گوشت تو ہوا حرام مگر۔۔۔؟

                آج کل گدھوں، گھوڑوں، کتوں اور خنزیروں کے گوشت فروخت کرنے کا بہت شور سنائی دے رہا ہے۔حرام گوشت کی تجارت کرنے والوں پر جتنی بھی لعنت ملامت کی جائے اور جوسزابھی مقرر کی جائے وہ ان کے جرم سے بہت ہی کم ہوگی، حرام گوشت تو ہوا حرام لیکن جس آمدنی سے لوگ حلال گوشت خریدنے نکلتے ہیں کیا وہ حلال ہے؟، اس پر کس نے کتنا غور کیا ہے۔ کیا سود کا کارو بار حلال ہے، کیا رشوت حلال ہے، کیا لوٹ کا مال حلال ہے، کیا چوری چکاری حلال ہے، کیا جھوٹ بول کر مال بیچنا حلال ہے، کیا کم تولنا حلال ہے، کیا جہیز پر اصرار کرنا حلال ہے، کیاحلال مال کی زکوٰة ادا نہ کر نے کے باوجود وہ حلال مال حلال ہے، کیا رات دن اللہ تعالیٰ کی عبادت سے غفلت برتنا اور اس پر مطمئن رہنے کے بعد یہ سمجھ لینا کہ آپ کا رواں رواں حلال ہے، جسم حلال ہے جان حلال ہے؟۔ اگر ان سب باتوں کے باوجود آپ اپنے مال و جان کو حلال سمجھتے ہیں تو گدھے، گھوڑے، مردارگوشت، سور اور کسی اور حرام جانور کا گوشت کھانے میں کوئی تردد کیوں؟۔

                ہم (مسلمان) ہر معاملے میں شدید اختلاط، افتراق اور اختلاف کا شکار ہیں جس کی وجہ سے ہر معاملے میں الجھنوں کا شکار رہتے ہیں۔ نہ صرف الجھنوں کا شکار رہتے ہیں بلکہ اپنے ساتھ پورے معاشرے کو شش و پنج میں ڈال کر رکھ دیتے ہیں۔ یہی ہاں نہیں اور نہیں ہاں ہر فرد کے ذہن کو اتنا الجھا کر رکھ دیتے ہیں لوگ اصل معاملے کو بھول کر اور بہت سارے معاملات کی بھول بھلیوں میں بھٹک کر رہ جاتے ہیں۔ اس کو اعتماد کا فقدان کہیں یا ہماری تلون مزاجی، کسی بھی معاملے کو ہم پورے یقین کے ساتھ انجام دے ہی نہیں پاتے جس کے خراب اثرات ہمارے آنے والے دنوں میں ظاہر ہونا شروع ہوجاتے ہیں اور پھر وہ وقت بھی آن پہنچتا ہے جب ہرقسم کا معاملہ و مرض ناقابل علاج ہو چکا ہوتا ہے۔

                معاملہ علاج و معالجے کا ہی کیوں نہ ہو، کبھی ہومیوپیتھی، کبھی ایلو پیتھی، کبھی حکیم، کبھی تعویز گنڈے، کبھی مزارات اور کبھی جھاڑ پھونک کا شکار ہو کر مریض کی جان کو خطرے میں ڈال کر رکھ دیتا ہے لیکن ہم اپنی عادات کو ترک کرنے کیلئے تیار ہوکر ہی نہیں دیتے۔

