گستاخانہ خاکے اور خاکی

آج سے چندبرس قبل جب پہلی مرتبہ یورپ کے کسی ملک کی یہ جرات ہوئی تھی کہ وہ آنحضورﷺ کی شان میں گستاخی کرتے ہوئے آپ ﷺ کے توہین آمیز خاکے شائع کرے تو مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ پورے عالم اسلام میں غم و غصے کی ایک لہر دوڑ گئی تھی۔ پاکستان میں تو یوں محسوس ہوا تھا جیسے خیبر سے لیکر کراچی تک آگ لگ گئی ہو۔ لوگ ہر قسم کے مذہبی، سیاسی اور سماجی اختلافات کو بھلا کر سر تا پا احتجاج بن گئے تھے ،جس کا نتیجہ یہ نکلا تھا کہ گستاخانہ خاکے شائع کرنے والوں کو پسپائی اختیار کرنی پڑی تھی اور پھر ایک طویل عرصہ تک کسی ملک یا گروہ کی یہ جرات نہیں ہو سکی تھی کہ وہ ایسی ملعون حرکت کا مرتکب ہو۔

دنیا میں ازل سے ایسا ہی ہوتا آیا ہے کہ کسی بھی قسم کی کمینگی کو پروان چڑھانے کیلئے اس کے زہر کا اسپرے کیا جاتا ہے اور پھر اس بات کا جائزہ لیا جاتا ہے کہ اس کا رد عمل کیا ہوتا ہے اور کتنا شدید ہوتا ہے۔ پہلی مرتبہ ایسا کرنے کے بعد جو ردعمل سامنے آیا تو کمینگی کا مظاہرہ کرنے والوں نے فوری طور پر اپنے آپ کو روک لیا لیکن ایسا محض نئی حکمت عملی کے تحت کیا۔ کفر کبھی اپنی خباثت سے باز نہیں آیا کرتا۔ ایک ہائی ڈوز دینے کے بعد اور پھر اس کے رد عمل کے نتیجے میں جو کچھ ہوا اس کا جائزہ لینے کے بعد ضروری تھا کہ وہ “امہ” جو میں ان کے پھیلائے گئے شر کے نتیجے میں شدید غم و غصے میں آگئی تھی، ان میں سے کچھ ایسے شیاطین نکالے جائیں جو ان کی شیطنت کی بڑوھتری کا سبب بن سکیں چنانچہ اس پر کام کیا گیا اور ایسے شیطان ڈھونڈنے میں انھیں ناکامی بھی نہیں ہوئی چنانچہ ایک ایسا ملک جو ہر شرپسندانہ سرگرمی پر پوری دنیا میں سب سے زیادہ شدید رد عمل دیا کرتا تھا اس کے اندر سے ایسے شر پسند ڈھونڈ نکالنے میں کامیاب ہو گئی جو اس قسم کی گستاخانہ باتوں کو بھی اظہار رائے کی آزادی کا غلاف چڑھا کر اس شرپسندانہ رد عمل کے دست راست بن جائیں۔

گزشتہ چند برسوں میں ایسے افراد سوشل میڈیا پر اپنی مہم چلاتے بھی رہے ہیں اور کبھی کبھی سامنے بھی آئے ہیں اب یہ دوسری بات ہے کہ قومیں ایک دو برسوں میں نہیں بگڑ جایا کرتیں۔ جس طرح قوموں کو بنانے اور سدھارنے میں صدیاں لگ جاتی ہیں اسی طرح بگاڑنے میں بھی ایک مدت درکار ہوتی ہے۔

گستاخانہ خاکوں کی پہلی اشاعت کے بعد جو رد عمل سامنے آیا تھا اس کے پیش نظر ایسا کرنے والوں نے اپنے آپ کو کچھ عرصے کیلئے روکا ضرور لیکن وقفے وقفے سے وہ اپنے خباثت بھرے مشن کو جاری رکھے رہے۔ رد عمل بھی سامنے آتا رہا لیکن ہر بار اس کی شدت میں کمی آتی چلی گئی اور اب یہ عالم ہے کہ پاکستان کے علاوہ شاید ہی کوئی اور اسلامی ملک اس سلسلے میں کسی شدید رد عمل کا اظہار کر رہا ہے۔ خود پاکستان کا یہ عالم ہے کہ جس طرح پاکستان کا بچہ بچہ ماضی میں سراپا احتجاج بنا ہوا تھا اور کسی لیڈر کے اشارہ ابرو کو دیکھے بغیر گلیوں، سڑکوں اور بازاروں میں نکل پڑا تھا اب اس قسم کا رد عمل سامنے نہیں آرہا جو ایک خطرناک رجحان ہے جسے جتنی جلد ختم کیا جائے اتنا ہی دین و مذہب کے دفاع کیلئے ضروری ہے۔

