یروشلم۔۔ماضی قریب کے جھروکے سے

               حجاز کیلئے عازمین حج کی آمد کا سلسلہ شروع ہونے والاہے۔سعودی حکومت دنیا بھر سے آنے والے عازمین حج و عمرہ کیلئے ہر قسم کی سہولت فراہم کرنے کی کوشش کررہی ہے۔گذشتہ سال ایرانی عازمین حج ،حج کی سعادت سے محروم رہے اور اس سال سعودی عرب ، عرب امارات، بحرین ، مصر نے قطر پر دہشت گردی کی سرپرستی کرنے کا الزام عائد کرکے اس کے ساتھ سفارتی تعلقات منقطع کرلئے ہیں اوراس پرمکمل پابندیاں عائد کردی گئیں۔ قطر کی ایئرلائنس کو بھی سعودی عرب آنے کی اجازت نہیں جس کی وجہ سے قطر سے آنے والے 20 ہزارعازمین حج و عمرہ کے لئے دشواریاں پیدا ہوسکتی ہیں۔ سعودی حکومت کا کہنا ہے کہ قطر سے آنے والے عازمین حج و عمرہ انکے ساتھ معاہدہ کئے ہوئے ایئر لائنس کے ذریعہ ہی جدہ اور مدینہ منورہ آسکتے ہیں۔ قطری حکومت نے سعودی عرب پر الزام عائد کیا ہے کہ قطری عازمین حج کے لئے سعودی حکومت مسائل پیدا کررہی ہے اور حج کے موقع پر قطری عازمین کی سلامتی کا ذمہ نہیں لے رہی ہے جبکہ سعودی حکومت کا کہنا ہے کہ وہ قطری عازمین حج کو دیگر عازمین کی طرح ہی تمام سہولیات فراہم کریں گی۔ حج کے لئے صرف چند ہفتے باقی رہ گئے ہیں گذشتہ دنوں سعودی عرب نے حوثی باغیوں پر الزام عائد کیا کہ وہ مکہ کو نشانہ بنانے کے لئے میزائل داغا ہے۔ سعودی عرب کا کہنا ہے کہ سعودی ایئر ڈیفنس فورسز نے حوثی باغیوں کا مکہ کی طرف داغا گیا میزائل فضا میں ناکارہ بنادیا سعودی خبر رساں ادارہ نے عرب اتحاد کی کمانڈ کے جاری بیان کے حوالہ سے بتایا کہ حوثیوں کی طرف سے داغا گیا میزائل صوبہ الطائف کے الوسلیہ نامی علاقہ کے اوپر ناکارہ بنایا گیا۔ اور یہ علاقہ مکہ سے 69 کلومیٹر کے فاصلے پر واقع ہے۔کہا جارہا ہے کہ میزائل حملہ سے کسی قسم کا کوئی جانی و مالی نقصان نہیں ہوا۔ سعودی عرب کی جانب سے کہا جارہا ہے کہ حوثیوں کا یہ حملہ حج سیزن کو سبو تاڑ کرنے کی کوشش تھی جو کہ ناکام بنادی گئی۔ اس سے قبل بھی حوثی باغیوں کی جانب سے طائف کے فوجی اڈے کو نشانہ بنانے کی کوشش کی گئی تھی جسے ناکام بنادیا گیا تھا۔ یمن سے داغے گئے اس میزائل حملے کا نشانہ مکہ بتایا جارہا ہے لیکن اس سے قبل حوثی باغیوں کے ایک قائد نے کہا تھا کہ وہ مکہ معظمہ کی عظمت و تقدس کو اسی طرح سمجھتے ہیں جس طرح ایک عام مسلمان سمجھتا ہے۔ اگر اس بات میں صداقت ہے تو سعودی عرب کا الزام جھوٹا ثابت ہوگا۔

