راہزن۔۔ہوائے نفس کی پیروی۔4

ایمان مغازی الشرقاوی
ترجمہ: میمونہ حمزہ
(۴)
ہم میں سے ہر شخص خواہ وہ نافرمان ہو یا فرماں بردار ، یکساں طور پر اﷲ سے محبت کا دعویدار ہے، لیکن اﷲ سبحانہ وتعالی سے محبت کی پہلی کڑی ،اسکی بات ماننا اور اتباع کرنا ہے، اور نفسِ امارہ جو برائی پر اکساتا رہتا ہے اسکی اور خواہشِ نفس کی مخالفت کرنا ہے، حسن بصری اور دوسرے سلف وغیرہ فرماتے ہیں: کچھ لوگوں نے گمان کیا کہ انہیں اﷲ سے محبت ہے، پھر اﷲ نے انہیں اس آیت سے آزمایا، اور فرمایا: (قل ان کنتم تحبون اﷲ فاتبعونی یحببکم اﷲ) (آل عمران، ۳۱) (اے نبیؐ، کہہ دو کہ ’’اگرتم حقیقت میں اﷲ سے محبت رکھتے ہو ، تو میری پیروی اختیار کرو، اﷲ تم سے محبت کرے گا۔)
اور حسن سے روایت ہے، اصحاب النبی ﷺ نے کہا: اے اﷲ کے رسولﷺ ، ہم اپنے رب سے شدید محبت کرتے ہیں، پس اﷲ نے پسند کیا کہ وہ انکی محبت کو علم سے جانے، تو اس نے یہ آیت نازل فرمائی ۔۔ اور سچی محبت سے مراد پیروی اور فرمانبرداری ہے، اور محبوب کی پسند کو اپنی پسند اور اسکے ناپسند کا اپنا ناپسندیدہ بنا لینا، اﷲ عز وجل نے فرمایا ہے: (قل ان کان آباء کم وابناء کم و اخوانکم وازواجکم وعشیرتکم واموال اقترفتموھا وتجارۃ تخشون کسادھا ومساکن ترضونھا احب الیکم من اﷲ ورسولہ وجہاد فی سبیلہ فتربصوا حتی یاتی اﷲ بامرہ واﷲ لا یھدی القوم الفاسقین) (التوبۃ، ۲۴) (اے نبیؐ، کہہ دو کہ اگر تمہارے باپ، اور تمہارے بیٹے، اور تمہارے بھائی، اور تمہاری بیویاں، اور تمہارے عزیز و اقارب، اور تمہارے وہ مال جو تم نے کمائے ہیں، اور تمہارے وہ کاروبار جن کے ماند پڑ جانے کا تم کو خوف ہے، اور تمہارے وہ گھر جو تم کو پسند ہیں، تم کو اﷲ اور اسکے رسولؐ اور اسکی راہ میں جہاد سے عزیز تر ہیں تو انتظار کرو یہاں تک کہ اﷲ اپنا فیصلہ تمہارے سامنے لے آئے، اور اﷲ فاسق لوگوں کی رہنمائی نہیں کیا کرتا۔)
اسطرح ہر مسلمان پر واجب ہے کہ وہ ایسی خواہش کی پیروی نہ کرے جو اسکا راستہ اﷲ اور اسکے رسول ﷺکی محبت تک پہنچنے سے روکے،اور وہ حب اﷲ اور حبِ رسولﷺ پر خواہشِ نفس کی کسی صنف کو بھی ترجیح نہ دے، اور وہ اﷲ اور اسکے رسول کی رضا پر اپنی خواہش کو مقدم نہ رکھے، سب سے پہلے وہ خود کو اﷲ اور اسکے رسولﷺ کی منع کردہ اشیاء سے باز رکھے، سہل بن عبد اﷲ کا قول ہے: ’’حب الہی کی علامت حب القرآن ہے، اور حبِ قرآن کی علامت حبِّ نبی ﷺ ہے، اور حبِ نبیﷺ کی علامت حبِّ سنت ہے، اور حبِّ سنت کی علامت حبِّ آخرت ہے‘‘۔
خواہش ۔۔ اور عقل:
اور خواہشِ نفس بھی بندے کے لئے راہزن بن جاتی ہے، جب وہ اﷲ کی رہنمائی کے بغیر اسکی پیروی میں لگ جائے، اور ھوی (خواہش پرستی) کا استعمال ان معنوں میں معروف ہے: وہ خلافِ حق کی جانب جھکاتی ہے، جیسا کہ اﷲ تعالی کا فرمان ہے:(ولا تتبع الھوی فیضلک عن سبیل اﷲ) (ص، ۲۶) (اور خواہشِ نفس کی پیروی نہ کرکہ وہ تجھے اﷲ کی راہ سے بھٹکا دے گی۔)
اور اسکا فرمان: (واما من خاف مقام ربہ ونھی النفس عن الھوی ۰ فان الجنۃ ھی الماوی۰) (النازعات، ۴۰ ۔ ۴۱) (اور جس نے اپنے رب کے سامنے کھڑا ہونے سے خوف کیا، اور نفس کو بری خواہشات سے باز رکھا، جنت اسکا ٹھکانا ہو گی۔)
اور کبھی ھوی کا لفظ محبت اور جھکاؤ کے لئے استعمال ہوتا ہے، اور اسے حق کی جانب جھکاؤ کے لئے بھی استعمال کرتے ہیں۔ شعبی کا قول ہے: ھوی کو ھوی کہتے ہی اس لئے ہیں کہ وہ اپنے ساتھی کو آگ میں دھکیلتا ہے، اور ھوی سے مراد کسی چیز کی جانب جھکاؤ ہے۔