گستاخانہ خاکوں کی اشاعت کے بعد رد عمل کے طور پر جو ایک اچھی بات سامنے آئی وہ نئی حکومت کی سینیٹ میں پیش کی جانے والی قرار داد ہے۔ سینیٹ نے متفقہ طور پر حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ گستاخانہ خاکوں کے خلاف اقدامات کیے جائیں۔ تحریک انصاف کے سینیٹر شبلی فراز کی جانب سے پیش کی جانے والی قرارداد کے متن میں کہاگیا ہے کہ کوئی بھی مسلمان توہین پیغمبر (ص) کو برداشت نہیں کر سکتا،حکومت ہالینڈ کے سفیرکو بلا کر اس پر احتجاج ریکارڈ کرائے اور او آئی سی کا اجلاس بلایا جائے۔

سینیٹ کے اس اجلاس کی ایک خاص اور مثبت بات یہ تھی اس اجلاس میں پاکستان کے نئے منتخب وزیر اعظم جناب عمران خان بھی نہ صرف شریک تھے بلکہ انھوں نے واشگاف الفاظ میں اس فعل بد کی مذمت کی اور ساتھ ہی ساتھ انھوں نے گستاخانہ خاکوں کا معاملہ اقوام متحدہ میں اٹھانے کا اعلان کیا۔ انہوں نے کہا کہ مغربی ذہنیت کو جانتا ہوں، وہاں کے عوام کو اس بات کی سمجھ نہیں آتی، وہ آزادی اظہار کے نام پر اس سے پیچھے نہیں ہٹیں گے، عوام کی بڑی تعداد کو پتا ہی نہیں کہ ہمارے دلوں میں نبیؐ کے لیے کتنا پیار ہے، انہیں نہیں پتا کہ وہ ہمیں کس قدر تکلیف دیتے ہیں۔ انھوں نے مزید کہاکہ اُس معاشرے میں فتنہ اور جذبات بھڑکانا بہت آسان ہے، ہم اپنی حکومت میں کوشش کریں گے کہ او آئی سی کواس پر متحرک کریں، اس چیز کا بار بار ہونا مجموعی طور پر مسلمانوں کی ناکامی ہے،او آئی سی کو اس حوالے سے کوئی پالیسی بنانی چاہیے ، لہٰذا مسلم ممالک اس چیز پر متحد ہوں اورپھر دنیا کو بتائیں ہمیں کتنی تکلیف ہے۔

سینیٹ کے اجلاس میں جماعت اسلامی، ایم کیو ایم، متحدہ مجلس عمل اور دیگر جماعتوں نے بھی گستاخانہ خاکوں کی اشاعت پرشدید رد عمل کو اظہار کیا اور اس مذموم حرکت کی شدید الفاظ میں مذمت کی۔

دوسری جانب متحدہ مجلس عمل کے لیاری سے رکن سندھ اسمبلی سید عبد الرشید نے ہالینڈ میں گستاخانہ خاکوں کے خلاف سندھ اسمبلی میں شدید احتجاج کیا ،مذمتی قرارداد اور تحریک التواء جمع کرائی۔ سید عبد الرشید کا کہنا تھا کہ حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات اقدس پر حملہ ہرگز برداشت نہیں کرسکتے، حرمت رسول صلی اللہ علیہ وسلم پر جان بھی قربان ہے۔ سید عبدالرشید نے مذمتی قرارداد میں وفاقی حکومت سے نوٹس لینے اور ہالینڈ کے سفارت کارکو دفتر خارجہ طلب کرکے بازپرس کا مطالبہ کیا۔ انہوں نے کہا کہ ہالینڈ نے اپنارویہ تبدیل نہ کیا تو اس کے سفارتکاروں کو نکالا جائے اور معاشی سفارتی تعلقات ختم کیے جائیں۔ قرارداد میں مطالبہ کیا گیا کہ او آئی سی کافوری ہنگامی اجلاس طلب کیاجائے، گستاخانہ خاکوں کے خلاف حکومت سندھ اپنا موثر اور دوٹوک بیانیہ پیش کرے، اقوام متحدہ سمیت بااثر ممالک پر دباؤ ڈالا جائے کہ ہالینڈ حکومت ملعون گریٹ وائیلڈر،بوج فاؤسٹن جیسے گستاخی کے مرتکب افراد کو دہشت گرد قرار دے۔