مشرقِ وسطیٰ کے حالات سدھرنے کے بجائے مزید خراب ہوتے جارہے ہیں ایک طرف ان ممالک کے درمیان اتحاد ٹوٹ چکا ہے تو دوسری جانب قبلہ اول میں اسرائیلی فوج و پولیس کی ظلم و زیادتی اور بربریت میں مسلسل اضافہ ہورہا ہے۔ عالمِ اسلام کے حکمراں قبلہ اول پر اسرائیلی بربریت کے خلاف کچھ کہنے کے موڈ میں دکھائی نہیں دیتے۔ ترکی، قطر اور ایران نے اسرائیلی بربریت کے خلاف آواز اٹھائی ہے جبکہ سعودی عرب، عرب امارات، بحرین، کویت، عمان، مصر، پاکستان، افغانستان اور دوسرے اسلامی ممالک کو بھی فلسطینیوں کے حق میں احتجاج کرنا چاہیے۔ کئی بے گناہ فلسطینی مرد و خواتین اور بچے اسرائیلی بربریت کا شکار ہورہے ہیں انہیں مسجد اقصیٰ میں جانے کی اجازت نہیں اور جو اس مقدس مقام میں جانے کی کوشش کررہے ہیں انہیں سیکیوریٹی کے نام پر سخت تلاشی دینی پڑرہی ہے۔ ہزاروں فلسطینی مسلمان بیت المقدس میں نماز پڑھنے سے محروم کئے جارہے ہیں اسرائیل کی جانب سے سخت سیکیوریٹی آلات کے استعمال کے خلاف فلسطینی عوام احتجاج کررہے ہیں اور ان احتجاج کرنے والوں کے خلاف اسرائیلی فوج اور پولیس ظلم و زیادتی کرتے ہوئے اب تک 400سے زائد فلسطینیوں بشمول خواتین و بچوں کو حراست میں لے لی ہے مسجد اقصیٰ کے امام اور فلسطین کی سپریم علماءکونسل کے چیئرمین “الشیخ عکرمہ صبری “نے ان عرب و مسلم حکمرانوں کی خاموشی پر تبصرہ کرتے ہوئے اسے انتہائی شرمناک قرار دیا۔”الشیخ عکرمہ صبری”نے عرب ممالک کے حکمرانوں کی جانب سے مسجد اقصیٰ کیلئے خاموشی پر کہا کہ مسجد اقصیٰ بیت المقدس ،فلسطینی قوم کی قربانیوں کی بدولت کھولی گئی ہے، اس میں کسی عرب ملک کا کوئی کردار نہیں ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ اسرائیلی پولیس اور اسرائیلی فوجی ظلم و بربریت پر خاموش تماشائی رہنے والے قبلہ اول کھلنے کا مفت میں کریڈٹ اپنے نام کرنے کی شرمناک کوشش کررہے ہیں۔مرکزاطلاعات فلسطین کے مطابق الشیخ عکرمہ صبری نے کہا کہ میں حیران ہوں کہ وہ عرب لیڈر جنہوں نے قبلہ اول کیلئے کچھ بھی نہیں کیا وہ بھی مسجد اقصیٰ کو کھولے جانے کا کریڈٹ لے رہے ہیں۔انکا کہنا تھا کہ مسجد اقصیٰ پر عائد اسرائیلی پابندیاں فلسطینی قوم کی مسلسل قربانیوں اور احتجاج کے بعد ہٹائی گئی ہیں۔ فلسطینی نمازیوں نے اپنی جانوں پر کھیل کر قبلہ اول کو اسرائیلی پابندیوں سے آزاد کرایا ہے۔ انہوں نے کہا کہ بعض عرب قائد یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ مسجد اقصیٰ پر عائد کردہ پابندیاں ان کی مساعی سے ہٹائی گئی ہیں وہ فلسطینی قوم اور پوری دنیا کو بے وقوف بنا رہے ہیں۔ عرب ممالک کا دفاع قبلہ اول کے حوالے سے کردار انتہائی شرمناک رہا ہے۔

                یہ وہ سر زمین ہے جس کیلئے قرآن میں ارشاد پاک ہے، “پاک ہے وہ جو لے گیا ایک رات اپنے بندے کو مسجد حرام سے دور کی اس مسجد، مسجد اقصیٰ تک جس کے ماحول کو اس نے برکت دی ہے تاکہ اِسے اپنی نشانیوں کا مشاہدہ کرائے”۔ (سورت بنی اسرائیل آیت نمبر 1) مقدس گھر، مسلمانوں کا قبلہ اول ، عظیم عبادت گاہ جس کی بنیاد پیغمبر حضرت داؤد علیہ السلام نے رکھی اور جس کی تکمیل حضرت سلیمان علیہ السلام کے دور میں ہوئی ، یروشلم عام طور پر جسے بیت المقدس کہا جاتا ہے۔ اِس شہر کو نوع انسانی عزت و احترام کی نگاہ سے دیکھتی ہے۔ جس کا ذرہ ذرہ مقدس ، اکثر انبیاءعلیہ السلام جہاں معبوث ہوئے۔ یہ شہر مسلمانوں، عیسائیوں اور یہودیوں کے لئے یکساں متبرک ہے۔ نبی آخر الزماں (ص) اپنے صحابہ سمیت ہجرت کے سترہ ماہ بعد تک جس کی طرف رخ کر کے نماز پڑھتے رہے۔ آپ (ص)کو معراج پر لے جایا گیا تو مسجد اقصیٰ آپ (ص) کی پہلی منزل بنی۔ اِس مقام پر آپ (ص) کو سابق انبیاءکی امامت کا اعزاز حاصل ہوا۔

