چین کی بے چینی ۔۔۔ماضی قریب کے جھروکے سے

                چین دنیا کا ایک ایسا ملک ہے جو کسی کیلئے بھی آسان ثابت نہیں ہوا۔ وہ دنیا میں کیا کرتا رہا ہے اور کیا کر رہا ہے، اس کا علم دنیا کو کبھی نہیں ہو سکا۔ ممکن ہے کہ وہ ایک بہت کمزور ملک ہو اور کیا معلوم وہ امریکہ سے بھی زیادہ مضبوط ہو ، اس کے بارے میں پوری دنیا تذبذب میں ہی مبتلا پائی گئی ہے۔ کوئی اور بات اس سے وابستہ رہی ہو یا نہیں رہی ہو، ایک بات جو اس کے متعلق زباں زدِ عام ہے وہ یہ ہے کہ چین کی مصنوعات ناقابل اعتبار ہوتی ہیں جس کو عرف عام میں ”دونمبر“ کہا جاتا ہے۔

                پاکستان کے عوام و خواص، علاوہ کچھ حکمرانوں کے، جس میں ایوب خان، ذوالفقار علی بھٹو یا سابقہ وزیر اعظم پاکستان اور ان کی حکومت، چین کے گن گاتے اور ”سی پیک“ کے قصیدے پڑھتے نظر آئے ہیں، چین کی قربت سے بہت حد تک خوفزدہ رہے ہیں۔ ماضی میں تو چین کانام سننا تک پاکستان کے عوام کو گوارہ نہیں تھا۔ اگرپاکستان کے عوام و خواص چین سے دوستی کو پسندیدگی سے دیکھ رہے ہوتے تو ایوب خان کے زمانے میں ہی پاکستان اور چین ایک مضبوط خارجہ پالیسی بناچکے ہوتے اور اگر اس وقت کچھ الجھنیں بھی ہوتیں تو بھٹو کے زمانے میں یہ بات پایہ تکمیل تک پہنچ ہی جاتی لیکن کیوں کہ پاکستان کے عوام چین اور روس دوستی کو کسی بھی لحاظ سے قبول کرنے کیلئے تیار نہیں تھے اس لئے ماضی میں ایسا ممکن نہ ہو سکا اور اس دور کے حکمرانوں کو عوامی سطح پر سخت ترین مخالفت کا سامنا کرنا پڑا۔ وجہ نظریاتی تھی۔ پاکستان اس لئے وجود میں آیا تھا کہ یہاں اللہ اور اس کے رسول ﷺ کا نظام نافذ کئے جانے کا وعدہ تھا لہٰذا اس دور کے پاکستانی کسی ایسے ملک یا ممالک سے قربت کا سوچ بھی نہیں سکتے تھے جن کا دنیا کے کسی بھی مذہب سے کوئی تعلق ہی نہ ہو۔ چین ہو یا روس، یہ دونوں ممالک تو وہ ممالک تھے اور تاحال ہیں جومذہب تو بہت دور کی بات ہے، سرے سے ربِ کائینات ہی کو نہیں مانتے تھے اور نہ اب قائل ہیں۔ چین یا روس سے قربت کا مطلب اس دور کے پاکستانیوں نے جو سمجھا وہ یہی سمجھا کہ اگر ان ممالک سے قربت اختیار کی گئی تو پاکستان میں نظریاتی جنگ چھڑسکتی ہے جو کسی بھی بڑے فتنے کا سبب بن سکتی ہے۔ اس بات کو سامنے رکھتے ہوئے انھیں امریکہ سے قربت زیادہ بہتر لگی کیونکہ وہ ان کی تہذیب کو یسوع مسیح والی تہذیب خیال کرتے ہوئے کم از کم یہ گمان رکھتے تھے کہ وہ اہل کتاب ہونے کے ناطے مسلمانوں کا کچھ نہ کچھ خیال ضرور رکھیں گے لیکن شاید پہلے والی چین اور روس سے نفرت بھی ایک بھول تھی اور امریکہ سے خوش گمانی بھی ایک فحش لغزش جس کی سزا آج بھی پاکستان بھگت رہا ہے اور شاید یہ سلسلہ ابھی تا دیر جاری رہے۔

