ایمان مغازی الشرقاوی
ترجمہ: میمونہ حمزہ
(۴)
ہم میں سے ہر شخص خواہ وہ نافرمان ہو یا فرماں بردار ، یکساں طور پر اﷲ سے محبت کا دعویدار ہے، لیکن اﷲ سبحانہ وتعالی سے محبت کی پہلی کڑی ،اسکی بات ماننا اور اتباع کرنا ہے، اور نفسِ امارہ جو برائی پر اکساتا رہتا ہے اسکی اور خواہشِ نفس کی مخالفت کرنا ہے، حسن بصری اور دوسرے سلف وغیرہ فرماتے ہیں: کچھ لوگوں نے گمان کیا کہ انہیں اﷲ سے محبت ہے، پھر اﷲ نے انہیں اس آیت سے آزمایا، اور فرمایا: (قل ان کنتم تحبون اﷲ فاتبعونی یحببکم اﷲ) (آل عمران، ۳۱) (اے نبیؐ، کہہ دو کہ ’’اگرتم حقیقت میں اﷲ سے محبت رکھتے ہو ، تو میری پیروی اختیار کرو، اﷲ تم سے محبت کرے گا۔)
اور حسن سے روایت ہے، اصحاب النبی ﷺ نے کہا: اے اﷲ کے رسولﷺ ، ہم اپنے رب سے شدید محبت کرتے ہیں، پس اﷲ نے پسند کیا کہ وہ انکی محبت کو علم سے جانے، تو اس نے یہ آیت نازل فرمائی ۔۔ اور سچی محبت سے مراد پیروی اور فرمانبرداری ہے، اور محبوب کی پسند کو اپنی پسند اور اسکے ناپسند کا اپنا ناپسندیدہ بنا لینا، اﷲ عز وجل نے فرمایا ہے: (قل ان کان آباء کم وابناء کم و اخوانکم وازواجکم وعشیرتکم واموال اقترفتموھا وتجارۃ تخشون کسادھا ومساکن ترضونھا احب الیکم من اﷲ ورسولہ وجہاد فی سبیلہ فتربصوا حتی یاتی اﷲ بامرہ واﷲ لا یھدی القوم الفاسقین) (التوبۃ، ۲۴) (اے نبیؐ، کہہ دو کہ اگر تمہارے باپ، اور تمہارے بیٹے، اور تمہارے بھائی، اور تمہاری بیویاں، اور تمہارے عزیز و اقارب، اور تمہارے وہ مال جو تم نے کمائے ہیں، اور تمہارے وہ کاروبار جن کے ماند پڑ جانے کا تم کو خوف ہے، اور تمہارے وہ گھر جو تم کو پسند ہیں، تم کو اﷲ اور اسکے رسولؐ اور اسکی راہ میں جہاد سے عزیز تر ہیں تو انتظار کرو یہاں تک کہ اﷲ اپنا فیصلہ تمہارے سامنے لے آئے، اور اﷲ فاسق لوگوں کی رہنمائی نہیں کیا کرتا۔)
اسطرح ہر مسلمان پر واجب ہے کہ وہ ایسی خواہش کی پیروی نہ کرے جو اسکا راستہ اﷲ اور اسکے رسول ﷺکی محبت تک پہنچنے سے روکے،اور وہ حب اﷲ اور حبِ رسولﷺ پر خواہشِ نفس کی کسی صنف کو بھی ترجیح نہ دے، اور وہ اﷲ اور اسکے رسول کی رضا پر اپنی خواہش کو مقدم نہ رکھے، سب سے پہلے وہ خود کو اﷲ اور اسکے رسولﷺ کی منع کردہ اشیاء سے باز رکھے، سہل بن عبد اﷲ کا قول ہے: ’’حب الہی کی علامت حب القرآن ہے، اور حبِ قرآن کی علامت حبِّ نبی ﷺ ہے، اور حبِ نبیﷺ کی علامت حبِّ سنت ہے، اور حبِّ سنت کی علامت حبِّ آخرت ہے‘‘۔
خواہش ۔۔ اور عقل:
اور خواہشِ نفس بھی بندے کے لئے راہزن بن جاتی ہے، جب وہ اﷲ کی رہنمائی کے بغیر اسکی پیروی میں لگ جائے، اور ھوی (خواہش پرستی) کا استعمال ان معنوں میں معروف ہے: وہ خلافِ حق کی جانب جھکاتی ہے، جیسا کہ اﷲ تعالی کا فرمان ہے:(ولا تتبع الھوی فیضلک عن سبیل اﷲ) (ص، ۲۶) (اور خواہشِ نفس کی پیروی نہ کرکہ وہ تجھے اﷲ کی راہ سے بھٹکا دے گی۔)
اور اسکا فرمان: (واما من خاف مقام ربہ ونھی النفس عن الھوی ۰ فان الجنۃ ھی الماوی۰) (النازعات، ۴۰ ۔ ۴۱) (اور جس نے اپنے رب کے سامنے کھڑا ہونے سے خوف کیا، اور نفس کو بری خواہشات سے باز رکھا، جنت اسکا ٹھکانا ہو گی۔)
اور کبھی ھوی کا لفظ محبت اور جھکاؤ کے لئے استعمال ہوتا ہے، اور اسے حق کی جانب جھکاؤ کے لئے بھی استعمال کرتے ہیں۔ شعبی کا قول ہے: ھوی کو ھوی کہتے ہی اس لئے ہیں کہ وہ اپنے ساتھی کو آگ میں دھکیلتا ہے، اور ھوی سے مراد کسی چیز کی جانب جھکاؤ ہے۔
ابنِ عباسؓ فرماتے ہیں: ھوی بھی ایک الہ ہے جسے اﷲ کے سوا پوجا جاتا ہے، اور اﷲ نے قرآن میں جہاں بھی ھوی کا ذکر کیا اسکی مذمت ہی کی ، اﷲ تعالی کا فرمان ہے: (واتبع ھواہ فمثلہ کمئل الکلب ان تحمل علیہ یلھث او تترکہ یلھث) (الاعراف، ۱۷۶) (اور اپنی خواہشِ نفس ہی کے پیچھے پڑا رہا، لہذا اس کی حالت کتے کی سی ہو گئی کہ تم اس پر حملہ کرو تب بھی زبان لٹکائے رہے اور چھوڑ دو تب بھی زبان لٹکائے رہے۔)
مزید فرمایا: (واتبع ھواہ وکان امرہ فرطا) (الکھف، ۲۸) (جس نے اپنی خواہشِ نفس کی پیروی اختیار کر لی ہے اور جس کا طریقِ کار افراط و تفریط پر مبنی ہے۔)
اور فرمایا: (بل اتبع الذین ظلموا اھواء ھم بغیر علم فمن یھدی من اضل اﷲ) ( الروم، ۲۹) (مگر یہ ظالم بے سمجھے بوجھے اپنے تخیلات کے پیچھے چل پڑے ہیں۔ اب کون اس شخص کو راستہ دکھا سکتا ہے جسے اﷲ نے بھٹکا دیا ہو؟)
اور فرمایا: (فان لم یستجیبوا لک فاعلم انما یتبعون اھواء ھم ومن اضل ممن اتبع ھواہ بغیر ھدی من اﷲ) (القصص، ۵۰) (اب اگر وہ تمہارا یہ مطالبہ پورا نہیں کرتے تو سمجھ لو کہ در اصل یہ اپنی خواہشات کے پیرو ہیں، اور اس شخص سے بڑھ کر کون گمراہ ہو گا جو خدائی ہدایت کے بغیر بس اپنی خواہشات کی پیروی کرے؟)
ابو درداءؓ نے فرمایا: ’’جب آدمی اپنی ھوائے نفس ، عمل اور علم کو اکٹھا کر دے، اور اسکا اس روز کا عمل ھوائے نفس کی پیروی میں گزرا، تو وہ برا دن ہے، اور اگر اسکا عمل اسے علم کے تابع ہوا، تو اسکا وہ دن اچھا دن ہے۔
رہی عقل ، تو وہ اسی سے اپنی خواہش کو قابو کرتا ہے، اور وہ اسے نقصان دہ راستے پر چلنے سے روکتی ہے، اور اسے منع کرتی ہے کہ وہ اسے دور کھینچ لے جائے، بعض حکماء کا قول ہے: ’’عقل ناراض دوست ہے، اور ھوائے نفس وہ دشمن ہے جس کی پیروی کی جاتی ہے‘‘، بعض علماء کا بیان ہے: ’’اﷲ نے فرشتوں میں بغیر شہوت کے عقل رکھی، اور جانوروں میں شہوت عقل کے بغیر رکھی، اور ابنِ آدم کو دونوں عطا کر دیے، پس اگر انسان کی عقل شہوت پر غالب آگئی تو وہ فرشتوں سے بہتر ہے، اور اگر اسکی شہوت عقل پر غالب آگئی، تو وہ جانوروں سے بھی بدتر ہے‘‘۔
ابو الحسن الماوردی کا قول ہے: ھوائے نفس خیر سے روکتی ہے، اور عقل کی ضد ہے؛ کیونکہ وہ اخلاق کے قبیح ہونے پر منتج ہوتی ہے، اور اس سے ایسے اعمال ظاہر ہوتے ہیں جو رسوائی کا سبب بنتے ہیں، اور وہ انسان کے پردے کو چاک کرتی ہے، اور شر کے راستوں کو کھولتی ہے ۔۔ اور جب ھوائے نفس غالب ہوتی ہے، تو وہ ہلاکت کے راستوں پر داخل کر دیتی ہے، اور عقل اس پر پر مشقت نگران بن جاتی ہے، وہ اسکی غفلت میں پھسلنے کو دیکھتی رہتی ہے، اور اسکے غلبے کی علامات کا دفاع کرتی ہے، اور اسکے دھوکے اور مکاریوں کا دفاع کرتی ہے، کیونکہ ھوائے نفس کا غلبہ بہت شدید ہوتا ہے، اور اسکے مکر کا راستہ چھپا ہوا ہوتا ہے۔
ھوی (خواہشِ نفس) اور عقل کے درمیان مکالمہ:
گویا کہ میں دیکھ رہا ہوں کہ ھوی اور عقل آپس میں جھگڑ رہی ہیں، اور وہ دونوں بلا تلوار حروف کی کشتی کر رہی ہیں، ہر ایک فتح یاب ہونا چاہتی ہے اور اپنے ساتھی کو کامیاب دیکھنا چاہتی ہے، وہ دونوں باہم گفتگو کر رہی ہیں ۔۔ ھوی فخر کرتی ہے ، اور اٹھلا کر چلتی ہے گویا کہ اس نے اسے بچایا ہے؛ اور وہ عقل سے کہتی ہے: میں ھوائے نفس ہوں، اور اے چھوٹی سی عقل جب میں چل پڑتی ہوں تو تجھے جب اور جس سمت چاہتی ہوں لے چلتی ہوں۔ تو عقل اسے یہ کہہ کر خاموش کروانا چاہتی ہے: میں عقل ہوں، میں تجھے اﷲ کی جانب پکارتی ہوں، اور برائی کی تمیز دیتی ہوں، تجھے گناہوں سے روکتی ہوں، اور تجھے بدعت سے روکتی ہوں، پھر تو وہی کرتا ہے جو میں چاہتی ہوں۔ ان دونوں کے درمیان مناظرہ جاری رہتا ہے، اور اعضاء گواہی دیتے ہیں:
