بلوچی ملبوسات

پوری دنیا کے فیشن میں وقت کے ساتھ ساتھ نمایاں تبدیلی آ گئی ہے تاہم اس کے باوجود بلوچ خواتین میں ان کے روایتی ملبوسات آج بھی بہت مقبول ہیں بلوچی کپڑوں پہ کشیدہ کاری صدیوں سے چلی آ رہی ہے بلوچ خواتین آج بھی شیشے کی کڑھائی والی ملبوسات زیب تن کرتی ہیں۔ بلوچستان کی اس بے مثال ثقافت نے دنیا کو خیرہ کرکے رکھ دیا ہے  بلوچ قوم کی خواتین میں کئی دہائیوں سے اسی لباس کو زیب تن کرنے کی روایت برقرار ہے ۔ان ملبوسات میں تلہ، اون اور ریشم کے دھاگوں کی کڑھائی کی جاتی ہے ،بلوچی ملبوسات کی تیاری میں موسم کے حساب سے کپڑے کا انتخاب کیاجاتا ہے جس میں لان، ریشم، سوتی ،شیفون اور جارجٹ کے سادے اور پرنٹ والے کپڑے پر کڑھائی کی جاتی ہے بلوچستان کے روایتی ملبوسات سے بلوچ ثقافت کے رنگ نمایاں ہوتے ہیں. حتاکہ کچھ کچھ مرد حضرات بھی اپنی قیمض پہ کڑھائی کرواتے ہیں  کچھ مرد حضرات تو بنین کی بھی کڑھائی کرواتے ہیں جو دیکھنے میں قابل دید ہے۔
گزشتہ دنوں ایک غیر ملکی سیاح بلوچستان آیا تووہ بلوچ خواتین کی ایک قمیض دیکھ کر اس وقت دنگ رہ گیا جب ایک خاتون کو اس نے قمیض کی جیب میں کافی سارا سامان ڈالتے دیکھا۔ پہلے وہ سمجھا کہ یہ تھیلا ہے جو قمیض کے ساتھ ٹانکا ہوا ہے لیکن جب اسے یہ معلوم ہوا کہ یہ قمیض کی جیب ہے تو اسکی حیرانی مسرت میں بدل گئی ۔
بلوچستان کی خواتین صدیوں سے پھشک (کڑھائی شدہ بلوچی لباس) نامی ایک قمیض پہنتی آ رہی ہیں جس پر کشیدہ کاری جگہ جگہ پہ کی ہوئی ہوتی ہے۔اور کسی کو نظر نہیں آتا کہ دراصل یہ جیب ہے۔یہ کڑھائی کا حصہ نظر آتی ہے اور اس کمال کو ہی بلوچی عورتوں کی ہنرمندی کی انفادیت کہا جاتا ہے۔ یہ روائتی قمیض ہے جس کی جیب اتنی لمبی ہوتی ہے کہ دس کلو چینی ،آٹا آرام سے اس میں ڈالا جاسکتا ہے ۔دلچسپ بات یہ ہے کہ اس جیب کو بنانے کے لئے کم از کم دو ماہ لگ جاتے ہیں جبکہ اس کشیدہ کاری میں بہت محنت صرف کی جاتی ہے۔ یہ کشیدہ کاری دنیا میں سب سے مہنگی اور سب سے زیادہ وقت طلب ہے ۔ بلوچستان میں تواسکی قیمت دس ہزار ہے لیکن دوسرے شہروں میں اسکی مالیت لاکھوں روپے ہوتی ہے۔ بلوچستان میں آج بھی لڑکیاں اس کشیدہ کاری کے ساتھ قمیضیں شوق سے پہنتی ہے ۔ خاص کر بلوچستان یونیورسٹیوں کی طالبات میں اس روائتی قمیض کا شوق پید ا ہورہا ہے۔
بلوچ خواتین ہاتھ کی کڑھائی کے ملبوسات گھر پر ہی تیار کرکے پہنتی ہیں مگر ہاتھ کی کڑھائی ایک بہت وقت طلب کام ہوتا ہے جس کی تیاری میں تین سے چار مہینوں تک لگ جاتے ہیں اس لیے پورے ملک کے بڑے شہروں کی خواتین مشین کی کڑھائی کے ڈیزائن کے بلوچی کپڑوں کےسیمپل پسند کرکے آرڈر دیتی ہیں۔ جو خاصی سستی بھی ہوتی ہے اور کم وقت میں  تیار کی جاتی ہے جو چند ماہ میں اپنی اصل شکل اور ڈیزائن کھو دیتی ہے۔ حتاکہ پورے ملک میں  بلوچی لباس بلوچ خواتین سے آرڈر پر تیار کروائی جاتی ہیں جن پہ بلوچ خواتین اپنی محنت کی رقم دس سے بیس ہزار تک لیتی ہے جبکہ کچھ خواتین  کڑھائی پر آنے والی ٹائم اور ڈیزائن دیکھ کر رقم لیتی ہے جبکہ سادہ سے سادہ کڑھائی بھی سات ہزار روپے سے کم نہیں ہوتا ہے ۔ اسلیئے غریب اور شہری خواتین نے آج کل زیادہ تر بلوچی کپڑوں پر مشینوں سے کڑھائی کی جاتی ہے جو دیر پا نہیں ہوتی ہے۔
بلوچستان میں سب سے زیادہ  بلوچی لباس میں فراک نما بند چاکوں والی قمیص پر شیشے کے ساتھ کڑھائی والے کپڑے کو ترجیح دی ہے جب کہ شوقین خواتین نے بلوچ قمیض کے آگے دامن پر ایک بڑی سی جیب اور اس پر اسی طرح کی کڑھائی ہوتی ہے جو سوٹ کے دوپٹے کے پلوؤں اور شلوار کے پائنچے پر بھی یہی کڑھائی کی جاتی ہے۔ حال ہی میں بلوچی کپڑے دنیا میں اپنی جگہ بنا رہی ہے جو ہم سب کیلئے قابل فخر بات ہے  بلوچستان سے بھی ہاتھ کی کڑھائی والے ملبوسات پوری دنیا میں  فروخت کے لیے بھیجے جاتے ہیں جو کہ خاصے مہنگے ہوتے ہیں کیونکہ ہاتھ سے کی گئی کڑھائی میں محنت زیادہ ہوتی ہے اور اس کی تیاری میں کافی وقت درکار ہوتا ہے اگر آپ میں کسی کو بھی بلوچی کپڑے پہننے کا شوق ہے تو بلوچستان کے کسی بھی گائوں کا رخ کریں  بلوچی کڑھائی شدہ کپڑے مل جائیں گے ۔