                پاکستان میں ایک تفریحی مقام ہے فروٹ منرو، وہاں ایک بہت ہی گھناونا واقعہ ہوا۔ تفریح کیلئے آئی ہوئی سات آٹھ خواتین کو ساری رات زیادتی کا نشانہ بنایا گیا اور زیادتی کا نشانہ بنانے والے بھی پولیس اہل کار تھے اور اس فعل قبیح کا مقام تھانہ تھا۔ جب شور شر مچا تو پولیس اہل کاروں کا کہنا تھا کہ یہ خواتین آئی نہیں تھیں بلکہ کچھ افراد نے ان کو عیاشی کیلئے بلایا تھا اور وہ خودکسی خوف کی وجہ سے وہ وہاں سے بھاگ لئے تھے مزید یہ کہ یہ کوئی شریف زادیاں نہیں تھیں بلکہ پیشہ ور تھیں۔ کچھ دیر کیلئے پولیس کے اس بیان کو یقین کی حد تک بھی مان لیا جائے تب بھی کوئی مجھے یہ بتائے کہ ان کے تمام الزامات کے باوجود ان خواتین پر ان کا کوئی حق بنتا تھا؟۔ یہاں تک کہ اگر انھوں نے خود ان کو اسی کام کیلئے بلایا ہوتا تو کیا پھر بھی ان پر ان کا کوئی حق بنتا تھا؟۔ کیا یہ کام حلال تھا یا ایسا کرنا کار ثواب ہے؟۔ اگر وہ شریف زادیاں نہیں تھیں بلکہ پیشہ ور تھیں تو پولیس کا کام ان کو گرفتار کرکے نہ صرف ان کو قانون کے مطابق سزادینا تھا بلکہ جن کمینوں اور ذلیلوں نے ان کو بلایا تھا ان کا بھی کھوج لگا کر ان کو آئین و قانون کے مطابق سزا دلوانا تھا ناکہ ان خواتین سے اپنا منھ کالا کرنا تھا۔ مزے کی بات یہ ہے کہ وہ خواتین ان کی نظروں میں پیشہ ور تھیں لیکن خود جو ان کے ساتھ رات کی سیاہی کو اپنے منھ پرملتے رہے کیا یہ شرافت کی معراج تھی؟۔

                پاکستان میں الیکشن کا موسم پھر آگیا ہے۔ آج سے ایک صدی قبل جمہورت نامی کوئی چیز نہیں پائی جاتی تھی۔ کچھ مسلح گروہ اٹھا کرتے تھے اور کسی دوسرے مسلح گروہ پر جا پڑتے تھے۔ طاقتور ہوئے تو پہلے تخت کا تختہ ہو جایا کرتا تھا۔ یہ تخت اس وقت تک تختہ ہونے سے محفوظ رہا کرتا تھا جب کوئی اور طاقتور گروہ اس کا تختہ نہ کردے۔ اسی بنیاد پر کبھی ریاستیں پھیل جایا کرتیں اور کبھی سکڑ کر چھوہارا بن جایا کرتی تھیں۔ اس زمانے میں یا تو پیشہ کرنے والی خواتین بکا کرتی تھیں یا پھر غلاموں کے سودے ہواکرتے تھے۔ اللہ بھلاکرے اس جمہوری نظام کا جس میں مردوں کے جسم بھی بکا کرتے ہیں بلکہ کچھ تو بدن اور ضمیر فروشی کے اتنے عادی ہو چکے ہیں کہ خود ہی بنا دام کسی کے آگے پگھل جاتے ہیں۔

                دنیا ان کو کس نام سے یاد کرتی ہوگی لیکن پاکستان میں ان کو “لوٹے” کہاجاتا ہے وہ بھی بے پیندے کے۔ جس کا پیندا ہوتا ہے وہ تو پھر بھی اپنے زور پر ٹکا رہتا ہے لیکن جس کا پیندا نہ ہو اس کا کام اِدھر سے اُدھر لڑھکنیاںں کھانے کا علاوہ اور کچھ بھی نہیں ہوتا۔ ایک حقیقی لوٹے اور ایک انسان نما لوٹے میں بنیادی فرق پیندے اور ضمیر کا ہوتا ہے۔ جس حقیقی لوٹے کا پیندا نہیں ہوتا اور جس انسان نما لوٹے کا ضمیر نہیں ہوتا اس کاکام لڑھکنیاں کھانا ہی ہوتا ہے۔