                موجودہ حکومت نے آتے ہی کوشش کی کہ امریکہ سے جس حد تک بھی دوری اختیار کرلی جائے وہ اچھا ہے اور اس خطے میں چین سے قربت کو فروغ دیا جائے تاکہ اپنی معیشت کو کسی حد تک بہتر بنایاجاسکے چنانچہ چین سے قربت کی پالیسی اختیار کرنے کا عندیا دیا گیا۔ جس طرح پاکستان اپنی جغرافیائی پٹی کی اہمیت کو خوب اچھی طرح سمجھتا ہے اسی طرح چین کو بھی پاکستان کی جغرافیائی حیثیت کا بہت اچھی طرح علم ہے چنانچہ “سی پیک” نظریہ تیر بہ ہدف ثابت ہوا اور اس منصوبے پر بہت تیزی کے ساتھ کام شروع ہونے لگا۔

                کسی ملک کے حالات خرابی کی جانب جارہے ہوں یا بہتری کی جانب، ہر دو پہلووں میں دینا اس سے متاثر ضرور ہوتی ہے۔ پاک چین دوستی جہاں پاکستان کیلئے نہایت سود مند تھی اور تاحال ہے وہاں یہی دوستی اس خطے میں موجود دیگر ممالک کیلئے، جس میں بھارت سر فہرست ہے، موت کا پیغام بھی ہے۔ پاکستان کا معیشت کے لحاظ سے مضبوط ہونا بھارت کیلئے کو اچھی خبر نہیں۔ امریکہ کیلئے بھی اس میں بڑے خدشات موجود ہیں۔ اسے بیشک پاکستان کی معیشت مضبوط ہوجانے یا پاکستان کے خوش حال ہونے سے کوئی غرض ہو یا نہ ہو لیکن وہ جانتا ہے کہ چین اس ایک ذراسی انوسٹمنٹ سے مزید مضبوط ہوجائے گا اور مستقبل میں اس کیلئے مسائل پیدا کرے گا۔ یہی خدشات امریکہ سے زیادہ بھارت کو چین سے ہیں اور ایک مضبوط اور مستحکم چین اسے کیسے گوارہ ہو سکتا ہے لہٰذا اس کی پوری کوشش ہے کہ پاکستان اور چین کے درمیان جتنی دوری ممکن ہو سکے پیدا کی جائے۔

                آج سے پچپن ساٹھ سال پہلے اگر مذہبی نقطہ نظر رکھنے والے عوام و خواص، پاک چین دوستی کی راہ میں رکاوٹ نہ بنتے اور ہمارے خارجی تعلقات چین اور ایشیائی ممالک سے مربوط ہوجاتے تو اس بات میں کوئی شبہ نہیں کہ ہم اور ہمارے ایشیائی ممالک بہت محفوظ پوزیشن میں ہوتے اور امریکہ ایشیائی اور خلیجی ممالک کی جانب نظر بد ڈالنے کی کبھی جرات بھی نہ کرپاتا۔

