نے انسان کو دور کی سوچ تک پہنچا دیا ہے۔سائنس کہتی ہے کہ انسان صرف اسی ایک کرہ پہ سانس لے سکتا ہے ،اس کے علاوہ نہیں۔کرہ ارض پہ انسانی حوادث کی ایک تاریخ ہے۔اس لیے مادی سوچ کے حامل ہو کر ہمارا سائنس کی کہانی کو سچ ماننا ٹھیک نہیں ۔سائنس جو بتا رہی ہے وہ وہی کچھ ہے جو اسے نظر آرہا ہے۔دنیا کے 95 فیصد لوگ کسی بھی طرح خدا پہ یقین رکھتے ہیں۔اور یہی ایک نظریہ باقی رہتا ہے کہ جس طرح تمام عالم مذاہب وقوع حادثہ قیامت کے بارے میں ایک نقطہ پہ متفق ہیں،اسی طرح دنیا میں رونما ہونے والے المناک انسانی سانحات کو بھی خدا کی طرف سے امتحان اور آزمائش سمجھنا چاہیے۔
دنیا میں غیر معمولی حادثوں نے انسانی زندگی پہ دیرپا نقوش چھوڑے ہیں۔قدرتی آفات انسانی آبادی کے ایک بڑے حصے کو چشم زدن میں صفحہ ہستی سے مٹا دیتے ہیں۔سیلاب ، طوفان ، وبائی امراض ،زلزلے ایسے حادثات ہیں جن کے اثرات صدیوں تک موجود رہتے ہیں۔لیکن زلزلوں سے پیدا ہونے والی دل خراش صورت حال زیادہ تشویشناک ہے۔زلزلوں کا حزن سانس کی ڈوری ٹوٹنے تک یاد رہتا ہے۔نفسیات کے ماہرین کہتے ہیں کہ زلزلے سے متاثرہ افراد برسوں ڈراؤنے خواب میں جیتے ہیں۔اور وہ جب تک زندہ رہتے ہیں زلزلے کے اثرات سے پژمردگی کی کیفیت کا شکار ہوکررہتے ہیں۔آٹھ اکتوبر 2005 کو پاکستان کے صوبہ خیبرپختونخواہ میں آنے والے زلزلے نے ہزارہ ڈویژن سمیت کشمیر، اسلام آباد میں قیامت خیز تباہی پھیلائی تھی۔وہ ہلاکت خیز مناظر ابھی تک محسوس کیے جا سکتے ہیں جن میں 73000 افراد قیامت صغریٰ کی نظر ہوئے۔ایک اندازے کے مطابق پاکستان سمیت دنیا بھر میں زلزلوں سے تقریباََ آٹھ کروڑ انسان جاں بحق ہو چکے ہیں۔گذرے ڈیڑھ عشرے میں آنے والے زلزلوں سے بر اعظم ایشاء کے کئی ممالک متاثر ہوئے ،ان میں وطن عزیز سر فہرست ہے۔اگرہم گزشتہ صدی میں جھانکیں تو 1935 سے 1997 تک صوبہ بلوچستان کی شمالی پٹی میں کئی زلزلے آئے ۔ان میں 35 ہزار افراد ہلاک اور سینکڑوں زخمی ہوئے تھے۔آنے والی صدی کے شروع میں یعنی 26 دسمبر 2004 کوانڈونیشا کے شہر سماترا کے سمندری تہوں میں زلزلہ آیا جس نے سونامی کی شکل اختیار کی اوراس سونامی نے دولاکھ انسانوں کو نگل لیا۔اس کے بعد اگلے سال آٹھ اکتوبر 2005 کو پاکستان میں آنے والازلزلہ تباہ کن ثابت ہوا ۔کئی لاکھ لوگ بے گھرہوئے۔جانی مالی نقصان کے علاوہ ملکی تاریخ کے سب سے خطرناک زلزلے نے قوم کو معاشی ، معاشرتی کمزوری کا شکار کیا ،جو ہنوز ان کیفیات سے باہر نہ آسکے۔