                ملک میں جمہوریت کے موسم کے ساتھ ہی مردانہ و زنانہ جسم فروشی کا کاروبار بام عروج پر پہنچا ہواہے اور کوئی دام اور کوئی بے دام فروخت ہو رہا ہے۔ ایسے تمام بدن فرشوں کو خریدنے والے اور خود اپنے آپ کو بیچنے والے یہ کہتے اور سنتے پائے گئے ہیں کہ ان کا ضمیر جاگ چکا ہے۔ وہ لوگ جنھوں نے اپنے اپنے محسنوں کے ساتھ اپنے آپ کو جوڑ کر رکھا ہوا ہے وہ سارے کے سارے بے ضمیرے ہیں۔ اب معلوم نہیں کہ ضمیر کو جگانے یا بیدار رکھنے کیلئے سودا کتنے میں کیا جاتا ہے یہ بات یا تو بیدار ضمیر جانتے ہونگے یا پھر ان کا اللہ ہم تو بس اتنا ہی جانتے ہیں کہ جب پہلی حکومت کی مدت ختم ہونے میں چند ایام رہ جاتے ہیں اور تمام تنخوہیں اور مراعات حاصل کر لی جاتی ہیں تب جاکر ضمیر جاگا کرتے ہیں اس سے پہلے ضمیر تھپک تھپک کر سلائے جاتے رہتے ہیں۔ آج کل سیکڑوں افراد کے ضمیر اچانک خواب بے ضمیری سے بیدار ہو چکے ہیں اور پچھلی تمام مراعات پر لعنتیں بھیج کر ان افراد کی صفوں میں دوڑ دوڑ کر شامل ہو رہے ہیں جہاں “انصاف” اتنی وافر مقدار میں موجود ہے کہ سنبھالے نہیں سنبھل رہا ہے۔ ان کی کوشش ہے کہ وہ انصاف جو ان کے پاس ان کی ضرورت سے بھی بہت زیادہ ہے اس کو جتنی جلد ہو سکے ان افراد تک منتقل کردیا جائے جن کے ضمیر جاگ چکے ہیں کہیں ایسا نہ ہو کہ یہ پھر نیند کی بے ضمیر گولی کھاکر سوجائیں اور پہلے جیسے بے ضمیرے بن جائے۔

                محبت ہمیں روشنی سے ہو اور ہم جلتے دیئے بجھانا شروع کردیں۔ تلاش ہمیں منزل حق کی ہو اور ہم رہ کفر اختیار کرنے پر کمربستہ رہیں، تلاش ہمیں انصاف کی ہو اور ہم ضمیر فروشوں کو اپنا مرکزومحور بنالیں، ہم پاکستان کی تقدیر بدلنے کے دعویدار ہو اور سیاہ بختوں کو اپنے گروہ میں شامل کرتے چلے جائیں اور تمنا شفافیت کی ہو اور گند کو اپنے ذہنوں اور ضمیروں میں گھولتے چلے جائیں تو یہ کیسے ممکن ہے کہ ہم پاکیزگی کی اس منزل کو حاصل کرنے میں کامیاب ہوجائیں جس کی تلاش میں سفر کا آغاز کیا گیا تھا۔

                اصل میں علامہ اقبال نے جو خواب دیکھا تھا وہ بے شک بہت سچا تھا لیکن دھوکا دہی نے اس خواب کے پڑخچے اڑا کر رکھ دیئے۔ 1947 سے لیکر آج تک ہم ایک ہی انداز کا دھوکا کھاتے چلے آرہے ہیں۔ نہ دھوکہ دینے والے بار بار کی دھوکا دہی سے باز آرہے ہیں اور نہ دھوکا کھانے والے ہار ماننے کیلئے تیار ہیں بلکہ یہ کہتے سنے گئے ہیں کہ