۔ میں ھوی ہوں، جو الھوی سے مشتق ہے، میں تمہاری غفلت میں تمہیں بہا لے جاتی ہوں، اور تمہارے محسوس کئے بغیر تمہیں نیچوں سے نیچے گہرائیوں میں پھینک دیتی ہوں۔
۔ میں عقل ہوں، مجھے ربِ اعلی نے بنایا ہے، اور یہی بات اسکی عظمت کی دلیل ہے، میں اسکی بندگی کی دعوت دیتی ہوں،اور اسی کی فرمانبرداری کے بارے میں سوچتی ہوں، اور میں اپنے ساتھی کو اعلی علیین تک پہنچا دیتی ہوں۔
۔ میں ھوی ہوں، میں اپنے ساتھیوں کو بدعت کے دسترخوان پر اکٹھا کرتی ہوں، انہیں نافرمانی کا کھانا کھلاتی ہوں، میرے ساتھی بہت زیادہ ہیں، اور میرے پیروکار جانے پہچانے ہیں، شیطان میرا دوست ہے، اور نفسِ امارہ جو برائی پر اکساتا ہے وہ میرا ساتھی ہے، اور انسانوں میں ھدایت کو چھوڑ کر میرا اتباع کرنے والا میرا ساتھی ہے، وہ ساتھی ،جس نے رب کی اعلانیہ نافرمانی کی، اور تمہاری نصیحتوں کو اس نے ایک طرف رکھ دیا اے عقل۔
۔ میں عقل ہوں، میں عاقلوں کو سنت کے دسترخوان پر جمع کرتی ہوں، انہیں اطاعت کی حلاوت کا مزا چکھاتی ہوں، اور قرب کی لذت، اور علم کے دسترخوان پر بٹھاتی ہوں، اﷲ میرا خالق ہے، اور میرے ساتھی وہ عقلمند لوگ ہیں جو اﷲ اور اسکے رسول ﷺ کے راستے پر چلتے ہیں، اور میرے دوست علماء میں سے وہ لوگ ہیں جو لوگوں کو شرک سے خبردار کرتے ہیں اے ھوی، اور میرے ساتھی مخلص عمل کرنے والوں میں سے ہیں جو اتباعِ سنت کے حریص ہیں۔
اور انسان کے ھوائے نفس کی پیروی کے کئی اسباب ہیں، ان میں پہلا جہالت ہے، اﷲ تعالی فرماتا ہے: (بل اتبع الذین ظلموا اھواء ھم بغیر علم فمن یھدی من اضل اﷲ وما لھم من ناصرین) (الروم، ۲۹) (مگر یہ ظالم بے سمجھے بوجھے اپنے تخیلات کے پیچھے چل پڑے ہیں۔ اب کون اس شخص کو راستہ دکھا سکتا ہے جسے اﷲ نے بھٹکا دیا ہو؟ ایسے لوگوں کا تو کوئی مددگار نہیں ہو سکتا۔)
اور وہ فرماتا ہے: (ومن اضل ممن اتبع ھواہ بغیر ھدی من اﷲ) (القصص، ۵۰) (اور اس شخص سے بڑھ کر کون گمراہ ہو گاجو خدائی ہدایت کے بغیر بس اپنی خواہشات کی پیروی کرے؟)
یعنی وہ اپنے دلوں کی آراء مانتے ہیں، جنہیں وہ خود پسند کرتے ہیں، اور جنہیں شیطان بلا حجت و بلا دلیل انکے لئے پسندیدہ قرار دیتا ہے، کہ وہ کتاب اﷲ سے ماخوذ ہیں۔ اور وہ فرماتا ہے: (افمن کان علی بینۃ من ربہ کمن زین لہ سوء عملہ واتبعوا اھواء ھم) (محمد، ۱۴) (بھلا کہیں ایسا ہو سکتا ہے کہ جو اپنے رب کی طرف سے ایک صاف و صریح ہدایت پر ہو، وہ ان لوگوں کی طرح ہو جائے جن کے لئے ان کا برا عمل خوشنما بنا دیا گیا ہے اور وہ اپنی خواہشات کے پیرو بن گئے ہیں۔)
اور اﷲ تعالی مشرکین کے لئے فرماتا ہے: (ان ھی الا اسماء سمیتموھا انتم وآباء کم ما انزل اﷲ بھا من سلطان ان یتبعون الا الظن وما تھوی الانفس ولقد جاء ھم من ربھم الھدی) (النجم، ۲۳) (دراصل یہ کچھ نہیں ہیں مگر بس چند نام جو تم نے اور تمہارے باپ دادا نے رکھ لئے ہیں۔ اﷲ نے ان کے لئے کوئی سند نازل نہیں کی۔ حقیقت یہ ہے کہ لوگ محض وہم وگمان کی پیروی کر رہے ہیں اور خواہشاتِ نفس کے مرید بنے ہوئے ہیں۔ حالانکہ انکی طگرف انکے رب کی طرف سے ہدایت آچکی ہے۔)
انہوں نے اپنی ھوائے نفس کی پیروی کی، کیونکہ انہوں نے وہ وحی سے حاصل نہیں کیا تھا ، جو انکے پاس انکے رب کی طرف سے آئی تھی، اور نہ اﷲ کے رسول نے انہیں اسکی خبر دی تھی، بلکہ یہ انہوں نے اپنی طرف سے تراشا تھا، یا اپنے باپ دادا سے لیا تھا، اور وہ بھی انکی مانند اﷲ کے ساتھ کفر ہی کرتے تھے۔
اور اسی میں سے ایک کبر ہے ۔۔ اسی لئے ہم قرآنِ کریم میں دیکھتے ہیں کہ ہمارا رب سبحانہ وتعالی بنی اسرائیل کی صفات میں انبیاء کے مقابلے میں ظلم، عناد، مخالفت اور استکباربیان کرتا ہے، اور یہ کہ وہ اپنی خواہشاتِ نفس کی پیروی کرتے ہیں (افکلما جاء ھم رسول بما لا تھوی انفسکم افتکبرتم ففریقاً کذبتم وفریقاً تقتلون) (البقرۃ، ۸۷)(پھر یہ تمہارا کیا ڈھنگ ہے کہ جب بھی کوئی رسول تمہاری خواہشاتِ نفس کے خلاف کوئی چیز لیکر تمہارے پاس آیا، تو تم نے اس کے مقابلے میں سرکشی ہی کی، کسی کو جھٹلایا اور کسی کو قتل کر ڈالا۔)
اور انہیں میں دل کی غفلت ہے ۔۔ اﷲ تعالی فرماتا ہے: (واصبر نفسک مع الذین یدعون ربھم بالغداۃ والعشی یریدون وجھہ ولا تعد عیناک عنھم ترید زینۃ الحیاۃ الدنیا ولا تطع من اغفلنا قلبہ عن ذکرنا واتبع ھواہ وکان امرہ فرطاً) (الکھف، ۲۸) (اور اپنے دل کو ان لوگوں کی معیت پر مطمئن کرو جو اپنے رب کی رضا کے طلبگار بن کر صبح و شام اسے پکارتے ہیں، اور ان سے ہرگز نگاہ نہ پھیرو۔ کیا تم دنیا کی زینت پسند کرتے ہو؟ کسی ایسے شخص کی اطاعت نہ کرو، جس کے دل کو ہم نے اپنی یاد سے غافل کر دیا ہے، اور جس نے اپنی خواہشِ نفس کی پیروی اختیار کر لی ہے، اور جسکا طریقِ کار افراط و تفریط پر مبنی ہے۔)
جیسا کہ خواہشِ نفس کی پیروی کے اسباب میں دنیا کی زندگی سے محبت بھی ہے، اور ضعفِ ایمان، بری صحبت، خود پسندی، اور دلوں کے امراض بھی ہیں، اور ان اسباب سے درج ذیل نتیجہ برامد ہوتا ہے۔
اتباعِ ھوی کے آثار:
ھوی انسان کے لئے خیر کے راستے روکنے والا راہزن ہے، جو اسے حق کی پیروی سے روکتا ہے، اور اسے حسنِ عمل سے دور کر دیتا ہے، اور اسے ایسے امراض میں مبتلا کر دیتا ہے جو اسکے لئے انتہائی مہلک ہیں اور صرف اسکے لئے ہی نہیں بلکہ فرد اور معاشرے دونوں پر برے اثرات مرتب کرتے ہیں، بلکہ نفوس اور ارواح دونوں پر اثر انداز ہوتے ہیں، اور اسکے اثرات میں سے درج ذیل ہیں:
۔ وہ اعضاء کو معطل کرتے اور اﷲکے راستے سے گمراہ کرتے ہیں ۔۔
اﷲ تعالی کا فرمان ہے: (افرأیت من اتخذ الھہ ھواہ واضلہ اﷲ علی علم وختم علی سمعہ وقلبہ وجعل علی بصرہ غشاوۃ فمن یھدیہ من بعد اﷲ افلا تذکرون) (الجاثیۃ، ۲۳) (پھر کیا تم نے اس شخص کے حال پر بھی غور کیا جس نے اپنی خواہشِ نفس کو اپنا خدا بنا لیا اور اﷲ نے علم کے باوجود اسے گمراہی میں پھینک دیا اور اسکے دل اور کانوں پر مہر لگا دی اور اسکی آنکھوں پر پردہ ڈال دیا؟ اﷲ کے بعد اب کون ہے جو اسے ہدایت دے؟ کیا تم لوگ کوئی سبق نہیں لیتے؟)
پس وہ اپنی ھوی کا حکم مانتا ہے، وہ اسے جتنا خوبصورت دکھائے وہ کر گزرتا ہے، اور جس قدر اسے قبیح دکھائے وہ اسے چھوڑ دیتا ہے، اور ھوائے نفس کے اتباع میں ہر چیز کی پیروی کرتا ہے، قتادہ نے فرمایا: یہ کافر ہے جو ھوائے نفس سے اپنا دین چنتا ہے، اور جس چیز کو وہ مزین کرے اسی پر سوار ہو جاتا ہے، اور سعید بن جبیر نے فرمایا: ان میں سے ایک پتھر کو پوجتا تھا، اور جب اسے اس سے زیادہ خوبصورت نظر آتا وہ پہلے کو پھینک دیتا اور دوسرے کو پوجنے لگتا۔ اور کہا گیا: یہی معنی ہیں اس کے: کیا تم نے اس شخص کو دیکھا جس نے اپنے دین کو اپنی خواہشِ نفس کے تابع کر لیا، پس اسے جو شے دلپسند لگتی ہے اسی پر سوار ہو جاتا ہے، کیونکہ وہ اﷲ پر ایمان نہیں لاتا، اور اسکے حرام کو حرام نہیں ٹھہراتا، نہ اسکے حلال کو حلال سمجھتا ہے، اسکا یہی دین ہے کہ جو اسے بھا جائے اسے اختیار کر لیتا ہے۔
