مسلمان کو مسلمان بن کر ہی جیناہے

                اس بات کو تو ہر سطح پر بہت زور شور سے اٹھایاجاتاہے کہ پاکستان ایک ایسا ملک ہے جس کو محض اس لئے حاصل کیا گیا تھا کہ اس خطے میں اللہ اور اس کے رسول کا قانون چلے گا لیکن ستر برس گزرنے کے باوجود اس میں ایک دن کیلئے بھی حاکمیت الٰہیہ نافذ نہیں گئی۔اللہ تعالیٰ نے تنبیہ کے طورپر ہم سے ایک بڑا خطہ جدا کرکے آزمایا کہ شاید ہم اس سے رجوع کرلیں، بداعمالی اور سرکشی سے توبہ کر لیں اور اس کے بندے بن کر زندگی گزاریں لیکن مزید چھیالیس برس گزر جانے کے باوجود ہم اپنی روش بدلنے کیلئے تیار نہیں۔ اگر تھوڑی دیر کیلئے ہم یہ فرض بھی کرلیں کہ ایسا کرنے میں ہمارے سیاسی اور عسکری رہنماوں کا قصور ہے اور عام لوگوں کا اس سے کوئی تعلق نہیں تب بھی دوسوالوں کا جواب تو ہرعام فرد کو دینا ہی ہوگا۔ ایک تو یہ کہ جب جب بھی چناو(الیکشن) کا موسم آتا ہے تو ہم اپنے ہی ہاتھوں ان لوگوں کا انتخاب کیوں کرتے ہیں جن کو اسلام سے باغیانہ طرز عمل کا ذمہ دار ٹھہراتے ہیں اور دوسرا سوال یہ بنتا ہے کہ اگر ملک میں اسلامی نظام حکومت نہیں ہوگا تو کیا ہم اپنے آپ کو مسلمان سمجھنابھی پسند نہیں کریں گے؟۔ ممکن ہے کہ میرے دوسرے سوال کو عام لوگ فوری طور پر نہ سمجھ سکیں اس لئے میں مزید وضاحت کرتے ہوئے یہ کہنا چاہوں گا کہ ایک ہے ہماری اجتماعی زندگی اور ایک ہے ہماری انفرادی زندگی۔ دونوں زندگیوں میںہمیں بہر صورت مسلمان یعنی اللہ کا بندہ بن کر ہی رہنا ہے۔ اگر کسی بھی خطہ سرزمین میں اللہ کا نظام زندگی نافذ نہیں تو اس کا یہ مطلب کسی صورت نہیں نکالاجاسکتا کہ ہم مسلمان بن کر ہی نہیں رہ سکتے۔ مسلمانوں والا اخلاق، کرداراور حسن سلوک اختیار کرناہم پر ہر لحاظ سے لازم ہے۔ اگر پاکستان میں اللہ اور اس کے رسول کا نظام ہمارے زعمائے کرام یا ہماری کوتاہیوں کے سبب نافذ نہیں ہو سکا تو اس کا یہ مطلب نہیں کہ ہم اپنی انفرادی شخصیت کوہی اللہ اور اس کے رسول سے باغی بنالیں اور شیطان بن کر زندگی گزارنا شروع کردیں۔

                اسلام نے عورت کو جو عزت و تکریم کا مقام عطا کیا ہے وہ آج تک دنیا میں کسی تہذیب نے نہیں دیا ہے۔ مرد کو اس کا محافظ ہی نہیں اسکو عورت کی ہر ضرورت پوری کرنے کا بھی ذمہ داربنایا ہے یہی وجہ ہے کہ آج بھی بگڑے سے بگڑا مسلمان یہ نہیں چاہتا کہ اس کی عورت گھر سے باہر نکل کر معاشی جدو جہد کا حصہ بنے۔ لیکن بد قسمتی سے وہ ملک جس کو اسلام کے نام پر وجود میں لایا گیا تھا وہاں نہ صرف یہ کے دستور اور نظام ہی اللہ سے بغاوت پر استوار کیا گیا بلکہ اس کے عوام بھی یہ خیال کرنے لگے کہ پاکستان بننے کے بعد اب ان کیلئے یہ ضروری بھی نہیں کہ وہ اللہ کے بندے بن کر رہیں۔ وہ ملک جس میں سب سے زیادہ محترم ہستیاں ”خواتین“ کو ہونا چاہیے تھا، بد ترین سلوک کا شکار نظر آتی ہیں۔ جاہلوں سے تو شکایت کی بھی جائے تو بجا ہو لیکن اعلیٰ تعلیم یافتہ مرد، لڑکے بھی اگر اوچھی، گھٹیا اور شیطانی حرکتوں پر اتر آئیں تو پھر یہی کہا جاستا ہے کہ ایسی قوم کو تباہی اور بربادی سی کوئی نہیں بچا سکتا۔