                ایک جانب یہ صورت حال ہے اور دوسری جانب ”سی پیک“ کو ہم نے اس طرح لینا شروع کیا جیسے یہ ایک نعمت خداوندی ہو اور اگر ہم نے اس سلسلے میں ذرا بھی کوتا ہی کی تو (نعوذ باللہ) اللہ ناراض ہو جائے گا۔ اس بات میں کوئی شک نہیں کہ اگر پاکستان کی سرزمین سے چین اپنا تجارتی ساز و سامان محفوظ طریقے سے لیجانے اور لانے میں کامیاب ہوجاتا ہے تو اس سے پاکستان میں ترقی کی نئی نئی راہیں پیدا ہونگی۔ یہ بھی درست کہ ہم سے کئی گناہ فائدہ چین کو ہوگا لیکن ہمیں اپنا فائدہ بھی مد نظر رکھنا چاہیے۔ جب بات ہوتی ہے ”محفوظ ترسیل“ کی تو پھر اس بات کو بھی نہیں بھولنا چاہیے کہ ایسا سب کچھ مکمل امن کے بغیر ممکن نہیں۔۔۔ اور ۔۔۔ یہ مکمل امن پاکستان کیلئے ”بلی کے گلے میں گھنٹی کون باندھے گا“ سے بھی بڑا مسئلہ ہے جس پر میرے اپنے خیال کے مطابق ایک رتی برابر بھی کام نہیں ہوا۔ امن پڑوسیوں سے خوشگوار اور دوستانہ تعلقات کے بغیر ممکن نہیں۔ یہاں معاملہ یہ ہے کہ ہم نے پاکستان بننے کے 70برس گرزجانے کے باوجود دشمنیاں تو ضرور بڑھائی ہیں، دوستی کی جانب کبھی سنجیدہ کوششیں نہیں کیں اور اب تو معاملہ کچھ یوں بھی ہے کہ سرحدوں کے پارتوبے یقینی تھی ہی خود اپنے ملک کے چپے چپے پر ہم نے اپنوں ہی سے کٹا چھنی لگائی ہوئی ہے۔ یہ ایک ایسی صورت حال ہے جس کو دنیا کا کوئی ملک بھی پسندیدہ نظروں سے نہیں دیکھتا۔ ہمارے اطراف کے ممالک تو جو رویے ہمارے لئے رکھتے ہوں ان کا ذکر ہی کیا، اس خطے میں ہمارا سب سے قریب سمجھا جانے والا ملک بھی لگتا ہے کچھ اکھڑا اکھڑا سا ہو گیا ہے۔ میں پہلے ہی کہہ چکا ہوں کہ چین کی جب مصنوعات ”دونمبری“ مشہور ہیں تو اس پر بے تہاشہ انحصار کر لینا کسی بھی لحاظ سے اچھا کیسے ہو سکتا ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ چین ہمارا ایک اچھا دوست ہے لیکن کیا اس کا یہ مطلب ہو سکتا ہے کہ وہ ہمارے دشمنوں کا دشمن بھی ہوگا۔ جہاں وہ پاکستان کے مفاد کو عزیز رکھتاہے وہی سب سے پہلے اسے اپنا مفاد ہمارے مفاد سے زیادہ عزیز ہوگا۔ پاکستان سے قریب ہونے کا مطلب اس کے نزدیک دوسرے ممالک سے دوری کبھی بھی نہیں ہو سکتا۔ یہی وجہ ہے کہ وہ اپنے ارادے اور رویے کا اعادہ کرتا ہوا محسوس ہو رہا ہے۔

                بی بی سی کی رپورٹ کے مطابق دنیا کی پانچ اہم ابھرتی ہوئی معیشتوں کی تنظیم” بریکس“ (برما، روس،انڈیا، چین، ساوتھ افریقہ) کے نویں اجلاس میں پہلی مرتبہ اپنے اعلامیے میں پاکستان میں پائی جانے والی شدت پسند تنظیموں لشکرِ طیبہ اور جیشِ محمد کا ذکر کیا ہے۔بی بی سی کے مطابق پیر کو چین میں ہونے والی تنظیم کی کانفرنس کے اعلامیے میں کہا گیا ہے کہ دہشتگردی کے واقعات میں ملوث، ان کا انتظام کرنے یا حمایت کرنے والوں کو کیفرِ کردار تک پہنچایا جانا چاہیے۔ اس اعلان کو انڈیا کی سفارتی کامیابی کے طور پر دیکھا جا رہا ہے۔ پانچوں ممالک کے سربراہان نے مشترکہ اعلامیے میں ایسی تنظیموں کی سخت مذمت کی ہے اور دہشت گردی کے خلاف جنگ کو جاری رکھنے کا اعادہ کیا گیا۔43 صفحات پر مشتمل اعلامیے میں اس بات پر بھی زور دیا گیا کہ افغانستان میں فوری طور پر جنگ بندی ہونی چاہیے۔ ”بریکس “ممالک نے خطے میں بدامنی اور طالبان، دولتِ اسلامیہ، القاعدہ اور اس کے ساتھی گروہوں بشمول مشرقی ترکستان اسلامک موومنٹ، اسلامک موومنٹ آف ازبکستان، حقانی نیٹ ورک، لشکرِ طیبہ، جیش محمد، ٹی ٹی پی اور حزب التحریر کی وجہ سے ہونے والے فساد کی مذمت کی۔ تنظیم نے اس میں ہر قسم کی دہشتگردی کی مخالفت کا بھی اعادہ کیا۔ تنظیم نے اس بات کو دہرایا ہے کہ دہشتگردی کا خاتمہ کرنا اولین طور پر ریاست کی ذمہ داری ہے اور بین الاقوامی معاونت کو خود مختاری اور عدم مداخلت کی بنیادوں پر فروغ دینا چاہیے۔ دکھ کی بات یا الارمنگ نقطہ یہ ہے کہ اس اعلامیہ میں چین اسی طرح پیش پیش تھا جیسے باقی دوسرے ممالک۔