ابنِ عباسؓ فرماتے ہیں: ھوی بھی ایک الہ ہے جسے اﷲ کے سوا پوجا جاتا ہے، اور اﷲ نے قرآن میں جہاں بھی ھوی کا ذکر کیا اسکی مذمت ہی کی ، اﷲ تعالی کا فرمان ہے: (واتبع ھواہ فمثلہ کمئل الکلب ان تحمل علیہ یلھث او تترکہ یلھث) (الاعراف، ۱۷۶) (اور اپنی خواہشِ نفس ہی کے پیچھے پڑا رہا، لہذا اس کی حالت کتے کی سی ہو گئی کہ تم اس پر حملہ کرو تب بھی زبان لٹکائے رہے اور چھوڑ دو تب بھی زبان لٹکائے رہے۔)
مزید فرمایا: (واتبع ھواہ وکان امرہ فرطا) (الکھف، ۲۸) (جس نے اپنی خواہشِ نفس کی پیروی اختیار کر لی ہے اور جس کا طریقِ کار افراط و تفریط پر مبنی ہے۔)
اور فرمایا: (بل اتبع الذین ظلموا اھواء ھم بغیر علم فمن یھدی من اضل اﷲ) ( الروم، ۲۹) (مگر یہ ظالم بے سمجھے بوجھے اپنے تخیلات کے پیچھے چل پڑے ہیں۔ اب کون اس شخص کو راستہ دکھا سکتا ہے جسے اﷲ نے بھٹکا دیا ہو؟)
اور فرمایا: (فان لم یستجیبوا لک فاعلم انما یتبعون اھواء ھم ومن اضل ممن اتبع ھواہ بغیر ھدی من اﷲ) (القصص، ۵۰) (اب اگر وہ تمہارا یہ مطالبہ پورا نہیں کرتے تو سمجھ لو کہ در اصل یہ اپنی خواہشات کے پیرو ہیں، اور اس شخص سے بڑھ کر کون گمراہ ہو گا جو خدائی ہدایت کے بغیر بس اپنی خواہشات کی پیروی کرے؟)
ابو درداءؓ نے فرمایا: ’’جب آدمی اپنی ھوائے نفس ، عمل اور علم کو اکٹھا کر دے، اور اسکا اس روز کا عمل ھوائے نفس کی پیروی میں گزرا، تو وہ برا دن ہے، اور اگر اسکا عمل اسے علم کے تابع ہوا، تو اسکا وہ دن اچھا دن ہے۔
رہی عقل ، تو وہ اسی سے اپنی خواہش کو قابو کرتا ہے، اور وہ اسے نقصان دہ راستے پر چلنے سے روکتی ہے، اور اسے منع کرتی ہے کہ وہ اسے دور کھینچ لے جائے، بعض حکماء کا قول ہے: ’’عقل ناراض دوست ہے، اور ھوائے نفس وہ دشمن ہے جس کی پیروی کی جاتی ہے‘‘، بعض علماء کا بیان ہے: ’’اﷲ نے فرشتوں میں بغیر شہوت کے عقل رکھی، اور جانوروں میں شہوت عقل کے بغیر رکھی، اور ابنِ آدم کو دونوں عطا کر دیے، پس اگر انسان کی عقل شہوت پر غالب آگئی تو وہ فرشتوں سے بہتر ہے، اور اگر اسکی شہوت عقل پر غالب آگئی، تو وہ جانوروں سے بھی بدتر ہے‘‘۔
ابو الحسن الماوردی کا قول ہے: ھوائے نفس خیر سے روکتی ہے، اور عقل کی ضد ہے؛ کیونکہ وہ اخلاق کے قبیح ہونے پر منتج ہوتی ہے، اور اس سے ایسے اعمال ظاہر ہوتے ہیں جو رسوائی کا سبب بنتے ہیں، اور وہ انسان کے پردے کو چاک کرتی ہے، اور شر کے راستوں کو کھولتی ہے ۔۔ اور جب ھوائے نفس غالب ہوتی ہے، تو وہ ہلاکت کے راستوں پر داخل کر دیتی ہے، اور عقل اس پر پر مشقت نگران بن جاتی ہے، وہ اسکی غفلت میں پھسلنے کو دیکھتی رہتی ہے، اور اسکے غلبے کی علامات کا دفاع کرتی ہے، اور اسکے دھوکے اور مکاریوں کا دفاع کرتی ہے، کیونکہ ھوائے نفس کا غلبہ بہت شدید ہوتا ہے، اور اسکے مکر کا راستہ چھپا ہوا ہوتا ہے۔
ھوی (خواہشِ نفس) اور عقل کے درمیان مکالمہ:
گویا کہ میں دیکھ رہا ہوں کہ ھوی اور عقل آپس میں جھگڑ رہی ہیں، اور وہ دونوں بلا تلوار حروف کی کشتی کر رہی ہیں، ہر ایک فتح یاب ہونا چاہتی ہے اور اپنے ساتھی کو کامیاب دیکھنا چاہتی ہے، وہ دونوں باہم گفتگو کر رہی ہیں ۔۔ ھوی فخر کرتی ہے ، اور اٹھلا کر چلتی ہے گویا کہ اس نے اسے بچایا ہے؛ اور وہ عقل سے کہتی ہے: میں ھوائے نفس ہوں، اور اے چھوٹی سی عقل جب میں چل پڑتی ہوں تو تجھے جب اور جس سمت چاہتی ہوں لے چلتی ہوں۔ تو عقل اسے یہ کہہ کر خاموش کروانا چاہتی ہے: میں عقل ہوں، میں تجھے اﷲ کی جانب پکارتی ہوں، اور برائی کی تمیز دیتی ہوں، تجھے گناہوں سے روکتی ہوں، اور تجھے بدعت سے روکتی ہوں، پھر تو وہی کرتا ہے جو میں چاہتی ہوں۔ ان دونوں کے درمیان مناظرہ جاری رہتا ہے، اور اعضاء گواہی دیتے ہیں:
۔ میں ھوی ہوں، جو الھوی سے مشتق ہے، میں تمہاری غفلت میں تمہیں بہا لے جاتی ہوں، اور تمہارے محسوس کئے بغیر تمہیں نیچوں سے نیچے گہرائیوں میں پھینک دیتی ہوں۔