                سابقہ صوبہ ”سرحد“ اور موجودہ ”خیبر پختون خوا“ ایک زمانے میں خواتین کے لئے ایک بہت ہی محفوظ صوبہ سمجھا جاتا تھا۔ میں اس صوبے کو 1985 سے جانتا ہوں۔ میرے تجزیہ کے مطابق وہاں مرد تو کسی چیرہ دستی کا شکار ہوسکتا تھا لیکن ایک مہمان خواہ وہ مرد ہو یا عورت اور خود عورت کو کسی سے کوئی خطرہ نہیں ہو سکتا تھا لیکن جب میں 2011-12 میں آخری بار وہاں رہا تو مجھے محسوس ہوا کہ اب میرے لئے بھی اور کسی خاتون کیلئے بھی اتنے ہی خطرات ہیں جو پاکستان کے دوسرے شہروں میں مجھے محسوس ہوئے۔ گوکہ اس بات پر میں بہت پختہ نہیں تھا لیکن آج کل جس قسم کی خبریں موصول ہو رہی ہیں انھیں پڑھ کر افسوس بھی ہوتا ہے اور اس بات کا یقین بھی ہوتا جاتا ہے کہ جو کچھ میں نے پانچ سال پہلے محسوس کیا تھا وہ درست ہی محسوس کیا تھا۔ عام بازاروں میں یا گلیوں میں ایسا ہونا تو شاید اچونکادینے والی بات نہیں ہوتی لیکن اگر یہ باتیں تعلیمی اداروں اور یونیورسٹیوں میں بھی ہونے لگیں تو قوم کی حالت پر ماتم کرنے کے علاوہ اور کچھ بھی نہیں کیا جاسکتا۔

                میرے سامنے ”رفعت اللہ اورکزئی“ کی ایک رپورٹ ہے جو بی بی سی سے نشر ہوئی ہے، وہ اس بات کی تصدیق کرتی نظر آتی ہے کہ ہمارے خیبر پختون خوا میں، جو کبھی اسلامی اقدار کے معاشرے کا ایک بے مثال نمونہ تھا وہاں اب وہی اقدار بری طرح پامال ہو رہی ہیں۔ رفعت اللہ اورکزئی رپورٹ کرتے ہیں کہ ”پاکستان کے صوبے خیبر پختونخوا کے اعلیٰ سرکاری تعلیمی اداروں میں گذشتہ کچھ عرصے سے طالبات کو جنسی طورپر ہراساں کرنے کے واقعات میں اضافہ ہوا ہے اور پچھلے سات ماہ میں 100 سے زیادہ ایسے کیسز رپورٹ ہوئے ہیں جس میں طالبات کو ہراساں کرنے کی کوشش کی گئی“۔ خیبر پختونخوا میں خواتین کے حقوق کے لیے سرگرم غیر سرکاری تنظیم ”دا حوا لور“ یعنی حوا کی بیٹی کی طرف سے جاری کردہ معلومات کے مطابق صوبے کی تین بڑی سرکاری تعلیمی درس گاہوں پشاور یونیورسٹی، انجنیئرنگ یونیورسٹی اور خیبر میڈیکل کالج میں کچھ عرصے سے ایسے واقعات میں اضافہ ہوتا جارہا ہے۔ دا حوا لور تنظیم کی سربراہ خورشید بانو نے بی بی سی سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ” گذشتہ تقریباً سات ماہ کے دوران ان کی تنظیم کو 100 سے زیادہ ایسی شکایاتیں موصول ہوئی ہیں جن میں جامعات میں پڑھنے والی طالبات کو جنسی طورپر ہراساں کرنے کی کوشش کی گئی“۔ انھوں نے مزید کہا ” ان میں زیادہ تر شکایات انجنئیرنگ یونیورسٹی سے موصول ہوئی جہاں ان کی تنظیم کی طرف سے آگاہی مہم بھی چلائی گئی تھی۔ خورشید بانو کے مطابق شاید تعلیمی اداروں میں یہ واقعات اس سے بھی کہیں زیادہ ہوں گے لیکن بدقسمی سے منفی معاشرتی رویوں کی وجہ سے زیادہ تر خواتین سامنے نہیں آتیں“۔ ایک سوال کے جواب میں خورشید بانو نے کہا کہ” ان واقعات میں تعلیمی درس گاہوں کے چوکیدار سے لے کر اداروں کے سربراہان اور پروفیسر تک ملوث رہے ہیں جبکہ ایک کیس میں یونیورسٹی کے ڈین طالبہ کو ہراساں کرنے کے مرتکب پائے گئے تھے“۔

                خیبر پختونخوا کے تعلیمی درس گاہوں میں خواتین اساتذہ اور بالخصوص طالبات کو ہراساں کرنے کے واقعات پہلے بھی ہوتے رہے ہیں۔ چند سال پہلے ایسے ہی چند واقعات کو خیبر پختونخوا اسمبلی کے فلور پر اٹھایا گیا تھا جس پر کارروائی کرتے ہوئے یونیورسٹی کے بعض اساتذہ کو نوکریوں سے برطرف کیا گیا تھا۔ اس طرح ایک واقعہ ہزارہ یونیورسٹی میں پیش آیا تھا جس میں ایک خاتون پروفیسر کو ہراساں کرنے کی کوشش کی گئی جس پر ملوث افراد کے خلاف کارروائی کی گئی۔ اس کے علاوہ خیبر میڈیکل کالج میں بھی خواتین کو ہراساں کرنے پر اساتذہ کے خلاف کارروائی کی گئی ہے۔

