پنچ کہیں بلی تو بلی سہی

چیف جسٹس پاکستان جسٹس ثاقب نثار نے سندھ میں پیپلزپارٹی کی سابقہ حکومت کی کارکردگی پر برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ سندھ میں گورننس نام کی کوئی شے نہیں۔ چیف صاحب کی اس بات پر مجھے اپنے بچپن کی ایک بات یاد آگئی۔ جب بات یاد آہی گئی ہے تو کیوں نہ آپ سب کو اس کا حصے دار بنالوں۔ بس میں سفر کے دوران کسی بزرگوار نے مجھ سے پوچھا کہ صاحب زادے کیا بجا ہے۔ یہ وہ زمانہ تھا جب کلائی گھڑیوں کا بڑا رواج تھا۔ ان کا سوال سن کر میری رگ ظرافت پھڑک اٹھی۔ میں نے کہا جناب آپ جو بھی فرمائیں بجا ہے۔ اس جواب پر بعد کی کہانی کیا سے کیا بنی وہ پھر کبھی اور کسی وقت کیلئے اٹھا رکھتا ہوں یہاں جو بات عرض کرنا چاہتا ہوں وہ یہ ہے کہ چیف صاحب آپ جو بھی کہتے ہیں اس کو کون بے جا کہہ سکتا ہے۔ چند ہفتوں قبل کی بات ہے جب آپ نے اپنی عادت کے مطابق کراچی کے دورے کے دوران ارشاد فرمایا تھا کہ کراچی میں صفائی کی صورت حال نہایت ناقص ہے اور سندھ حکومت کو وارننگ دی تھی کہ وہ چند دنوں میں کراچی کا سارا کچرا اٹھالے ورنہ ان کے خلاف کوئی اور کارروائی کرنا پڑے گی۔ کراچی میں کچرے کی صورت حال کوئی اسی وقت خراب نہیں ہوئی تھی جب آپ نے وہاں کا دورہ کیا بلکہ یہ صورت حال تو اس وقت سے خراب ہونا شروع ہو گئی تھی جب پی پی پی کے دور میں پورے بلدیاتی نظام کو یہ کہہ کر تباہ کر دیا تھا کہ یہ نظام ایک فوجی جرنیل کا بنایا ہوا ہے اس لئے ہم اس نظام کا قلع قمع کرکے رکھ دیں گے اور پھر قوم نے دیکھا کہ پورے پاکستان میں اس نظام کو اس بری طرح تباہ و برباد کیا گیا کہ صرف کراچی ہی نہیں پورا پاکستان گندگی کا ڈھیر بن گیا لیکن آپ کی عدالت کی ناک میں اس کچرے کی “بو” تک نہ پہنچی۔ سیاست دانوں کو علم تھا کہ کچھ بھی ہو اس نظام کو جلد یا بدیر بحال تو کرنا ہی پڑے گا لہٰذا اپنی واضح اکثریت کا فائدہ اٹھا کر(خاص طور سے سندھ اور پنجاب میں) انھوں نے لوکل حکومت کے قوانین کا اس بری طرح پوسٹ مارٹم کیا کہ قانون کے بدن کے چیتھڑے بکھیر کر رکھ دیئے اور لوکل حکومت کے منتخب اراکین کو بھنگیوں سے بھی بد تر کر کے رکھ دیا۔ ایسے عالم میں میں آپ کا انصاف جاگا اور حکم ہوا کہ انتخابات کرائے جائیں۔ پاکستان کے تمام دانشوروں نے آپ کے انصاف کو پکارا اور مقدمہ کیا کہ انتخابات سے قبل جن اختیارات کی شکل و صورت بگاڑ کر رکھ دی ہے ان کو اجالا جائے لیکن میرے نزدیک آپ اس سنگین مذاق میں برابر کے شریک رہے اور ان تمام درخواستوں کو بیک جنبش قلم مسترد کردیا اور اختیارات کی بگڑی ہوئی شکل کو قبول کرلیا گیا۔ تمام تر بے اختیاری کے ساتھ منتخب مقامی حکومتوں کے ساتھ ایک مذاق یہ بھی کیا گیا کہ ان سے کارکردگی کا مطالبہ بھی آپ ہی کی جانب سے مسلسل آتا رہا لیکن ایک مرتبہ بھی اس بات پر غور نہیں کیا گیا کہ آخر بے اختیاروں سے حساب کتاب طلب کرنا کہاں کا اور کس قسم کا انصاف ہوگا؟۔