اور جو فرمایا گیا کہ کیا تم نے اس شخص کو دیکھا ہے جس نے اپنی خواہشِ نفس کو اپنا معبود بنا لیا ہے، تو یہ تعجب کے لئے ہے، کیوکہ صاحبِ عقل لوگ اس جہالت پر تعجب کرتے ہیں۔
۔ وہ تکذیب کرتے ہیں اور اﷲ اور رسول کی بات نہیں مانتے ۔۔
اﷲ تعالی فرماتا ہے: (وکذبوا واتبعوا اھواء ھم وکل امر مستقر) ( القمر، ۳) (انہوں نے اس کو بھی جھٹلا دیا اور اپنی خواہشاتِ نفس ہی کی پیروی کی۔ ہر معاملہ کو آخر کار ایک انجام پر پہنچ کر رہنا ہے۔)
اور اﷲ تعالی کا فرمان ہے: (فان لم یستجیبوا لک فاعلم انما یتبعون اھواء ھم ومن اضل ممن اتبع ھواہ بغیر ھدی من اﷲ ان اﷲ لا یھدی القوم الظالمین) (القصص،۵۰) (اب اگر وہ تمہارا یہ مطالبہ پورا نہیں کرتے تو سمجھ لو کہ دراصل یہ اپنی خواہشات کے پیرو ہیں، اور اس شخص سے بڑھ کر کون گمراہ ہو گا جو خدائی ہدایت کے بغیر بس اپنی خواہشات کی پیروی کرے؟ اﷲ ایسے ظالموں کو ہرگز ہدایت نہیں بخشتا۔)
اور فرمایا: (فلا یصدنک عنھا من لا یؤمن بھا واتبع ھواہ فتردی) (طہ، ۱۶) (پس کوئی ایسا شخص جو اس پر ایمان نہیں لاتا اور اپنی خواہشِ نفس کا بندہ بن گیا ہے تجھ کو اس گھڑی کی فکر سے نہ روک دے، ورنہ تو ہلاکت میں پڑ جائے گا۔)
۔ نعمت کا چلے جانا ۔۔
اﷲ تعالی نے فرمایا ہے: (واتل علیھم نبأ الذی آتیناہ آیاتنا فانسلخ منھا فاتبعہ الشیطان فکان من الغاوین ۰ ولو شئنا لرفعناہ بھا ولکنہ اخلد الی الارض واتبع ھواہ ) (الاعراف (۱۷۵ ۔ ۱۷۶) (اور اے نبیؐ، ان کے سامنے اس شخص کا حال بیان کروجس کو ہم نے اپنی آیات کا علم عطا کیا تھا مگر وہ ان کی پابندی سے نکل بھاگا۔ آخر کار شیطان اسکے پیچھے پڑ گیا یہاں تک کہ وہ بھٹکنے والوں میں شامل ہو کر رہا۔ اگر ہم چاہتے تو اسے ان آیتوں کے ذریعے سے بلندی عطا کرتے، مگر وہ تو زمین ہی کی طرف جھک کر رہ گیا، اور اپنی خواہشِ نفس ہی کے پیچھے پڑا رہا۔)
۔ اپنے ساتھی کو عدل سے روکتا ہے، اور غیر حق کی گواہی پر اکساتا ہے ۔۔
اﷲ تعالی نے فرمایا ہے: (یاایھا الذین آمنوا کونوا قوّامین بالقسط شھداء ﷲ ولو علی انفسکم او الوالدین والاقربین ان یکن غنیاً او فقیراً فاﷲ اولی بھما فلا تتبعوا الھوی ان تعدلوا وان تلووا او تعرضوا فان اﷲ کان بما تعملون خبیراً) (النساء، ۱۳۵) (اے لوگو جو ایمان لائے ہو، انصاف کے علم بردار اور خدا واسطے کے گواہ بنو، اگرچہ تمہارے انصاف اور تمہاری گواہی کی زد خود تمہاری اپنی ذات پر یا تمہارے والدین اور رشتہ داروں پر ہی کیوں نہ پڑتی ہو۔ فریقِ معاملہ خواہ مالدار ہو یا غریب، اﷲ تم سے زیادہ ان کا خیر خواہ ہے۔ لہذا اپنی خواہشِ نفس کی پیروی میں عدل سے باز نہ رہو۔ اور اگر تم نے لگی لپٹی بات کہی یا سچائی سے پہلو بچایا تو جان رکھو کہ جو کچھ تم کرتے ہو اﷲ کو اس کی خبر ہے۔)
اور اسکا فرمان: (فلا تتبعوا الھوی ان تعدلوا) یعنی تمہیں ھوی اور عصبیت اس پر آمادہ نہ کرے، اور نہ لوگوں کے خلاف بغض کہ تم اپنے معاملات اور امور میں عدل کو ترک کر دو، بلکہ ہر حال میں عدل سے چمٹے رہو۔
۔ فیصلے میں ظلم پر آمادہ کرتا ہے ۔۔
اﷲ تعالی فرماتا ہے: (فاحکم بین الناس بالحق ولا تتبع الھوی فیضلک عن سبیل اﷲ) (ص، ۲۶) (تو لوگوں کے درمیان حق کے ساتھ فیصلہ کر، اور خواہشِ نفس کی پیروی نہ کر کہ وہ تجھے اﷲ کی راہ سے بھٹکا دے گی۔) پس خواہش نفس کی پیروی تباہ اور ہلاک کرنے والی ہے، شعبی کا قول ہے: اﷲ تعالی نے حکام سے تین چیزوں کا عہد لیا: کہ وہ ھوی کی پیروی نہ کریں گے، اور لوگوں سے نہ ڈریں گے بلکہ اس سے ڈریں گے، اور یہ کہ اسکی آیات کے بدلے تھوڑی قیمت وصول نہ کریں گے۔ (قرطبی)۔
۔ عمل میں تفریط پر ابھارتا ہے ۔۔
اﷲ تعالی فرماتا ہے: (ولا تطع من اغفلنا قلبہ عن ذکرنا واتبع ھواہ وکان امرہ فرطاً) (الکھف، ۲۸) (کسی ایسے شخص کی اطاعت نہ کرو، جس کے دل کو ہم نے اپنی یاد سے غافل کر دیا ہے اور جس نے اپنی خواہشِ نفس کی پیروی اختیار کر لی ہیاور جس کا طریقِ کار افراط و تفریط پر مبنی ہے۔)
یعنی دین اور عبادت سے ہٹ کر دنیا میں مشغول ہو جائے، اور اسکا معاملہ افراط و تفریط پر مبنی ہو، یعنی اسکے اعمال اور افعال بیوقوفانہ ہوں اور تفریط اور ضیاع پر مبنی ہوں۔
۔ بدعات کو ظہور میں لانے اور ان پر عمل کرنے پر اکساتا ہے ۔۔
کبھی وہ عقائد اور عبادات میں ہوتی ہے، اور بدعت تو پیدا ہی شرع کے مقابلے میں ھوی کو مقدم رکھنے سے ہوتی ہے، اسی لئے ان لوگوں کو اہل الھوی کہا جاتا ہے، اسی طرح جب اطاعات کا راستہ کٹ جاتا ہے تو راہزن گناہوں کی افزائش کا سبب بن جاتے ہیں۔
۔ نیک عمل کرنے کا راستہ رک جاتا ہے ۔۔
نبی اکرمﷺ نے فرمایا: ’’تم میں سے کوئی شخص مؤمن نہیں ہو سکتا حتی کہ اسکی ھوی (خواہشِ نفس) اس چیزکے تابع نہ ہو جائے جو میں لیکر آیا ہوں‘‘ (اربعین نووی)۔
ہماری زندگی میں ھوی کے اتباع کی مختلف اور متنوع صورتیں ہیں، ہم ان سے غافل ہو جاتے ہیں، اور انکا کچھ احساس نہیں کرتے ۔۔ افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ کچھ لوگ حبّ اﷲ عز وجل کا دعوی کرتے ہیں لیکن انکے اعمال، اخلاق اور انکا عقیدہ ، انکی عبادات اور معاملات سب اس محبت کی نفی کی چغلی کھا رہے ہوتے ہیں، کیونکہ وہ اﷲ کی شریعت کو چھوڑ کر خواہشِ نفس کی پیروی میں لگے ہوتے ہیں، ان میں سے ایسے بھی ہیں جو نماز پڑھتے ہیں نہ روزہ رکھتے ہیں، اور (بڑی ڈھٹائی سے) کہتے ہیں: اﷲ بڑا غفور رحیم ہے! اور ایسے بھی ہیں جو کھانے پینے سے رکنے کا روزہ تو رکھ لیتے ہیں، مگر وہ خواہشِ نفس کی پیروی کرتے ہیں، اور انکے اعضاء افطار کر لیتے ہیں، وہ برے اخلاض سے پیش آتے ہیں، اور یوں روزے کی حکمت ضائع کر دیتے ہیں۔
کچھ لوگ عبادت میں کمی یا زیادتی سے نقص پیدا کر دیتے ہیں، اور ایسے اعمال بجا لاتے ہیں جن کا اﷲ نے حکم دیا ہے نہ انکے رسول نے، اور اپنے تئیں گمان کرتے ہیں کہ وہ زیادہ خیر کما رہے ہیں، اور یہ بھول جاتے ہیں کہ توقیفی عبادات اتباع خداوندی اور اتباعِ رسول کا مطالبہ کرتی ہیں، اور مقرر کردہ سے زیادہ نہ کرنے کی تاکید کرتی ہیں، اور رسول اﷲ ﷺ کا فرمان ہے : ’’جس نے ہمارے حکم میں نئی چیز کا اضافہ کیا، جو اس میں نہیں تھا، تو وہ رد کر دیا جائے گا‘‘۔(بخاری)۔
اور ایسے لوگ بھی ہیں جو خواہشِ نفس کی پیروی میں برائیوں، فواحش، زنا اور فسق و فجور کا ارتکاب کرتے ہیں، بعض لوگ پردے کو نہیں مانتے اور کہتے ہیں کہ یہ آج کے زمانے کی ضرورت ہے، یا اپنی خواہش کے حکم کو مانتے ہوئے میراث میں عورتوں اور مردوں کے درمیان کامل مساوات کا مطالبہ کرتے ہیں، یا یہ ثابت کرنے کی کوشش کرتے ہیں کہ اﷲ کی شریعت پر آج کے دور میں عمل درست نہیں!!
