ٹرمپ، یروشلم کی تاریخ اور مسلمان

                یرو شلم جس کو القدس اور بیت المَقدِس بھی کہا جاتا ہے اس کو امریکہ کے صدر ٹرمپ نے اسرائیل کا دارالحکومت قرار دے کر پوری دنیا میں ایک آگ بھڑکانے کا ماحول پیدا کردیا ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ یہود ہوں یا نصاریٰ، کبھی مسلمانوں کے دوست نہیں ہو سکتے لیکن دنیا بھر کے مسلمان نہ جانے کیوں ان سے بے پناہ محبت کرتے ہیں اور اپنی ہر پریشانی کا علاج ان ہی کو سمجھ تے ہیں۔ بے شک امریکہ کی یا یہود و نصاریٰ کی پالیسیاں ماضی میں بھی مسلمانوں کے حق میں نہیں رہیں لیکن جس قدر کھل کر مسلمانوں کے خلاف ”ٹرمپ“ کے دورمیں باتیں ہو رہی ہیں یا پالیسیاں بنائی جا رہی ہیں ایسا ماضی میں کبھی نہیں ہوا۔ یوں لگتا ہے کہ ہر آنے والا دن مسلمانوں کے لئے دشوار سے دشوار تر ہوتا جا رہا ہے اور کچھ معلوم نہیں کہ اس دشواری سے نکلنے کیلئے مسلمان ممالک کسی جد و جہد میں مصروف بھی ہیں یا نہیں۔ بظاہر تو ہر جانب ایسا نظر آتا ہے کہ جتنی بھی مسلمان ریاستیں ہیں، بالخصوص عرب مسلمان ریا ستیں، ان کو صرف اس بات سے غرض ہے کہ ان کی اپنی اپنی ”گدیاں“ سلامت رہیں۔

حال ہی میں اکتالیس (41) عرب ممالک کی ایک مشترکہ فورس بنائی گئی ہے لیکن لگتا ہے کہ یہ فورس بھی محض اس لئے ہے کہ بادشاہوں کے تخت و تاج سلامت رہیں یا مسلمانوں کے چند مقامات مقدسہ محفوظ رہیں۔ مزے کی بات یہ ہے کہ ان مقامات کو بھی فی الحال مسلمانوں ہی سے خدشہ ہے گویا تحفظات کے نام پر بھی دونوں جانب سے خون مسلمانوں کا ہی بہنا ہے۔

                نائن الیون کے بعد سے پوری امت مسلمہ پر ایک ایسا دباو آگیا ہے جو کسی صورت میں ٹلنے کا نام ہی نہیں لے رہا۔ المیہ یہ ہے کہ مسلمان ممالک میں مسلمان جاگنے کیلئے تیار ہی نہیں۔ وہ آج تک اس بات کو ہی نہیں سمجھ پائے کہ ان کے گرد کس سازش کے تحت گھیرا تنگ کیا جارہا ہے۔ مسلمان ممالک کو اپنے ملک کے اندر تو ایک دوسرے کے خلاف کھڑا کر ہی دیا گیا ہے ساتھ ہی ساتھ ایک ملک کو دوسرے کے سامنے بھی لا کھڑا کیا ہے اور ہر ملک ایک دوسرے کے خاتمے کے در پے ہے۔ جنگ کے شعلے ہیں کہ بلند سے بلند تر ہوتے جا رہیں ہیں لیکن اس حدت کو اگر کوئی قوم محسوس نہیں کر رہی ہے تو مسلمان ہیں۔

