ترکستان کی سیاہ رات۔4

ڈاکٹر نجیب الکیلانی
ترجمہ: ڈاکٹر میمونہ حمزہ
(۴)
چاروں طرف روشنی پھیل گئی اور پورے قومول پر فتح کا پھریرا لہرانے لگا، اس ’’شرعی انتقام‘‘ کی خبر قریبی علاقوں تک پھیل گئی جس کا عَلَم ہمارے امیر اور انکے عسکری قائد خوجہ نیاز حاجی نے اٹھایا تھا. اس کے باوجود کہ میں ذاتی طور پر اس ہولناک معرکے میں شریک ہوا تھا، میں محسوس کر رہا تھا کہ خونی معرکہ شروع ہونے کو ہے، چینی اپنی ذلت پر یوں صبر کر کے نہ بیٹھیں گے بلکہ وہ ہماری سرسبز زمین کو وحشی عقاب کے خون سے رنگین کریں گے .. میں زندگی اور موت کی حقیقت پر غور کرنے لگا .. جب ہر چیز کی انتہا ہے، تو ہم اﷲ سے ملنے سے ڈرتے کیوں ہیں اور اگر شہداء کا ٹھکانا جنت ہے، تو ہم موت کی فصل میں سر کٹوانے کو شجاعت کے پیمانے میں کیوں تولتے ہیں، ہمارے علماء ہمیں مساجد میں بتاتے ہیں کہ ہم وہ بہترین امت ہیں جسے لوگوں کے لئے نکالا گیا ہے اور میں اپنے اوپر چینی احکام چلتے دیکھ رہا تھا۔ مغرب میں ہمارے بھائیوں پر روس قابض ہو چکا تھا، مجھے لگتا تھا کہ ہم اب ذلیل و رسوا امت بن گئے ہیں، جسے ذلت جگائے ہوئے ہے اور اس کے بوجھل قدم اسے گمنامی کی قید میں لئے جا رہے ہیں اور وہ قوم اسکے شرف اور انسانیت کو ملیا میٹ کر رہی ہے جو اﷲ پر ایمان نہیں رکھتی ..
’’دیکھو میں تمھارے پاس آ گئی ہوں‘‘
’’تمہیں کیا چیز لے آئی نجمۃ اللیل؟‘‘
’’تم میری روح اور میری زندگی ہو‘‘ میں نے تمہیں دائیں بائیں تلوار چلاتے دیکھا ، تم چینی سورماؤں کو زمیں بوس کر رہے تھے، تو میں تمہاری طرف کھنچی چلی آئی‘‘
’’نجمۃ اللیل تم اپنے لئے کسی اور کو پسند کر لو .. ‘‘
’’مجھے تمہاری ہی تلاش ہے مصطفیٰ .. ‘‘
رات کا ستارہ طلوع ہو گیا اور اس میں کئی اسرار اور یادیں دھڑکنے لگیں، میں نے ہولے سے کہا:
’’نجمۃ اللیل رات کتنے ہول اور اسرار دامن میں سموئے ہوئے ہے .. ‘‘
’’یہ محبت کرنے والوں کی حسین رات ہے .. ‘‘
’’مجھے تو اس میں آنے والے معرکوں اور خون آشام مقابلے کی بو آ رہی ہے‘‘
وہ میرے قریب آگئی اور میرا ٹھنڈا ہاتھ تھام کر بولی:
’’ہمارے عقب میں شاہی باغ ہے جس کے گوشوں سے معطر اور پاکیزہ ہوا پھیل رہی ہے .. ‘‘
’’پہلے میں شادی کے بارے میں سوچتا تھا، کیونکہ میرے پاس کوئی اہم کام کرنے کو نہ تھا .. ‘‘
’’اور اب مصطفیٰ حضرت .. ‘‘
’’روح کی خوشی آسمان سے معلق ہے .. جہادِ عظیم کے ذریعے .. ‘‘
’’یہ جذبہ ہمارے ایک ہو جانے میں رکاوٹ نہیں بنے گا .. تم صاحبِ اولاد ہونے کے بعد بھی دشمن سے مقابلہ کر سکتے ہو .. ‘‘
