ایمان مغازی الشرقاوی
ترجمہ: ڈاکٹر میمونہ حمزہ
(۱)
جب اﷲ تعالی نے انسان کو تخلیق کیا، تو اسے عزت بخشی ، اورفرشتوں نے اسے سجدہ کیا، اور اسے خیر اور شر کا راستہ دکھا دیا، او ر عظیم مقصدِ تخلیق پورا کرنے کے لئے جن وسائل اور سہولیات کی اسے ضرورت تھی وہ بھی عطا کر دیے، اور اس پر اپنی نعمت کے اظہار کے بعد فرمایا: (الم نجعل لہ عینین ۰ ولسانا وّشفتین ۰ وھدیناہ النجدین) (البلد ۸ ۔ ۱۰) (کیا ہم نے اسے دو آنکھیں اور ایک زبان اور دو ہونٹ نہیں دیے، اور (نیکی اور بدی کے) دو نمایاں راستے اسے (نہیں) دکھا دیے؟)
اور اسے سیدھا راستہ اختیار کرنے اور اس پر ثبات کی تعلیم دی، اور فرمایا: (وان ھذا صراطی مستقیماً فاتبعوہ ولا تتبعوا السبل فتفرق بکم عن سبیلہ ذلکم وصّاکم بہ لعلکم تتقون) ( الانعام، ۱۵۳) (اور یہی میرا سیدھا راستہ ہے لہذا تم اسی پر چلو اور دوسرے راستوں پر نہ چلوکہ وہ اسکے راستے سے ہٹا کر تمہیں پراگندہ کر دیں گے۔ یہ ہے وہ ہدایت جو تمہارے رب نے تمہیں کی ہے شاید کہ تم کجروی سے بچو۔)
یہ اسوجہ سے کہ یہی وہ راستہ ہے جو اسے اسکی امیدوں اور آرزؤوں تک پہنچانے کا ضامن ہے، اور وہ بحیثیت انسان اسکی کرامت اور عزت کی بھی حفاظت کرتا ہے، اور وہ اسکے معتبر ارادے، آزاد مرضی اور سوچنے والے دماغ اور باخبر دل کا نگران ہے۔
تو کیا جب انسان اسلام قبول کرتا ہے تو وہ پورے اطمینان کے ساتھ سیدھے راستے پر گامزن رہتا ہے، حتی کہ انجام تک پہنچ جاتا ہے، یا یہاں ایسی قوتیں بھی ہیں جو زیادتی اور حسد کے ساتھ اسکا راستہ کاٹنا چاہتی ہیں، یا اسے دھوکے میں ڈال کر اور فتنے میں مبتلا کر کے، یا کبر و غرور میں ڈال کر اسکی منزل کھوٹی کرنا چاہتی ہیں؟! گویا کہ میں اس راستے پر چلنا شروع کرتا ہوں تو کتنے ہی راہزن راہ میں کھڑے ہیں، جن کے فتنوں کے کتنے ہی نام ہیں، اور انکی کتنی ہی متنوع شکلیں ہیں، انہوں نے خود کو کتنے خوش کن لبادوں میں لپیٹ رکھا ہے، اور دھوکے کے لئے کتنے خوبصورت روپ اختیار کر رکھے ہیں، انکی پرکشش اور مدہوش کن خوشبوپھیل رہی ہے، یہ وہی لوگ ہیں جو کوشش کر رہے ہیں کہ لوگوں کے دلوں پر غلاف چڑھا رہے،اور وہ انکے اندر فساد پھیلا رہے ہیں، انکا ہدف اﷲ کی بندگی کرنے والے افراد ہیں، تاکہ وہ ان کے درمیان خلیج پیدا کر کے انہیں غلط فہمیوں اور شبہات میں مبتلا کریں، انکے دین میں اشکالات پیدا کریں، اور انہیں اس راہ سے روک دیں۔