                یہاں کسی حد تک یہ بات قابل غور ہے کہ اس اجلاس سے پہلے چینی وزیرِ خارجہ نے کہا تھا کہ’ ’ہمیں پتا ہے کہ انڈیا کے پاکستان کی جانب سے انسدادِ دہشتگردی کے حوالے سے خدشات ہیں ہمیں ہمارے خیال میں بریکس اس پر بحث کرنے کا درست فورم نہیں ہے“۔ اس بات سے بھی چشم پوشی نہیں کرنی چاہیے کہ گذشتہ بریکس اجلاسوں میں چین نے پاکستان میں پائے جانے والے گروہوں کو اعلامیے میں شامل نہیں ہونے دیا تھا۔ حالانکہ گذشتہ اجلاس اوڑی حملے کے ایک ہفتے بعد ہی ہورہا تھا۔ اب دیکھنا یہ ہوگا کہ چین اقوام متحدہ کی جانب سے جیش محمد کے سربراہ مسعود اظہر کو اقوام متحدہ کی جانب سے عالمی دہشتگرد قرار دینے کی کوشش پر کیا ردِ عمل ظاہر کرتا ہے۔

                پاکستان میں سب سے بڑا مسئلہ یہ رہا ہے کہ یہاں ”عسکری“ اور ”سول“ قیادت کی سوچ میں بہت واضح فرق رہا ہے۔ سول حکومت کی ہمیشہ یہ سوچ رہی ہے کہ اندرونی یا بیرونی خلفشار کو دور کرنے کا بہترین راستہ بات چیت ہی ہے۔ طاقت کا استعمال صرف اس وقت ہونا چاہیے جب کوئی اور راستہ نہ رہے جبکہ عسکری قوتوں کا ہر قسم کے خلفشار کو ختم کرنے کا طریقہ صرف ”طاقت“ ہے۔ پھر ایک دوسرے سے ”ایجاب و قبول“ میں بھی تردد ہے۔ ”ایک پیج“ والی بات بھی اس لئے اب تک کشمکش کا شکار ہے کہ کس کو کس کے پیج پر ہونا چاہیے۔ جب تک پاکستان کی قیادت کے یہ نازک مسائل حل نہیں ہونگے، مسائل بڑھتے ہی جائیں گے جیسا کہ اب تک ہوتا رہا ہے۔ ان مسائل میں جو خوفناک ترین مسئلہ سر ابھارے گا وہ دوستوں کا ہماری جانب سے مایوس ہوجانا ہوگا جیسا کہ اب چین کے موجودہ رویے سے سامنے آرہا ہے۔ لہٰذا حکومت پاکستان کو اس معاملے پر بڑی دانشمندی کا مظاہرہ کرنے کی ضرورت ہے۔ امید ہے کہ اس مسئلے کو آسان نہیں لیا جائے گا اور بہر صورت پاکستان کو اپنے دوست ممالک کو مطمئن کرنا ہوگا۔

حصہ
mm
حبیب الرحمن ایک کہنہ مشق قلم کار ہیں وہ بتول، اردو ڈائجسٹ، سرگزشت، سنڈے میگزین(جسارت)، جسارت اخبار میں "صریر خامہ" ٹائیٹل اور کچھ عرحہ پہلے تک "اخبار نو" میں "عکس نو" کے زیر عنوان کالم لکھتے رہے ہیں۔انہوں نے جامعہ کراچی سے سیاسیات میں ماسٹرز کیا ہے۔معالعہ اور شاعری کا شوق رکھتے ہیں۔

جواب چھوڑ دیں