’’نجمۃ اللیل یہ رات تکمیلِ وعدہ کی نہیں .. ‘‘
’’تو پھر کب؟؟‘‘
’’اﷲ جانے .. ‘‘
اس نے سختی سے میرا رخ اپنی جانب موڑا اور غصے سے بولی:
’’کون ہو تم؟؟ کیا تم سمجھتے ہو کہ تم لاکھوں چینیوں کا راستہ روک لو گے؟؟ چھوڑو ہم ایسا کرتے ہیں اور یہ علاقہ چھوڑ کر کہیں اور چلے جاتے ہیں .. ‘‘
میں تلخی سے ہنسا اور سختی سے اسکا ہاتھ جھٹک دیا:
’’وہ جنت ارضی کہاں ہے جہاں ہم مزے سے رہیں گے .. یہ وبا مشرق سے اٹھ رہی ہے، اور سرخ موت مغرب سے گھسٹتی آ رہی ہے، اور ہم روسی طمع اور چینی لالچ کے درمیان حیران کھڑے ہیں .. ہمارے لئے نہ کوئی زندگی ہے نہ یہاں کے سوا کوئی موت .. ‘‘
وہ ہاتھ ہلا کر بولی:
’’تم موت سے پہلے ہی مردہ دل میں براجمان ہو ‘‘
’’میں زندہ ہوں اور معرکے کے لئے فارغ ہوں .. ‘‘
’’مصطفیٰ جنگ میں کوئی چیز رکتی نہیں .. دیکھو .. کلیاں کھل رہی ہیں، پھول جوبن دکھا رہے ہیں، مائیں بچے جن رہی ہیں، چرواہے پہاڑوں کی چٹانوں پر گیت گا رہے ہیں، کسان بیج بو رہے ہیں، فصل کاٹ رہے ہیں .. اور تم ایک بے چین راہب کی طرح چاہتے ہو کہ تمہیں ایک ویران کلیسا میں جنگ اور اس کے لوازمات کے بارے میں سوچنے کے لئے چھوڑ دیا جائے ..
اسکی باتیں بڑی پر اثر تھیں، ان سے سچائی پھوٹ رہی تھی، اور ان کلمات میں پرجوش سرگرم زندگی کی خوشبو تھی، میری پیشانی عرق آلود ہو گئی اور میرے اعصابی دباؤ کی گرہیں ہولے ہولے کھلنے لگیں، میری آنکھیں کھلیں تو مجھے بھی سبزہ زار اور ان پر پڑتی چاندنی نظر آ گئی، اور میں اس ٹھنڈی میٹھی ہوا میں گہرے سانسں لینے لگا، میں ہولے سے پکارا:
’’ مجھے تم اچھی لگتی ہو نجمۃ اللیل‘‘
’’اور مراد کب پوری ہو گی؟؟‘‘
’’تمہاری سوچ سے بھی پہلے .. ‘‘
اچانک مجھے کچھ حرکت اور گھڑسواروں کی آواز سنائی دی اور دوڑتی ہوئی گاڑیوں کی اور بلند ہوتا شور اور یہاں وہاں سائے حرکت کرنے لگے، میرا وجدان کہتا تھا کہ اس عظیم حادثے کے بعد اہلِ ترکستان کو اس کا سبق سکھانے کے لئے بڑے پیمانے پر فوجیں دراندازی کریں گی اور علاقے سے اس خوف و دہشت کا اثر مٹانے کے لئے ردِ عمل میں کوئی بھی بڑی کارروائی ہو سکتی ہے ..
’’نجمۃ اللیل فورا بھاگ جاؤ .. ‘‘
اور وہ مرمریں ملائکی لطیف خیال کی طرح چھوٹے چھوٹے قدم اٹھاتی اندھیرے کی چادر میں گم ہو گئی، اس کی سبز آنکھیں ہیروں کی طرح لو دے رہی تھیں اور اسکے زندگی اور حسن کے مرقع سفیدی مائل چہرے سے پاکیزہ مسکراہٹ کا نور جھلک رہا تھا، وہ محل کے جانبی دروازے میں داخل ہو گئی مگر اس کی صورت ابھی تک میرے دل اور روح میں بسی ہے ..