۔ میں عقل ہوں، مجھے ربِ اعلی نے بنایا ہے، اور یہی بات اسکی عظمت کی دلیل ہے، میں اسکی بندگی کی دعوت دیتی ہوں،اور اسی کی فرمانبرداری کے بارے میں سوچتی ہوں، اور میں اپنے ساتھی کو اعلی علیین تک پہنچا دیتی ہوں۔
۔ میں ھوی ہوں، میں اپنے ساتھیوں کو بدعت کے دسترخوان پر اکٹھا کرتی ہوں، انہیں نافرمانی کا کھانا کھلاتی ہوں، میرے ساتھی بہت زیادہ ہیں، اور میرے پیروکار جانے پہچانے ہیں، شیطان میرا دوست ہے، اور نفسِ امارہ جو برائی پر اکساتا ہے وہ میرا ساتھی ہے، اور انسانوں میں ھدایت کو چھوڑ کر میرا اتباع کرنے والا میرا ساتھی ہے، وہ ساتھی ،جس نے رب کی اعلانیہ نافرمانی کی، اور تمہاری نصیحتوں کو اس نے ایک طرف رکھ دیا اے عقل۔
۔ میں عقل ہوں، میں عاقلوں کو سنت کے دسترخوان پر جمع کرتی ہوں، انہیں اطاعت کی حلاوت کا مزا چکھاتی ہوں، اور قرب کی لذت، اور علم کے دسترخوان پر بٹھاتی ہوں، اﷲ میرا خالق ہے، اور میرے ساتھی وہ عقلمند لوگ ہیں جو اﷲ اور اسکے رسول ﷺ کے راستے پر چلتے ہیں، اور میرے دوست علماء میں سے وہ لوگ ہیں جو لوگوں کو شرک سے خبردار کرتے ہیں اے ھوی، اور میرے ساتھی مخلص عمل کرنے والوں میں سے ہیں جو اتباعِ سنت کے حریص ہیں۔
اور انسان کے ھوائے نفس کی پیروی کے کئی اسباب ہیں، ان میں پہلا جہالت ہے، اﷲ تعالی فرماتا ہے: (بل اتبع الذین ظلموا اھواء ھم بغیر علم فمن یھدی من اضل اﷲ وما لھم من ناصرین) (الروم، ۲۹) (مگر یہ ظالم بے سمجھے بوجھے اپنے تخیلات کے پیچھے چل پڑے ہیں۔ اب کون اس شخص کو راستہ دکھا سکتا ہے جسے اﷲ نے بھٹکا دیا ہو؟ ایسے لوگوں کا تو کوئی مددگار نہیں ہو سکتا۔)
اور وہ فرماتا ہے: (ومن اضل ممن اتبع ھواہ بغیر ھدی من اﷲ) (القصص، ۵۰) (اور اس شخص سے بڑھ کر کون گمراہ ہو گاجو خدائی ہدایت کے بغیر بس اپنی خواہشات کی پیروی کرے؟)
یعنی وہ اپنے دلوں کی آراء مانتے ہیں، جنہیں وہ خود پسند کرتے ہیں، اور جنہیں شیطان بلا حجت و بلا دلیل انکے لئے پسندیدہ قرار دیتا ہے، کہ وہ کتاب اﷲ سے ماخوذ ہیں۔ اور وہ فرماتا ہے: (افمن کان علی بینۃ من ربہ کمن زین لہ سوء عملہ واتبعوا اھواء ھم) (محمد، ۱۴) (بھلا کہیں ایسا ہو سکتا ہے کہ جو اپنے رب کی طرف سے ایک صاف و صریح ہدایت پر ہو، وہ ان لوگوں کی طرح ہو جائے جن کے لئے ان کا برا عمل خوشنما بنا دیا گیا ہے اور وہ اپنی خواہشات کے پیرو بن گئے ہیں۔)
اور اﷲ تعالی مشرکین کے لئے فرماتا ہے: (ان ھی الا اسماء سمیتموھا انتم وآباء کم ما انزل اﷲ بھا من سلطان ان یتبعون الا الظن وما تھوی الانفس ولقد جاء ھم من ربھم الھدی) (النجم، ۲۳) (دراصل یہ کچھ نہیں ہیں مگر بس چند نام جو تم نے اور تمہارے باپ دادا نے رکھ لئے ہیں۔ اﷲ نے ان کے لئے کوئی سند نازل نہیں کی۔ حقیقت یہ ہے کہ لوگ محض وہم وگمان کی پیروی کر رہے ہیں اور خواہشاتِ نفس کے مرید بنے ہوئے ہیں۔ حالانکہ انکی طگرف انکے رب کی طرف سے ہدایت آچکی ہے۔)
انہوں نے اپنی ھوائے نفس کی پیروی کی، کیونکہ انہوں نے وہ وحی سے حاصل نہیں کیا تھا ، جو انکے پاس انکے رب کی طرف سے آئی تھی، اور نہ اﷲ کے رسول نے انہیں اسکی خبر دی تھی، بلکہ یہ انہوں نے اپنی طرف سے تراشا تھا، یا اپنے باپ دادا سے لیا تھا، اور وہ بھی انکی مانند اﷲ کے ساتھ کفر ہی کرتے تھے۔