گستاخانہ خاکوں کی اشاعت کے خلاف پاکستان میں شدید غم و غصہ پایا جاتا ہے۔ پاکستان ہمیشہ ان ممالک میں شامل رہا ہے جو دنیا بھر میں کسی بھی ایسی تحریک جو اسلام یا مسلمانوں کے خلاف ہو، ان کے عقیدوں کی تضحیک کرتی ہو یا مسلمانوں پر ظلم کا باعث بنتی ہو، خلاف رہا ہے اور اپنے ملک میں رد عمل کے طور پر جو کچھ بن پڑتا ہے پاکستان کے مسلمان ان کیلئے کر گزرتے ہیں ساتھ ہی ساتھ دنیا کے ہر فورم پر آواز اٹھا کر دنیا بھر کے مسلمانوں کو یہ احساس دلاتے ہیں کہ وہ ان کے ساتھ کھڑے ہیں۔ ایک ایسا ملک جو مسلمانوں یا اسلام کے خلاف کسی بھی عمل پر خاموش نہ رہ سکتا ہو وہ اپنی نبیﷺ کے خلاف ہونے والے اقدامات پر کیسے خاموش رہ سکتا ہے؟ چنانچہ اس مذموم حرکت کے رد عمل کے طور پر ملی یکجہتی کونسل سندھ نے اعلان کیا ہے کہ ہالینڈ میں گستاخانہ خاکوں کی اشاعت اور مقابلے کے خلاف جمعہ 31اگست کو بڑے پیمانے پر احتجاجی مظاہرے کیے جائیں گے اور ہالینڈ کے سفارتخانے میں احتجاجی مراسلہ اور یادداشت بھی پیش کی جائے گی۔ اس بات کا اعلان ملی یکجہتی کونسل سندھ کے صدر و نائب امیر جماعت اسلامی پاکستان اسد اللہ بھٹونے پیر کے روزادارہ نور حق میں ملی یکجہتی کونسل میں شامل دیگر جماعتوں کےرہنماؤں اور قائدین کے ساتھ مشترکہ پریس بریفنگ دیتے ہوئے کیا۔ اسی اجلاس میں متفقہ طور پر ایک قرار داد بھی منظور کی گئی جس میں مطالبہ کیا گیا کہ حکومت پاکستان عالم اسلام کو مجبور کرے کہ وہ اس مذموم عمل کو روکنے کے لیے ٹھوس لائحہ عمل اختیار کر نے کے لیے او آئی سی کا اجلاس بلائے۔ ہالینڈ کے سفیر کو پاکستان بدر کیا جائے اور ہالینڈ سے اپنے سفیر کو واپس بلایا جائے۔ ہالینڈ سے تجارتی تعلقات منقطع کیے جائیں۔ مسلم ممالک اقوام متحدہ کو عالمی امن کو لاحق خطرات کی بنیاد پر ہنگامی طور پر نوٹس لینے پر مجبور کریں۔ قرار داد میں مزید کہا گیا ہے کہ یہ اجلاس ہالینڈ میں ایک رکن پارلیمنٹ کی جانب سے توہین رسالت پر مبنی خاکوں کا مقابلہ منعقد کرانے پر انتہائی افسوس اور دکھ کا اظہار کرتا ہے اور یہ سمجھتا ہے کہ توہین آمیز خاکوں کا یہ مقابلہ منعقد کرانا اہل اسلام کے ایمان پر حملہ کر نا ہے اور آزادی اظہار رائے کے نام پر کروڑ وں مسلمانوں کی دل آزاری کے مترادف ہے اجلاس کے شرکا نے مزید کہا کہ ہالینڈ کے ملعون کی ناپاک جسارت تہذیبوں کے درمیان تصادم کی گھناؤنی سازش ہے۔ چند شر پسند عالمی امن کے دشمن بنے ہوئے ہیں۔