امیر کے محل میں ایک بڑا اجتماع منعقد ہوا، جس میں اہم علماء و مفکرین اور عسکری رہنما شریک ہوئے، اس میں ترکستان کے زیرِانتظام علاقوں کے ذمہ دار بھی شریک تھے، امیر نے گفتگو کا آغاز اس نکتے سے کیا کہ کل جو معرکہ ہوا، اس سے بچنا ممکن نہ تھا، اور ترکستانی قوم ۔ نہ کہ محض قومول ۔ اپنی اسلامی تعلیمات کو کسی طرح بھی مٹانے کو تیار نہ ہو تی، جبکہ چینی قائد نے نئے قوانین سے متعلق کوئی بھی لچک دکھانے سے انکار کر دیا تھا، پھر اس ٹکراؤ کے سوا کوئی صورت باقی نہ بچی تھی، یہاں بعض لوگوں کا خیال ہے کہ ہم نے یہ اقدام کر کے بڑی حماقت کا ارتکاب کیا ہے اور متوقع خطرناک نتائج کا اندازہ نہیں کیا، لیکن اس سے بچاؤ کے لئے گھٹنے ٹیکنے کے علاوہ بھی کوئی صورت تھی؟؟
ہم اس پسپائی کے تباہ کن اثرات اس سے پہلے بھی دیکھ چکے ہیں اور شکست خوردہ کی پسپائی کی کوئی حد نہیں ہوتی، اس لئے ضروری تھا کہ نتائج سے بے پرواہ ہو کر دشمن کو کاری ضرب لگائی جائے .. حاضرین میں سے ایک نے اس ردِ عمل کو انتہائی غلط اقدام قرار دیا جبکہ آپ کے پاس چین کا مقابلہ کرنے کی طاقت ہی نہیں ہے، افرادی قوت کا موازنہ کریں تو اسی لاکھ ترکستانی نفوس چار سو ملین سے زائد چینیوں کے سامنے کیسے کھڑے ہوں گے، ممکن تھا کہ ہم اعلی چینی قیادت کے پاس ایک وفد بھجواتے اور ان سے پر امن مذاکرات کرتے۔ ہو سکتا ہے کہ یہ دباؤ کم ہو جاتا یا ان متشکک قوانین کے بارے میں مکالمہ کیا جاتا جو ہمارے دین اور شرف سے متصادم ہیں اور جو مقاصد ہم جنگ کر کے حاصل نہیں کر پائے انہیں سیاسی ذریعے سے جائز انداز میں حاصل کر سکتے، یعنی مذاکرات سے .. اس رائے کی حاضرین میں سے بعض منجھے ہوئے سیاست دانوں نے تائید کی اور انھوں نے تجویز دی کہ اب ترکستان شرقیہ کے حاکمِ عام ’’جین شورین‘‘ کے پاس وفد بھیجا جائے، لیکن خوجہ نیاز نے ہاتھ سے اشارہ کیا اور غصے سے بولے:
’’لوگو، اگر آپ نے اس مرحلے پر وفد بھیجا تو آپ تک اس کے بھیڑوں کی مانند ذبح ہونے کی خبرہی پہنچے گی۔ چینی قومول میں اپنے لوگوں کے قتل کا بدلہ ضرور لیں گے اور میری رائے میں جنگ کے سوا کوئی صورت نہیں بچی .. اس طرح کی بحث چھیڑ کر ہم وقت بربادکر رہے ہیں اور اگر ہم یونہی امن کی خواہش میں رہے تو ہم مہلت ضائع کر دیں گے۔ چینی اپنا خون کیسے بھولیں گے جبکہ اس سے پہلے وہ بلا سبب ظلم و قساوت کا مظاہرہ کر چکے ہیں اور اب جبکہ ان کے قائد اور سپاہ اور لشکریوں کو یہاں بھون دیا گیا ہے تو انکے انتقام کا کیا عالم ہو گا .. ‘‘
پھر خوجہ نیاز حاجی اٹھے، اور چلتے چلتے رک کر بآوازِ بلند پکارے:
’’میں سن رہا ہوں، تم لوگوں کا چار سو ملین چینیوں کا ذکر یوں کر رہے ہو،گویا کہ یہ اجتماع چینیوں کی صفات بیان کرنے کے لئے منعقد کیا گیا ہے اور یہ فدائی مسلمانوں کا اجتماع نہیں، اگر لشکروں کو ان کی عددی قوت سے ناپا جاتا تو خدا کی قسم اسلام نہ پھیلتا اور اگر اوائلِ زمانہ کے مسلمان اسی طرح سوچتے جیسے آپ حضرات سوچ رہے ہیں تو زمین پر اﷲ کا علم نہ لہراتا۔ ایسا لگتا ہے کہ آپ حضرات نے خداوند تعالی کا یہ قول نہیں پڑھا ’’کم من فءۃ قلیلۃ غلبت فءۃ کثیرۃ باذن اﷲ‘‘ (بارہا ایسا ہوا ہے کہ ایک قلیل گروہ اﷲ کے اذن سے ایک کثیر گروہ پر غالب آ گیا) جب ہم اپنے دین کا احترام نہ کرنے والے دشمنوں سے نفرت کرتے ہیں تو اے گروہِ مسلمین ہمیں قرآن اپنے سامنے رکھنا چاہیے، کیونکہ وہ ہماری دنیا و آخرت کی بھلائی کا ضامن ہے۔ خدا کی قسم دشمن نے ہم پر حکم جاری کرنا اور ہمارے اختیار کو چیلنج کرنا اس وقت شروع کیا جب ہم نے اپنے دین کی ہدایات سے منہ موڑ لیا اور قرآن کو پسِ پشت ڈال دیا، میں اﷲ سے عھد کرتا ہوں کہ میں اپنا اسلحہ نہیں چھوڑوں گا یہاں تک کہ میں کام آ جاؤں یا اپنے دین اور وطن کے دشمنوں سے انتقام لے لوں اور جو مسلمان ماں باپ کی اولاد ہے اسے میرا اتباع کرنا چاہیے .. ‘‘
خوجہ نیاز حاجی امیر کے محل سے نکل آئے اور اسلحہ خانے کا رخ کیا جہاں چینی مقتولین سے چھینا اسلحہ رکھا تھا اور لوگوں کا جمِ غفیر ان کے پیچھے تھا ..