اسی لئے جو اﷲ کے سیدے راستے پر چل رہا ہو، اسے ثابت قدمی اختیار کرنی چاہیے، اور کسی راہزن کے قبضے میں پہنچنے سے چوکنا رہنا چاہیے، کیونکہ ایسے راہزن گھات میں بیٹھے رہتے ہیں، تاکہ اسکا راستہ کاٹیں، اور وہ عمل سے باز آجائے، یا وہ اسے واپس پلٹا لائیں، اور اتنی محنت اور اتنا راستہ طے کرنے کے بعد وہ اسے دوبارہ پہلی جگہ پر پہنچا دیں ۔۔اسے معلوم ہونا چاہیے کہ اسکے راستے میں مکاروں کی سازشیں ہیں، اور مایوسی پھیلانے والوں کا گمراہ کن پروپیگنڈا ہے، اس جدوجہد میں شریک افراد کے لئے مختلف چیلنجز ہیں، تاکہ انکی جدوجہد محدود رہے، اور انکی طاقت دفاع، بچاؤ، روکنے اور قدم مضبوط کرنے میں لگی رہے، اور وہ اس سے رک جائیں، اور انکی مخالفت پر کمر بستہ ہو جائیں، اگر وہ احتیاط برتیں تو وہ انہیں نقصان نہ پہنچا سکیں گے، وہ اپنے محفوظ ٹھکانوں میں بیٹھ کر کوشش کریں گے کہ لوگوں کو حسنِ عمل سے دور کر دیں، اور قبیح اعمال مزین بنا کر انکے سامنے پیش کریں، اگر وہ ایک لمحے کے لئے بھی غافل ہوئے تو وہ ان سے اعلی اور قیمتی اور چوٹی کے ا عمال چھین لیں گے جو وہ راہِ جہاد اور ان کے شر سے بچنے کے لئے کر رہے ہیں ۔۔ کیا ہم نے کہا نہیں کہ یہ چور ہیں، جوفساد مچا کر ان سے خیر چرانا چاہتے ہیں، اور حق کی صورت کو مبہم بنا کر ان کے سامنے گمراہی بکھیرنا چاہتے ہیں، وہ جھوٹی امیدیں دلاتے ہیں،اور چاہتے ہیں کہ کم از کم وہ تاخیری حربے ہی اپنانا شروع کر دے، اور وہ پیچھے کی جانب سفر شروع کر دے، وہ مکارانہ انداز میں انتظار کرواتے ہیں، تاکہ موقع پا کر اسے نیچے گرا دیں، اور اس پر چڑھ دوڑیں، اور اگر ممکن ہو تو اسکا خاتمہ کر دیں، وہ جھوٹ کہتے ہیں کہ وہ یہ سب نصیحت کے طور پر حسنِ نیت کے ساتھ کہہ رہے ہیں،اور وہ بڑی دیدہ دلیری اور اصرار کے ساتھ بہتان لگاتے ہیں، اور خوش نصیب ہیں جنہیں انکے خلاف اﷲ کی مدد مل جائے، اور وہ بھاگ اٹھیں، لیکن آپ لوگوں کو انکی پکڑ اور انکے شر سے چوکنا کرتے رہیں، تاکہ وہ اور انکی ذریت ان سے محفوظ رہیں، وہ سب بچ جائیں، اور دنیا و آخرت دونوں میں کامیاب و کامران ٹھہریں۔
انسان کی نجات حاصل کرنے کی حرص:
اﷲ تعالی نے ہر انسان کی جبلت میں رکھا ہے کہ وہ اپنی نجات کا حریص ہے، اگرچہ اس خواہش کی صورت اور اسکی مقدار مختلف افراد میں مختلف ہوتی ہے، اور نجات کی راہیں بھی متنوع ہیں، اسکی متعدد شکلیں ہیں، ان میں سے بعض ایجابی شکل اختیار کرتے ہیں اور بعض سلبی، لیکن ہر ایک یہی گمان کرتا ہے کہ یہ کوشش اسے ساحلِ امان اور نجات تک لے جائے گی۔۔