                گزشتہ دنوں جملہ عرب ممالک ٹرمپ کی پالیسیوں کی لپیٹ میں اس وقت آگئے جب اس نے ان کو مشترکہ اسلامی فوج بنانے کا مشورہ دیا۔ مشترکہ اسلامی فوج تو بن گئی لیکن اب تک ان کی ساری کارروائیاں دہشتگردی کے خاتمے کے نام پر مسلمان ملکوں کے خلاف ہی عمل میں آتی رہی ہیں۔ دیکھنا یہ ہے کہ ٹرمپ کے اس اعلان کے بعد کہ یروشلم اسرائیل کا دارالحکومت ہوگا، کیا یہ 41 ممالک کی فوج یمن یا اسلامی ممالک ہی پر حملہ کرتی رہے گی یا اس کی توپوں کا رخ اسرائیل یا کسی بھی کافر ملک کی جانب مڑ جائے گا؟۔

                یرو شلم یا القدس یا بیت المقدس کیا ہے؟، اس کی مختصر تاریخ سے آگاہی کیلئے ایک مختصر نوٹ درج ذیل ہے تاکہ قارئین کو اس کے متعلق کچھ آگاہی ہو سکے۔

                یرو شلم جس کو القدس بھی کہا جاتا ہے ملک فلسطین میں واقع ہے لیکن فی زمانہ یہ شہر اسرائیل کے قبضے میں ہے۔ یہودیوں ، مسیحیوں اور مسلمانوں، تینوں کے نزدیک مقدس ہے۔ یہاں حضرت سلیمان کا تعمیر کردہ معبد ہے جو بنی اسرائیل کے نبیوں کا قبلہ تھا اور اسی شہر سے ان کی تاریخ وابستہ ہے۔ یہی شہر مسیح (ع)کی پیدائش کا مقام ہے اور یہی ان کی تبلیغ کا مرکز تھا۔ مسلمان تبدیلی قبلہ سے قبل تک اسی کی طرف رخ کرکے نماز ادا کرتے تھے۔ مکہ مکرمہ سے بیت المقدس کا فاصلہ تقریباً 1300 کلومیٹر ہے۔ شہر 31 درجے 45 دقیقے عرض بلد شمالی اور 35 درجے 13 دقیقے طول بلد مشرقی پر واقع ہے۔ بیت اللحم اور الخلیل اس کے جنوب میں اور رام اللہ شمال میں واقع ہے بیت المقدس کو یورپی زبانوں میں یروشلم بھی کہتے ہیں۔ بیت المقدس”سے مراد وہ “مبارک گھر” یا ایسا گھر ہے جس کے ذریعے گناہو ں سے پاک ہوا جاتا ہے۔ پہلی صدی (ق م) میں جب رومیوں نے یروشلم پر قبضہ کیا تو انہوں نے اسے”ایلیا” کا نام دیا تھا۔ بیت المقدس پہاڑیوں پر آباد ہے اور انہی میں سے ایک پہاڑی کا نام کوہ صیہون ہے جس پر مسجد اقصٰی اور قبة الصخرہ واقع ہیں۔ کوہ صیہون کے نام پر ہی یہودیوں کی عالمی تحریک صیہونیت قائم کی گئی۔

