میں ترا شہر چھوڑ جاؤں گا

محبت اور مطلب پرستی میں بہت فرق ہوتا ہے۔ محبت میں کوئی بھی عاشق صلہ کی کوئی تمنا نہیں رکھتا  بلکہ ہر بے غرض محبت کرنے والا یہی کہتا نظر آتا ہے کہ

اس سے پہلے کہ کوئی تیر کماں تک پہنچے

کچھ قدم اور بڑھاؤ کہ نشاں تک پہنچے

یا یوں کہ

محبت میں نہیں ہے فرق جینے اور مرنے کا

اسی کو دیکھ کر جیتے ہیں جس کافر پہ دم نکلے

محبت میں جہاں “صلہ” آجائے وہ محبت تو نہیں کہلا سکتی البتہ اسے تجارت ضرور کہا جاسکتا ہے یعنی کچھ دو کچھ لو کا اصول۔

محترم نواز شریف نے اعلان کیا ہے کہ وہ قوم کو اکیلا نہیں چھوڑیں گے اور وہ آنے والے “جمعہ” کو لوٹ کر آرہے ہیں۔ ویسے بھی جیل ان کیلئے کوئی نئی بات تو نہیں ہوگی۔ پہلے بھی وہ پورے 14 سال قید کی سزا کاٹ چکے ہیں یہ دوسری بات ہے کہ یہ 14 برس چند مہینوں میں ہی کٹ گئے تھے۔ جس عدالت نے انھیں عین “انصاف” کے مطابق 14 سال کی قید سنائی تھی اسی عدالت نے “بغیر کسی دباؤ” اس قید کو نہ صرف کالعدم قرار دیا تھا بلکہ ان کے ہر جرم کی “تنسیخ” کرکے انھیں ایسا پاک کردیا تھا جیسے وہ بچہ ہوتا ہے جو بس ابھی ابھی پیدا ہوا ہو اس لئے وہ الیکشن لڑنے کے اہل تک قرار دیئے جاتے رہے۔ مانے جاؤ مانے جاؤ کی جونہی ریت سے دائیں بائیں ہوئے تو چناؤ کی دوڑ سے ایسے نکال پھینکے گئے  کہ دودھ سے نکال کر پھینکی  گئی مکھی بھی جیلس ہو گئی کہ مجھے اتنی ہی  بیدردی کے ساتھ نکال کر  کیوں نہ پھینکا گیا۔

بہر صورت میاں صاحب نے  اپنی بیٹی اور داماد کے ہمراہ جمعہ 18 جولائی 2018 کو آنے کا اعلان کیا ہے۔ میں نے اس سے قبل ایک کالم بعنوان “شریف حیران ہیں دل پیٹیں یا جگر” اس میں یہی کہاتھا کہ میاں صاحب اگر مسلم لیگ ن کو فتح و کامران دیکھنا چاہتے ہیں تو ان کا پاکستان آنا، گرفتاری دینا یا کوئی قانونی راستہ اختیار کرنا ہوگا۔ اگر وہ آگئے، خواہ ان کے ساتھ کوئی بھی سلوک ہو، تو پھر وہ تمام پارٹیاں بشمول خلائی مخلوق، اس خواہش کو پورا شاید ہی کر پائیں جو وہ ن لیگ کی ہار کی صورت میں دیکھنا چاہتی ہیں بلکہ امکان اسی بات کا ہے کہ ن لیگ پہلے سے بھی بڑی قوت بن کر ابھرے”۔ اب ان کے آنے  کے اعلان میں حقیقت کتنی ہے اور سیاست کتنی، یہ تو آنے والا وقت ہی بتائے گا لیکن ان کے آنے کا اعلان مسلم لیگ ن کے سیاسی جلسوں میں یقیناً ایک نئی روح پھونکنے کا سبب ضرور ثابت ہوگا۔