                یروشلم وہ شہر پر نور ہے جہاں داؤد علیہ السلام نے 33 سال حکومت کی۔ حضرت داؤد و سلیمان اور دیگر کئی انبیا اس مقدس شہر میں مدفن ہیں۔ حضرت عمر جب بیت المقدس فتح کیا تو اس وقت یہودیوں کے معبد کے بجائے یہاں کھنڈرات موجود تھے۔ حضرت فاروق اعظم کے حکم پر یہاں مسجد کی تعمیر ہوئی، صلیبیوں نے مسجد پر قبضہ کیا تو مسجد اقصیٰ میں بہت رد و بدل کیا گیا ،رہائشی کمرے تعمیر کئے گئے اور اِس کا نام معبد سلیمان رکھا۔ صلاح الدین ایوبی نے جب بیت المقدس کو فتح کیا تو مسجد اقصیٰ کی از سرنو تعمیر کی۔جنگ عظیم اول دسمبر1917ءمیں انگریزوں نے بیت المقدس و فلسطین پر قبضہ کر کے یہودیوں کو آباد کیا۔نومبر 1947ءمیں اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے فلسطین کو عربوں اور یہودیوں میں تقسیم کر دیا۔ 14 مئی 1948ءکو یہودیوں نے اسرائیل کے قیام کا اعلان کیا تو عرب اسرائیل جنگ کے بعد یہودیوں نے 78 فیصد رقبے پر قبضہ کر لیا۔ جون 1967ءمیں دوران جنگ اسرائیلیوں نے بقیہ فلسطین اور بیت المقدس پر بھی قبضہ کر لیا۔آزادی فلسطین کے لئے الفتح و حزب اللہ بھی کوششیں کر رہی ہیں مگر آزادی فلسطین اور اسرائیلی جارحیت کے خلاف سب سے بڑی مزاحمت کی تحریک حماس ہے جو وسائل کی عدم دستیابی کے باوجود سرزمین انبیا کی آزادی کے لئے برسرپیکار ہے۔

                حماس سیاسی پلیٹ فارم سے بھی اپنی جدوجہد جاری رکھے ہوئے ہے مگر اس کے سیاسی شعبے کے سربراہ جناب خالد مشعل کا کہنا ہے کہ غزہ کی پٹی پر آٹھ روزہ جنگ میں فلسطینیوں نے ماضی کے برعکس لڑائی اور بات چیت کا منفرد تجربہ کیا ہے۔ ماضی کی نسبت فلسطینیوں کا کم جانی نقصان ہوا، ہم نے صہیونی دشمن کو منہ توڑ جواب دے کر اپنی صلاحیت آشکار کی ہے۔ خالد مشعل نے کہا کہ مسئلے کا سیاسی حل تلاش کرنا ہے تو لامحالہ جنگ میں بھی آپ کی حیثیت مضبوط ہونی چاہیے۔ حماس کے جانثاروں نے دشمن کو محاذ جنگ پر شکست دے کر سیاسی میدان میں اپنی شرائط پر جنگ بندی کراکے دشمن کو سیاسی میدان میں شکست سے ہمکنار کیا ہے۔ مشعل نے کہا کہ سیاسی میدان میں اپنی شرائط ہم محض میدان جنگ میں کامیاب حکمت عملی کے ذریعے منوا سکتے ہیں اِس لئے مسلم امہ فلسطینیوں کو فوجی امداد فراہم کرے۔ حماس جہاں میدان جنگ و سیاست میں اپنی جدوجہد جاری رکھے ہوئے ہے وہیں اس کے بہی خواہ دیگر محاذوں پر بھی اسے فتح سے ہمکنار کرنے کیلئے مصروف عمل رہتے ہیں۔

                اس وقت عالم یہ ہے کہ چہار جانب سے مسلمان بین الاقوامی سازشوں کا شکار ہیں جس کے نتیجے میں وہ آپس میں ہی دست و گریبان ہیں اور ایک دوسرے کا خون بہانے میں مصروف ہیں ۔ حال ہی میں سعودی عرب نے تمام اسلامی (عرب، سنی) ممالک کی ایک بہت مضبوط فوج تیار کی ہے لیکن افسوس کا مقام یہ ہے کہ اس فوج کے منشور میں اسرائیل کے خلاف کسی بھی عزم کا اظہار موجود نہیں اور نہ ہی مظلوم فلسطینیوں کے لئے کوئی نرم گوشہ رکھا گیا ہے۔ کھرب ہا کھرب ڈالرز کا اسلحہ بھی خریدا گیا ہے لیکن یہ سب اسلحہ محض سعودی مخالفین ممالک کے خلاف استعمال کیا جا رہا ہے۔ نہ جانے وہ دن کب آئے گا جب ہم اپنے دوستوں اور دشمنوں میں تمیز کر سکیں گے اور اپنی صلاحیتوں کو حقیقی دشمنوں کے خلاف استعمال کریں گے۔(بیشتر معلومات کی فراہمی کیلئے میں جناب بھائی “شکیل ترابی”آزاد کشمیرکا شکر گزار ہوں)۔

حصہ
mm
حبیب الرحمن ایک کہنہ مشق قلم کار ہیں وہ بتول، اردو ڈائجسٹ، سرگزشت، سنڈے میگزین(جسارت)، جسارت اخبار میں "صریر خامہ" ٹائیٹل اور کچھ عرحہ پہلے تک "اخبار نو" میں "عکس نو" کے زیر عنوان کالم لکھتے رہے ہیں۔انہوں نے جامعہ کراچی سے سیاسیات میں ماسٹرز کیا ہے۔معالعہ اور شاعری کا شوق رکھتے ہیں۔

جواب چھوڑ دیں