“ٹھنڈی چھاؤں والا”

میری دادی مجھ سے اکثر کہا کرتی تھیں کے جب شام کو تمہارے دادا دفتر سے آیا کرتے تھے تو گھر میں موجود بچوں کو سانپ سونگھ جاتا تھا، سارا دن شرارت کرنے والے بچے باپ کی موجودگی میں آپس میں بات بھی بڑے دھیمی آواز میں کیا کرتے تھے، یہ اس وجہ سے نہیں ان کے والد یعنی (میرے دادا ) کوئی سخت گیر انسان تھے، وہ تو بڑے شفیق اور محبت کرنے والے انسان تھے، میں نے آج تک ان جیسا انسان نہیں دیکھا، مجھ سمیت سینکڑوں لوگوں کی ان بارے میں یہ ہی رائے ہے۔

دادی مجھے یہ بات اس لئے بھی بتایا کرتی تھیں کے میرا رویہ اس سے بالکل مختلف تھا، یہ سمجھیں جیسے گونگا اور باتونی ایک دوسرے کے بلکل الٹ ہیں، مجھے بچپن سے کچھ نہ کچھ گنگنانے کی عادت ہے، میں کوئی اچھی نظم یا غزل پڑھوں تو اسے با آوازِ بلند گھر میں آتے جاتے پڑھتا رہتا ہوں، دادی مجھے اکثر کہا کرتی تھیں کے کچھ خیال کرو ابا بھی گھر میں ہیں، اس گنگنانے کی عادت کی وجہ سے مجھے کئی بار سب کے سامنے بڑوں سے ڈانٹ بھی پڑی ہے، مگر یہ میری عادت ہے، بلکہ میں اسے بیماری کہتا ہوں لاعلاج بیماری۔

بدقسمتی سے  معاشرے میں باپ کی شخصیت کا جو تصور ہمارے ذہنوں میں موجود ہے وہ بہت ہی عجیب ہے  زیادہ تر لوگوں کے نزدیک باپ اس دنیا کی وہ ہستی ہے جو  اپنے بچوں کو پیٹنے کے لئے ہمہ وقت تیار رہتا ہے، اور کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتا، جس سے آپ صرف اپنے کام کی بات کر سکتے ہیں، میں نے اکثر دوستوں کو اپنے والد کی کال آنے پر کانپتے ہوئے بھی دیکھا ہے گویا وہ دروازے پر ہی ہنٹر پکڑے اپنے صاحبزادے کی آمد کے منتظر ہوں۔

یہ بات ٹھیک ہے کے بہت سے لوگوں کے والد غصے کے تیز بھی بھی ہوتے ہیں، بالاوجہ تنقید بھی کرتے ہیں، چار آدمیوں کے سامنے ڈانٹ بھی پلادیتے ہیں مگر ان سب باتوں کے باوجود وہ آپ کے والد ہیں آپ پر ان کا احترام کرنا لازم ہے ۔

میرے ابا ہمیشہ ناشتہ میرے ساتھ کرتے ہیں، ناشتے سے قبل وہ  اخبار کا مطالعہ کرتے ہیں جب ہم ناشتہ شروع کرتے ہیں تو وہ تازہ ترین خبروں پر مجھ سے گفتگو کرتے ہیں، 20 منٹ کی یہ گفتگو ہمارا روز کا معمول ہے، شام کو گھر واپسی پر وہ اکثر معروف کالم نگاروں کے اہم کالم کا پرنٹ میرے حوالے کردیتے ہیں، جن کو میں رات میں سونے سے پہلے پڑھ لیتا ہوں، رات کے کھانے کے بعد بھی سیاسی صورتحال پر بات کرنا ہمارا معمول ہے یہ سب بات بتانے کا ہرگز مطلب یہ نہیں کے میں کوئی دانشور ہوں، یا میرے ابا کوئی بہت بڑے تجزیہ کار ہیں، اس بات کو بتانے کا بنیادی مقصد یہ ہے کے آپ کے والد کی بھی کچھ نہ کچھ چیزیں ایسی ضرور ہوں گی جس پر وہ بات کرنا پسند کرتے ہوں گے، ان چیزوں سے انہیں خاص دلچسپی ہوگی،جیسے سیاست، کھیل، تاریخ، کاروبار، پرانے واقعات یا تعلیمی، معاشرتی مسائل و دیگر بہت سے موضوعات جن پر بات کرنا انہیں اچھا لگتا ہوگا،یہ کام اب آپ کا ہے کے آپ ان کے پسندیدہ موضوعات کا پتا لگائیں ان سے فارغ اوقات میں بات کریں،  یقین کریں آپ کے والد آپ کے دوست بن جائیں گے، آپ کی دلچسپی اور ان کی دلچسپی ایک ہونے کی وجہ سے آپ ان کے زیادہ قریب ہوکر اوروں سے زیادہ شفقت اور محبت سے اپنا دامن بھر سکتے ہیں میرے رب نے باپ کو ٹھنڈی چھاؤں والا درخت بنایا ہے تاکہ وہ تیز دھوپ کی پگھلا دینے والی تپش میں آپ کو چھاؤں فراہم کرے، اب یہ کام آپ کا ہے کے آپ کس حد تک اس شجرِ سایہ دار کے سائے میں رہ کر اپنے آپ کو تپش سے محفوظ رکھتے ہیں، اللہ آپ سب کے والدین کو سلامت رکھے، آپ کو ان کی آنکھوں کی ٹھنڈک بنائے، کالم کو پڑھنے والے بہت سے لوگ ایسے بھی ہوں گے جو باپ کی شفقت سے محروم ہوں گے میری دعا ہے اللہ تعالیٰ آپ کے والد کے تمام گناہوں کو معاف فرمائے ان کے درجات بلند کرے اور آپ کو ان کے لئے صدقہ جاریہ بنائے، آپ کی زندگیوں میں آسانی عطا کرے،آپ خوش رہیں، سلامت رہیں ۔۔۔!

حصہ

جواب چھوڑ دیں