                حضرت یعقوب علیہ السلام نے وحی الٰہی کے مطابق مسجد بیت المقدس (مسجد اقصٰی) کی بنیاد ڈالی اور اس کی وجہ سے بیت المقدس آباد ہوا۔ پھر عرصہ دراز کے بعد حضرت سلیمان علیہ السلام (961 ق م) کے حکم سے مسجد اور شہر کی تعمیر اور تجدید کی گئی۔ اس لیے یہودی مسجد بیت المقدس کو ہیکل سلیمانی کہتے ہیں۔ سنہ 620ءمیں حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم جبریل امین کی رہنمائی میں مکہ سے بیت المقدس پہنچے اور پھر معراج آسمانی کے لیے تشریف لے گئے۔ یہ ایک ایسا شہر ہے جو تاریخ میں نہ جانے کتنی بار اجڑا اور نہ جانے کتنی بار آباد ہوا۔ ہیکل سلیمانی اور بیت المقدس کو 586ء(ق م) میں شاہ بابل (عراق) بخت نصر نے مسمار کر دیا تھا اور ایک لاکھ یہودیوں کو غلام بنا کر اپنے ساتھ عراق لے گیا۔ بیت المقدس کے اس دور بربادی میں حضرت عزیر علیہ السلام کا وہاں سے گزر ہوا، انہوں نے اس شہر کو ویران پایا تو تعجب ظاہر کیا کہ کیا یہ شہر پھر کبھی آباد ہوگا؟ اس پر اللہ نے انہیں موت دے دی اور جب وہ سو سال بعد اٹھائے گئے تو یہ دیکھ کر حیران ہوئے کہ بیت المقدس پھر آباد اور پر رونق شہر بن چکا تھا۔ بخت نصر کے بعد 539 ق م میں شہنشاہ فارس روش کبیر (سائرس اعظم) نے بابل فتح کر کے بنی اسرائیل کو فلسطین واپس جانے کی اجازت دے دی۔ یہودی حکمران ہیرود اعظم کے زمانے میں یہودیوں نے بیت المقدس شہر اور ہیکل سلیمانی پھر تعمیر کر لیے۔ یروشلم پر دوسری تباہی رومیوں کے دور میں نازل ہوئی۔ رومی جرنیل ٹائٹس نے 70ءمیں یروشلم اور ہیکل سلیمانی دونوں مسمار کر دیے۔

                تاریخ بتاتی ہے کہ 137 ق م میں رومی شہنشاہ ہیڈرین نے شوریدہ سر یہودیوں کو بیت المقدس اور فلسطین سے جلا وطن کر دیاتھا۔ چوتھی صدی عیسوی میں رومیوں نے عیسائیت قبول کرلی اور بیت المقدس میں گرجے تعمیر کیے۔

                نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم معراج کو جاتے ہوئے بیت المقدس پہنچے۔ 2ھ بمطابق 624ءتک بیت المقدس ہی مسلمانوں کا قبلہ تھا، حتی کہ حکم الٰہی کے مطابق کعبہ (مکہ) کو قبلہ قرار دیا گیا۔ 17ھ یعنی 639ءمیں عہد فاروقی میں عیسائیوں سے ایک معاہدے کے تحت بیت المقدس پر مسلمانوں کا قبضہ ہو گیا۔ خلیفہ عبد الملک کے عہد میں یہاں مسجد اقصٰی کی تعمیر عمل میں آئی اور صخرہ معراج پر قبہ الصخرہ بنایا گیا۔ سنہ 1099ءمیں پہلی صلیبی جنگ کے موقع پر یورپی صلیبیوں نے بیت المقدس پر قبضہ کر کے 70 ہزار مسلمانوں کو شہید کر دیا۔ 1187ءمیں سلطان صلاح الدین ایوبی نے بیت المقدس کو عیسائیوں کے قبضے سے چھڑایا۔ پہلی جنگ عظیم کے دوران انگریزوں نے بیت المقدس اور فلسطین پر قبضہ کر کے یہودیوں کو آباد ہونے کی عام اجازت دے دی۔ یہود و نصاریٰ کی سازش کے تحت نومبر 1947ءمیں اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے دھاندلی سے کام لیتے ہوئے فلسطین اور عربوں اور یہودیوں میں تقسیم کر دیا اور جب 14 مئی 1948ءکو یہودیوں نے اسرائیل کے قیام کا اعلان کر دیا تو پہلی عرب اسرائیل جنگ چھڑ گئی۔ اس کے جنگ کے نتیجے میں اسرائیلی فلسطین کے 78 فیصد رقبے پر قابض ہو گئے، تاہم مشرقی یروشلم (بیت المقدس) اور غرب اردن کے علاقے اردن کے قبضے میں آ گئے۔ تیسری عرب اسرائیل جنگ (جون 1967ء) میں اسرائیلیوں نے بقیہ فلسطین اور بیت المقدس پر بھی تسلط جما لیا۔ یوں مسلمانوں کا قبلہ اول ہنوز یہودیوں کے قبضے میں ہے۔ یہودیوں کے بقول 70ء کی تباہی سے ہیکل سلیمانی کی ایک دیوار کا کچھ حصہ بچا ہوا ہے جہاں دو ہزار سال سے یہودی زائرین آ کر رویا کرتے تھے اسی لئے اسے “دیوار گریہ” کہا جاتا ہے۔ اب یہودی مسجد اقصٰی کو گرا کر ہیکل تعمیر کرنے کے منصوبے بناتے رہتے ہیں۔ اسرائیل نے بیت المقدس کو اپنا دارالحکومت بھی بنا رکھا ہے۔