اور اسی میں سے ایک کبر ہے ۔۔ اسی لئے ہم قرآنِ کریم میں دیکھتے ہیں کہ ہمارا رب سبحانہ وتعالی بنی اسرائیل کی صفات میں انبیاء کے مقابلے میں ظلم، عناد، مخالفت اور استکباربیان کرتا ہے، اور یہ کہ وہ اپنی خواہشاتِ نفس کی پیروی کرتے ہیں (افکلما جاء ھم رسول بما لا تھوی انفسکم افتکبرتم ففریقاً کذبتم وفریقاً تقتلون) (البقرۃ، ۸۷)(پھر یہ تمہارا کیا ڈھنگ ہے کہ جب بھی کوئی رسول تمہاری خواہشاتِ نفس کے خلاف کوئی چیز لیکر تمہارے پاس آیا، تو تم نے اس کے مقابلے میں سرکشی ہی کی، کسی کو جھٹلایا اور کسی کو قتل کر ڈالا۔)
اور انہیں میں دل کی غفلت ہے ۔۔ اﷲ تعالی فرماتا ہے: (واصبر نفسک مع الذین یدعون ربھم بالغداۃ والعشی یریدون وجھہ ولا تعد عیناک عنھم ترید زینۃ الحیاۃ الدنیا ولا تطع من اغفلنا قلبہ عن ذکرنا واتبع ھواہ وکان امرہ فرطاً) (الکھف، ۲۸) (اور اپنے دل کو ان لوگوں کی معیت پر مطمئن کرو جو اپنے رب کی رضا کے طلبگار بن کر صبح و شام اسے پکارتے ہیں، اور ان سے ہرگز نگاہ نہ پھیرو۔ کیا تم دنیا کی زینت پسند کرتے ہو؟ کسی ایسے شخص کی اطاعت نہ کرو، جس کے دل کو ہم نے اپنی یاد سے غافل کر دیا ہے، اور جس نے اپنی خواہشِ نفس کی پیروی اختیار کر لی ہے، اور جسکا طریقِ کار افراط و تفریط پر مبنی ہے۔)
جیسا کہ خواہشِ نفس کی پیروی کے اسباب میں دنیا کی زندگی سے محبت بھی ہے، اور ضعفِ ایمان، بری صحبت، خود پسندی، اور دلوں کے امراض بھی ہیں، اور ان اسباب سے درج ذیل نتیجہ برامد ہوتا ہے۔
اتباعِ ھوی کے آثار:
ھوی انسان کے لئے خیر کے راستے روکنے والا راہزن ہے، جو اسے حق کی پیروی سے روکتا ہے، اور اسے حسنِ عمل سے دور کر دیتا ہے، اور اسے ایسے امراض میں مبتلا کر دیتا ہے جو اسکے لئے انتہائی مہلک ہیں اور صرف اسکے لئے ہی نہیں بلکہ فرد اور معاشرے دونوں پر برے اثرات مرتب کرتے ہیں، بلکہ نفوس اور ارواح دونوں پر اثر انداز ہوتے ہیں، اور اسکے اثرات میں سے درج ذیل ہیں:
۔ وہ اعضاء کو معطل کرتے اور اﷲکے راستے سے گمراہ کرتے ہیں ۔۔
اﷲ تعالی کا فرمان ہے: (افرأیت من اتخذ الھہ ھواہ واضلہ اﷲ علی علم وختم علی سمعہ وقلبہ وجعل علی بصرہ غشاوۃ فمن یھدیہ من بعد اﷲ افلا تذکرون) (الجاثیۃ، ۲۳) (پھر کیا تم نے اس شخص کے حال پر بھی غور کیا جس نے اپنی خواہشِ نفس کو اپنا خدا بنا لیا اور اﷲ نے علم کے باوجود اسے گمراہی میں پھینک دیا اور اسکے دل اور کانوں پر مہر لگا دی اور اسکی آنکھوں پر پردہ ڈال دیا؟ اﷲ کے بعد اب کون ہے جو اسے ہدایت دے؟ کیا تم لوگ کوئی سبق نہیں لیتے؟)
پس وہ اپنی ھوی کا حکم مانتا ہے، وہ اسے جتنا خوبصورت دکھائے وہ کر گزرتا ہے، اور جس قدر اسے قبیح دکھائے وہ اسے چھوڑ دیتا ہے، اور ھوائے نفس کے اتباع میں ہر چیز کی پیروی کرتا ہے، قتادہ نے فرمایا: یہ کافر ہے جو ھوائے نفس سے اپنا دین چنتا ہے، اور جس چیز کو وہ مزین کرے اسی پر سوار ہو جاتا ہے، اور سعید بن جبیر نے فرمایا: ان میں سے ایک پتھر کو پوجتا تھا، اور جب اسے اس سے زیادہ خوبصورت نظر آتا وہ پہلے کو پھینک دیتا اور دوسرے کو پوجنے لگتا۔ اور کہا گیا: یہی معنی ہیں اس کے: کیا تم نے اس شخص کو دیکھا جس نے اپنے دین کو اپنی خواہشِ نفس کے تابع کر لیا، پس اسے جو شے دلپسند لگتی ہے اسی پر سوار ہو جاتا ہے، کیونکہ وہ اﷲ پر ایمان نہیں لاتا، اور اسکے حرام کو حرام نہیں ٹھہراتا، نہ اسکے حلال کو حلال سمجھتا ہے، اسکا یہی دین ہے کہ جو اسے بھا جائے اسے اختیار کر لیتا ہے۔
اور جو فرمایا گیا کہ کیا تم نے اس شخص کو دیکھا ہے جس نے اپنی خواہشِ نفس کو اپنا معبود بنا لیا ہے، تو یہ تعجب کے لئے ہے، کیوکہ صاحبِ عقل لوگ اس جہالت پر تعجب کرتے ہیں۔
۔ وہ تکذیب کرتے ہیں اور اﷲ اور رسول کی بات نہیں مانتے ۔۔
اﷲ تعالی فرماتا ہے: (وکذبوا واتبعوا اھواء ھم وکل امر مستقر) ( القمر، ۳) (انہوں نے اس کو بھی جھٹلا دیا اور اپنی خواہشاتِ نفس ہی کی پیروی کی۔ ہر معاملہ کو آخر کار ایک انجام پر پہنچ کر رہنا ہے۔)
