یہ کہاں آگئے ہم

یہ کہاں آگئے ہم
ایمان کے تین درجات سے تو ہم سب ہی واقف ہیں۔پہلا بْرائی کو ہوتا دیکھو تو ہاتھ سے روکو اگر نہیں روک سکتے تو زبان سے روکو اس کی بھی ہمت نہیں رکھتے تو کم از کم اسے دل میں برا جانو۔۔۔
کیا لگتاہے آپ کو ہم اس وقت کدھر کھڑے ہیں ؟کون سا درجہ ہے اس وقت ہمارے ایمان کا ؟ مجھے تو لگتا ہے ہم ایمان کے تیسرے درجے سے بھی نکلتے جا رہے ہیں۔
شیطان کو جب معلوم چلا کے اللہ نے انسان کو توبہ جیسی نعمت دے دی ہے کہ انسان جتنے بھی گنا ہ کر لے مگر جب بھی سچی توبہ کرے اللہ اسے معاف فرما دیں گے۔یہ بات شیطان کے سر پر آسمان ٹوٹنے کے برابر تھی کیوں کہ اس سے شیطان کی کی ہوئی سا ر ی محنت بے کا ر ہوجاتی اور جو وعدہ اس نے اللہ سے کیا کہ میں تیرے بندوں کو بہکاؤں گا وہ پورا نہ ہو پاتا۔لہٰذا اس نے ایسی چال چلی کے انسان برائی کو برا ہی نہ جانے۔جب برائی برائی ہی نہ دیکھے گی تو اس کو کرنے میں انسان کوئی حرج بھی محسوس نہیں کرے گا اور پھر توبہ کا بھی سوال پیدا نہیں ہو گا۔
مجھے افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ وہ اس تباہ کن منصوبے میں کافی حد تک کامیاب ہو گیا۔برائی جب اچھائی کا لبادہ اوڑھ کر سامنے آئی تو لوگوں نے اسے قبول کر لیا۔جنہوں نے شیطان کی اس چال کو سمجھ بھی لیا تو وہ یہ سوچ کر خاموش رہے کہ شاید یہ برائی یہاں رک جائے گی پروان نہ چڑھے گی لہٰذا انہوں نے بھی کچھ نہ کیا اور اس طر ح برائی کی پرورش کا آغا ز ہوا کیونکہ یہ شیطانی دماغ رکھنے والوں کی بڑ ی گہری سازش ہے کہ وہ جب بھی کسی خرابی کو متعارف کراتے ہیں تو اس خرابی کے زہر کا پورا پیالہ آپ کے سامنے نہیں رکھتے بلکہ اس زہر کو ایک ایک گھونٹ ہمیں پلاتے ہیں تا کہ کسی کو یہ احساس ہی نہ ہو کے زہر کا بھرا پیالہ تیار ہے اور ہماری اندر کی اخلاقی موت آھستہ آھستہ ہو اور ہمیں معلوم بھی نہ چلے۔
موجودہ صورت حال کا جائزہ لیں تومعلوم چلتا ہے کہ سب سے زیادہ میڈیا کو اس سازش کی تکمیل کا ذریعہ بنایا گیا۔ اور ہمارے برائی کو دیکھ کر خاموش رہنے کے رویوں نے اس سازش کو اور بھی زیادہ تقویت بخشی اور اب حال یہ ہے کے جہاں ٹی وی چینلز پر بہت سی خرافات دیکھا کر ہماری نسل کو تبا ہ کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے وہاں اب ہمارے مذہبی تہواروں کا تماشا بنا نے میں بھی کوئی کسر باقی نہ چوڑ ی گئی ہے۔مجھے یاد ہے غا لبًا 2006 میں جیو ٹی وی سے عامر لیاقت نے ماہ رمضان میں رمضان ٹرانسمیشن کو متعارف کروایا تھا۔اس میں سحری کی نشریات ہوتی اور پھر افطار کی نشریات دکھائی جاتی۔سوالات قرآن اور حدیث کے حوالے سے پوچھے جاتے نعتیہ مشاعرہ ہوتا اور افطار پر یہ نشریات ختم ہو جاتی۔
اب تو جیسے لوگوں نے اسکو غنیمت جانا ہو جہاں کچھ لوگوں کے روزے کبھی گانا تو کبھی فلم دکھتے گزرتے وہاں اب اس ٹرانسمیشن کو دیکھتے گزرنے لگے ۔گانا سنا فلم دیکھنے پر تو وہ توبہ بھی کر لیتے مگر اب تو کیونکہ یہ ٹرانسمیشن رمضان کے حوالے سے تھی لہٰذا رمضان کے اہم اوقات یعنی سحر اور افطار میں ٹی وی کے سامنے بیٹھے رہنے کو بھی عبادت سمجھا جانے لگا تو توبہ کہاں ہوتی !
اس چینل کی دیکھا دیکھی اور بھی چینل اس میدان میں کود پڑ ے اور پھر ریٹنگ کے نام پر اس نشریات میں وہ چیزیں شامل کی گئیں جو ہر گز مناسب نہ تھیں آہستہ آہستہ ان پروگرام میں تبدیلی کی صورت حال کچھ اس طرح سامنے آئی کے میوزک بھی اس نشریات کا حصہ بنا انعامات دینے کے لیے اب سوالات قرآن اور حدیث کے موضوع سے نہیں لیے جاتے بلکہ اوٹ پٹا نگ حر کت کروا کر دیے جاتے ہیں۔انعامات کی لالچ اس قدر بڑھا دی گئی کہ لوگ اس پروگرام میں جانے کے لیے اس کے پاسسز حاصل کرنے کی کوشش اسطرح کرتے کے جیسے یہ پروگرام کے پاسسز نہیں جنت میں جانے کے پاسسز ھوں حا لا نکہ رمضان تو جنت میں جانے کے پاسسز دینے آیا تھا آ ہ !!!!
غرض دھیرے دھیرے برائی نے پوری طرح اچھائی کو اپنی لپیٹ میں لے لیا جو مہینہ اللہ کو راضی کرنے نیکیاں کمانے اور گناہوں کی مغفرت اور جہنم کی آگ سے بچا نے آیا تھا وہ اللہ کی ناراضگی حاصل کرنے گناہ کمانے کا مہینہ بنا دیا اور یہ سب اس لیے ہوا کہ ہم نے ایک ہو کر بْرائی کے خلا ف آواز اٹھانی چھوڑ دی۔میرے بھائیوں معاملہ ابھی یہاں تھما نہیں ہے ابھی اور بھی شیطانی چالیں چلی جا رہی ہیں کے اس مقدس مہینے کی حرمت کو مزید پامال کیا جاسکے اور ہماری نسلیں وہ کچھ سیکھیں جو ہماری مذہبی تعلیمات کا حصہ نہیں۔آپ کو جان کر یقیناً بہت غضہ اور دکھ ہو گا کہ اب اس نشریات کی میز با نی کے لیے ان ادا کا ر اور ادا کاراؤں کا انتخاب کیا گیا ہے جو نہ صرف مذہب کی تعلیمات سے نہ آشنا ہیں بلکہ یہ وہ ہر کام کرتے ہیں جس کی ہمارے دین میں گنجائش نہیں۔۔۔۔۔ذرا سوچیں ہم اور کتنا خاموش رہ کر اپنا اور اپنے دین کا اسطر ح مذاق بنائیں گے ؟
اب وقت آگیا ہے کے اس شیطانی چا لوں کو سمھجیں اور مل کر آواز بلند کریں۔بْرائی کو بْرا جانیں۔

حصہ

جواب چھوڑ دیں