ایسی خواتین بھی ہیں جو رب سے محبت کا دعوی تو کرتی ہیں، لیکن درحقیقت خواہشِ نفس کی پیروکار ہیں،اور زمامِ کار کی قیادت اس کے ہاتھ میں تھما دیتی ہیں، اور وہ رب کے احکامات سے دور اور اسکے منع کردہ احکام سے قریب ہیں؛ وہ اپنے نفس کے حقِ بندگی کو ضائع کر دیتی ہیں، اور اپنی اولاد کی تربیت کا حق ادا نہیں کرتیں، اور شوہر کے ازواجی حقوق ادا نہیں کرتیں، نہ انکے اہلِ خانہ سے صلہ رحمی کرتی ہیں، وہ اپنے آپ کو مطلق العنان سمجھتی ہیں، اور خواہشِ نفس کی پیروی کرتی ہیں، اور وہ انہیں پورا یقین دلاتی ہے کہ اسلام میں ان پر تو بہت ظلم ہو رہا ہے، اور وہ اسکی آزادی کا نعرہ لگاتی ہے! اور یوں عورت بیخبری ہی میں ماری جاتی ہے، نہ اسکی کوئی پہچان رہتی ہے، کیونکہ وہ خود اپنی شناخت، اپنے دین، اپنے ستر، اور حیا اور لباس اور اخلاق سے الگ ہو جاتی ہے، اور یہ گمان کرتی ہے کہ ان سب کو ترک کر کے اس نے بہت خیر حاصل کر لیا ہے!
اور خواہشِ نفس کی پیروی میں انسان بہت نادانی برتتا ہے جب وہ عبادت اور سلوک، دین اور اخلاق ، اور قول اور عمل میں فرق قائم کرتا ہے، جبکہ اسلام ان میں تمیز نہیں کرتا!
ان میں کچھ ایسے بھی ہیں جو ھوی کی پیروی میں اپنی عقل کو مدہوشی کے سپرد کر دیتے ہیں، یا نشے کا شکار ، اور یا اپنی فکر کو اعتقاداتِ باطلہ ، منہدم افکار اور خبیث وسوسوں پر ڈھٹائی سے جما دیتے ہیں!
اور ان میں کچھ لوگ ایسے بھی ہیں جو دوسروں پر حکم چلاتے ہوئے خواہشِ نفس کی پیروی کرتے ہیں، وہ اپنے دینی اور دنیوی اقوال و افعال کے لئے کسی علم کے بغیر محض گمان سے حکم لاتے ہیں، اور انکی پوری عمر انہیں تاویلات کے معرکوں میں گزر جاتی ہے، اور گمان، غیبت اور چغلیاں اسے نفرت، عداوت، دشمنی اور جھگڑے کی جانب لے جاتی ہیں، اور ان سب کا مرجع بھی بلا دلیل و برھان ھوی کا اتباع ہے۔
کچھ لوگ ھوی کی پیروی میں اپنی زوجہ کے حقوق میں کمی کر دیتے ہیں، اور اولاد سے غافل ہو جاتے ہیں، اور قطع رحمی کرتے ہیں، اور اپنے ساتھیوں اور پڑوسیوں سے برا سلوک کرتے ہیں۔
بعض لوگوں کو خواہش کی پیروی اس قدر عزیز ہوتی ہے کہ وہ جہالت پر راضی رہتے ہیں، اور وہ جن حالات میں رہ رہے ہوں اس میں تبدیلی، بہتری اور تغیر کے بھی خواہش مند نہیں ہوتے!
اور کچھ لوگوں کا عمل حبِ دنیا ، اور اسکی ترجیح میں آخرت اور اسکے اعمال کو فراموش کر کے ھوی کے اتباع میں ہوتا ہے!
اور بعض لوگ خواہشِ نفس کی پیروی میں اپنے بھائیوں کی بلا حجت و دلیل تکفیر کرتے ہیں، اور ان قر فسق اور منافقت کا حکم لگاتے ہیں!
اور کچھ لوگ امن میں آئے ہوئے لوگوں کو خواہش نفس کی پیروی میں ، بغیر اسکے کہ انہوں نے کسی کے حق میں گناہ کا ارتکاب کیا ہو ، ناحق موت کا فیصلہ سناتے ہیں!
اور کچھ لوگ ھوائے نفس کے اتباع میں اہلِ حقوق کے حقوق سلب کر لیتے ہیں، اور اپنے لئے انکے مال اور انکی عزتیں اور خون مباح کر لیتے ہیں، اور رشوت، حرام اور جھٹ اور کذب بیانی کو اپنے لئے جائز کر لیتے ہیں، اگر وہ اس سب سے دنیا ک خزانے بھی بھر لیں تو آخرت کا نقصان کریں گے!
اور ان میں ایسے بھی ہیں جو ھوائے نفس کی پیروی میں اپنے ہی ہم جنس انسانوں کی تعذیب دینے کا مزا لیتے ہیں، حالانکہ انہوں نے انکا جرم بھی ثابت نہیں کیا، بلکہ انہیں اتنی اذیت دے کر نہ انکے ماتھے پر کوئی سلوٹ پڑتی ہے ، نہ انکے رونگٹے کھڑے ہوتے ہیں نہ انکی آنکھ سے کوئی آنسو ٹپکتا ہے!
ایسی ہی ہزاروں مثالیں ہیں، جو سب اتبائے ھوی کا شاخسانہ ہیں، اور اسکا نفصان فرد بھی سہتا ہے، اور گروہ بھی ، خاندان بھی اور معاشرہ بھی ۔۔ اور لوگوں میں سے جو بھی ایسا ہے تو اس نے اپنے آپ کو ھلاکت کے لئے پیش کردیا ، اور نبی کریم ﷺ اسی سے خبردار کرتے ہوئے فرماتے ہیں: ’’تین ھلاک کر دینے والی چیزیں ہیں: بخیل جس کی اطاعت کی جائے، اور خواہش جسکا اتباع کیا جائے، اور بندے کا خود پسند ہونا‘‘ (البانی، سلسلہ صحیحہ)۔ اور فرمایا: ’’میں تمہارے بارے میں گمراہ کن خواہشات کے بارے میں ڈرتا ہوں جو تمہارے پیٹوں اور شرم گاہوں میں ہیں، اور گمراہ کن خواہشِ نفس کے بارے میں‘‘(احمد)۔
جنت کی کنجی:
اور ھوی کے بارے میں اﷲ تعالی کایہی فرمان کافی ہے: (واما من خاف مقام ربہ ونھی النفس عن الھوی۰ فان الجنۃ ھی الماوی ) (النازعات، ۴۰ ۔ ۴۱) (اور جس نے اپنے رب کے سامنے کھڑے ہونے کا خوف کیا تھااور نفس کو بری خواہشات سے باز رکھا تھا، جنت اسکا ٹھکانا ہو گی۔)
یعنی اﷲ عز وجل کے سامنے کھڑا ہونے سے ڈرا، اور اس میں اﷲ کے فیصلے کا خوف کیا، اور اپنے آپ کو ھوائے نفس سے روکا، اور اسے آقا کی فرمانبرداری کی جانب موڑ دیا، اور گناہوں اور حرام کا ارتکاب کرنے پر اسے ڈانٹا، اور فرائض کی ادائیگی کا خوف دلایا، اور گناہوں سے اجتناب کروایا۔
حسن بصری نے فرمایا: سب سے افضل جہاد ھوی کے خلاف جہاد ہے۔ اور ابنِ سماک نے فرمایا: ’’اپنی خواہشِ نفس کو ٹرخاؤ، اور اپنی عقل کو مددگار بناؤ، اور اس سے آگاہ رہو جو تمہاری آخرت برباد کر دے گی، اپنے نفس کو اس سے ایک جانب کر لو، نفس پر ڈھلی گرفت اور ، اور اسکی گراوٹ ، مرض ہے، اور گراوٹ والی اشیاء کو ترک کر دینا ہی اسکی دوا ہے، پس اگر تمہیں مرض کا خوف ہے تو دوا پر صبر کر لو‘‘۔ اور سہل بن عبد اﷲ تستری نے فرمایا: تیری ھوی ہی تیرا مرض ہے، اور اگر تم اسکی مخالفت میں ڈٹ جاؤ تو یہی اسکی دوا ہے۔ بعض حکماء نے سوال کیا: لوگوں میں سب سے زیادہ شجاع اور اپنے مجاہدے میں کامیابی کا سب سے مشتاق کون ہے؟ فرمایا: جس نے ھوائے نفس سے جہاد کرتے ہوئے اسے رب کی اطاعت پر لگا لیا، اور اس مجاہدے میں ھوائے نفس اسکے دل پر کیا کیا اثر ڈالتی رہی ، اس پر خاموش رہا۔
اور جو ھوی کا اتباع چھوڑ دیتا ہے، اسکا ایمان بڑھ جاتا ہے، اور اسکے ثمرات ، اطاعت، محبت، اتباع، موافقت، مراقبے ، خوف، خشیت ، انابت، سلوک، اخلاق، قول اور عمل میں بڑھتے اور نشونما پاتے ہیں، پس اﷲ سے استعانت طلب کرو اور ھوی کے سامنے گھٹنے نہ ٹیک دو۔ وھب کا قول ہے: جب تجھے دو چیزوں میں شک ہو، اور تجھے معلوم نہ ہو کہ ان میں بہتر کونسی ہے، تو جسے اپنی ھوی سے دور پائے اسے اختیار کر لے، اور اس معاملے میں اﷲ کا یہ فرمان ہی کافی ہے: (واما من خاف مقام ربہ ونھی النفس عن الھوی۰ فان الجنۃ ھی المأوی) (النازعات، ۴۰ ۔ ۴۱) (اور جس نے اپنے رب کے سامنے کھڑے ہونے کا خوف کیا تھااور نفس کو بری خواہشات سے باز رکھا تھا، جنت اسکا ٹھکانا ہو گی۔)