اور اﷲ تعالی کا فرمان ہے: (فان لم یستجیبوا لک فاعلم انما یتبعون اھواء ھم ومن اضل ممن اتبع ھواہ بغیر ھدی من اﷲ ان اﷲ لا یھدی القوم الظالمین) (القصص،۵۰) (اب اگر وہ تمہارا یہ مطالبہ پورا نہیں کرتے تو سمجھ لو کہ دراصل یہ اپنی خواہشات کے پیرو ہیں، اور اس شخص سے بڑھ کر کون گمراہ ہو گا جو خدائی ہدایت کے بغیر بس اپنی خواہشات کی پیروی کرے؟ اﷲ ایسے ظالموں کو ہرگز ہدایت نہیں بخشتا۔)
اور فرمایا: (فلا یصدنک عنھا من لا یؤمن بھا واتبع ھواہ فتردی) (طہ، ۱۶) (پس کوئی ایسا شخص جو اس پر ایمان نہیں لاتا اور اپنی خواہشِ نفس کا بندہ بن گیا ہے تجھ کو اس گھڑی کی فکر سے نہ روک دے، ورنہ تو ہلاکت میں پڑ جائے گا۔)
۔ نعمت کا چلے جانا ۔۔
اﷲ تعالی نے فرمایا ہے: (واتل علیھم نبأ الذی آتیناہ آیاتنا فانسلخ منھا فاتبعہ الشیطان فکان من الغاوین ۰ ولو شئنا لرفعناہ بھا ولکنہ اخلد الی الارض واتبع ھواہ ) (الاعراف (۱۷۵ ۔ ۱۷۶) (اور اے نبیؐ، ان کے سامنے اس شخص کا حال بیان کروجس کو ہم نے اپنی آیات کا علم عطا کیا تھا مگر وہ ان کی پابندی سے نکل بھاگا۔ آخر کار شیطان اسکے پیچھے پڑ گیا یہاں تک کہ وہ بھٹکنے والوں میں شامل ہو کر رہا۔ اگر ہم چاہتے تو اسے ان آیتوں کے ذریعے سے بلندی عطا کرتے، مگر وہ تو زمین ہی کی طرف جھک کر رہ گیا، اور اپنی خواہشِ نفس ہی کے پیچھے پڑا رہا۔)
۔ اپنے ساتھی کو عدل سے روکتا ہے، اور غیر حق کی گواہی پر اکساتا ہے ۔۔
اﷲ تعالی نے فرمایا ہے: (یاایھا الذین آمنوا کونوا قوّامین بالقسط شھداء ﷲ ولو علی انفسکم او الوالدین والاقربین ان یکن غنیاً او فقیراً فاﷲ اولی بھما فلا تتبعوا الھوی ان تعدلوا وان تلووا او تعرضوا فان اﷲ کان بما تعملون خبیراً) (النساء، ۱۳۵) (اے لوگو جو ایمان لائے ہو، انصاف کے علم بردار اور خدا واسطے کے گواہ بنو، اگرچہ تمہارے انصاف اور تمہاری گواہی کی زد خود تمہاری اپنی ذات پر یا تمہارے والدین اور رشتہ داروں پر ہی کیوں نہ پڑتی ہو۔ فریقِ معاملہ خواہ مالدار ہو یا غریب، اﷲ تم سے زیادہ ان کا خیر خواہ ہے۔ لہذا اپنی خواہشِ نفس کی پیروی میں عدل سے باز نہ رہو۔ اور اگر تم نے لگی لپٹی بات کہی یا سچائی سے پہلو بچایا تو جان رکھو کہ جو کچھ تم کرتے ہو اﷲ کو اس کی خبر ہے۔)
اور اسکا فرمان: (فلا تتبعوا الھوی ان تعدلوا) یعنی تمہیں ھوی اور عصبیت اس پر آمادہ نہ کرے، اور نہ لوگوں کے خلاف بغض کہ تم اپنے معاملات اور امور میں عدل کو ترک کر دو، بلکہ ہر حال میں عدل سے چمٹے رہو۔
۔ فیصلے میں ظلم پر آمادہ کرتا ہے ۔۔
اﷲ تعالی فرماتا ہے: (فاحکم بین الناس بالحق ولا تتبع الھوی فیضلک عن سبیل اﷲ) (ص، ۲۶) (تو لوگوں کے درمیان حق کے ساتھ فیصلہ کر، اور خواہشِ نفس کی پیروی نہ کر کہ وہ تجھے اﷲ کی راہ سے بھٹکا دے گی۔) پس خواہش نفس کی پیروی تباہ اور ہلاک کرنے والی ہے، شعبی کا قول ہے: اﷲ تعالی نے حکام سے تین چیزوں کا عہد لیا: کہ وہ ھوی کی پیروی نہ کریں گے، اور لوگوں سے نہ ڈریں گے بلکہ اس سے ڈریں گے، اور یہ کہ اسکی آیات کے بدلے تھوڑی قیمت وصول نہ کریں گے۔ (قرطبی)۔
۔ عمل میں تفریط پر ابھارتا ہے ۔۔
اﷲ تعالی فرماتا ہے: (ولا تطع من اغفلنا قلبہ عن ذکرنا واتبع ھواہ وکان امرہ فرطاً) (الکھف، ۲۸) (کسی ایسے شخص کی اطاعت نہ کرو، جس کے دل کو ہم نے اپنی یاد سے غافل کر دیا ہے اور جس نے اپنی خواہشِ نفس کی پیروی اختیار کر لی ہیاور جس کا طریقِ کار افراط و تفریط پر مبنی ہے۔)
یعنی دین اور عبادت سے ہٹ کر دنیا میں مشغول ہو جائے، اور اسکا معاملہ افراط و تفریط پر مبنی ہو، یعنی اسکے اعمال اور افعال بیوقوفانہ ہوں اور تفریط اور ضیاع پر مبنی ہوں۔
