’’اقوام متحدہ اورپاکستان کا مؤقف‘‘

’’مقامی لوگ عوام دوست فوجی کارروائیوں کے باوجودفوج کے ساتھ تعاون نہیں کرتے ،جن مقامی لوگوں نے ہتھیار اٹھالیے ہیں یا جو دہشت گردوں کی مدد کرتے ہیں انہیں قوم کا دشمن کا تصور کیا جائے گااور سنگین نتائج کا سامنا کرنا پڑے گا۔‘‘یہ الفاظ بھارتی آرمی چیف بپن راوت کے ہیں ۔بھارت کو ہر محاذ پہ جگ ہنسائی کا سامنا کرنا پڑا ہے۔کشمیر میں جس طرح اس کی فوج کو عوام کے ہاتھوں ذلیل ہونا پڑتا ہے ،دنیا میں اس کی مثال نہیں ملتی۔اب تو نوبت یہاں تک پہنچ چکی ہے کہ فوجی کارروائی کے مقام پر غیر مسلح نوجوان اور ملحقہ آبادیوں کے رہائشی فائرنگ کی آواز سن کر اس مقام تک بلا خوف خطر پہنچ جاتے ہیں اور بھارتی درندگی کا منہ توڑ جواب دیتے ہیں۔بالکل ایسے ہی جیسے اقوام متحدہ کے جنرل اسمبلی کے 73 ویں اجلاس میں پاکستانی وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے عالمی دنیاکے سامنے بھارتی ظلم و جبر کا پردہ چاک کیا۔اقوام متحدہ کے ایجنڈے پہ مسئلہ کشمیر موجود ہے۔پاکستان مسئلہ کشمیر کے حل کی ہر طرح کی کوششیں کرنے کا خواہاں ہے۔لیکن شرمندگی کا مادہ بھارت کو وراثت میں ملا ہی نہیں ۔اگر ملاہوتا تو اقوام متحدہ کے جنرل اسمبلی اجلاس میں دہرا معیار اپناتے ہوئے سشماسوراج پاکستان پہ الزام تراشی سے باز رہتیں ۔یہ تو وہ قوم ہے جو وزیر اعظم جواہر لعل نہرو کو مسئلہ کشمیر اقوام متحدہ میں لے جانے کا ذمہ دار ٹھرا کر آج تک لعن طعن کرتی ہے۔گویا اس کے خمیر میں کشمیر کی خیرخواہی نہیں ۔اس صورت حال کے پیش نظر کشمیر ی عوام کو حق خود ارادیت دینابھارت کو عالمی دنیا کے سامنے بے نقاب کردے گا ۔
بھارت جانتا ہے کہ کشمیری عوام کے دل سبز ہلالی پرچم کے سایہ میں دھڑکتے ہیں۔نوجوان پاکستان زندہ باد کے نعرے لگاتے ہیں۔جنازوں میں کلمہ طیبہ کا سحر انگیز ہجوم ہوتا ہے ۔شہید کو پاکستان کے جھنڈے میں لے جایا جاتا ہے اور یہ سب عالمی میڈیا دیکھ رہا ہوتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ چند ماہ قبل انڈین پولیس کے سنٹرل ریزروآفیسر کو یہ بیان دینا پڑا کہ ’’ہجوم سپاہیوں کا گھیرا توڑ کر دہشت گردوں کو فرار ہونے کا موقع فراہم کرتے ہیں اور یہ ہمارے لیے سب سے بڑی مشکل ہے‘‘۔
کچھ تجزیہ کار کشمیریوں کی جد جہد آزادی کو بے سدھ راستہ کا نام دیتے ہیں اور وہ سمجھتے ہیں کہ آزادی کا یہ طریقہ اپنا دشمن خود ہونا ہے ۔ان کا کہنا ہے کہ آپریشن یاکارروائی کے مقام پر نوجوانوں کاجوق در جوق آناخود کشی کے مترادف ہے۔انہیں جان لینا چاہیے کہ یہ بے خوفی خود کشی نہیں یہ وہ بغاوت کاوہ آتش فشاں ہے جو حق چھیننے کے بعد پید اہوتا ہے۔