اور اگر کمزور لمحوں میں تیرا نفس تجھے اتباعِ ھوی کا حکم دے، جو رب کی رضا کے خلاف ہے، تو جان لے کہ اس لمحے ھوی کو ترک کرنا ہی جنت کی کنجی ہے، اگر تو نے ھوی کی پیروی کی تو وہ ہمیشگی کے گھر میں تیرا داخلہ بند کرا دے گی، ’’خبردار اﷲ کی تجارت بڑی قیمتی ہے، سن لو اﷲ کی تجارت جنت ہے‘‘۔
1 تبصرہ
جواب چھوڑ دیں
اہم بلاگز
چراغ تو روشن ہیں
پی ٹی اے کی ایک رپورٹ کے مطابق پاکستان میں سوشل میڈیا صارفین کی تعداد 16 کروڑ کے لگ بھگ ہے۔ اس رپورٹ میں مکمل سچائی ہو پھر بھی ٹی وی بہرحال ایک مقبول ذریعہء مواصلات ہے۔ شام کے وقت یا رات نو بجے ٹی وی پر ٹاک شوز یا head lines ملاحظہ کرنے والے افراد کا تناسب کم نہیں ہوا۔ آج جب شام آٹھ بجے ٹی وی آن کیا تو اتفاق سے ٹاک شو کا موضوع تھا انٹرا پارٹی انتخابات اور پارٹی کی قیادتیں۔ پیپلز پارٹی، مسلم لیگ، پی ٹی آئی سبھی کے انٹرا پارٹی الیکشن کے احوال چل رہے تھے۔ پھر نمایاں قائدین کے نام لیے گئے
پیپلز پارٹی:- ذوالفقار علی بھٹو، بےنظیر بھٹو، زرداری، بلاول بھٹو، آصفہ بھٹو، پارٹی قیادت کے نمایاں افراد ۔
مسلم لیگ نون:- نواز شریف، شہباز شریف، حمزہ شہباز، مریم نواز ۔
پی ٹی آئی:- عمران خان ہی موءسس اوروہی قائد انہی کے دم خم سے پارٹی ہے۔ غیر مشروط، عقیدت اور اتباع کا محور بس عمران خان کی شخصیت ہے، اختلاف ہے تو عمران خان سے، اتفاق ہے تو عمران خان سے۔
مردِ واحد یا پھرایک خاندان۔ بس ہر پارٹی میں اسی کا اجارہ ہے۔ کس منہ سے یہ لوگ جمہوریت کا نام لیتے ہیں۔ کبھی سوچا آپ نے؟؟ ووٹ دینے سے پہلے سوال کیا کبھی آپ نے ان، مقبول لیڈرز، سے؟ اکتائے دماغ کے ساتھ چینل بدلا تو حافظ نعیم الرحمن کے حلف کی خبر چل رہی تھی۔ سارامنظر ہی دلکش لگا۔ بھیگی آنکھیں، کپکپاتے الفاظ دعاؤں کی التجا. یہ ہے حافظ نعیم الرحمن کا حلف ۔ دماغ میں سوال اٹھا "کیا یہ شخص سالہا سال سے نسل در نسل اس جماعت کا گدی نشین ہے؟"
نہیں جی اس سے پہلے ایک درویش صفت، روشن کردار والا، ہمت و جہد کا استعارہ۔۔۔ سراج الحق تھا اسی ذمہ داری پہ ۔۔۔ تو کیا سراج الحق کو عوامی مقبولیت، یہ عہدہ، کروڑوں لوگوں کی دعائیں ان کے باپ دادا نے دلوائیں؟ نہیں جی، وہ تو حلف اٹھانے سے چند دن پہلے تک انہیں خبر تھی نہ خواہش اور ان سے پہلے جو اس منصب پر تھے وہ تھے سید منور حسن، وہ سید، یہ پٹھان، وہ کراچی سے، یہ کے پی سے، کیا سید منور حسن اپنے سے گزشتہ امیر جماعت کے رشتے دار تھے؟
نہیں، وہ بھی اول الذکر سبھی کی طرح ایک عام کارکن تھے۔
نعیم صدیقی (رحمہ اللہ علیہ) اپنی تصنیف "المودودی" میں لکھتے ہیں
"۔۔۔ کتنا سخت لمحہ ہے کہ اس شخص کے جسد کی امانت کو مٹی کے حوالے کرنے کے بعد میں اسی کی جدائی کاذکر چھیڑ رہا ہوں۔ ترجمان القرآن کی ادارت کرنے اوراس کے ذریعے دور دراز تک ایمان وحکمت کا نور پھیلانے والی ہستی نگاہوں سے اوجھل ہوچکی ہے۔ اس کی کرسی خالی ہے وہ اپنے تاریخی کمرے میں بھی موجود نہیں اور اہلخانہ کی مجلس میں بھی شریک نہیں۔اس کی کتابیں جیسے آنکھیں پھاڑ پھاڑ کر اسے ڈھونڈ رہی ہیں۔۔۔"
قارئین! نعیم صدیقی کا کرب جب ان الفاظ میں ڈھل رہاتھا تو شائد انھیں بھی اندازہ نہیں تھا کہ یہ تحریک پھل پھول لائے گی ، وسعت اختیار کرے گی۔ بلاشبہ...
تاریکی میں ڈوبتی دنیا
معاشرہ افراد کی مرہونِ منت ترتیب پاتا ہے، افراد اپنی تربیت بہترین اطوار پر کرنے کی کوشش میں سرگرداں رہتے ہیں اور بہتر سے بہتر کی تلاش جاری ہے۔ تہذیبوں کا مطالعہ کیا جاتا ہے اور ان دفن شدہ تہذیبوں میں سے ان کے رہن سہن اور دیگر طور طریقوں پر تحقیق کی جاتی ہے اور باقاعدہ یہ ثابت بھی کیا جاتا ہے کہ ان تہذیبوں میں ایسا ہی ہوتا ہوگا۔ وقت کا تو نہیں، انسان کے طور طریقے ہر دور میں بدلتے رہتے ہیں۔ دنیا کی تاریخ انسانیت کی تذلیل جیسے واقعات سے بھری پڑی ہے، یہ جان کر دکھ ہوتا ہے کہ ایک انسان دوسرے انسان کو تکلیف دینے سے کسی قسم کی عبرت حاصل نہیں کرتا یا پھر ہر انسان اس سوچ کا حامل ہے کہ جو وہ کر رہا ہے وہ صحیح ہے اسے ویسا ہی کرنا تھا جیسا وہ کر رہا ہے لیکن وقت سوچ میں تبدیلی لے آتا ہے پھر پچھتاوالادے لادے زندگی گزر جاتی ہے۔
ہمارے پیارے بنی ﷺ کے چچا کہا کرتے تھے کہ ہمارا بھتیجا جو کہہ رہا ہے وہ بلکل صحیح ہے لیکن ہم اپنے آباؤ اجداد کو کیسے ترک کردیں۔ آج احساس کو بھی شرمندگی کا سامنا ہوگاکیونکہ وہ اپنی شدت کھوچکا ہے اور کسی اندھیری کال کوٹھری میں سسکیاں لے رہا ہوگا۔ ہم مادہ پرست لوگ ہیں جہاں احساسات کا تعلق کیمرے کی آنکھ کو دیکھانے کیلئے تو امڈ آتے ہیں لیکن حقیقی دکھ اور تکلیف سے باز رہنے کا ہنر خوب جانتے ہیں۔ دنیا اتنی رنگ برنگی ہوگئی ہے کہ پلک جھپکتے میں منظر بدل جاتا ہے اور وہ سب سامنے آموجود ہوتا ہے جو ہم دیکھنا چاہتے ہیں، منظر بدل لیتے ہیں۔
اب کسی کے لئے بھی ساری دنیا میں یہ کہنا ناممکن ہے کہ دنیا ایک خوبصورت جگہ ہے اور یہاں رہنے کیلئے کسی خوبصورت کونے کا انتخاب کر کے وہاں رہ لیا جائے، انسان نے اپنی تباہی کیلئے ایسا ایسا سامنا تیار کر رکھا ہے کہ جب اسے استعمال کیا گیا تو وہ وہاں بھی پہنچ جائے گا جہاں اس کی ضرورت نہیں ہوگی، یعنی جب تباہی کا عمل شروع ہوگا تو کوئی بھی اس تباہی سے کیسے محفوظ رہ سکے گا۔ دنیا نے ایک نا ایک دن ختم ہونا ہے اور مسلمانوں کے عقیدے کیمطابق اب قیامت کے قریب کی نشانیاں ظاہر ہونا شروع ہوگئی ہیں، اب یقینا قیامت آئی کھڑی ہے۔ فلسطین میں ہونے والا ظلم کسی ایسی ہی منزل کی جانب حتمی پیش قدمی کہا جاسکتا ہے۔ کوئی بولنے سے ڈر رہا ہے اور کوئی ایسے ڈھڑلے سے بول رہا ہے کہ اسے گولی سے مارا جا رہا ہے، ظالم اپنے قبیلے کے پر امن لوگوں کو مارنے سے بھی نہیں چوک رہا۔ پچھلے زمانوں میں یہ کام مخصوص لوگوں کے ذمے ہوا کرتا تھا لیکن آج تو سب، سب کچھ کرنے کیلئے پرتول رہے ہیں۔
پاکستان تو وہ ملک ہے جہاں بجلی کی تخفیف قوت (لوڈشیڈنگ)اس قدر ہوتی ہے کہ ملک کا اکثر حصہ تاریکی میں ڈوبا رہتا ہے۔ اس کے ساتھ ہی ساتھ بہت سارے ایسے امور ہیں جو ہمیں تاریکی...