مقامی حکومتوں کو اختیارات نہ دینے کا مطلب اس کے علاوہ اور کچھ نہیں ہوسکتا تھا کہ وہ چور اور ڈاکو جو ممبر آف قومی اسمبلی یا ممبر آف صوبائی اسمبلی کہلاتے ہیں ان کے ہاتھوں سے سارے ترقیاتی فنڈز نکل جاتے اور جو پیسہ وہ الیکشن میں دریا کی طرح لنڈھاتے ہیں ان کو دوگناہ یا چارگناہ کرنے کا موقعہ انھیں کیسے نصیب ہوتا۔ اس کے علاوہ اگر کوئی اور وجہ سمجھ میں آتی ہوتو کیا ہی خوب ہو اگر عام لوگوں کی معلومات کیلئے اسے بیان کر دیا جائے۔

کراچی ویسے ہی کچرے کا ڈھیر تھا لیکن جب آپ نے آکر کہا کہ کراچی کچرستان بنا ہوا ہے تو گویا آپ نے مہر تصدیق ثبت کردی لیکن حیرانی کی بات یہ ہے کہ ابھی چند دن ہی گزرے تھے کہ آپ نے ایک اور دورہ دے مارا اور کراچی کی صفائی ستھرائی پر سندھ حکومت کی تعریفوں کے وہ پل باندھے اور کراچی کو ایسا صاف سکھرا شہر قرار دیا کہ یورپی ممالک بھی شک میں پڑگئے کہ ان کے شہر تو دھول مٹی بھی نہیں۔ اب آپ سے کون پوچھے کہ جب کراچی کچرے کا ڈھیر نظر آرہا تھا تو زیر عتاب ایک بے اختیار کراچی کا میئر تھا جو گردن خم کئے جی جناب جی جناب کر رہا تھا اور جب آپ کے چشمے میں کراچی صاف ستھرا، چمکتا دمکتا اور بقول آٓپ جھلمل جھلمل کراتا شہر نظر آنے لگا تو آپ نے میئر کی بجائے مراد علی شاہ کی تعریفوں کے پہاڑ کھڑے کر دیئے۔ اس صورت حال کو سامنے رکھتے ہوئے یہی کہا جاسکتا ہے کہ “بجا وہی ہے جو آپ فرمائیں”۔ لائق دار ٹھہرے جو “بیجا” کہنے کی گستاخی کرے۔

ویسے ایک بات ہے، میرے منھ میں خاک، بقول آپ کے سندھ میں گورننس نام کی کوئی شے ہے ہی نہیں۔ میں کیا، آپ کیا، پاکستان کیا پوری دنیا ایسا ہی کہتی ہے لیکن کیا پاکستان میں پاکستان کی ہر قسم کی عدالت میں “عدل” نام کی کوئی شےموجود ہے؟۔ نامعلوم ناصح گڑ کھانا چھوڑے بغیر کیسے اس بات کی جرات کر لیتے ہیں کہ دوسروں سے یہ کہیں کہ تم گڑ کھانا چھوڑ دو۔

مائی باپ جو چاہے فرما سکتے اور جس لب و لہجے میں چاہیں سامنے والے کو مخاطب کر سکتے ہیں۔ فرماتے ہیں حالانکہ اعلیٰ طرفوں کو اعلیٰ ظرفی کا مظاہرہ ہی اچھا لگتا ہے فرماتے ہیں ” سابق وزیراعلیٰ سندھ مراد علی شاہ کہاں ہیں؟ وہ کراچی میں ہیں تو انہیں بلاکرکارکردگی کا پوچھیں۔ مراد علی شاہ نے ذمہ داری ادا نہیں کی ، کیا مراد علی شاہ پھر الیکشن لڑ رہا ہے؟ ذمے داری ادا نہ کرنے والا الیکشن کے لیے کیسے اہل ہوسکتا ہے؟ کہاں ہے مراد علی شاہ بلاؤ اسے، یہاں کوئی کام کرنے کو تیار نہیں۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ جس طرح مراد علی شاہ کی کارکردگی ہے کیا وہ اگلا الیکشن بھی لڑرہے ہیں؟ سندھ اور دیگر صوبوں کی کارکردگی میں واضح فرق نظر آتا ہے”۔

