ایمان کی تکمیل

فری ناز خان، کراچی
جب بھی انسان نے اپنے وجود اور اس کائنات کے ان گنت مناظر پر غور وفکر کرنے کی کوشش کی ہے تو اسے یہ بات معلوم کرنے میں کوئی دشواری پیش نہیں آئی کہ کوئی تو ایسی ہستی ہے جو قدرت رکھتی ہے۔ پرورش کرنے والی ہے۔ کوئی تو ایسی ذات ہے جو حکمت و دانائی رکھتی ہے۔ جو اس کائنات کے نظام کو اتنے احسن طریقے سے چلا رہا ہے۔ کوئی تو قاد رمطلق ہے کیونکہ اگر ہم ایک چھوٹا سا مٹی کا پیالہ یا ایک لکڑی کی کرسی تک کسی کے بنا بنائے نہیں بنا سکتے تو اتنی بڑی کائنات اور اس کائنات کا یہ نظام اتنے احسن طریقے سے چلانا، کوئی تو ایسی حکمت و دانائی والی ذات ہے جو قادرِ مطلق ہے۔ ان تمام امور کی حکمران ہے۔ جس کی مرضی کے بنا سورج، چاند تک اپنے محور سے نہیں بھٹکے اور وہ میرے رب کریم کی ہی ذات پاک ہے جو ہر جگہ موجود ہے جو ہر سو جلوہ افروز ہے۔ جس کی تخلیق کے جلوے نمایاں طور پر ظاہر ہیں اور اسی کی خاطر تمام تر عبادت مرکوز ہیں اور اللہ تعالیٰ سے محبت کا تقاضا یہ ہے کہ اس کے احکامات کو دل سے تسلیم کریں۔اسی لیے اللہ رب العزت نے ارشاد فرماتے ہیں ’’اے لوگو! اپنے اس رب العالمین کی عبادت کرو جس نے تم کو اور تم سے پہلے (انسانوں)کو پیدا کیا تاکہ تمہیں تقویٰ حاصل ہو‘‘۔ (سورہ البقرہ)۔
اس آیت مبارکہ میں میرے رب کریم نے اس امر کی طرف اشارہ کیا کہ عبادت کی غرض و غایت یہ ہے کہ وہ انسان کو منزل تقویٰ کی طرف گامزن کردے۔ اس آیت مبارکہ میں اللہ رب العزت کے دو اوصاف بیان کیے گئے ہیں ایک یہ کہ وہ رب کریم ہے اور دوسری یہ ہے کہ اسی نے تمہیں تخلیق کیا۔
عبادت اور بندگی کا تقاضا ہے کہ پیدا میرے ربّ العالمین نے کیا تو حکم بھی صرف اسی کا مانو۔ جب آنکھ اس نے دی ہے تواس کی رضا کے لئے دیکھوں کان اس نے دیے تو اسی کے فرمان کے مطابق سننے کی عادت ڈالو سوچ کایہ بالکل درست زاویہ محبت الٰہی اور خشیت الٰہی کی دعوت دیتا ہے۔ ایمان کی تکمیل محبت الٰہی کے بنا ممکن نہیں۔ ایمان کا تقاضا ہے کہ اپنے رب سے محبت کی جائے۔ رب وہ ذات ہے کہ جس کی تربیت سے کوئی چیز اپنی استعداد کے مطابق ارتقا کے تمام مراحل طے کر تی ہوئی درجہِ کمال تک پہنچ جاتی ہے۔ گویا کہ انسان بلکہ پوری کائنات اسی ربّ کریم کی نگہبانی میں پرورش پارہی ہے اور اسی کی تخلیق کی بنا پر آج اس دنیا میں موجود ہیں۔ وہ تمہارا خالق حقیقی ہے۔اسی نے تمہیں پیدا کیا۔
ایک ایک قطرے کا مجھے دینا پڑا حساب
خوںِ جگر ودیعت مژگان یار تھا
تقویٰ ایک ایسا خزانہ ہے جو اگر ہم حاصل کرلیں تو کامیابی حاصل کر لیں۔ یہ قلب کی ایسی کیفیت ہے جو ہمیں ہر برے کام سے روکتی ہے اور نیکی کی راہ پر گامزن کرتی ہے۔ متقی شخص ہمیشہ صبر سے کام لیتا ہے اور ہر لمحہ خشیت الہٰی سے گریہ زاری میں گزار دیتے ہیں۔ ہر وقت عبادت میں مشغول رہتے ہیں تو اللہ رب العزت کے نزدیک اعلیٰ عہدوں پر فائز ہوجاتے ہیں کیونکہ انسان اخلاص کی دولت پا کر اس دنیا کی سب سے بڑی لذت ،عورت ،اولاد گھر دنیا کا آرام ان سب چیزوں کو چھوڑ کر کنارہ کشی اختیار کر لیتا ہے تو وہ تقویت کی ایسی کیفیت حاصل کر لیتا ہے جس کا نعم البدل اسے جنت کی صورت میں دیا جاتا ہے۔
کافر تیری پہچان کہ تو آفاق میں گم ہے
مومن کی ہے شان کہ آفاق اس میں گم ہے
حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے جو کہ حضرت عبداللہ ابن مسعود سے مروی ہے کہ ’’جس شخص نے تنہائی میں اللہ کو یاد کیا اور خشیت الٰہی سے اس کی آنکھیں بھر آئیں اور اس کے آنسو کا قطرہ زمین پر گر گیا قیامت کے دن اس شخص پر اللہ رب العزت دوزخ حرام قرار دے گا‘‘۔ خشیت الٰہی کا عالم یہ ہے کہ حضرت سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ ہمیشہ اللہ رب العزت کی عبادت میں مشغول رہتے اور اس خوف سے گریہ زاری کرتے رہتے تھے کہ اگر روز قیامت اللہ تعالیٰ نے یہ حکم دے دیا کہ سوائے ایک شخص کے سارا عالم جنت میں داخل کیا جائے گا تو کہیں وہ ایک شخص میں نہ رہ جاؤں۔
عبادت میں تقویٰ اور خشیت الٰہی آنسو گریہ اللہ تعالیٰ کو کتنا راضی کرتا ہے۔ اسی میں بندگی کا حسن ہے مگر آج کل ہم نے اپنے آپ کو اس مادی دنیا کے گناہوں سے بھرے گڑھوں میں پھینک دیا ہے جس کی بنا پر ہم تباہ وبرباد ہو گئے ہیں اور اصل دنیا کو فراموش کر بیٹھے ہیں ۔ اس گناہوں سے بھرے گڑھے سے سوائے اللہ رب العزت کی عبادت اور خشیت الٰہی کے ہم ہرگز نہیں نکل سکتے اور ہماری خشیت الٰہی کی انتہا یہ ہونی چاہیے کہ اے رب کریم ہمیں بس تو اور تیری رضا مل جائے تو ہم سے راضی ہو جائے۔ نماز ،روزہ ، حج، زکوۃ تمام عبادتوں کی غرض وغایت لفظ تقویٰ سے بیان کردی گئی ہے اور ہر وہ کام جو اللہ تعالیٰ کی رضا مندی کے لیے کیا جائے۔ چاہے وہ اس کی ذات کی عبادت کرنا ہو یا اس کے مخلوق کی خدمت کرنا یہ سب راستے منزل تقویٰ کی طرف لے جاتے ہیں۔
حصہ

جواب چھوڑ دیں