۔23 مارچ کا یادگار دن
قوموں کی زندگی میں بعض لمحات بڑے فیصلہ کن ہوتے ہیں جو اپنے نتائج اور اثرات کے اعتبار سے خاصے دور رس اور تاریخ کا دھارا موڑنے کی اہلیت رکھتے ہیں، 23 مارچ کا یادگار دن ہماری قوم کیلئے بڑی اہمیت کا حامل ہے اسکی ایک تاریخی حیثیت ہے کہ سنہ 1940ء میں لاہور کے تاریخی شہر میں برصغیر کے تمام مسلمانوں کے نمائندوں نے قائد اعظم کی زیر صدارت ایک تاریخی اجتماع میں حصول پاکستان کی قرار داد منظور کی تھی۔ تا کہ برصغیر کے مسلمانوں کیلئے مسلم قومیت کی بنیاد پر ایک آزاد ملک حاصل کیا جا سکے۔ جس پر نہ غیر ملکی استعمار کے تاریک سائے پڑیں اور نہ ہی ہندو اکثریت اور چیرہ دستیاں مسلمانوں کے ارفع مقاصد کی راہ میں حائل ہونے پائیں۔ مسلمانان برصغیر اپنے لئے ایک الگ وطن اسی لئے چاہتے تھے جہاں قرآن و سنت کی تعلیمات کی روشنی میں وہ ایک مثال اسلامی معاشرہ تشکیل دیں جہاں اسلامی عدل و انصاف کا دور دورہ ہوا اور جو عصر حاضر میں سرمایہ داری نظام اور اشتراکیت کی قوتوں سے پسی ہوئی انسانیت کیلئے مشعل راہ ثابت ہو۔ اس عظیم مقصد کے لئے 23مارچ 1940ء کولاہور میں بادشاہی مسجد کے قریب ایک وسیع و عریض میدان میں لاکھوں مسلمان اکٹھے ہوئے اور بنگال کے وزیر اعلیٰ مولوی فضل حق نے ایک قرار داد پیش کی جس کی تائید تمام مسلمانوں نے دل و جان سے کر دی جس سے ان کی قسمت کا پانسہ پلٹ گیا۔ اس دن لاہور میں مسلمانان ہند نے اپنی منزل کا اعلان کیا تھا اور دو ٹوک الفاظ میں کہا تھا کہ ہم ہندوستان میں مسلمانوں کیلئے آزاد خطوں کی جدوجہد کا اعلان کرتے ہیں۔
23 مارچ کو قرار داد کی منظوری کے بعد قیام پاکستان کی جدوجہد فیصلہ کن مرحلے میں داخل ہو چکی تھی۔ قوم کو ایک واضح نصب العین مل چکا تھا اور خوش قسمتی سے قائد اعظمؒ جیسے مدبر قائد میسر تھے جن کی قیادت سحر انگیز اور ولولہ انگیز ہونے کے علاوہ سیاست میں صداقت اور دیانتداری کی علمبردار تھی۔ دوسری جنگ عظیم کے خاتمے تک مسلمانان ہند مسلم لیگ کے پرچم تلے متحد ہو چکے تھے۔ 1945ء میں وائسرائے ہند لارڈ ویول نے مسلم لیگ اور مطالبہ پاکستان کی مقبولیت اور دوسری جماعتوں کی طاقت کا اندازہ کرنے کیلئے انتخابات کروائے۔ کانگرس کے ایماء پر بننے والے مسلمانوں کے نام نہاد متحدہ محاذ کی مخالفت کے باوجود مسلم لیگ کو تاریخی فتح حاصل ہوئی اور مسلم لیگ مسلمانان ہند کی نمائندہ جماعت بن کر سامنے آئی اور اس طرح حصول پاکستان کی منزل قریب سے قریب تر ہو گئی۔ اکتوبر 1946 ء میں ایک عبوری حکومت قائم کی گئی جس میں مسلم نمائندگان کی قیادت خان لیاقت علی خان نے کی ادھر حکومتی ایوانوں میں قائد اعظم ؒمسلمانوں کے سیاسی حقوق کے تحفظ اور قیام پاکستان کیلئے سیاسی جنگ لڑ رہے تھے تو دوسری طرف ہندو مسلم فسادات نے پورے ملک کو بری طرح اپنی لپیٹ میں لے رکھا تھا۔ ان فسادات میں لاکھوں مسلمان شہید ہوئے۔3 جون کو تقسیم ہند کے...
وہ دانائے سبل ختم الرسل
قارئین کرام یہ ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ ختم نبوت مسلمانوں کا قطعی اجماعی عقیدہ ہے، اس پر بیسیوں آیاتِ قرآنیہ اور سیکڑوں احادیث صحیحہ میں دلائل موجود ہیں۔ قرآن مجید میں وارد لفظِ خاتم النبیین میں کسی قسم کی تاویل اور تخصیص کی گنجائش نہیں ہے۔ اس میں تاویل و تخصیص کرنے والا دراصل قرآن و حدیث کی تکذیب کرتا ہے۔
چودہ سو سال سے زائد کا عرصہ گزر جانے کے باوجود امتِ محمدیہ کا آج بھی اس پر اجماع ہے کہ مدعی نبوت اوراس کے پیروکارخارج از اسلام اور مرتد ہیں۔ تاریخ گواہ ہے جب بھی کسی باغی، طالع آزما یا فتنہ پرداز نے اپنے آپ کونبی کہنے کی جرأت کی، مسلمانوں نے اس کے خلاف بھرپورجہاد کیا۔ ہر مسلمان کا غیر متزلزل عقیدہ اور ایمان یہ ہے کہ حضور سرورِ عالم سیدنا محمدﷺ آخری نبی ہیں۔ حضورﷺ کی تشریف آوری کے بعد نبوت کا سلسلہ ختم ہو گیا۔ حضور اکرمﷺ کے بعد کوئی نیا نبی نہیں آسکتا اور جو شخص اپنے نبی ہونے کا دعویٰ کرتا ہے اور جو بدبخت اس کے اس دعویٰ کو سچا تسلیم کرتا ہے وہ دائرہ اسلام سے خارج اور مرتد ہے اور اسی سزا کا مستحق ہے جو اللہ تبارک تعالیٰ نے مرتدکے لیے مقررکی ہے۔
بحیثیت مسلمان ازروئے قرآن و حدیث ہمارا اس بات پر پختہ یقین ہے کہ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اللہ کے آخری نبی اور رسول ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے اپنی آخری کتاب قرآن مجید ان پر نازل فرماکر دین کی تکمیل کردی اور قرآن کو تا قیامت محفوظ بھی کردیا۔ سلسلہ نبوت پر ختم کی مہر بھی لگادی آپ صلی اللہ علیہ وسلم آخری نبی و رسول ہیں آپ صلی اللّٰہ علیہ وسلم کی امت آخری امت ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد نہ کوئی نبی ہے نہ رسول ہے نہ تھا نہ تا قیامت ہوگا۔ اسی طرح آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی امت آخری امت ہےاور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم آخری نبی ہیں۔ قرآن مجید میں اس بات کی صراحت مختلف آیات میں ملتی ہے۔ جیسا کہ سورہ احزاب کی چالیسویں آیت میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تمہارے مَردوں میں سے کسی کے باپ نہیں ہیں لیکن وہ اللہ کے رسول ہیں اور سب انبیا کے آخر میں (سلسلۂِ نبوت ختم کرنے والے) ہیں اور اللہ ہر چیز کا خوب علم رکھنے والا ہے۔
بہت سی احادیث میں بھی ختم نبوت کی تصدیق موجود ہے۔ حدیث مبارکہ ہے۔ میری اور مجھ سے پہلے انبیاء کی مثال ایسی ہے جیسے کسی شخص نے ایک گھر بنایا، اس کو بہت عمدہ اور آراستہ پیراستہ بنایا مگر ایک کونے میں ایک اینٹ کی جگہ چھوڑدی، پس لوگ جوق درجوق آتے ہیں اور تعجب کرتے ہیں اور یہ کہتے ہیں یہ اینٹ کیوں نہیں لگادی گئی۔ آپ نے فرمایا: وہ اینٹ میں ہوں اور میں انبیاء کرام کا خاتم ہوں۔ اسی مفہوم کی ایک اور حدیث مبارکہ حضرت جابر بن عبداللہ رضى الله تعالى عنه نے بھی روایت کی ہے۔(صحیح البخاری، کتاب المناقب، باب خاتم النّبیین...
الوداع نہیں کہتے
بی بی سی جماعت اسلامی کی خبریں عموما نہیں لگاتا۔ لیکن اس نے یہ خبر بہت کم وقت میں دے دی کہ جماعت اسلامی کے امیر سراج الحق صاحب اپنے امارات عہدے سے مستعفی ہوگئے ہیں۔ہم جانتے ہیں بی بی سی کس کا چینل ہے۔ان کی نیتیں بھی یہ تھیں کہ اس خبر سے جماعت کو کمزور شکست خوردہ سمجھا جائے گا۔یہ خبر بھی سنی کہ حافظ نعیم صاحب نے دھاندلی والی نشست لینے سے انکار کردیا۔جو کہتے تھے کہ سیاستدانوں کا کوئی اخلاق نہیں ہوتا۔ان دیانتدار اور اعلی کردار کے حامل سیاست دانوں کو دیکھیں۔ایک نے ہاتھ آئی سیٹ ٹھکرا دی۔ دوسرے نے پارٹی کی سربراہی چھوڑ کر ثابت کر دیا کہ جماعت اسلامی میں عہدوں کی نہیں بلکہ ویلیوز کی اہمیت ہوتی ہے۔اور بےشک یہ احساسِ ذمہ داری فقط جماعت اسلامی میں پایا جاتا ہے۔
ان دونوں واقعات سے ہوا یہ کہ جماعت اسلامی کی جمہوریت شورائیت اور واضح ہوگئی۔ عوام جماعت اسلامی سے مذید متاثر ہوگئی۔ جی ہاں جماعت اسلامی عوامی مقبولیت حاصل کر چکی ہے۔ہر شعبہ ہائے زندگی کے لوگ اس کی دیانت خدمت کے قائل ہوچکے ہیں۔اس الیکشن کے بعد یہ مغالطہ ختم ہوچکا ہے کہ جماعت کا ووٹ بینک نہیں بنتا جماعت اسلامی کا کم ازکم یہ نتیجہ اس الیکشن میں تھا کہ اسے بلوچستان میں دو سیٹیں کے پی کے میں تین اور سندھ میں پندرہ سے زیادہ ہوتیں اگر زبردستی انتقال ہوئی پارٹی کے نئے جیون کی تیاری نہ ہوتی۔ ووٹ جماعت کو ملا ہے کراچی عوام نے اسے منتخب کیا ہے یہ ہاری نہیں اسے ہروایا ہے۔
یہ استعفی دراصل ہمارے قائد کی اعلی ظرفی ہے۔ انہوں اخلاقی طور سے اچھا کیا۔یہ استعفی ہر اس کارکن پر طمانچہ ہے۔جو سمجھتے ہیں کہ اس میں جماعت کا اس کی قیادت کا کوئی قصور ہے۔ ان سب حالات میں کسی کا کوئی قصور نہیں نہ کارکن کا قصوروار ہے نہ ہی امیر کا قصور ہے۔سمجھنے کی بات ہے کہ جماعت کا مقابلہ وقت کے اصل فرعون سے ہے۔ سیکولر لبرلز ساری طاقتیں مل کر اس کے خلاف ہیں اسلام کے دشمن فرعون نمرود ابو جہل دجالی فتنے آسان ٹاسک کسی بھی دور میں نہیں تھے۔ہمارے دور کے فرعون طاقت میں قدیم فرعون سے کہیں آگے ہیں۔الیکٹرانک میڈیا جماعت کو نہیں دکھاتا۔پرنٹ میڈیا جماعت پسند اسلام پسند تحریر نہیں چھاپتا۔عوام اگر قبولتی ہے اصل نتائج نہیں دیے جاتے۔قیادت کا کیا قصور وہ کیا اپنی جان مار دیں۔اس الیکشن کو آپ صلح حدیبیہ سے جوڑ لیں یقین کریں جماعت کی مقبولیت میں اضافہ ہی ہوا ہے۔جس عوام نے جماعت کو ووٹ دیا وہ اس کی شکست پر حیران ہے۔ جان چکی ہے کہ دینی جماعتوں میں خطرہ صرف جماعت اسلامی ہے۔عوام نے کبھی کسی موروثی مذہبی لیڈر یا پیر کو یوں اپنے عہدوں سے مستعفی ہوتے نہیں دیکھا۔جماعت اسلامی عوام کے لیے حل ہے تو باطل نظام کے لیے روک ہی روک ہے۔
یہ جماعت اسلامی کے لیڈر کی اعلی قیادت ہے۔جس میں حافظ نعیم الرحمن، مشتاق احمد صاحب، اکبر چترالی اور مولانا ہدایت الرحمن جیسے ہیرے پیدا کیے اور چمکنے کے خوب مواقع دیے۔سراج صاحب آپ...