میں بھی اس انقلابی جلوس میں چلنے لگا، ایسا لگ رہا تھا کہ گہرے تاریک اندھیرے میں میری روح کو نئی زندگی مل گئی ہے، اب کوئی بھی عظیم چینی لشکر کے بارے میں نہیں سوچ رہا، ہر شخص دوسرے سے آگے بڑھ کر اسلحہ و بارود حاصل کرنے کی کوشش کر رہا ہے .. اور چینیوں کا عددی تفوق اور جنگی ہتھیاروں کی برتری ان جہادیوں کے قدموں تلے روندی جا رہی ہے، عقلاء اسے دیوانے کی بڑ قرار دے رہے تھے، پرجوش جوانوں کا خیال تھا کہ دنیا کی کوئی طاقت ان پرعزم جوانوں کے سامنے نہیں ٹھہر سکتی اور ایمان باﷲ سے رچے مؤمنین یہ سمجھتے تھے کہ قتال ان پر اﷲ نے فرض کیا ہے اور ضروری ہے کہ معرکہ جاری رہے، وہ آگے چلتے رہیں اور کفر اور طاغوت کے بند توڑتے رہیں، خواہ کامیاب ہوں یا ناکام کہ اس کا معاملہ اﷲ کے ہاتھ میں ہے۔ اسے لگا کہ موت اب اس کے لئے کوئی مسئلہ نہیں رہا …
اور بکریوں کے چرواہے قومی گیت گاتے پہاڑوں سے اترنے لگے، بوسیدہ پوشاکوں میں ملبوس کسان زنگ لگا اسلحہ اٹھائے تکبیر و تہلیل دہراتے بھاگے چلے آئے، میں نے قصرِ امیر کے اونچے برج سے دیکھا، تو راستے انسانوں سے پٹے پڑے تھے .. اور میری آنکھیں ان مآذن اور قبوں کو دیکھ رہی تھیں جنہیں ان کے عظیم آباء و اجداد نے قائم کیا تھا .. اور ہمیں ہمارا پیارا وطن اور اس کی سنہری صبحیں عطا کی تھیں، سرسبز باغات، اور مضبوط عمارتیں دیں تھیں جو اسکے بقا اور قوت کی تصویر تھیں جن کی اﷲ نے حفاظت فرمائی .. میں بھاگتا ہوا نیچے اترا .. اور زینے کی آخری سیڑھی پر میں نے اسے دیکھا:
’’نجمۃ اللیل کیا بات ہے؟‘‘
اس کی خوبصورت پلکوں پر آنسو جمے تھے بولی:
’’کیا تم جا رہے ہو؟؟‘‘
اس کی آواز غم سے بوجھل ہو گئی.
’’تمہارا کیا خیال ہے کہ مصطفیٰ’’ ان کے‘‘ گھوڑوں کو چارہ کھلانے کے لئے یہاں رہ جائے گا، یا ان کی بکریاں چرائے گا؟؟‘‘
’’تم سب ہی جا رہے ہو .. ‘‘
’’ہاں .. ذلت کے سائے میں زندگی کے کوئی معنی نہیں .. ‘‘
اس نے نظر اٹھا کر مجھے دیکھا، کہنے لگی:
’’میرا دل کہتا ہے تم لوٹ کر کبھی نہیں آؤ گے .. ‘‘
’’اگر تم واقعی مجھ سے محبت کرتی ہو تو تمہارے دل کی گواہی درست ہو گی .. ‘‘
’’ عشق ہمیشہ خوف کا شکار رہتا ہے .. ‘‘
میں نے سر ہلایا:
’’خوف؟؟‘‘
’’ہاں .. میں تمہارے بارے میں جھوٹ نہیں کہہ سکتی ‘‘
’’او لڑکی سچی محبت کبھی نہیں مرتی .. اور نہ خوف اس پر حملہ آور ہو سکتا ہے ..