                کہا جاتا ہے کہ ٹرمپ کے اس فیصلے نے مسلم دنیا کو ہلا کر رکھ دیا ہے۔ نہ جانے وہ کونسی مسلم دنیا ہے جو ہل رہی ہے۔ مسلم دنیا تو اس وقت بھی نہ ہلی جب 1967ءمیں اسرائیل نے بیت المقدس پر قبضہ کر لیا تھا اور کئی عرب ممالک کی بنیادیں تک ہلا کر رکھ دی تھیں ۔ مسلم دنیا تو اس وقت بھی سوئی رہی تھی جب بیت المقدس کو یہودیوں نے آگ لگا دی تھی اور اس وقت کے ایک بڑے شاعر نعیم صدیقی (مرحوم) نے بڑے دکھ اور درد کے ساتھ یہ کہا تھا

لعنت خدا کی گردش لیل و نہار پر

اقصیٰ میں آکے آگ لگا دی یہود نے

                آج بھی 1967والے حالات ہیں۔ اس وقت یہودیوں نے اس علاقے کو فتح کیا تھا اور اب یہود یوںنے نصاریٰ کی مدد سے اس مقدس شہر کو اپنا دارالحکومت بنا نے کا واضح اعلان کر دیا ہے۔ ایسے موقعہ پر دیکھنا یہ ہے کہ مسلم امہ کی غیرت جوش و ولولے میں بدلتی ہے یا اس کی غیرت کی ساری چنگاریاں سرد پڑچکی ہےں۔ مجھے ایک مرتبہ پھر نعیم صدیقی یاد آرہے ہیں جنھوں نے ایسے موقعہ کیلئے ارشاد فرمایا تھا کہ

یروشلم یروشلم

 تو اک حریم محترم

ترے ہی سنگ در پہ آج منہہ کے بل گرے ہیں ہم

تجھے دیا ہے ہاتھ سے بزخم دل با چشم نم

                اورعالم اسلامی کی جانب سے اس عزم کا اظہار کیا تھا کہ

پھر ایک بار آئیں گے

یہ جانثار آئیں گے

اجل کی دوش پر سوار شہسوار آئیں گے

بصد وقار آئیں گے

 ترے وقار کی قسم

                مگر عالم اسلام اس وقت سے تا حال ایسا سویا کہ خواب غفلت سے بیدار ہی نہیں ہو کر دے رہا بلکہ ہرآٓنے والے وقت کے ساتھ اس کی نیند گہری سے گہری ہوتی جا رہی ہے۔

حصہ
mm
حبیب الرحمن ایک کہنہ مشق قلم کار ہیں وہ بتول، اردو ڈائجسٹ، سرگزشت، سنڈے میگزین(جسارت)، جسارت اخبار میں "صریر خامہ" ٹائیٹل اور کچھ عرحہ پہلے تک "اخبار نو" میں "عکس نو" کے زیر عنوان کالم لکھتے رہے ہیں۔انہوں نے جامعہ کراچی سے سیاسیات میں ماسٹرز کیا ہے۔معالعہ اور شاعری کا شوق رکھتے ہیں۔

جواب چھوڑ دیں