اصل میں  اگر بہ نظرِ غائر دیکھا جائے تو پاکستان میں سیاسی لیڈروں اور سیاسی پارٹیوں کا بڑا فقدان ہے۔ سیاسی یا عوامی لیڈروں  کو تو خیر پیدا ہونے سے قبل ہی فنا فی اللہ کرنے کا رواج رہا ہے اس لئے کہ کوئی ایک بھی عوامی لیڈر جی لیا تو وہ خلائی مخلوق کی موت بن جائے گا اور حکومت کی جانب سے جو وظیفے ان کو ملتے ہیں اس میں نہ تو بینک بن سکتے ہیں، نہ پٹرول پمپ تعمیر ہوسکتے ہیں ،  نہ ہی  اولادیں اعلیٰ تعلیم امریکہ و برطانیہ میں حاصل کر سکتی ہیں، نہ پاکستان سے باہر محل تعمیر ہو سکتے ہیں، نہ اعلیٰ عہدے باہر کی افواج میں مل سکتے ہیں اور نہ ہے شاہانہ اندازمیں زندگی ملک کے اندر یا باہر گزاری جا سکتی ہے۔ ان سب آرائشوں کے حصول کیلئے ہر قسم کے وسائل اور طاقت و اختیار کی شدید ضرورت ہے ورنہ یہ تن مند ہڈیوں کا ڈھانچہ بن کر رہ جائیں گے۔ جب ایسا کچھ ہو  جانے کا امکان ہو تو پھر ملک کی سرحدوں کی حفاظت صرف اور صرف جن بھوت اور فرشتے تو کرنے سے رہے۔ لہٰذا 1958 کے بعد یہ طے کر لیا گیا کہ ملک کی سرحدوں کی محافظت کیلئے یہ فعل نیک  تو انجام دینا ہی ہوگا سو یہ سلسلہ تاحال جاری ہے۔ پھر اس اعتراض سے بچنے کیلئے کہ دنیا کرسی پر وردی کو پسند نہیں کرتی تو کیوں نہ ایسی ٹوپی ایجاد کی جائے جس کو پہن کر وردی دنیا کو کیا کسی فرشتوں کو بھی نظر نہ آسکے لہٰذا اس کا نسخہ بھی تیار کر لیا گیا ہے۔ اس نسخے کی ایک ہی “پھکی” دنیا کو ایسا مسحور کردے گی کہ اسے جو بھی کرسی پر نظر آئے گا وہ سویلین ہی نظر آئے گا خواہ وہ توپ، طیاروں اور ٹینکوں کے جھرمٹ میں ہی کیوں نہ بیٹھا ہو۔

جیسا کہ میں نے عرض کیا  پاکستان کی یہ بد قسمتی رہی ہے کہ نہ تو یہاں کسی عوامی لیڈر کو زندہ رہنے دیا گیا اور نہ ہی اسے سکون کے ساتھ زندگی گزارنے دی گئی۔ اس سے بڑھ کر یہ بھی بہت بڑا المیہ رہا کہ پاکستان میں کوئی سیاسی پارٹی تشکیل ہی نہ ہو سکی۔ سیاسی پارٹی کے وجود میں نہ آنے کی میرے نزدیک دو بڑی وجوہات رہی ہیں۔ پہلی وجہ تو یہ ہے کہ بد قسمتی سے پورا پاکستان بڑے بڑے خاندانوں کے گروہوں میں تقسیم ہے۔ یہاں ملک ہیں، چوہدری ہیں، خان ہیں، سردار ہیں اور وڈیرے ہیں۔ پھر باری آتی ہے جاگیر داروں کی، زمینداروں کی، مل آنرز کی او ر سرمایہ داروں کی۔ ان کے ارد گرد بھی مجبوروں، مفلسوں، بے کسوں، ننگے بھوکوں اور غربت سے نیچے لوگوں کا ایک ہجوم رہتا ہے جو ایک ایسے آلے اورمشین کی مانند ہوتے ہیں جو مالک کے ہاتھوں میں دبے ہوئے ریموٹ کنٹرول کے تحت ہر جائز و ناجائز کام کرنے اور احکامات ماننے کے پابند ہوتے ہیں۔ ان کے اردگرد کے مظلوم ترین افراد میں سے اگر کوئی بغاوت پر اتر کر “مہر ستار” بن بھی جاتا ہے تو وہ القائدہ، طالبان یا را کا ایجنٹ بنا کر نشان عبرت بنادیا جاتا ہے۔ ان سب ظالموں کے اوپر بھی ایک اور طاقت نے جنم لینا شروع کر دیا ہے اور ان سارے مگر مچھوں کو اپنے قابو میں  کچھ ایسے کر لیا ہے کہ ان سب کے ریموٹ کنٹرول بھی وہی کمانڈ دینے پر مجبور ہو گئے جس کی کمانڈ کے احکامات اس ایک کمانڈ سے جاری ہوں۔