۔ بدعات کو ظہور میں لانے اور ان پر عمل کرنے پر اکساتا ہے ۔۔
کبھی وہ عقائد اور عبادات میں ہوتی ہے، اور بدعت تو پیدا ہی شرع کے مقابلے میں ھوی کو مقدم رکھنے سے ہوتی ہے، اسی لئے ان لوگوں کو اہل الھوی کہا جاتا ہے، اسی طرح جب اطاعات کا راستہ کٹ جاتا ہے تو راہزن گناہوں کی افزائش کا سبب بن جاتے ہیں۔
۔ نیک عمل کرنے کا راستہ رک جاتا ہے ۔۔
نبی اکرمﷺ نے فرمایا: ’’تم میں سے کوئی شخص مؤمن نہیں ہو سکتا حتی کہ اسکی ھوی (خواہشِ نفس) اس چیزکے تابع نہ ہو جائے جو میں لیکر آیا ہوں‘‘ (اربعین نووی)۔
ہماری زندگی میں ھوی کے اتباع کی مختلف اور متنوع صورتیں ہیں، ہم ان سے غافل ہو جاتے ہیں، اور انکا کچھ احساس نہیں کرتے ۔۔ افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ کچھ لوگ حبّ اﷲ عز وجل کا دعوی کرتے ہیں لیکن انکے اعمال، اخلاق اور انکا عقیدہ ، انکی عبادات اور معاملات سب اس محبت کی نفی کی چغلی کھا رہے ہوتے ہیں، کیونکہ وہ اﷲ کی شریعت کو چھوڑ کر خواہشِ نفس کی پیروی میں لگے ہوتے ہیں، ان میں سے ایسے بھی ہیں جو نماز پڑھتے ہیں نہ روزہ رکھتے ہیں، اور (بڑی ڈھٹائی سے) کہتے ہیں: اﷲ بڑا غفور رحیم ہے! اور ایسے بھی ہیں جو کھانے پینے سے رکنے کا روزہ تو رکھ لیتے ہیں، مگر وہ خواہشِ نفس کی پیروی کرتے ہیں، اور انکے اعضاء افطار کر لیتے ہیں، وہ برے اخلاض سے پیش آتے ہیں، اور یوں روزے کی حکمت ضائع کر دیتے ہیں۔
کچھ لوگ عبادت میں کمی یا زیادتی سے نقص پیدا کر دیتے ہیں، اور ایسے اعمال بجا لاتے ہیں جن کا اﷲ نے حکم دیا ہے نہ انکے رسول نے، اور اپنے تئیں گمان کرتے ہیں کہ وہ زیادہ خیر کما رہے ہیں، اور یہ بھول جاتے ہیں کہ توقیفی عبادات اتباع خداوندی اور اتباعِ رسول کا مطالبہ کرتی ہیں، اور مقرر کردہ سے زیادہ نہ کرنے کی تاکید کرتی ہیں، اور رسول اﷲ ﷺ کا فرمان ہے : ’’جس نے ہمارے حکم میں نئی چیز کا اضافہ کیا، جو اس میں نہیں تھا، تو وہ رد کر دیا جائے گا‘‘۔(بخاری)۔
اور ایسے لوگ بھی ہیں جو خواہشِ نفس کی پیروی میں برائیوں، فواحش، زنا اور فسق و فجور کا ارتکاب کرتے ہیں، بعض لوگ پردے کو نہیں مانتے اور کہتے ہیں کہ یہ آج کے زمانے کی ضرورت ہے، یا اپنی خواہش کے حکم کو مانتے ہوئے میراث میں عورتوں اور مردوں کے درمیان کامل مساوات کا مطالبہ کرتے ہیں، یا یہ ثابت کرنے کی کوشش کرتے ہیں کہ اﷲ کی شریعت پر آج کے دور میں عمل درست نہیں!!
ایسی خواتین بھی ہیں جو رب سے محبت کا دعوی تو کرتی ہیں، لیکن درحقیقت خواہشِ نفس کی پیروکار ہیں،اور زمامِ کار کی قیادت اس کے ہاتھ میں تھما دیتی ہیں، اور وہ رب کے احکامات سے دور اور اسکے منع کردہ احکام سے قریب ہیں؛ وہ اپنے نفس کے حقِ بندگی کو ضائع کر دیتی ہیں، اور اپنی اولاد کی تربیت کا حق ادا نہیں کرتیں، اور شوہر کے ازواجی حقوق ادا نہیں کرتیں، نہ انکے اہلِ خانہ سے صلہ رحمی کرتی ہیں، وہ اپنے آپ کو مطلق العنان سمجھتی ہیں، اور خواہشِ نفس کی پیروی کرتی ہیں، اور وہ انہیں پورا یقین دلاتی ہے کہ اسلام میں ان پر تو بہت ظلم ہو رہا ہے، اور وہ اسکی آزادی کا نعرہ لگاتی ہے! اور یوں عورت بیخبری ہی میں ماری جاتی ہے، نہ اسکی کوئی پہچان رہتی ہے، کیونکہ وہ خود اپنی شناخت، اپنے دین، اپنے ستر، اور حیا اور لباس اور اخلاق سے الگ ہو جاتی ہے، اور یہ گمان کرتی ہے کہ ان سب کو ترک کر کے اس نے بہت خیر حاصل کر لیا ہے!
اور خواہشِ نفس کی پیروی میں انسان بہت نادانی برتتا ہے جب وہ عبادت اور سلوک، دین اور اخلاق ، اور قول اور عمل میں فرق قائم کرتا ہے، جبکہ اسلام ان میں تمیز نہیں کرتا!