اس میں کوئی شبہ نہیں کہ مراد علی شاہ کی وہ کارکردگی نہیں رہی جو ایک بااختیار وزیراعلیٰ کی ہو سکتی تھی لیکن غور طلب بات یہ ہے کہ کیا مراد علی شاہ ان کے چیف بننے سے قبل سندھ کی وزارت عضمیٰ پر فائز ہوئے تھے؟۔ جس وقت وہ وزارت اعلیٰ کی کرسی پر متمکن تھے یہ بات تو اس وقت کرنے کی تھی۔ جب سانپ گزرجائے تب لکیر پیٹنے کا کبھی کسی کو بھی فائدہ ہوا ہے؟۔ البتہ ایک بات انھوں نے بہت ہی عمدہ کہی کہ ایک ناکارہ و نااہل فرد کو الیکشن لڑنے کا کوئی حق نہیں پہنچتا۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ ملک کی سب سے بڑی عدالت کا سب سے بڑا جج جب ایک فرد کو نااہل قرار دے چکا ہے اور وہ کسی بھی سطح پر اس کو الیکشن لڑنے کی اجازت دینے کیلئے تیار نہیں تو اب فقط اتنا دیکھنا ہے کہ یہ زبان واقعی کسی منصف اعلیٰ کی ہے یا گھٹیا قسم کے کسی سیاسی لیڈر کی جس کے منھ میں ہمیشہ دو دو تین تین زبانیں ہوتی ہیں اور وہ ساری کی ساری زہر میں بجھی ہوتی ہیں، جھوٹ ہوتی ہیں، مکر ہوتی ہیں اور سراسر فریب ہوتی ہیں۔

عدالتی کارروائی کے دوران چیف جسٹس نے مزید کہا کہ “عدالت عظمیٰ نے شہر سے تمام آئل ٹینکرز 4 روز میں منتقل کرنے کا حکم دے دیا۔ عدالت عظمیٰ کراچی رجسٹری میں ذوالفقار آباد منتقلی سے متعلق عدالتی حکم کے بعد میئر کراچی اور آئل ٹینکر ایسوسی ایشن کے نمائندوں کے دورے کے بعد عدالت عظمیٰ میں رپورٹ پیش کی گئی جہاں چیف جسٹس کا دوران سماعت کہنا تھا کہ دیکھتا ہوں ملک میں قانون کی بالادستی میں کون رکاوٹ بنتا ہے۔، کسی کو ملک کا پیسہ کھانے نہیں دوں گا۔ میئر کراچی نے کمیٹی کی رپورٹ عدالت میں پیش کی جس میں کہا گیا کہ ذوالفقار آباد آئل ٹرمینل تیار ہے۔1300ٹینکرز پارک کرنے کی گنجائش ہے”۔ عدالت کا ایسا ہی حکم آج سے کافی مدت قبل بھی سامنے آیا تھا جس پر کچھ عرصہ کیلئے لئے تو عمل کیا گیا تھا لیکن جیسا ہوتا آیا ہے شاید وہی کیا گیا تھا کہ بلا (حکم) کسی طرح ٹال دی جائے سو ایسا ہی کیا گیا ہوگا۔ چیف صاحب کا دوبارہ اسی قسم کا حکم جاری کرنا اس بات کی جانب واضح اشارہ ہے کہ پاکستان میں ہر کام ایسا ہی کوئی منظر پیش کررہا ہوتا ہے۔ چیف صاحب نے کہا صفائی کرو، کردی۔ کہا ناجائز تعمیرات ڈھادو، ڈھادی گئیں۔ کہا ٹینکرز شہر سے باہر نکالو وہ بھی دکھانے کیلئے نکال دیئے گئے۔ حکم جو تھا عمل کردیا لیکن اس حکم میں یہ بات کب شامل تھی کہ صفائی کرنے کے بعد پھر بھی صفائی جاری رکھنی ہے، ناجائز تعمیرات ڈھانے کے بعد دوبارہ تعمیرات نہیں کی جا سکتیں، بل بورڈ ہٹانے کے بعد دوبارہ نہیں لگائے جاسکتے اور ٹینکرز شہر سے باہر نکال دیئے جانے کے بعد دوبارہ شہر میں داخل نہیں کئے جاسکتے؟۔ حکم تھا مان لیا گیا تھا دوبارہ حکم جاری ہوا ہے تو حاضر سائیں جو آپ کا حکم۔ ان تمام باتوں کے بعد چیف صاحب کا یہ فرمانا کیسے بجا ہو سکتا ہے کہ ” دیکھتا ہوں ملک میں قانون کی بالادستی میں کون رکاوٹ بنتا ہے”۔ قانون کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ خود قانون یا پھر بار بار کا عدالتی حکوم ہی ہے۔ ایک حکم کے بعد اسی حکم کو دوبارہ جاری کرنے کا مطلب اس کے علاوہ اور کچھ نہیں ہوتا کہ پہلا والا جاری کیا گیا حکم منسوخ تصور کیا جائے۔ جب احکامات جاری کر دیئے گئے تھے تو پھر حکم نہیں توہین عدالت کا قانون لاگو ہوتا ہے اگر توہین عدالت کا حکم جاری کرنے کی بجائے حکم پر ایک اور حکم دیا جارہا ہو تو عدالت کو دوسروں سے قبل خود اپنے متعلق غور کرنے کی زیادہ ضرورت ہے۔ لہٰذا وہ رکاوٹ بننے والوں کی کھوج میں نہ لگے بلکہ ان تمام محکموں اور افراد کے خلاف توہین عدالت کے نوٹسز جاری کرے جنھوں نے عدالتی احکامات جاری ہونے کے باوجود ان کو ماننے یا ان پر عمل در آمد کرنے سے اجتناب کیا۔