                یاد رہے کہ حکومت پاکستان نے 2010 میں خواتین کو کام کی جگہ پر اور تعلیمی اداروں میں تحفظ دینے کیلئے ایک قانون بھی منظور کروایا تھا لیکن اس قانون پر عمل درآمد نہ ہونے کی برابر ہے۔ اس قانون کے تحت تمام صوبوں میں محتسب کے ادارے کو قائم کیا جانا تھا جس کا کام جنسی طورپر ہراساں کیے جانے والی خواتین کے کیسز کو ترجیحی بنیادوں پر حل کرانا ہے۔ تاہم خیبر پختونخوا میں سات سال گزرجانے کے باوجود بھی ایسا کوئی ادارہ قائم نہیں کیا جاسکا ہے۔ خورشید بانو نے مزید بتایا کہ” دو ہزار دس (2010)قانون کے تحت تعلیمی اداروں میں بھی کمیٹیاں قائم کی جانے تھےں لیکن کسی ادارے کی طرف سے اس ضمن میں توجہ نہیں دی گئی ہے۔ انھوں نے کہا کہ یونیورسٹیوں میں آگاہی مہم کے ذریعے سے خواتین کے خلاف ایسے واقعات پر قابو پایا جاسکتا ہے لیکن اس کی کامیابی کےلئے درس گاہوں کی انتظامیہ کو بھی سنجیدگی کا مظاہرہ کرنا ہوگا“۔

                پشاور یونیورسٹی کی انتظامیہ کی یہ بات اپنی جگہ درست ہے کہ حالیہ دنوں میں کیمپس کی حدود میں طالبات کو ہراساں کرنے کا کوئی نیا واقعہ رپورٹ نہیں ہوا ہے لیکن یونیورسٹی کے ترجمان رفیع اللہ نے رابطہ کرنے پر بی بی سی کو بتایا کہ ایسے واقعات کو روکنے کےلیے یونیورسٹی میں خصوصی طورپر پر کنٹرول بورڈ بنایا گیا ہے جس کا کام ایسے کیسز پر قابو پانا ہے تاہم ترجمان نے اس بات کی تصدیق کی کہ چند سال پہلے یونیورسٹی میں کچھ ہراساں کرنے واقعات پیش آئے تھے جس پر بعدازاں یونیورسٹی کی جانب سے کاروائی کی گئی اور بعض اساتذہ کو ان کی نوکریوں سے برطرف کیا گیا تھا۔

                اسلام نے مرد کو ”قوام“ بنایا ہے اور یہی وہ ذمہ داری ہے جس کی وجہ سے ایک مرد کو عورت پر بر تری حاصل ہے۔ ہر مسلمان مرد پر فرض ہے کہ وہ اپنی زریت کی پرورش اور حفاظت کرے اور خاص طور سے خواتین اور بچیوں کا تو ہر صورت محافظ بن کر رہے۔ ایک جاہل مسلمان اور ایک عاقل اور تعلیم یافتہ مسلمان میں تو ویسے بھی ایک بہت واضح فرق ہونا چاہیے۔ خواہ کسی خطہ زمیں میں اللہ اور اس کے رسول کا نظام نافذ ہو یا نہیں ہو، وہ اپنے آپ کو مسلمان ہونے کی قید سے آزاد نہیں کر سکتا۔ اس پر انفرادی طور پر وہی سب کچھ فرض ہے جو کسی اسلامی معاشرے اور نظام کے ہوتے ہوئے اس پر فرض ہے اس لئے ہر مسلمان کا فرض بنتا ہے کہ وہ اپنے آپ کو ہر اس برائی اور گمراہی سے اپنے آپ کو روکے جس سے اللہ اور اس کے رسول نے رک جانے کا حکم دیا ہے اور ان تمام باتوں کو عام کرے جو معروف ہیں۔ اسی میں اس کی اور معاشرے کی فلاح کا راز پوشیدہ ہے۔

حصہ
mm
حبیب الرحمن ایک کہنہ مشق قلم کار ہیں وہ بتول، اردو ڈائجسٹ، سرگزشت، سنڈے میگزین(جسارت)، جسارت اخبار میں "صریر خامہ" ٹائیٹل اور کچھ عرحہ پہلے تک "اخبار نو" میں "عکس نو" کے زیر عنوان کالم لکھتے رہے ہیں۔انہوں نے جامعہ کراچی سے سیاسیات میں ماسٹرز کیا ہے۔معالعہ اور شاعری کا شوق رکھتے ہیں۔

جواب چھوڑ دیں