ایسی تحریکیں تاریخ میں رقم نہیں ہوئیں جیسی کشمیر کی تحریک آزادی چل پڑی ہے۔شہید برہان وانی کی شہادت نے اس تحریک کو مزید مہمیز دی ہے۔ایسا اکثر دیکھنے میں آتا ہے کہ ایک طرف نہتے کشمیری نوجوان کھڑے ہوتے ہیں اور دوسری طرف مسلح فوجی کسی مکان ،دکان یا گھر کی آڑ سے فائرنگ کررہے ہوتے ہیں۔بھارت اپنے اس خوف کو حفاظت کا نام دیتا ہے ۔جب کہ دنیا یہ منظر دیکھ کر حیران ہے کہ فوج ،پولیس اسلحہ اورحفاظتی جیکٹوں کے باوجود خود کومحفوظ کرنے کے لیے حیلے بہانے کررہے ہوتے ہیں اور نہتے نوجوان دیدہ دلیری سے بھارتی ریاستی وحشیانہ جبر کے سامنے خالی ہاتھ سینہ سپر ہویے ہوتے ہیں۔بھارت کی کھوپڑی میں ابھی تک یہ نہیں آرہا کہ وہ کشمیریوں کے دلوں میں ڈر کی فضاکس طرح پیدا کرے۔مگر بغاوت ،انقلاب کے شورش میں آئے دن اضافہ ہو رہا ہے۔مودی حکومت کے پاس اس بڑھتی شورش کو روکنے کااور حکومت کے آخری چند مہینوں میں مسئلہ کشمیر پہ مذاکرات کا نادر موقع تھا ،جسے گنوا دیاگیا ۔
اقوام متحدہ اور عالمی مندوبین کے سامنے بھارت کا مکروہ چہرہ اسے آئینہ کے سامنے کھڑا ہونے نہیں دے رہا۔حقیقت سے دور بھاگنا بزدلانہ فعل ہے۔وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے بھارت کے عالمی جمہوریت پسند ،انسانیت دوست کا نقاب اتارا تو اثرات لائن آف کنٹرول تک پہنچ گئے۔وزیراعظم آزادکشمیر کے ہیلی کاپٹر پر بھارتی فورسز کی فائرنگ دونوں ملکوں کو دست گریباں کردے گی۔پاکستان کی امن پالیسی بھی ایک حد تک ممکن ہے۔سانحہ اے پی ایس ،مستونگ میں بے گناہ شہریوں کا قتل عام ،اور بھارتی جاسوس کلبھوشن یادیو کے حلفیہ بیانات ریکارڈ پر ہیں۔بھارت پاکستان کو عالمی دباؤ میں لینے اور گیدڑ بھبکیوں کا سہارا لے کر فرار کا راستہ اختیار نہیں کر سکتا۔پاکستان نے بھارت کے جنگی جنون کا کھل کر اظہار کیا ہے اوراس بات کے پکے ثبوت عالمی قائدین کے سامنے پیش کیے ہیں جس سے بھارت کی امن خراب کرنے کی سازشیں آشکار ہو تی ہیں۔بھارت کے کشمیریوں پہ انسانیت سوز مظالم کی حقیقت بھی اقوام متحدہ وعالمی دنیا کے سامنے ہیں۔عالمی اداروں کے سامنے پاکستان نے جو موقف رکھا ہے وہ بعینہ کشمیری عوام کے جذبات کی ترجمانی کرتا ہے۔وزیر خارجہ نے کہا کہ کشمیر کے مسئلے پہ اقوام متحدہ آزاداتحقیقاتی کمیشن بنائے اور یہ کمیشن کسی کے دباؤ میں آئے بغیر کشمیر میں جاری دردناکی و وحشت کوروکے۔کمیشن کی یہ بھی ذمہ داری ہونی چاہیے کہ وہ ان کرداروں کا تعین کرے جواپنے مکروہ عزائم کشمیر کی کھال ادھیڑ کر پورے کررہے ہیں۔

حصہ
mm
محمد عنصر عثمانی نے کراچی یونیورسٹی سے ایم اے اسلامیات و عربی کیا ہے،وہ مختلف ویب پورٹل کے لیے لکھتے رہتے ہیں۔

جواب چھوڑ دیں