ان میں کچھ ایسے بھی ہیں جو ھوی کی پیروی میں اپنی عقل کو مدہوشی کے سپرد کر دیتے ہیں، یا نشے کا شکار ، اور یا اپنی فکر کو اعتقاداتِ باطلہ ، منہدم افکار اور خبیث وسوسوں پر ڈھٹائی سے جما دیتے ہیں!
اور ان میں کچھ لوگ ایسے بھی ہیں جو دوسروں پر حکم چلاتے ہوئے خواہشِ نفس کی پیروی کرتے ہیں، وہ اپنے دینی اور دنیوی اقوال و افعال کے لئے کسی علم کے بغیر محض گمان سے حکم لاتے ہیں، اور انکی پوری عمر انہیں تاویلات کے معرکوں میں گزر جاتی ہے، اور گمان، غیبت اور چغلیاں اسے نفرت، عداوت، دشمنی اور جھگڑے کی جانب لے جاتی ہیں، اور ان سب کا مرجع بھی بلا دلیل و برھان ھوی کا اتباع ہے۔
کچھ لوگ ھوی کی پیروی میں اپنی زوجہ کے حقوق میں کمی کر دیتے ہیں، اور اولاد سے غافل ہو جاتے ہیں، اور قطع رحمی کرتے ہیں، اور اپنے ساتھیوں اور پڑوسیوں سے برا سلوک کرتے ہیں۔
بعض لوگوں کو خواہش کی پیروی اس قدر عزیز ہوتی ہے کہ وہ جہالت پر راضی رہتے ہیں، اور وہ جن حالات میں رہ رہے ہوں اس میں تبدیلی، بہتری اور تغیر کے بھی خواہش مند نہیں ہوتے!
اور کچھ لوگوں کا عمل حبِ دنیا ، اور اسکی ترجیح میں آخرت اور اسکے اعمال کو فراموش کر کے ھوی کے اتباع میں ہوتا ہے!
اور بعض لوگ خواہشِ نفس کی پیروی میں اپنے بھائیوں کی بلا حجت و دلیل تکفیر کرتے ہیں، اور ان قر فسق اور منافقت کا حکم لگاتے ہیں!
اور کچھ لوگ امن میں آئے ہوئے لوگوں کو خواہش نفس کی پیروی میں ، بغیر اسکے کہ انہوں نے کسی کے حق میں گناہ کا ارتکاب کیا ہو ، ناحق موت کا فیصلہ سناتے ہیں!
اور کچھ لوگ ھوائے نفس کے اتباع میں اہلِ حقوق کے حقوق سلب کر لیتے ہیں، اور اپنے لئے انکے مال اور انکی عزتیں اور خون مباح کر لیتے ہیں، اور رشوت، حرام اور جھٹ اور کذب بیانی کو اپنے لئے جائز کر لیتے ہیں، اگر وہ اس سب سے دنیا ک خزانے بھی بھر لیں تو آخرت کا نقصان کریں گے!
اور ان میں ایسے بھی ہیں جو ھوائے نفس کی پیروی میں اپنے ہی ہم جنس انسانوں کی تعذیب دینے کا مزا لیتے ہیں، حالانکہ انہوں نے انکا جرم بھی ثابت نہیں کیا، بلکہ انہیں اتنی اذیت دے کر نہ انکے ماتھے پر کوئی سلوٹ پڑتی ہے ، نہ انکے رونگٹے کھڑے ہوتے ہیں نہ انکی آنکھ سے کوئی آنسو ٹپکتا ہے!
ایسی ہی ہزاروں مثالیں ہیں، جو سب اتبائے ھوی کا شاخسانہ ہیں، اور اسکا نفصان فرد بھی سہتا ہے، اور گروہ بھی ، خاندان بھی اور معاشرہ بھی ۔۔ اور لوگوں میں سے جو بھی ایسا ہے تو اس نے اپنے آپ کو ھلاکت کے لئے پیش کردیا ، اور نبی کریم ﷺ اسی سے خبردار کرتے ہوئے فرماتے ہیں: ’’تین ھلاک کر دینے والی چیزیں ہیں: بخیل جس کی اطاعت کی جائے، اور خواہش جسکا اتباع کیا جائے، اور بندے کا خود پسند ہونا‘‘ (البانی، سلسلہ صحیحہ)۔ اور فرمایا: ’’میں تمہارے بارے میں گمراہ کن خواہشات کے بارے میں ڈرتا ہوں جو تمہارے پیٹوں اور شرم گاہوں میں ہیں، اور گمراہ کن خواہشِ نفس کے بارے میں‘‘(احمد)۔
جنت کی کنجی:
اور ھوی کے بارے میں اﷲ تعالی کایہی فرمان کافی ہے: (واما من خاف مقام ربہ ونھی النفس عن الھوی۰ فان الجنۃ ھی الماوی ) (النازعات، ۴۰ ۔ ۴۱) (اور جس نے اپنے رب کے سامنے کھڑے ہونے کا خوف کیا تھااور نفس کو بری خواہشات سے باز رکھا تھا، جنت اسکا ٹھکانا ہو گی۔)
یعنی اﷲ عز وجل کے سامنے کھڑا ہونے سے ڈرا، اور اس میں اﷲ کے فیصلے کا خوف کیا، اور اپنے آپ کو ھوائے نفس سے روکا، اور اسے آقا کی فرمانبرداری کی جانب موڑ دیا، اور گناہوں اور حرام کا ارتکاب کرنے پر اسے ڈانٹا، اور فرائض کی ادائیگی کا خوف دلایا، اور گناہوں سے اجتناب کروایا۔