حصہ
mm
ببرک کارمل جمالی کاتعلق بلوچستان کے گرین بیلٹ جعفرآباد سے ہے ۔ان کے ماں باپ کسان ہیں مگر اس کے باوجود انہوں نے انہیں ایم اے تک تعلیم جیسے زیور سے آراستہ کیا۔ ببرک نے ابتدائی تعلیم اپنے گائوں سے حاصل کیا اور اعلی تعلیم کیلئے پھر کوئٹہ کا رخ کیا ان کی پہلی تحریر بچوں کے رسالے ماہنامہ ذہین میں شائع ہوئی اس کے بعد تحاریر کا نہ رکنے والا سلسہ جاری وساری رہا اب تک دو ہزار کے لگ بھگ تحاریر مختلف رسالوں اور اخبارات میں چھپ چکی ہیں۔یہ پیشے کے اعتبار سے صحافی ہیں جبکہ ان کی تحاریر ان اخبارات اور رسالوں میں چھپ چکی ہیں اور چھپ رہی ہیں جن میں (روزنامہ پاکستان) بلاگ رائیٹر (روزنامہ ایکسپریس) بلاگ (حال احوال) کوئٹہ بلاگ رائیٹر جبکہ ان کی فیچر رپورٹس ( ڈیلی آزادی)کوئٹہ (ڈیلی مشرق )کوئٹہ ماہنامہ جہاں نما کوئٹہ میں آج تک چھپ رہی ہیں۔ان کی کہانیاں (ماہنامہ پھول) لاہور (ماہنامہ ذہین) لاہور (ماہنامہ اردو ڈائیجسٹ)لاہور ( ماہنامہ پیغام) لاہور (ماہنامہ روشنی)پنڈی (ماہنامہ افکار جدید) لاہور میں چھپ چکی ہیں ۔ان کاا یک مستقل سلسلہ بلوچستان کے حوالے ماہنامہ اطراف انٹرنیشنل کراچی میں بھی چل رہا ہے اس کے ساتھ یہ بچوں کے لیے بھی بہت کچھ لکھ چکے ہیں۔ ماہانہ (پارس) کے مدیر بھی ہیں۔ کئی ادبی ایوارڑ بھی مل چکے ہیں اور ٹی وی، پہ کچھ پروگرام بھی کر چکے ہیں۔ جبکہ اکسفورڈ پریس کی کتاب میں بھی ان کی تحریر شائع ہو چکی ہے۔ببرک پاکستان رائیٹر سوسائیٹی بلوچستان کے نائب صدر بھی ہیں۔

جواب چھوڑ دیں