ستم گر آ اپنا ہن ہنر آزمائیں

تو تیر آزما ہم جگر آزمائیں

                بات حرام گوشت سے شروع ہوئی تھی اور کہاں آ پہنچی لیکن اگر سب کی کڑیاں ملائیں تو سب کا مرکز و محور ایک ہی ہے۔ حرام گوشت تو ہمارے لئے اسی طرح حرام ہے جس طرح اسے حرام ہونا ہی چاہیے تھا لیکن گوشت کے حصول کیلئے مال و اسباب و ذرائع پر ہماری نہ تو نظر ہے اور نہ ہی ہم اس کے متعلق کوئی غوروفکر کرنے کیلئے تیار ہیں۔ پاکستان کی خیر خواہی کے سب دعویدار ہیں ہیں لیکن کسی بھی قسم کی حرام خوری ترک کرنے کیلئے کوئی ایک فرد بھی تیاروآمادہ نہیں۔ مطمع نظر الیکشن میں کامیابی ہے خواہ وہ ” لوٹوں” کے راستے ہی ملے۔ جب بے حسی و بے ضمیری اس حد تک پھیل جائے تو خیر کی توقع رکھنا خود کتنی بڑا دھوکا ہوگا لیکن خیر ہے ہم قیام پاکستان سے قبل تا حال دھوکے کی ٹٹی ہی کے پیچھے تو بھاگتے رہیں ہیں جب ستر سال سے نہیں تھکے تو اب کیا تھکیں گے۔

                میری باتیں کبیدہ دلی کا سبب بن رہیں ہوں گی اس لئے میں آخر میں اتنے دکھ کے ماحول میں بھی ایک لطیفے والی بات سناکر اجازت چاہونگا جس سے قارئین کو اس بات کا اندازہ خوب اچھی طرح ہو جائے گا کہ ہمارے حلال و حرام کا پیمانہ کیا ہے۔

                حالیہ دنوں میں چین میں پاکستان کا ایک اعلیٰ سطحی وفد گیا، ان کی ہر قسم کی حلال و حرام کاروائیوں میں ان سے بڑھ کر شریک رہا، لین دین کے سلسلے سے لیکر نوشانوش اور کمیشن کی شرائط طے کرنے میں پیش پیش تھا، ناچ گانے کا شوق تو بس اللہ توبہ، ہماری اعلیٰ سطحی مکینوں کی کلاس کی اعلیٰ کوالٹی میں شامل ہے، رات کو کھانے میں انھوں نے اپنے مہمانوں کے لئے خصوصی ڈش کے طور پر اعلی قسم کے چوہے پیش کئے تو ہر فرد گھنیا گیا، ہاتھ کھینچنے کا سبب پوچھا تو فرمایا کہ ہمارے مذہب میں چوہے حرام ہیں۔ چینی بہت حیران ہوئے، کہنے لگے کہ آپ کے مذہب کا ہم نے بھی تھوڑا بہت مطالعہ کیا ہے، شراب، ناچ گانا، رشوت اور بہت ساری حرام باتوں کا ذکرتو آیا ہے، ان ساری باتوں میں تو آپ ہمارے ساتھ بھر پور طریقے سے شریک رہے ہیں، چوہوں کی حرمت کا ذکر ہم نے بہت واضح طور پر نہیں پڑھا، اس سے اجتناب کیوں؟ گردنیں جھکی کی جھکی رہ گئیں ۔

حصہ
mm
حبیب الرحمن ایک کہنہ مشق قلم کار ہیں وہ بتول، اردو ڈائجسٹ، سرگزشت، سنڈے میگزین(جسارت)، جسارت اخبار میں "صریر خامہ" ٹائیٹل اور کچھ عرحہ پہلے تک "اخبار نو" میں "عکس نو" کے زیر عنوان کالم لکھتے رہے ہیں۔انہوں نے جامعہ کراچی سے سیاسیات میں ماسٹرز کیا ہے۔معالعہ اور شاعری کا شوق رکھتے ہیں۔

جواب چھوڑ دیں