طنز و مزاح
کہاں کی بات کہاں نکل گئی
قارئین کا صاحبِ مضمون سے متفق ہونا لازم ہے کیونکہ یہ تحریر اسی مقصد کے لیے لکھی گئی ہے۔ کچھ لوگوں کو نصحیت کرنے کا جان لیوا مرض لاحق ہوتا ہے۔ جہاں کچھ غلط سلط ہوتا دیکھتے ہیں زبان میں کھجلی اور پیٹ میں مروڑ اُٹھنے لگتا ہے ایسا ہم نہیں کہتے ان لوگوں کے پند و نصائح وارشادات سننے والے متاثرین کہتے ہیں۔
اللہ معاف کرے اکثر نوجوانوں کو نصحیت کرنے کے جرم کی پاداش میں ہماری ان گنہگار آنکھوں نے ان بزرگوں کو کئی مرتبہ منہ کی کھاتے دیکھا ہے۔ مگر نہ وہ اپنی روش سے باز آتے ہیں اور نہ ہی کتے کی ٹیڑھی دم سیدھی ہوتی ہے۔ اب قریشی صاحب کی بیوہ کو ہی لے لیجیے عمر دراز کی ستر بہاریں دیکھ چکی ہیں، بیوگی کے پچاس سال گزارنے والی اپنی زندگی سے سخت بیزار ہے۔ شادی کے کچھ عرصے بعد ہی موصوفہ نے اپنے پر پرزے نکالنا شروع کر دئیے تھے۔
دن رات صبح شام وہی گھسا پٹا راگ الاپتی رہتی تھیں تمہارے ماں باپ کی خدمت میں کیوں کروں؟ تمہارے سارے کام میں کیوں کروں؟ میں غلام نہیں ہوں۔ جو تمہاری ہر بات مانوں وغیرہ وغیرہ۔ قریشی صاحب بھلے مانس آدمی تھے شرافت اور منکسر المزاجی ان کی گھٹی میں پڑی ہوئی تھی۔ کان دبائے، نظریں جھکائے بیوی صاحبہ کے فرمودات سنتے اور سر دھنتے رہتے۔ ان کا یہ معصومانہ انداز بیوی صاحبہ کے تن بدن میں آگ لگا دیتا پھر جو گھمسان کی جنگ چھڑتی جس میں بیوی صاحبہ فتح کے جھنڈے گاڑنے کے بعد قریشی صاحب سے اپنے تلوے چٹوا کر انہیں مورد الزام ٹھہراتے ہوئے فرد جرم عائد کر کے سزا سنا دیتیں۔ قید بامشقت کے تیسرے سال ہی قریشی صاحب کے کُل پرزے جواب دے گئے۔
گھر کی مسند صدارت و وزارت پر بیوی صاحبہ براجمان تھیں بیچارے قریشی صاحب کی حیثیت کا قارئین خود اندازہ لگا سکتے ہیں۔ گنے چنے چند سالوں کی رفاقت کے بعد ایک شام قریشی صاحب داعئ اجل کو لبیک کہہ گئے۔ لواحقین میں ایک بیوہ اور پانچ بیٹیاں چھوڑیں۔ ماں کے طور اطوار، رنگ ڈھنگ، چال ڈھال اور انداز کا مہلک زہر اولاد کی نسوں میں اتر چکا تھا۔ اور خربوزے کو دیکھ کر خربوزیاں رنگ پکڑتی چلی گئیں۔ موصوفہ کی کل کائنات بس یہ پانچ بیٹیاں ہیں۔ پانچوں کنورای جو شادی کے نام پر ایسے اچھلتی ہیں جیسے بچھو نے ڈنک مارا ہو۔ قبر میں پیر لٹکائی قریشی صاحب کی بیوہ صبح شام خود کو کوستے رہتی ہیں کہ اس جیسے چاہو جیو کے سلوگن نے ان کی دنیا و آخرت ملیامیٹ کر کے رکھ دی۔ مگر اب پچھتائے کیا ہوت جب چڑیاں چگ گئیں کھیت۔ ہم اگر اپنی روزمرہ زندگی پر نظر دوڑائیں تو کتنی چیزیں ہیں جو کہ ہم غلط سمجھتے ہیں لیکن پھر بھی کرتے ہیں نہ جاننا اتنا سنگین نہیں ہوتا جتنا کہ جان کر حقیقت سے نگاہیں چرانا ہوتا ہے۔ چچ چچ ہم آنکھوں دیکھی مکھی نگلنے کے عادی بنا دیے گئے ہیں۔
2021ء میں گھریلو تشدد کا بل اسمبلی سے منظور کروا کر ہماری نوجوان نسل کو یہ پیغامِ تقویت...
والدین اور بیٹیاں
آج اسکول کی بچیوں کو اظہار خیال کے لیے موضوع دیا تھا کہ " آپ کے ساتھ والدین کیا سلوک ہے" جی بچیوں کے ساتھ والدین کا سلوک
چونکہ اسمبلی کے لیے موضوع نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)کی وہ حدیث تھی جس میں آپ صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلم نے بیٹیوں سے نفرت کرنے اور انہیں حقیر جاننے سے منع کیا ہے ،انہیں اللہ تعالیٰ کی رحمت قرار دیا ہے اور ان کی پرورش کرنے والے کو جنت میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ ہونے کی بشارت سنائی ہے۔ اس لیے بچیوں کے ساتھ اس حدیث پر تفصیل سے بات ہوئی اور انہیں کل کی اسمبلی میں اس پر بات کرنے کا کہا گیا اور تاکید کی گئی کہ سب طالبات کل اسمبلی میں بتائیں گی کہ انکے والدین انکے ساتھ کیا سلوک کرتے ہیں۔
اب آج وہ اسمبلی منعقد ہوئی اور بچیوں نے اظہار خیال کرنا شروع کیا۔ کسی نے کہا والدین ہمیں پالنے کے لیے ساری قربانیاں دیتے ہیں، کسی نے کہا کہ والدین ہماری سب خواہشات پوری کرتے ہیں، کسی نے کہا وہ ہمیں تہزیب سکھاتے ہیں، کسی نے کہا وہ ہماری اچھی تربیت کرتے ہیں، کسی نے کہا کہ وہ ہمیں کھلاتے پلاتے ہیں ، ایک رائے یہ آئی کہ وہ ہمیں کپڑے خرید کر دیتے ہیں، ایک نے کہا کہ وہ مجھے کوئی کام نہیں کرنے دیتے ایک اور نے کہا کہ صبح آنکھ کھلتی ہے تو ناشتہ تیار ہوتا ہے۔ ایک بات یہ آئی کہ انکا مرکز و محور ہماری پڑھائی ہے ایک اور کہا کہ وہ ہمیں کامیاب دیکھنا چاہتے ہیں۔
اور آخر میں ایک بات ایسی سامنے آئی کہ ہم سب کھلکھلا کے ہنس پڑے حالانکہ اپنے والدین کی ان کوششوں اور محبتوں کو سن کہ ماحول سنجیدہ لگ رہا تھا۔
اس نے کہا " میم ۔ میرے والدین بھی میرے ساتھ بہت اچھا سلوک کرتے ہیں، میری ہر ضرورت پوری کرتے ہیں مگر جب گھر میں چکن بنتا ہے تو leg pieces بھائی کو ملتا ہے۔ " اس معصوم بچی کے اس معصوم تبصرے پر ہم مسکرائے بغیر نہ رہ سکے ۔
تو تمام والدین سے گزارش ہے کہ ہمیں پتہ ہے آپ نے اپنی بیٹیوں کو شہزادیوں کے جیسا پالا ہے اور گڑیوں کے جیسا لاڈلا رکھا ہے مگر جب چکن خریدیں تو leg pieces زیادہ ڈلوا لیا کریں۔
زندگی بدل گئی !
شوہر اچھا ہو بیوی بچوں کا خیال رکھتا ہو تو زندگی پرسکون ہوجاتی ہے مگر یہاں تو زبردستی نوکری پر بھیجو پھر خود بازار جاٶ ضرورت کا سارا سامان خود اٹھاٶ پھر گھر کی صفائی، کھانا بنانا، بچوں کو اسکول چھوڑنا اور لانا سارا دن اسی میں گزر جاتا ہے یہاں تک کے امّی سے بات تک کرنے کا ٹائم نہیں ملتا مہینوں گزر جاتے ہیں امّی سے ملاقات ہوئے۔
فائزہ نے دکھوں کا قصہ سنا کر سکون کا سانس لیا تو میں نے بھی تسلی دی اللہ آسانی کرے تمھارے لیئے۔آج پھر کئی مہینوں بعد فائزہ سے ملاقات ہوئی تو پتہ چلا وہ گھر خالی کر کے دوسرے محلے میں چلی گئی ہے کرائے داروں کے لیۓ یہی پریشانی ہے اللہ سب کو اپنا گھر نصیب کرے۔ فائزہ بڑی خوش اورپہلے سے بہت اچھی لگ رہی تھی خوش ہوکر بتانے لگی۔ میرے شوہر تو جی ایسے فرمابردار ہوئے ہیں کے بس پوچھو مت۔ ویسے میں نے پوچھا نہیں تھا پر فائزہ بتاۓ بغیر کہاں رہتی۔
خوشی خوشی بتانے لگی صبح وقت سے پہلے نوکری پر چلے جاتے ہیں ساتھ بچوں کو بھی اسکول چھوڑ دیتے ہیں گھر کی ساری ذمہ داری خود لے لی ہے میں تو بس اب گھر میں رہتی ہوں اور اتنے محنتی ہوگۓ ہیں کے رات رات بھر گھر نہیں آتے یہاں تک کے کئی کئی دن کام کے سلسلے میں شہر سے باہر رہتے ہیں اور میں اپنی امّی کے گھر آرام کرنے چلی جاتی ہوں رزق میں ایسی برکت ہے کہ کبھی کبھی ہر چیز ڈبل آجاتی ہے پچھلے ہفتے دو سینڈل بلکل ایک جیسی لے آۓ بس ایک نمبر چھوٹی تھی پھر وہ تبدیل کرنی پڑی۔ کبھی راشن میں بھی چیزیں ڈبل ہوجاتی ہیں بس اللہ کا کرم ہے۔ میں تو کونے والی نورن دادی کو دعائيں دیتی ہوں۔ یہ سب ان ہی کی وجہ سے ہوا ہے۔ انھوں نے مسجد کے مولوی صاحب کا پتہ دیا تھا۔ مولوی صاحب نے ایک وظیفہ بتایا تھا پڑھنے کو وہ بھی تہجد میں بس پھر کیا تھا میری تو قسمت ہی پلٹ گئی۔ زندگی آسان ہوگئی ہے۔
مجھے بڑی حیرانی ہوئی کہ ایک وظیفے سے قسمت بدل گئی بھئی یہ کونسا وظیفہ ہے چلو چھوڑو۔مگر فائزہ کہا مانتی بتائے بغیر۔ عربی کے چند الفاظ بڑے ادب سے سنائے اور چہرے پر ہاتھ پھیر کر تین بار آمین آمین آمین کہا۔ بس یہ وظیفہ پڑھ لو شوہر آپ کے قدموں میں اور ہاں کسی اور کو بھی بتا دیں اگر کوئی پریشان ہو تو کسی کا بھلا ہو جائے اچھی بات ہے۔ میرا نمبر بھی لے لیا اور پھر فائزہ مسکراتی ہوئی گھر روانہ ہو گئی۔
ہفتے بعد ہی ایک انجان نمبر سے فون آیا۔ ریسو کرنے پر فائزہ نے سلام دعا کی اور زور زور سے روتے ہوئے کہنے لگی میں تو لوٹ گئی بر باد ہوگئی بس بہن میرا شوہر تو ہاتھ سے نکل گیا پتہ نہیں کیا کمی تھی مجھ میں جو دوسری شادی کر لی اللہ ہی سمجھے گا ایسی عورتوں کو جو شادی شدہ بچوں والے مردوں سے شادی کر لیتی ہیں۔ میں...