حسن بصری نے فرمایا: سب سے افضل جہاد ھوی کے خلاف جہاد ہے۔ اور ابنِ سماک نے فرمایا: ’’اپنی خواہشِ نفس کو ٹرخاؤ، اور اپنی عقل کو مددگار بناؤ، اور اس سے آگاہ رہو جو تمہاری آخرت برباد کر دے گی، اپنے نفس کو اس سے ایک جانب کر لو، نفس پر ڈھلی گرفت اور ، اور اسکی گراوٹ ، مرض ہے، اور گراوٹ والی اشیاء کو ترک کر دینا ہی اسکی دوا ہے، پس اگر تمہیں مرض کا خوف ہے تو دوا پر صبر کر لو‘‘۔ اور سہل بن عبد اﷲ تستری نے فرمایا: تیری ھوی ہی تیرا مرض ہے، اور اگر تم اسکی مخالفت میں ڈٹ جاؤ تو یہی اسکی دوا ہے۔ بعض حکماء نے سوال کیا: لوگوں میں سب سے زیادہ شجاع اور اپنے مجاہدے میں کامیابی کا سب سے مشتاق کون ہے؟ فرمایا: جس نے ھوائے نفس سے جہاد کرتے ہوئے اسے رب کی اطاعت پر لگا لیا، اور اس مجاہدے میں ھوائے نفس اسکے دل پر کیا کیا اثر ڈالتی رہی ، اس پر خاموش رہا۔
اور جو ھوی کا اتباع چھوڑ دیتا ہے، اسکا ایمان بڑھ جاتا ہے، اور اسکے ثمرات ، اطاعت، محبت، اتباع، موافقت، مراقبے ، خوف، خشیت ، انابت، سلوک، اخلاق، قول اور عمل میں بڑھتے اور نشونما پاتے ہیں، پس اﷲ سے استعانت طلب کرو اور ھوی کے سامنے گھٹنے نہ ٹیک دو۔ وھب کا قول ہے: جب تجھے دو چیزوں میں شک ہو، اور تجھے معلوم نہ ہو کہ ان میں بہتر کونسی ہے، تو جسے اپنی ھوی سے دور پائے اسے اختیار کر لے، اور اس معاملے میں اﷲ کا یہ فرمان ہی کافی ہے: (واما من خاف مقام ربہ ونھی النفس عن الھوی۰ فان الجنۃ ھی المأوی) (النازعات، ۴۰ ۔ ۴۱) (اور جس نے اپنے رب کے سامنے کھڑے ہونے کا خوف کیا تھااور نفس کو بری خواہشات سے باز رکھا تھا، جنت اسکا ٹھکانا ہو گی۔)
اور اگر کمزور لمحوں میں تیرا نفس تجھے اتباعِ ھوی کا حکم دے، جو رب کی رضا کے خلاف ہے، تو جان لے کہ اس لمحے ھوی کو ترک کرنا ہی جنت کی کنجی ہے، اگر تو نے ھوی کی پیروی کی تو وہ ہمیشگی کے گھر میں تیرا داخلہ بند کرا دے گی، ’’خبردار اﷲ کی تجارت بڑی قیمتی ہے، سن لو اﷲ کی تجارت جنت ہے‘‘۔

حصہ
mm
ڈاکٹر میمونہ حمزہ نے آزاد کشمیر یونیورسٹی سے ایم اے اسلامیات امتیازی پوزیشن میں مکمل کرنے کے بعد انٹر نیشنل اسلامی یونیورسٹی سے عربی زبان و ادب میں بی ایس، ایم فل اور پی ایچ ڈی کی تعلیم حاصل کی۔ زمانہء طالب علمی سے ہی آپ کی ہلکی پھلکی تحریریں اور مضامین شائع ہونے لگیں۔ آپ نے گورنمنٹ ڈگری کالج مظفر آباد میں کچھ عرصہ تدریسی خدمات انجام دیں، کچھ عرصہ اسلامی یونیورسٹی میں اعزازی معلمہ کی حیثیت سے بھی کام کیا، علاوہ ازیں آپ طالب علمی دور ہی سے دعوت وتبلیغ اور تربیت کے نظام میں فعال رکن کی حیثیت سے کردار ادا کر رہی ہیں۔ آپ نے اپنے ادبی سفر کا باقاعدہ آغاز ۲۰۰۵ء سے کیا، ابتدا میں عرب دنیا کے بہترین شہ پاروں کو اردو زبان کے قالب میں ڈھالا، ان میں افسانوں کا مجموعہ ’’سونے کا آدمی‘‘، عصرِ نبوی کے تاریخی ناول ’’نور اللہ‘‘ ، اخوان المسلمون پر مظالم کی ہولناک داستان ’’راہِ وفا کے مسافر‘‘ ، شامی جیلوں سے طالبہ ہبہ الدباغ کی نو سالہ قید کی خودنوشت ’’صرف پانچ منٹ‘‘ اورمصری اسلامی ادیب ڈاکٹر نجیب الکیلانی کی خود نوشت ’’لمحات من حیاتی‘‘ اور اسلامی موضوعات پر متعدد مقالہ جات شامل ہیں۔ ترجمہ نگاری کے علاوہ آپ نے اردو ادب میں اپنی فنی اور تخلیقی صلاحیتوں کا بھی مظاہرہ کیا،آپ کے افسانے، انشائیے، سفرنامے اورمقالہ جات خواتین میگزین، جہادِ کشمیر اور بتول میں شائع ہوئے، آپ کے سفر ناموں کا مجموعہ زیرِ طبع ہے جو قازقستان، متحدہ عرب امارات اور سعودی عرب میں آپ کے سفری مشاہدات پر مبنی ہے۔جسارت بلاگ کی مستقل لکھاری ہیں اور بچوں کے مجلہ ’’ساتھی ‘‘ میں عربی کہانیوں کے تراجم بھی لکھ رہی ہیں۔

1 تبصرہ

  1. بہت عمدہ تحریر۔ میں خواہش نفس کے الہ ہونے کے بارے میں اک عرصے سے ایسی ہی کسی تحریر کا متلاشی تھا۔ جزاک اللہ خیر

جواب چھوڑ دیں