خبردار، اَب ووٹرز سب جان چکے ہیں

آج اگر دنیا کی کسی بدعقل قوم کے لئے ایوارڈ ہوتا تو سب سے زیادہ یہ ایوارڈ پاکستانی قوم کے حصے میں آتے ، اَب میں مزید کیا کہوں ، اُمید ہے کہ آپ میرے اتنے کہے کو بہت جان کر میرا مقصد سمجھ چکے ہوں گے ۔ خیر چھوڑیں ، رہنے دیجئے ، بات کہیں کی کہیں نکل جا ئے گی، آگے چلتے ہیں، اور آگے کیوں نہ چلیں، ہمارے حکمران ، سیاستدان اور اِن کے چیلے چانٹے ہمیں ستر سال سے آگے ہی تو چلا رہے ہیں، اور ہم بھی کیسے سیدھے اور عقل سے پیدل ہیں؟ کہ ہم بھی اِن کے حکم کی تعمیل کرتے ہوئے چل پڑتے ہیں، مگرجب پیچھے مڑ کر دیکھتے ہیں۔ تو ہم خود کو وہیں کھڑاپاتے ہیں، ہم جہاں سے ستر سال پہلے چلے تھے۔
مگر ایک بات ضرور ہے۔ وہ یہ کہ جو ہمیں آگے چلنے کا کہتاہے۔ اَب آپ اِسے ہماری بدقسمتی کہیں یا اُس کی خوش قسمتی کہ وہ توہمیں آگے چلاکرخود بہت آگے چلا گیاہے۔ مگر بڑے افسوس کی بات یہ ہے کہ ہم آج تک پیچھے ہیں۔
حالانکہ ہم ستر سال سے اپنے سے پیچھے والے سے آگے تھے۔ اور آگے چلنے کے عادی تھے۔ مگر نتیجہ ہماری کاوشوں کے برعکس نکلاہے ۔ ہم تو پیچھے رہ گئے۔ مگر ہمیں آگے ہانکنے والے جھوٹے، فریب، دھوکے باز، اقرباء پروری میں ماہر، لوٹ مار کرنے والے کرپٹ عناصر، قومی خزا نے سے اللے تللے کرنے والے ، ٹیکس چور،اقامے اور آف شور کمپنیوں والے خود تو امیر سے امیر تر ہوگئے ۔مگربیچارہ غریب ووٹر پانی، بجلی ،گیس اور توانائی بحرانوں اور سستا و معیاری نظامِ تعلیم ا ور سرکاری جدید صحت کے مراکز کی عدم دستیابی اورمہنگا ئی کے ہاتھوں بھوک و افلاس کی دلدل میں دھنستاہی چلا گیاہے۔
بہرکیف، آج ووٹرز جان چکے ہیں، کہ اَب کھوکھلے نعروں اور پرا نے منشوروں سے الیکشن نہیں جیتے جاسکتے ہیں۔ یہاں ستر سال بعدایک اچھی بات یہ ہورہی ہے کہ آج ووٹرزبیدار ہوچکے ہیں۔ اَب یقینی طور پرووٹرز کی بیداری چیخ چیخ کر بتارہی ہے کہ اگلے متوقع الیکشن 2018ء مُلک میں انقلابی تبدیلی کی نوید ثابت ہوں گے۔
تاہم مختصر یہ کہ اِس بارووٹرز کی دہلیز پر ووٹ کی بھیک مانگنے والے پرانے اور نئے سیاسی بہروپیوں ا ور ٹوپی ڈرا مے بازوں کو آنے سے پہلے اپنا محاسبہ کرناہوگا ؛ نہ صرف یہ بلکہ ووٹرز کے کسی جذباتی ردِ عمل کے نتیجے میں اپنے سر اور جسم کے لئے خود حفاظتی اقدامات کو یقینی بنا کے آنا ہوگا ۔کیو ں کہ آج کا ووٹرز باشعور ہوچکاہے۔ یہ جان چکاہے کہ اِس کے ووٹ کی پرچی کی اہمیت کیا ہے؟ وہ یہ بھی جانتا ہے کہ یہ اپنے ووٹ کی طاقت اور اپنے اختیار سے کیا کیا تبدیلیاں لاسکتا ہے؟سو، اَب الیکشن میں حصہ لینے والی سیاسی اور مذہبی جماعتوں کوسنبھل کر عوام میں آنا ہوگا ۔ورنہ اپنے انجام کے خود ذمہ دار ہوں گے۔
اِس میں کو ئی شک نہیں کہ دنیا میں پائیدار جمہوری نظام صاف و شفاف اور پُرامن انتخابی عمل کے ہی شکم سے پیداہوتاہے ۔ ارضِ مقدس میں متوقع اگلے انتخابات کے انعقاد کو بمشکل 22/23دن ہی باقی رہ گئے ہیں۔ مگر پھر بھی ابھی تک اِن کے بروقت انعقاد پر مخمصوں اور خدشات کی سیاہ چادر چڑھی ہو ئی ہے۔ اِس کی کیا وجہ ہے؟ یہ بھی کسی سے ڈھکی چھپی نہیں ہے۔ بس ایک انجاناخوف ہے کہ جو کچوکے ماررہاہے کہ 25جولائی 2018ء کو ہونے والے انتخابات مقررہ تاریخ پر نہیں ہو پا ئیں گے۔ چلیں، بالفرض متوقع انتخابات بروقت ہوبھی گئے ۔ اِن کے نتیجے میں کوئی حکومت تشکیل پابھی گئی۔ تو اِس کی کل عمر دواڑھا ئی سال سے زیادہ نہیں ہوگی۔ اگر انتخابات اعلان کردہ تاریخ پر نہ ہوسکے تو پھر یہ کم از کم دس سال تک نہیں ہوپا ئیں گے۔ تاہم کچھ بھی ہے۔ ہماری دُعا اور کوشش تویہی ہے کہ انتخابات اپنے وقت پرہی ہوں اور اِس کے نتیجے میں جو بھی جماعت حکومت بنائے وہ اپنی مدت پوری کرکے جائے۔
بہرحال، اَب آگے آگے دیکھئے کیاہوتا ہے؟ ہمیں اچھائی کی ہی اُمید رکھنی چاہئے کیوں کہ اِسی پر دنیا قائم ہے۔اَب یہ اچھی اُمید ہی تو ہے کہ گزشتہ دِنوں پاکستان پیپلزپارٹی کے چیئرمین بلاول زرداری بھٹو نے جھوم جھوم کر لہک لہک کرعالمِ دھمال میں یہ جملے کہتے ہوئے’’ بی بی کا وعدہ نبھاناہے، پاکستان کو بچاناہے‘‘کے نام سے اپنے کیرئیر کا پہلاپارٹی منشور اپنی زبانی پیش کردیاہے۔ جن کہناتھاکہ’’ ملاوٹ والی سنسر شدہ جمہوریت قبول نہیں ۔ آج کے پاکستان میں جس شعبے میں نظردوڑائیں وہ بدحالی کا شکار ہے۔‘‘اِس کے ساتھ ہی بلاول زرداری بھٹو نے اپنے منشور میں اپنے نانا اور امی کی پارٹی والے روحِ جان نظریئے’’ روٹی ، کپڑا، مکان ‘‘ کے ساتھ بھوک مٹاؤ پروگرام ، کسان کارڈ ،ڈیمز، طلبایونینز کی بحالی، پارلیمانی بالادستی، اداروں میں ہم آہنگی کو بھی نتھی کیا اور کہاکہ’’ پارلیمنٹ سے غیرحاضر رہ کر ووٹ کو عزت نہیں دی جاسکتی ، احتساب کے نام پر ادارے تباہ ہوگئے ، ہر طرف استحصال ہی استحصال ہے، خواہ تعلیم ہو یا صحت، قانون نافذ کرنے والے ادارے ہوں یا اِنصاف کا نظام ، معیشت ہویا ماحولیات کا مسئلہ، بیورو کریسی ہویا خارجہ تعلقات ہر طرف مسائل کا ایک انبار کھڑاہے‘‘ غرضیکہ، منشور پیش کرنے کو تو بلاول زرداری بھٹونے پیش کردیا ہے مگر اِس منشور میں عوامی خدمت کا نعرہ بلند کرنے والی پاکستان پیپلز پارٹی نے روٹی ، کپڑا، مکان سے پہلے ملاوٹ والی سنسر شدہ جمہوریت کا تذکرہ کیا جو اِس بات کا غماز ہے کہ آج پارٹی کے نزدیک روٹی، کپڑا، مکان سے زیادہ جمہوریت کو اہمیت حاصل ہے ۔ یعنی کہ آج عوامی خدمت کی دعویدار پاکستان پیپلز پارٹی یہ سمجھتی ہے کہ اَب روٹی، کپڑا، مکان کی بات توتبرکاََ کی جائے مگر اپنے نئے پرانے جیالوں کو لے کر جمہوریت کی بات کو فوقیت دی جائے جو ہماری اور پارٹی کی بقاء اور سلامتی کی ضامن ہے گویاکہ آج کی پی پی پی یہ سمجھتی ہے کہ اگر جو جیالے جمہوریت کے لئے ساتھ چلتے ہیں۔ تو یہی ہمارا اثاثہ ہیں ۔اور جو روٹی ، کپڑا، مکان کو ہی لے کر بیٹھے رہیں گے۔ ویسے وہ ہیں تو ہمارے مگر اِنہیں جمہوریت کی بقا ء کے لئے بھی ہمہ وقت لبیک کہنا پڑے گا۔اَب پارٹی کو زندہ رکھنا ہے؛ تو پارٹی کے ہر جیالے کو ہر حال میں نظریہ زرداری مصالحت اور مفاہمت پسندی کے ساتھ جمہوریت کوبھی تقویت دینی ہوگی۔کیو ں کہ اَب پارٹی کا روٹی ، کپڑا، مکان کا نظریہ پرانا ہوگیاہے ۔ اَب پارٹی کے نئے سربراہ کے ساتھ نئے نظریئے کو لے کر آگے بڑھنا ہوگا۔کچھ بھی ہے ۔مگراَب کوئی اِس گمان میں ہرگزنہ رہے کہ پرانے سیاسی شکاری نئے جال کے ساتھ ووٹرز کوبیوقوف بنالیں گے۔

حصہ

جواب چھوڑ دیں