ماہرین کی رپورٹ پہ آنکھیں کھولنے کی ضرورت ہے جن کا کہنا یہ ہے کہ پاکستان میں جو زلزلے آتے ہیں ان زلزلوں سے سب سے زیادہ خطرہ صوبہ بلوچستان کو ہے۔اور تاریخ سے معلوم کیا جا سکتا ہے کہ اب تک آنے والے زلزلوں کی مجموعی تعداد میں صوبہ بلوچستان ہی متاثر رہاہے ۔1935 میں آنے والے زلزلے نے صوبائی دارلحکومت کوئٹہ کو زمین سے ملا دیا تھا۔ساٹھ ہزار افراد ہلاک اور مالی نقصان بہت زیادہ ہوا تھا۔پاکستان کے شمالی مغربی علاقے سب سے زیادہ زلزلوں کا شکار ہوتے ہیں۔اس کی وجہ زیر زمین تہوں میں یکساں ایرانی ،افغانی انڈین ٹیکٹونک پلیٹیں ہیں۔جو پلیٹ بھارت کی زیر زمین تہ سے گزرتی ہے وہی پلیٹ پاکستان ،نیپال کے زیر زمین تہوں میں موجود ہے۔ ان زلزلو ں کے نتیجے میں بلوچستان سے افغانستان کی سرحد تک کا علاقہ لپیٹ میں آسکتا ہے۔اس لیے اکثر ان علاقوں میں زلزلے کے جھٹکے محسوس کیے جاتے ہیں ۔گلوبائزیشن اور ترقی یافتہ ممالک نے قدرتی آفات سے بچنے اور زیادہ سے زیادہ آبادیوں کو محفوظ رکھنے کے کوششیں کی ہیں۔اور ان اقدامات میں وہ کسی حد تک کامیاب بھی ہوئے ہیں۔زلزلہ آنے سے سب سے زیادہ نقصان پانی کی پائپ لائنوں کا ہوتا ہے۔لائنیں پھٹ جاتی ہیں جس کی وجہ سے تباہ حال جگہوں تک پانی کی رسائی ممکن نہیں ہوتی۔بڑی دیوہیکل عمارتوں کو بچانے اور زلزلے سے محفوظ رکھنے کی 100 فیصد کامیابی حاصل کرلی گئی ہے۔لیکن انسانی تدابیر سے آگے ایک اور جہاں بھی ہے جس کی تدبیر بلند ہے۔
قدرتی حوادث اپنے اندر ایک سبق پوشیدہ رکھتے ہیں۔اور باشعور قومیں ارتقاء عقائد کی مرتکب ہونے کی بجائے بقاء کے راستے پہ چلتی ہے۔ریاست کی حکمتیں اپنی جگہ لیکن آٹھ اکتوبر 2005 کے زلزلے میں عوام کی رہبری کامنظر نامہ کھلی آنکھوں سے آج تک نظر نہیں آیا۔آٹھ اکتوبر کے متاثرین کے لیے ملنے والی بیرونی امداد کے 2.8 بلین روپے کہاں خرچ ہوئے۔نہ کسی کہ پاس رکارڈ ہے نہ ثبوت موجود ہیں۔مشرف حکومت نے جی لگا کر زلزلہ کے نام پہ قرض بٹورا ۔کویت ،ایران ،ترکی ،سعودی عرب سے جہازلدے آتے اور ائرپورٹ پہ کسی بھوت کے ہاتھ یرغمال بنالیے جاتے۔ ہم آج تک زلزلہ متاثرین کی بدعائیں لے رہے ہیں۔حکومت ان کی فلاح و بہبود کے لیے پچاس فیصد بھی کوئی کارنامہ سر انجام نہیں دے سکی۔پاکستان میں آفات آنے پہ مستحقین کے لیے بھیجی جانے والی امداد کا رکارڈرکھنے کا کوئی مربوط نظام موجود نہیں ۔جس کی وجہ سے گھپلے ،کرپشن کا جن سر چڑھ کے ناچتا ہے۔ہمیں سابقہ امم کی تایخ سے سیکھنا چاہیے کہ ان کا قدرت نے کیا حشر کیا ۔ہم میں اور ان میں فرق زیادہ نہیں ۔اگر یہ فرق بھی ختم نہ ہوا تو انجام بہت بھیانک ہوگا۔تبدیلی کی لہر ملک بھر میں چل پڑی ہے حکومت کو چاہیے کہ متاثرین زلزلہ کو بھی یاد رکھے۔

حصہ
mm
محمد عنصر عثمانی نے کراچی یونیورسٹی سے ایم اے اسلامیات و عربی کیا ہے،وہ مختلف ویب پورٹل کے لیے لکھتے رہتے ہیں۔

جواب چھوڑ دیں