میں عرض کر رہا تھا کہ کیونکہ پاکستان کی بد قسمتی یہ ہے کہ یہاں سیاسی پارٹیاں تشکیل ہی نہیں پاسکیں اور ساری سیاسی پارٹیوں کا انحصار ان بڑے بڑے خاندانوں پر ہی رہا اور ہے جس پر “شکروں” نے اپنے پنجے گاڑ رکھے ہیں ہیں اس لئے یہ شکرے مثل “ہما” جس کے کاندھوں پر بیٹھ جاتے ہیں اس کا نصیب جاگ جاتا ہے، وہی بڑی پارٹی بن جاتی ہے، اسی کا طوطی بولنے لگتا ہے اور اسی کی سلطنت اتنی وسیع ہوجاتی ہے کہ اس کا سورج غروب ہی ہو کر ہی نہیں دیتا۔ پھر ہوتا یوں ہے کہ یہ “ہما” اڑ اڑ کر کسی اور کے کاندھوں پر جا کر بیٹھا دیئے جاتے ہیں اور پہلے والوں کی راتیں ہی کیا دن بھی تاریک کرکے رکھ دیتے ہیں۔

یہ کھیل پاکستان میں  1958 سے تاحال جاری ہے۔ سیاسی پارٹیوں کو سیاسی پارٹیاں بننے ہی نہیں دیا جاتا سارے “ہما” “ہماچل پردیش” بنادیئے گئے ہیں، سارے ایک ہی ریموٹ کے کنٹرول میں لے لئے گئے ہیں اسی لئے وہ کبھی ایک پارٹی کے کاندھوں پر سے اڑا کر کسی دوسری پارٹی کے کاندھوں پر بٹھا دیئے جاتے ہیں اور کبھی کسی اور پارٹی لیڈر کے سر پر سوار کر دیئے جاتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ کبھی کنوینشن، کبھی فنکشنل، کبھی ق اور کبھی ن کا طوطی بولنے لگتا ہے۔ آجکل یہ سارے “ہما” ن سے بیزار ہوکر “پٹائی” کے کاندھوں پر محو پرواز ہیں جن کی معاونت کیلئے “جیپ” کو بھی بھیج دیا گیا ہے کہ اگر کوئی پارٹی “سیاسی” پارٹی میں تبدیل ہونے لگے تو اس کے رائے دہندگان کو دور دراز علاقوں کی جانب دھکیلا جا سکے۔

اس سارے پس منظر کو سامنے رکھتے ہوئے اگر یہ کہا جائے کہ یہ ملک میں سیاسی پارٹیاں کہلائے جانے کے قابل کسی حد تک یا تو پی پی پی رہی ہے یا پھر کراچی کی ایم کیو ایم تھی۔ میرے نزدیک پارٹی وہی ہوتی ہے جس میں شامل کوئی طاقتور سے طاقتور ڈان بھی پارٹی سے باہر ہوجائے تو کیڑا بن کر رہ جاتا ہے وہ بھی گندگی کا۔ وہ “کھمبا” بھی کھڑا کردے تو لوگ کھمبے  کو ہی ووٹ دیتے ہیں۔ ماضی میں اس قسم کی مثالیں یا تو کسی حد تک پی پی پی کے پاس رہی ہیں یا پھر ہزار اختلافات، الزامات اور نہ جانے کیسے کیسے جرائم کی فہرست رکھنے والی جماعت ایم کیو ایم کے پاس رہی ہیں۔ کیا ممتاز علی بھٹو وڈیرہ یا بھٹو کا بھائی نہیں تھا، کامیابی ملی؟، کیا میر مرتضیٰ بھٹو، بھٹو کی سگی اولاد نہیں تھا؟، کیا پی پی پی کا کچھ بگاڑ سکا؟۔ کیا این ڈی خان وڈیرہ، جاگیردار یا سرمایہ دار تھا؟، کامیاب نہیں ہوا، کیا تاج حیدر کامیاب نہ ہوا، کیا شہلا رضا پی پی پی کی ممبر نہیں اور کیا سعید غنی سرمایہ دار ہے؟۔ گویا میری رائے کے مطابق پی پی پی ایک سیاسی پارٹی ہے اور ایم کیو ایم ایک سیاسی حقیقت۔ رہی بات جرائم کی تو وہ جرائم پی پی پی کے مقابلے میں ایم کیو ایم کے سورج کے آگے دیئے کے جیسے بھی نہیں۔ اس کے 27 دسمبر 2007، بینظیر کی شہادت کے موقعہ پر پورے پاکستان کو راکھ کا ڈھیر بنا کر رکھ دینے  والا جرم پوری انسانی تاریخ میں ڈھائے جانے والے  اوراپنے ہی ملک میں کہیں نہیں ملے گا لیکن پھر بھی وہ میدان میں ہے اور بہ رضا و رغبت اعلیٰ ترین طاقتوں کے سر چشموں کی ایما ، منشا اور مرضی کے ساتھ۔

