بھارتی یوم آزادی نہیں ۔۔۔یوم سیاہ

بھارت کے عوام ، سرکار و دیگر تمام رہنماؤں نے گذشتہ روز پاکستان کے آزادی کے دن پر دنیا بھرمیں مقیم پاکستانیوں کو جشن آزادی مناتے ہوئے دیکھنے کے بعد بہت کچھ سوچنے پر مجبور کیا ہوگا۔ واہگہ سرحدپر پرچم اتارنے کی تقریب میں انہوں نے ایک جانب اپنے عوام کیلئے مختص نشستوں کو خالی دیکھنے اوردوسری جانب پاکستانی عوام کے جذبات کو دیکھنے کے بعد بہت کچھ سوچنے پر مجبور کردیا ہوگا۔ اس سے بھی بڑھ کر بھارتی وزیراعظم نریندر مودی کو یہ سوچ بھی بے چین کررہی ہوگی کہ پورے بھارت میں جو مقبوضہ کشمیر کی طرح دیگر تحریکیں جاری ہیں ان کو یوم آزادی کے دن متحرک ہونے سے روکنے اور دبانے کیلئے کیا کیا کرنا ہوگا؟ اکھنڈ بھارت کا خواب دیکھنے والے بھی یہ سوچنے پر مجبور ہونگے کہ مقبوضہ کشمیر جو طویل مدت سے 15اگست کو کبھی ہڑتال کرکے اور کبھی بھرپور احتجاج کرکے یوم سیاہ مناتاہے،ان کو کس طرح سے پابند ہی نہیں بند کرنا ہوگا۔ خود کو دنیا کی سب سے بڑی جمہوری ریاست کہنے والا بھارت اپنا یوم آزادی بھی آزادانہ انداز میں منانے سے خود کو غیر مخفوظ سمجھنے لگ گیاہے۔ انہیں اکھنڈ بھارت تو کیا اب تو اپنے ملک کے اندر چلنے والی آزادی کی کامیابی سے بڑھتی ہوئی تحریکوں صرف بے چین نہیں بہت بے چین کررہی ہیں۔
برسوں سے مقبوضہ کشمیر پر لاکھوں فوجیوں کے باوجود بھارتی حکومت وہاں کی آزادی تحریک کو دبانے میں ناکام رہی ہے۔ بھارت نے آج تک کشمیر کے حوالے سے کبھی متعدلانہ رویہ نہیں اپنایا ہے اور نہ بھارتی سرکار نے اقوام متحدہ کے احکامات کو مانتے ہوئے ان پر عملدرآمد کیا ہے۔ بھارت یہ جانتے ہوئے بھی کہ کشمیر کے عوام بھارت کے ساتھ الحاق کیلئے نہ تو رضامند ہیں اور نہ ہی ان کی زیرنگرانی رہنا چاہتے ہیں۔ بھارتی فوجیوں نے کشمیر میں مظالم کی داستانیں رقم کررکھی ہیں آج تک انہیں اپنے مذموم مقاصد میں کامیابی حاصل نہیں ہوئی اس کے باوجود ہر بھارتی حکومت مظالم کے سلسلے کو جاری رکھے ہوئے ہے۔ انہوں نے اقوام متحدہ کی قراردادیں ایک جانب رکھنے کے ساتھ انسانی حقوق کیلئے کام کرنے والی تنظمیوں تک کے احتجاج کو پس پشت ڈال دیا ہے۔ بھارتی سرکار گوکہ کہ 15اگست کو اپنا 71واں یوم آزادی منارہی ہے تاہم بھارت اور پاکستان کے یوم آزادی کو عوامی انداز میں کس نے زیادہ پرجوش انداز میں منایا ہے اس کا فیصلہ دوسوسے زائد ممالک کے عوام ہی کرسکتے ہیں۔
پاکستان کے عوام نے گذشتہ ماہ انتخابی عمل کے بعد ایک نئی تنظیم کو بھرپور ووٹ دیکر کامیاب کیا ہے ، نتائج کے اعلان کے بعد اس تنظیم کے سربراہ عمران خان کو جس انداز میں ملکی اور غیر ملکی رہنماؤں نے کامیابی کی مبارکباد دیں ہیں وہ بھی بھارت جانتا ہے بغور اس کا مشاہدہ کررہا ہے۔ کامیابی کے بعد اپنی پہلی عوامی تقریر میں عمران خان نے بھارت کو یہ واضح پیغام دیا تھا کہ وہ بھارت کے ساتھ دوستانہ ماحول کو بڑھانا چاہتے ہیں، اس مقصد کیلئے اگر بھارت ایک قدم آگے بڑھتا ہے تو پاکستان دوقدم آگے بڑھے گا۔ اس کے ساتھ ہی عمران خان نے بھارت کو یہ بھی کہا کہ وہ کشمیر میں انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیاں کررہا ہے، کشمیر کے مسئلے کو حل کرنے کیلئے مذاکراتی عمل کو دوبارہ سے شروع کیا جانا چاہیے۔ بھارتی عوام عمران خان کو اس وقت سے جانتے ہیں کہ جب وہ کرکٹ کی دنیا کا بہترین کھلاڑی تھا، بھارتی کھلاڑی بھی عمران خان کے انداز گفتگو و قائدانہ صلاحیتوں کے معترف ہیں اس کے ساتھ وہ سب یہ جانتے ہیں کہ عمران خان کس نوعیت کا جنونی انسان ہے۔ کشمیر کے مسئلے کو حل کرنے کی اگر اس نے بات کی ہے تو اس مسئلے کے حل کیلیے وہ کشمیری قائدین و عوام کے ساتھ کھڑا ہوگا اور انہیں حق خودارادیت دلوانے میں عملی اقدامات کرے گا۔ پاکستانی حکومت کی کشمیر کمیٹی کا سربراہ بھی وہ سابق سربراہ کی طرح نہیں بنائے گا بلکہ ایسے فرد کو مسؤل بنائے گا جو کہ کشمیر کے مسئلے کو حل کرنے کیلئے نہایت سنجیدگی سے آگے بڑھے گا۔
مقبوضہ کشمیر میں آزادی کیلئے جدوجہد کرنے والے بزرگ رہنما سید علی گیلانی، یسین ملک اور میرواعظ عمر فاروق نے عمران خان کو انتخابات جیتے پر کامیابی کی مبارکباد دی اس کے ساتھ ہی انہیں کشمیرکی آزادی کیلئے بھی عملی اقدام اٹھانے کرنے کو کہا۔ کشمیری عوام نے پاکستان کے یوم آزادی کے موقع پر قومی پرچم اٹھائے مظاہرے کئے اور جس انداز میں سرحد کے اس پار عوام نے یوم آزادی کو منایااور خوشی کا مظاہرہ کیا اسی طرح مقبوضہ کشمیر میں بھی یوم آزادی کو منایا گیا۔
15اگست جو کہ بھارت کا یوم آزادی ہے، بھارتی سرکارکو سری نگر کی عوام نے پرچم کشائی کی تقریب بھی منانے نہیں دی۔ انہیں پرچم کشائی نہ کرنے دی۔ بھارت کی پانچ لاکھ سے زائد فوج ہر طرح کے اسلحے سے لیس ہونے کے باوجود کشمیری عوام کو زیرتسلط نہیں رکھ پائی، بچے، بوڑھے اور جوان کشمیریوں سمیت خواتین تک کو شہید کرچکے ہیں اور یہ سلسلہ تاحال جاری ہے۔ اقوام متحدہ اپنی قراردادوں پر عملدرآمد نہ کروانے کے بعد مسئلہ کشمیر کو ایک جانب رکھ چکی ہے اس کے ساتھ او آئی سی نے بھی تاحال مسئلہ کشمیر پر کوئی ٹھوس اقدام نہیں اٹھایا۔ اس کے باوجود کشمیری رہنما اور پورے عوام کواپنی آزادی کا یقین ہے ،انہیں اپنی جدوجہد کی کامیابی کا یقین ہے۔
بھارت جو ایک جانب تو دنیا بھر اپنے آپ کو سب سے بڑا جمہوری ملک قراردیتاہے لیکن حقیقت اس کے بالکل برعکس ہے۔ بھارت میں ایک کشمیر کی آزادی کی تحریک نہیں متعدداور تحریکیں بھی جاری ہیں۔ کسی شاعر نے بھارت کے اس روئیے کو مدنظر رکھتے ہوئے نہایت احسن اندازمیں اپنے جذبات کی ترجمانی کرتے ہوئے کہا کہ:
کریں پامال جو آزادیاں مظلوم قوموں کی
انہیں زیبا نہیں کہ وہ منائیں یوم آزادی
بھارتی سرکارنے کشمیر کے معاملے پر جو روش برقرار رکھی ہوئی ہے اسے چاہئے کہ اب اس سے باز آجائے، وہ کشمیریوں کو حق خودارادیت اب استعمال کرنے دے ان کے ساتھ انسانی حقوق کے مطابق سلوک روا رکھے۔ وقت جو بھی گذرنا تھا وہ اب گذر چکا ہے اس گذرے وقت میں وہ آزادی تحریک کو نہیں دبا سکے تو مستقبل میں بھی نہیں دباپائیں گے۔ جس نوعیت کی تبدیلی پاکستان میں آرہی ہے اس کے اثرات جلد کشمیر اور بھارت میں بھی رونما ہونگے۔ کشمیر کا ہر مجاہد ہر بچہ و بوڑھا حتی کہ ہر شہری اب آزادی کی تحریک کو کامیابی سے ہمکنار کر کے رہی چین سے بیٹھے گا۔ جب کشمیری عوام کے جذبات اس نہج پہ پہنچ گئے ہیں تو بھارتی سرکار کیلئے یہ ضروری ہے کہ حیقیقت کو سمجھے اور انسانیت سوز مظالم کو ایک جانب رکھ کر انسانیت کی تعمیر کیلئے کردار ادا کرئے۔ یہی بہتر ہے بھارت کیلئے اور بھارت کی سرکار کیلئے ۔۔۔۔

حصہ

جواب چھوڑ دیں