اگر محبت سچی ہے تو وہ باقی رہے گی خواہ ہم موت کی لپیٹ میں آ جائیں یا ہمارے لئے حیات لکھ دی جائے .. ‘‘
اس نے مزاحًا مجھے کہنی ماری:
’’مجھے عام عورتوں کی طرح محبت کا تجربہ نہیں .. ‘‘
میں دور افق میں دیکھتے ہوئے بڑبڑایا:
’’میں نے تمہیں سوچتے ہوئے جو راتیں گزاریں وہ اچھے دنوں کی یادیں ہیں، محرومی اور دوری کے صوفیانہ معنی پر میرا دل رقصاں ہے .. آہ کاش تم جان سکتیں .. اب میرا دل خوشی کے ہلکورے لے رہا ہے .. یہ احساس کہ میرے لئے کسی کا دل محبت سے دھڑکتا ہے، تمہارا خیال خطرناک معرکوں میں مجھے روشنی دے گا … میں تمہارے اور اپنے شرف کو بچانے کے لئے لڑوں گا .. شرف جو اﷲ کے عطا کردہ عقیدے کا جزء ہے اور واپس لوٹنے کے بعد ہم شادی کرلیں گے .. نجمہ شہزادی کے پاس جاؤ .. وہ بھی تنہا ہے .. کیونکہ مرد محل سے جا چکے ہیں .. اور مردوں کے اس معرکے کیلئے نکل جانے پر آپ کو خوش ہونا چاہیے .. نجمۃ اللیل میدانِ جنگ مردوں کو بناتے ہیں … تو وہ حقیقی مرد بنتے ہیں .. ‘‘
(جاری ہے)
حصہ
mm
ڈاکٹر میمونہ حمزہ نے آزاد کشمیر یونیورسٹی سے ایم اے اسلامیات امتیازی پوزیشن میں مکمل کرنے کے بعد انٹر نیشنل اسلامی یونیورسٹی سے عربی زبان و ادب میں بی ایس، ایم فل اور پی ایچ ڈی کی تعلیم حاصل کی۔ زمانہء طالب علمی سے ہی آپ کی ہلکی پھلکی تحریریں اور مضامین شائع ہونے لگیں۔ آپ نے گورنمنٹ ڈگری کالج مظفر آباد میں کچھ عرصہ تدریسی خدمات انجام دیں، کچھ عرصہ اسلامی یونیورسٹی میں اعزازی معلمہ کی حیثیت سے بھی کام کیا، علاوہ ازیں آپ طالب علمی دور ہی سے دعوت وتبلیغ اور تربیت کے نظام میں فعال رکن کی حیثیت سے کردار ادا کر رہی ہیں۔ آپ نے اپنے ادبی سفر کا باقاعدہ آغاز ۲۰۰۵ء سے کیا، ابتدا میں عرب دنیا کے بہترین شہ پاروں کو اردو زبان کے قالب میں ڈھالا، ان میں افسانوں کا مجموعہ ’’سونے کا آدمی‘‘، عصرِ نبوی کے تاریخی ناول ’’نور اللہ‘‘ ، اخوان المسلمون پر مظالم کی ہولناک داستان ’’راہِ وفا کے مسافر‘‘ ، شامی جیلوں سے طالبہ ہبہ الدباغ کی نو سالہ قید کی خودنوشت ’’صرف پانچ منٹ‘‘ اورمصری اسلامی ادیب ڈاکٹر نجیب الکیلانی کی خود نوشت ’’لمحات من حیاتی‘‘ اور اسلامی موضوعات پر متعدد مقالہ جات شامل ہیں۔ ترجمہ نگاری کے علاوہ آپ نے اردو ادب میں اپنی فنی اور تخلیقی صلاحیتوں کا بھی مظاہرہ کیا،آپ کے افسانے، انشائیے، سفرنامے اورمقالہ جات خواتین میگزین، جہادِ کشمیر اور بتول میں شائع ہوئے، آپ کے سفر ناموں کا مجموعہ زیرِ طبع ہے جو قازقستان، متحدہ عرب امارات اور سعودی عرب میں آپ کے سفری مشاہدات پر مبنی ہے۔جسارت بلاگ کی مستقل لکھاری ہیں اور بچوں کے مجلہ ’’ساتھی ‘‘ میں عربی کہانیوں کے تراجم بھی لکھ رہی ہیں۔

جواب چھوڑ دیں