چیف جسٹس کے تمام اقدامات قابل داد اور لائق تحسین سہی سندھ کے عوام کو ان سے یہ سوال کرنے کا پورا پورا حق ہے کہ آج سے تقریباً چار سال قبل جب پورے پاکستان میں نیکٹا اور ضرب عضب کے تحت آپریشن کیا جارہا تھا تو پاکستان میں سب سے سے زیادہ دباؤ سندھ حکومت پر ہی تھا اور ہر روز ایسا محسوس ہوتا تھا کہ جیسے سندھ حکومت کا کسی بھی وقت دھڑم تختہ ہو سکتا ہے اور گورنر راج لگایاجاسکتا ہے۔ یہ وہ دور تھا جب قائم علی شاہ سندھ کے وزیر اعلیٰ ہوا کرتے تھے۔ اس زمانے میں سندھ کے وڈیروں کی زمینوں سےد و دو سو کلو سونا بر آمد ہوا کرتا تھا۔ کھربوں روپوں کی نقد کرنسیاں برآمد ہوا کرتی تھیں اور سندھ میں جانے والی رینجرز کی پارٹیوں کو گھیر کر ان کی وردیاں اور اسلحہ جھین لینے کے بعد ان کی چھترول کرکے بھیج دیاجاتا تھا۔ جب شرجیل میمن جیسے لوگوں کے گھروں سے قارون کے خزانے نکلا کرتے تھے۔ ایان علیائیں رنگے ہاتھوں پکڑی جاتی تھیں اور کراچی میں ریجرز کو مزید “90” دن کی توسیع کیلئے اپنی آنکھیں لال پیلی کرنا پڑتی تھیں۔ یہی نہیں بلکہ ان حالات میں “مسٹر ٹین پرسینٹ” گھبرا کر “اینٹ سے اینٹ” بجانے کی دھمکیاں دیتے پھرتے تھے۔ لیکن ہوا ہوں کہ اچانک سندھ کا وزیر اعلیٰ بدل گیا اور اقتدارایک شاہ سے دوسرے شاہ تک منتقل ہو گیا۔ مراد علی شاہ کا آنا تھا کہ نہ کسی کو دو دو سو کلو سونا یاد رہا، نہ کھنکھناتے نوٹ کورے نوٹ اور نہ ایان علیائیں اور نہ ہی اینٹ کا جواب پتھر سے دینا بلکہ ایسا لگا کہ سندھ کے تمام وڈیرے اور حکومت پر بیٹھے سارے چہرے نورانی ہو گئے ہوں۔ وہ دن اور آج کا دن، کسی نے پلٹ کر ان سے یہ نہیں پوچھا کہ آپ اچانک ابلیس سے فرشتہ صفت کیسے ہو گئے؟۔ کیا سندھ حکومت پر دبآ محض اس لئے تھا کہ وہاں کا وزیر اعلیٰ و گورنر پسند نہیں تھے یا پھر کوئی اور راز؟۔ اب اگر میں اس کو لین دین کی اعلیٰ ترین مثال سمجھ بیٹھوں اور اس کا اظہار بر سر محفل یا بازار کر بیٹھوں تو لائق طوق و سلاسل قرار دیا جاؤں۔ بے شک ہر عام و خاص کو یہ سوال چیف صاحب سے ضرور پوچھنا چاہیے لیکن میں اس سوچ میں ہوں کہ ہم میں سے وہ کونساچوہا ہے جو بلی کے گلے میں گنٹی لتکا نے کی جرات کر سکتا ہے۔

حصہ
mm
حبیب الرحمن ایک کہنہ مشق قلم کار ہیں وہ بتول، اردو ڈائجسٹ، سرگزشت، سنڈے میگزین(جسارت)، جسارت اخبار میں "صریر خامہ" ٹائیٹل اور کچھ عرحہ پہلے تک "اخبار نو" میں "عکس نو" کے زیر عنوان کالم لکھتے رہے ہیں۔انہوں نے جامعہ کراچی سے سیاسیات میں ماسٹرز کیا ہے۔معالعہ اور شاعری کا شوق رکھتے ہیں۔

جواب چھوڑ دیں