یہی، اور بالکل ایسی ہی تمام “رغبتوں”  کے ہمراہ ایک اور سیاسی قدرت  و طاقت پورے پاکستان میں دندنا تی پھر رہی ہے۔ زعم ہے کہ وہ پارٹی ہے لیکن عالم یہ ہے کہ وہ “ہما” جو دوسروں کے پنجروں سے اڑا کر پارٹی کے کاندھوں پر بٹھا دیئے گئے ہیں ان سب کو “الیکٹ ایبل” کہہ رہی ہے اور اپنے ناراض، جان و مال خرچ کرتے چلے آنے والوں کو قائل کر رہی ہے کہ ان کو اگر ٹکٹ نہ دیئے گئے تو ہمارا  جیتنا ممکن نہیں، اس لئے کہ تم سب کو قربان کر سکتا ہوں، ان کو مایوس نہیں کر سکتا اسلئے خطا معاف، مجھے ان کی سیوا کرنے دو۔ ایک جانب پی ٹی آئی کا یہ دعویٰ کہ وہ ملک کی لارجسٹ سیاسی پارٹی ہے اور دوسری جانب “بھگوڑوں” کے قدموں میں اپنی ٹوپیاں رکھ دینا اس بات کا ثبوت ہے کہ یہ پارٹی نہیں “بھان متی کا کنبہ” ہے جو “کہیں کی اینٹ اور کہیں کا روڑھا” ملاکر بنایا گیا ہے۔ جس کا نتیجہ یہ ہوگا کہ جب یہ بھان متی کا کنبہ اپنے آپ کو “نجیب الطرفین” سمجھنے لگے گا، بڑا کنٹول ٹاور ایک کمانڈ کے ذریعے اس کا شیرازہ  ہستی بکھیر کر رکھ دیگا۔

اتنے بڑے ایڈوانٹیج اور بھاری بھر کم سپورٹ کے باوجود بھی اگر کسی پارٹی کا لیڈر یہ کہتا ہوا نظر آئے کہ اگر میں ناکام ہوا تو پاکستان ہی چھوڑجاؤں گا تو مجھے یہ کہنے سے کون روک سکتا کہ پاکستان سے سچی محبت کا دعویٰ  خام اور غرض مندی سے لبا لب بھرا ہوا ہے۔ اقتدار ملے گا تو پاکستان اور اگر اقتدار نہ ملا تو انگلستان۔

اس کا دوسرا پہلو یہ بھی ہے کہ یہ دھمکیانہ بیان ممکن ہے بڑے کنٹرول روم والوں کیلئے ہو کہ جس میں کہا جارہا ہو کہ مجھے ہر صورت میں اقتدار چاہیے ورنہ میرا آپ (پاکستان) سے کوئی تعلق نہیں رہے گا۔ یہ اسی قسم کی بات ہے جو 2013 کے انتخابی نتائج کی رات نتائج مکمل ہونے سے قبل نواز شریف کا تھا کہ اگر مجھے کامیابی دلانی ہے تو دو تہائی اکثریت سے ہی دلانی ہے اور پھر قوم نے دیکھاکہ راتوں رات بازی الٹ دی گئی۔

اگر دھمکیانہ انداز کا تعلق بڑے کنٹرول روم سے نہیں تو یہ انداز اپنے “پروانوں” اور “ہماؤں” کیلئے ہوگا کہ مجھے اور کچھ بھی نہیں چاہیے علاوہ الیکشن میں کامیابی کے۔

بہرحال ایک لیڈر وہ ہے جو سیاسی طور پر دھمکارہا ہے کہ “میں ترا شہر چھوڑ جاؤں گا” اور ایک لیڈر وہ ہے جس کا خود کا کوئی سیاسی مستقبل نہیں وہ قوم سے کہہ رہا ہے کہ صبر کا دامن ہاتھ سے نہ چھوڑو، قید و بند سیاسی حقیقتیں ہیں۔ میں تمہیں چھوڑ کر کہیں نہیں جارہا۔ جمعہ 13 جولائی 2018 کو آرہا ہوں۔ اب قوم فیصلہ کرلے کہ محبت میں غرض مندی اور بے غرضی کی کیا اہمیت ہوتی ہے۔

حصہ
mm
حبیب الرحمن ایک کہنہ مشق قلم کار ہیں وہ بتول، اردو ڈائجسٹ، سرگزشت، سنڈے میگزین(جسارت)، جسارت اخبار میں "صریر خامہ" ٹائیٹل اور کچھ عرحہ پہلے تک "اخبار نو" میں "عکس نو" کے زیر عنوان کالم لکھتے رہے ہیں۔انہوں نے جامعہ کراچی سے سیاسیات میں ماسٹرز کیا ہے۔معالعہ اور شاعری کا شوق رکھتے ہیں۔

جواب چھوڑ دیں