بن بُلائے مہمان ! بَلائے جان
بن بلائے مہمان وہ بھی چپک جانے والے ایک دو دن سے زیادہ برداشت نہیں ہوتے اور اگر زیادہ ہی رک جائیں تو سارے گھر کو ہی تکلیف اور نقصان پہنچاتے ہیں اور سارے ہی لوگ ان سے کنّی کترا کر گزرنے کی کوشش کرتے ہیں کہ یہ ہمارے ساتھ ہی نہ چپک جائیں۔
ایسا ہی معاملہ ہم لوگوں کے ساتھ ہوا ہے پہلے تو اس خطرناک اماں نے اپنی اولاد کو بھیج دیا وہ ملک ملک گھوما اور یہیں ڈیرا ڈال لیا۔نہ جانے کیا کیا تباہ و برباد کیا اور یہ حضرت انسان بے بس اور بے کس منہ چھپائے گھومتا رہا حتی کہ اپنے بیماروں مجبور پیاروں سے ملنے اور ان کی تیمارداری سے بھی محروم رہا کچھ وقت گزرنے کے بعد جب اس نے دیکھا کہ ماحول ٹھنڈا ہوگیا ہے لوگ سکون میں ہیں تقریبات عروج پر ہیں اسکول، مساجد اور پارک بھرے ہوئے ہیں تو اس نے ناک بھوں چڑھایا اور سوچا ! یہ میری اولاد تو ٹھنڈی ہوتی جا رہی ہے برسوں محنت کی ہے میں نے اس پر اسے اتنی جلدی ہار نہیں ماننا چاہیے۔ اب مجھے ہی کچھ کرنا ہوگا تو لیجئے جناب پورے جوش اور بھرپور شیطانیت کے ساتھ کرونا کی امی جان اُُمِ کرونا (امیکرون) تباہ حال لوگوں کو اور تباہ کرنے دنیا میں انسانوں پر آدھمکی۔
کتنے دور اندیش تھے وہ لوگ جنہوں نے چاند پر پلاٹ بک کروائے تھے گوگل سرچ کرکے دیکھتے ہیں، تب پتہ چلے گا کہ وہ لوگ کرونا سے بچنے کے لیے چاند پر پہنچ گئے یا اس سے بھی کہیں آگے عالم برزخ پہنچ گئے۔
ہمارے گھر میں تین افراد پر اٌمِ کرونا فدا ہوگئی ہیں ہماری امی جان، بھیا اور آپی پر۔ان تینوں نے قرنطینہ کے نام پر ایک ایک کمرے پر قبضہ جما لیا ہے ابّا جان تو امی کے کمرے کے دروازے کے قدموں میں ہی پلنگ ڈالے پڑے ہیں اور ہم نے لاؤنج میں صوفے پر ڈیرہ جما لیا ہے البتہ ماسی خوش نظر ارہی ہے کہ تینوں کمروں کی صفائی سے جان بخشی ہوئی ہے۔
ویڈیو کال اور فون کال پر ہی سب رشتے داروں نے مزاج پرسی اور تیمارداری کرکے اپنا فرض نبھایا کیونکہ ہم سب مجبور ہیں ایک ان دیکھے وائرس سے۔سلائی والی آنٹی نے جب نئے سلے ہوئے سوٹ ہمیں بھجوائے تو اس کے ساتھ سوٹ کے کپڑے کے ماسک بھی بنے ہوئے رکھے تھے۔ سلائی والی آنٹی کو فون کرنے پر پتہ چلا کہ یہی فیشن چل رہا ہے، انہوں نے ایک آفر بھی دی کے ہم فینسی ماسک بھی بناتے ہیں ستارے موتیوں اور کڑھائی والے ان کا بھی پیکج ہے جو پیکج آپ لینا پسند کریں۔
نہ جانے کتنے ابہام ذہن میں گردش کر رہے ہیں۔ابھی تو ہم ڈر کے مارے اس قابل بھی نہیں ہوئے کی واٹس ایپ یا فیس بک پر اپنا اسٹیٹس لگائیں۔
I am vaccinated
کیوں کہ ابھی تو ہم اکّڑ بکّڑ ہی کر رہے تھے کہ چائنا کی ویکسین لگوائیں، کینیڈا کی یا پاکستانی کے اچانک، اْمِ کرونا سے پہلے بوسٹر بھی آٹپکا۔سوچ رہے ہیں ڈائریکٹ بوسٹر ہی لگوا لیں۔
یہ بلائے ناگہانی ہے بس...
ٹک ٹاک ایک نشہ
ٹک ٹاک مختصر ویڈیو کی ایسی ایپ ہے جس میں وہی ویڈیو چلتی ہے جو ’’مختصر‘‘ ہو۔بس ایک ویڈیو وائرل ہونے کی دیر ہے پھر آپ ایک ہی رات میں ہیرو بن گئے۔گویاٹک ٹاک سوشل میڈیا کا ایک ایسا پلیٹ فارم ہے جس میں وہی ویڈیو وائرل ہوتی ہے جس میں سب کچھ’’ پلیٹ‘‘میں رکھ کر پیش کیا جائے۔بلکہ نوجوان نسل تو وائرل ہونے کے لئے ایسی اشیاء بھی ’’پیش‘‘ کر دیتی ہیں جن کا پیش نہیں ’’زیر‘‘میں ہونا ہی معیاری،مناسب اور اخلاقی ہوتا ہے۔مگرچائنہ والوں کو کون سمجھائے کہ جس لباس کو ہم پاکستانی اعلیٰ اخلاقی اقدار سے گرا ہوا سمجھتے ہیں ان کے ہاں وہ لباس اعلی اقدار کا حامل سمجھا جاتا ہے۔بلکہ یوں کہنا مناسب ہوگا کہ لباس کا صرف سرا ہی نظر آتا ہو تو اسے اخلاقی لباس سمجھا جاتا ہے۔چائنہ اور یورپ میں تو اسی کی زیبائش مناسب ہوتی ہے جس کی ’’نمائش ‘‘زیادہ ہو۔ ان کے سامنے تو بھاری بھر کم فراک،غرارہ و شرارہ زیب تن کر کے جائیں تو وہ حیران ششدر رہ جاتے ہیں کہ ان کا ناتواں جسم ایسا لباس ’’کیری‘‘ کرتاکیسے ہے۔شائد اسی وجہ سی چینی اور یورپی خواتین وہی لباس زیب تن کرتی ہیں جو ہمیں زیب نہ دیتا ہو۔
میں نے اپنے انتہائی معصوم و سادہ دوست شاہ جی سے ایک معصومانہ سوال کیا کہ مرشد ٹک ٹاک پر کیسے وائرل ہوا جاتا ہے۔شاہ جی نے شانِ بے نیازی (بے نیازی کو کسی نیازی سے نہ ملایا جائے )اور لاپروائی سے جواب دیا کہ فی زمانہ ٹک ٹاک ہی نہیں ہر جگہ وائرل ہونے کا ایک فارمولہ ہے۔میں نے متجسسانہ انداز میں پوچھا کہ مرشد وہ کیا۔فرمانے لگے۔’’جو دکھتی ہے وہ بکتی ہے‘‘یعنی جو دکھتا ہے وہی بکتا ہے۔شاہ جی کے جواب پر سوال در سوال ذہن میں کود آیا کہ کیا اس فارمولہ کا اطلاق صنف نازک(جسے میں ہمیشہ صنف آہن کہتا ہوں)پر ہی ہوتا ہے یا صنف معکوس بھی اس زد میں آتے ہیں۔کہنے لگے فارمولہ تو وہی ہے بس الفاظ کے چنائو کو بدلنا ہوگا،یعنی۔۔۔۔۔یعنی مرد حضرات کے لئے الفاظ بدل کر ایسے ہو جائیں گے کہ ’’جو بَکتا ہے وہ بِکتا ہے‘‘
چین نے جب ٹک ٹاک ایپ متعارف کروائی تو اس کا مقصد سیلیکون شہر میں بیٹھ کر ایسی مختصر مدتی ،مختصر ویڈیو،مختصر لباس میں بنا کر پیش کرنا تھاکہ جو اپلوڈ ہوتے ہی وائرل ہو جائے،اور ایسا ہی ہوتا تھا۔اس لئے ہماری نوجوان نسل بھی چین کے نقش پا پر اپنے قدم جمائے ویسی ہی مختصر ویڈیو بناتے ہیں جو وائرل ہو جائے۔مجھے حیرت یہ نہیں کہ آج کی نسل سستی شہرت کے لئے ایسا کیوں کرتی ہے۔پریشانی یہ ہے کہ انہیں شہرت مل بھی جاتی ہے۔اب تو ٹک ٹاک بھی ایک حمام سا ہی دکھائی دیتا ہے ،وہ جس کے بارے میں اکثر سیاستدان بیان بازی کیا کرتے ہیں کہ اس حمام میں سبھی ننگے ہیں۔اب تو ٹک ٹاک دیکھ کر بھی لگتا ہے کہ اس حمام میں بھی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ویڈیو وائرل ہونے کے بارے میں ایک دوست کی بات یاد آگئی ،اس نے ایک دن مجھ سے پوچھا کہ یار ابھی تک...
بہت عمدہ تحریر۔ میں خواہش نفس کے الہ ہونے کے بارے میں اک عرصے سے ایسی ہی کسی تحریر کا متلاشی تھا۔ جزاک اللہ خیر