سینیٹ، صوبائی اسمبلیوں میں اٹھنے والی آوازیں اپنی جگہ۔ ان آوازوں کا اٹھایا جانا ایک مثبت عمل ہی سہی لیکن محض آوازیں اٹھانے سے کچھ بھی نہ ہوگا کیونکہ دنیا کے نزدیک اٹھائی جانے والی ایسی صدائیں نقار خانے میں طوطی کی آواز سے زیادہ اہمیت نہیں رکھتی۔ عمران خان نے بھی اقوام متحدہ میں آواز اٹھانے سے زیادہ اور کوئی بات نہیں کی۔ دنیا جانتی ہے کہ اقوام متحدہ ایک غیر مؤثر ادارہ ہے اور خاص طور سے مسلمانوں کیلئے تو یہ ادارہ بالکل ہے ناکارہ ہے۔ کشمیر کا مسئلہ ہو یا فلسطین کا یا پھر میانمار کے مسلمانوں پر ظلم و ستم کا، اس ادارے کے کانوں پر آج تک کبھی جوں تک نہیں رینگی البتہ دنیا میں کسی بھی ملک میں اگر کسی وقت بھی یہودیوں، عیسائیوں یا کسی بھی قسم کی کفر و الحاد کی حامل قوموں کے ساتھ کوئی زیادتی ہوجائے تو اقوام متحدہ میں شامل ساری اقوام حرکت میں آجاتی ہیں۔ عمران خان  کا یہ بیان خوش آئند ہے کہ اقوام متحدہ میں آواز اٹھائی جائے گی،ان کے جذبے پر کوئی شک نہیں لیکن ان کا پاکستان میں پاکستانی وزیر اعظم ہوتے ہوئے کسی بھی قسم کے عملی رد عمل کا سامنے نہ آنا کسی حد تک پاکستانیوں کیلئے دکھ کا سبب ضرور ہے۔ ہالینڈ کے سفیر کو طلب نہ کرنا اور احتجاج رکارڈ نہ کرانا، اس کے سفارت خانے کو بند کرنے کا کوئی عندیا دینا اور ہالینڈ میں پاکستانی سفیر کو واپس بلائے جانے کی بات نہ کرنا جیسے عملی اقدامات کی جانب کسی قسم کا اشارہ نہ دینا اور صرف بات اقوام متحدہ میں اٹھانے کامعاملہ کہیں پاکستان میں پائے جانے والے شدید رد عمل کو ٹھنڈا کردینے والی بات تونہیں؟۔ اس بات کو یوں پرکھیں کہ حکومت نواز شریف کی ہوتی اور عمران اپوزیشن کر رہے ہوتے تو کیا وہ حکومت کی جانب سے محض اقوام متحدہ میں بات اٹھائے جانے پر مطمئن ہو جاتے اور احتجاج کی کوئی کال نہیں دیتے؟۔

امید ہے کہ وزیر اعظم پاکستان اور ان کی حکومت ہالینڈ کے خلاف سخت اقدامات اٹھانے کے معاملے پر ضرور غور کریگی اور مسلمانوں کے جذبات کو سرد کرنے کی بجائے انھیں اپنے دین و مذہب کے تحفظ کا مزید شعور دینے کا حوصلہ دیگی۔

حصہ
mm
حبیب الرحمن ایک کہنہ مشق قلم کار ہیں وہ بتول، اردو ڈائجسٹ، سرگزشت، سنڈے میگزین(جسارت)، جسارت اخبار میں "صریر خامہ" ٹائیٹل اور کچھ عرحہ پہلے تک "اخبار نو" میں "عکس نو" کے زیر عنوان کالم لکھتے رہے ہیں۔انہوں نے جامعہ کراچی سے سیاسیات میں ماسٹرز کیا ہے۔معالعہ اور شاعری کا شوق رکھتے ہیں۔

جواب چھوڑ دیں