کچھ لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ اس دنیا کی زندگی میں انکی نجات بس دنیا کی زندگی ہی کی کامیابی ہے؛ وہ آخرت کے بارے میں نہیں سوچتے، وہاں نہ انکو ثواب کی امید ہے نہ عذاب کی، یہ وہ لوگ ہیں جو اﷲ پر ایمان نہیں رکھتے، اور نہ آخرت پر کسی قسم کا ایمان رکھتے ہیں ۔۔ آپ دیکھتے ہیں کہ وہ جن چیزوں کو اپنے علم کی بنا پر ضرر رساں سمجھتے ہیں ان سے دور رہتے ہیں، اور جو انکی خواہشات کے مطابق ہوتا ہے اسکے لئے پریشان ہوتے ہیں، اگرچہ وہ انکے لئے مناسب نہ ہو، وہ ہر خواہش اور شہوت کو پورا کرنے میں لگے رہتے ہیں، اور سمجھتے ہیں کہ یہی نجات کی صورت ہے، کلی نجات کی۔
رہے اﷲ کے نیک بندے، جو حقیقت میں اﷲ پر ایمان رکھتے ہیں، اور اسکے رب ہونے پر راضی ہیں، تو ایسے سب لوگ نجات حاصل کرنے کے لئے انہیں پختہ راہوں پر چلتے ہیں جو انکے رب کی طرف سے مقرر کی گئی ہیں، اگرچہ ان پر چلتے ہوئے انہیں تھکاوٹ لاحق ہو، یا مشقت اور جانفشانی کرنی پڑے، وہ جانتے ہیں کہ یہاں جگہ جگہ چور اور اٹھائی گیر اور راہزن بیٹھے ہیں، جو لوگوں کو خیر کی راہوں سے روکتے ہیں، اور ان راستوں سے منع کرتے ہیں، بعض اوقات تو ایسے لوگ آپ کے انتہائی قریب ہوتے ہیں، بالکل ایسے جیسے پہلو میں بیٹھا ہوا ساتھی، مگر وہ آپ کے کٹڑ دشمن بن جاتے ہیں، تاکہ آپ اﷲ کے راستے پر محنت نہ کر سکیں، اگر آپ انکے لئے نفس کی باگیں ڈھیلی چھوڑ دیں، تو ذرا دیر نہ گزرے گی کہ وہ آپ کو قول و فعل اور اخلاق کے لحاظ سے نفسِ امارہ کے حوالے کر دیں گے، پھر اور بہت سے دشمن آپ کو اچک لیں گے، جن کے ذریعے شیطان مردود فحش اور منکر کا حکم دیتا ہے، اور دنیا کو اثر انداز فتنے کے روپ میں پیش کرتا ہے، پھر نہ کوئی مقصد رہتا ہے نہ وسیلہ، اور گمراہ کن خواہشات اسے اپنا پیروکار بنا لیتی ہیں، اور حکم دیتی اور منع کرتی ہیں، تاکہ وہ سب مل کر راہزنوں کا ایک گروہ بن جائیں، جو اعلانیہ اور خفیہ طور پر کام کرتے رہیں، اور کھلے اور چھپے منصوبے بناتے رہیں ۔۔ پس اسی لئے اﷲکے خالص بندے چوکنے رہتے ہیں، اور ان راہزنوں کی حرکات کا بڑے غور سے جائزہ لیتے ہیں، اور انکی گھات سے باہر انتظار کرتے ہیں، اور اﷲ سے استعانت طلب کرتے ہیں، پس راہزنوں کو ان پر دست درازی کا موقع نہیں ملتا، انکے لئے اﷲ تعالی کا فرمان انکے دشمنِ اول کے بارے میں کافی ہے، جو ۔ شیطان الرجیم ۔ ہے: ۔ (ان عبادی لیس لک علیھم سلطان وکفی بربک وکیلا) (الاسراء، ۶۵) (یقیناً میرے بندوں پر تجھے کوئی اختیار حاصل نہ ہو گا، اور توکل کے لئے تیرا رب کافی ہے۔) پس آپس میں اس چالاک دشمن کے خلاف ایک دوسرے کو جہاد کی نصیحت کرو، جبکہ وہ اپنے گروپ کا لیڈر ہے! اور اسکی شکایت اسکے رب اور مالک سے کرو تاکہ وہ ان سب سے اپنا عذاب ٹال دے، سلف میں سے کسی سے روایت ہے کہ انہوں نے اپنے شاگرد سے پوچھا: ’’جب تمہیں شیطان خطاؤں کے لئے دھوکے میں ڈالتا ہے تو تم کیا کرتے ہو؟ وہ بولا: میں مجاہدہ کروں گا۔ پوچھا: اگر وہ دوبارہ کوشش کرے؟ کہا: میں پھر مجاہدہ کروں گا۔ پوچھا: اگر پھر اس نے حملہ کیا؟ بولا: میں پھر مجاہدہ کروں گا ۔ کہا: یہ تو بہت طویل ہو جائے گا، تمہارا کیا خیال ہے کہ اگر تم بکریوں کے ریوڑ کے پاس سے گزرو، تو (ان کا رکھوالا ) کتا تم پر بھونکنے لگے، یا تمہیں راستہ عبور نہ کرنے دے، تو تم کیا کرو گے؟ بولا :میں بار بار گزرنے کی کوشش کروں گا۔ کہنے لگے: یہ تو تم پر بہت طویل ہو جائے گا، لیکن اگر تم بکریوں کے مالک سے مدد مانگو گے تو مسئلہ حل ہو جائے گا۔
یہاں تک کہ چناؤ مکمل ہو جائے، اور مخلوق کی بندگی خالق کے لئے ثابت ہو جائے، اﷲ نے اس دنیا کو امتحان اور ابتلاء کا گھر بنایا ہے، اور جانچ اور آزمائش کی جگہ۔ نجات کا راستہ مکاروں کی چالبازیوں اور شہوات، فتنوں اور شبہات سے گھرا ہوا ہے، پس ہماری دنیا کی زندگی ایک بڑے سے کمرہء امتحان کی مانند ہے، جس کے مختلف گوشوں میں رب العالمین کی طرف سے ہر وقت جنت میں داخلے کے مختلف ٹیسٹ اور امتحان ہوتے رہتے ہیں، اور ہماری عمریں وہ محدود و معین وقت ہیں جس میں ہم نے اس بڑے امتحان میں کامیابی اور رضا مندی کا درجہ حاصل کرنا ہے، رہا ہمارے اخلاص کا صدق، اور ہماری قوتِ ایمانی تو یہ کامیابی ، تفوق اور ترقی کی علامت ہیں، جنہیں پار کر کے ہی ہم کامیابی کی شاہراہ پر پہنچ سکتے ہیں، اﷲ تعالی نے بھی ہمیں یاد دہانی کروائی ہے: (الذی خلق الموت والحیاۃ لیبلوکم ایکم احسن عملاً وھو العزیز الغفور) (الملک، ۲) (جس نے زندگی اور موت کو ایجاد کیا تاکہ تم لوگوں کو آزما کر دیکھے تم میں سے کون بہتر عمل کرنے والا ہے، اور وہ زبردست بھی ہے اور درگزر فرمانے والا بھی۔)
عقلمند و دانا وہ ہے جس نے زندگی میں تیاری مکمل کر لی، اور ہمت کی کٹھالی میں اسے خوب پیس لیا، اور طاقت اور امان کے اسلحے سے مسلح ہو کر جرأت سے ہر اس شخص کے راستے میں ڈٹ کر کھڑا ہو گیا جو اسکے رب کی طرف جانے کا راستہ روکنا چاہتا ہے۔ صالحین نے اسی طریقے کو اپنایا، تو انہیں معلوم ہوا کہ اس کی گھات مختلف راہوں پر لگی ہوئی ہے، اور وہ انکے مستقر اور ٹھکانوں تک پہنچتے ہیں، اور یہ (صالحین ) درست راستہ معلوم کرنے کی کوشش کرتے ہیں، تاکہ وہ اس پر چلیں، اور اسکے طویل راستوں پر جو بھی چور اچکا، یا حریت اور امن کا دشمن ملے وہ اس سے چوکنا رہیں، اور وہ اﷲ کے دامن میں پناہ لیں، تاکہ وہ انہیں کامیاب کر دے، اور وہ اسی سے صبر وثبات اور حفاظت سے منزل تک پہنچ جائیں۔
نجات اور منزل تک پہنچنے کے اسباب کی تلاش:
اگر آپ واقعی نجات حاصل کرنا چاہتے ہیں، تو اسکے اسباب اختیار کیجئے، اور اس خیر کو صرف اپنے تک محدود نہ رکھیں، بلکہ ان نیک لوگوں میں شامل ہو جائیے، جو ایک دوسرے کو اس کی تلقین کرتے رہتے ہیں، اور اسکی دعوت دیتے ہیں، اور بلندیوں تک پہنچنے کے خواہاں ہوتے ہیں، اور نیچے گرنے اور ہلاکت سے ڈرتے رہتے ہیں، پس علیؓ بن ابی طالب بھی ایسے ہی راہزن سے چوکنا کرتے ہیں، جو ہمارا راستہ کاٹنا چاہتا ہے، خواہ ظاہری طور پر یا خفیہ طریقے سے، اگرچہ وہ ہمارے سامنے خوب رنگ چڑھا کر آئے، اور اسکا حسن ظاہر ہو رہا ہو، آپ فرماتے ہیں: ’’بیشک دنیا نے پیچھے کی جانب سفر شروع کر دیا ہے، اور آخری سامنے آنے والی ہے، اور (اس دنیا میں) ان دونوں کے بیٹے ہیں، پس تم آخرت کے بیٹے بنو، اور دنیا کے بیٹے نہ بنو، خبردار زاہدوں نے اس دنیا میں زمین کو بچھونا بنایا، اور مٹی کو فرش، اور پانی کو تازگی، خبر دار جو جنت کے مشتاق تھے انہوں نے شہوات کو بھلا دیا، اور جو آگ سے خوفزدہ ہوئے، انہوں نے حرام کردہ اشیاء چھوڑ دیں، اور جس نے دنیا کا زہد اختیار کیا، اسکے لئے مصیبتیں ہلکی ہو گئیں۔خبردار بلاشبہ اﷲ کے ایسے بندے بھی ہیں جو ایسے دیکھتے ہیں جیسے اہلِ جنت کو ہمیشہ کی جنتوں میں دیکھ رہے ہوں، اور اہلِ جہنم کو جہنم میں عذاب میں دیکھ رہے ہوں، وہ اسکے شر سے امن چاہتے ہیں، انکے دل غمگین ہوتے ہیں، اور انکے نفوس پاکدامن ہوتے ہیں، انکی ضروریات مختصر ہوتی ہیں، وہ اس طویل سفر کے انجام کے لئے اتنے دن صبر کرتے ہیں، انکی راتیں صف باندھے بسر ہوتی ہیں، انکے آنسو انکے گالوں پر بہتے رہتے ہیں، وہ اپنے رب کے سامنے کھڑے اسے پکارتے رہتے ہیں: ربنا ربنا، وہ اپنی گردن چھڑانے کا مطالبہ کرتے ہیں، یہ ہے انکی راتوں کا حال! اور وہ دن کے عالم ہیں، حلیم طبیعت، نیکو کار و متقی، گویا کہ وہ ایسا پیالہ ہیں جس کو دیکھنے والا سوال کرتا ہے: یہ بیمار ہیں؟ لیکن ان لوگوں کو کوئی مرض لاحق نہیں، اور لوگ سمجھتے ہیں کہ انکے دماغ میں کوئی خرابی ہے، مگر حقیقت میں لوگوں نے ایک بڑے معاملے کو خلط ملط کر دیا ہے‘‘۔
آپ فرماتے ہیں: ’’مجھے تمہارے بارے میں دو چیزوں کا خوف لاحق ہے: لمبی عمر، اور خواہشات کی پیروی، کیونکہ لمبی عمر آخرت بھلا دیتی ہے، اور خواہشات کی پیروی حق سے روکتی ہے ۔۔ آج عمل کا دن ہے اور حساب نہیں، اور کل حسا ب ہو گا، اور عمل (کا موقع) نہیں۔
خبردار بلاشبہ رمضان بھی ان شریر راہزنوں سے نجات کا موقع ہے، تو آؤ اے روزے دارو، انکو روکنے اور دفاع کرنے کے لئے کمر بستہ ہو جاؤ، تم کامیاب و کامران ہو جاؤ گے!!
1 تبصرہ
جواب چھوڑ دیں
اہم بلاگز
چراغ تو روشن ہیں
پی ٹی اے کی ایک رپورٹ کے مطابق پاکستان میں سوشل میڈیا صارفین کی تعداد 16 کروڑ کے لگ بھگ ہے۔ اس رپورٹ میں مکمل سچائی ہو پھر بھی ٹی وی بہرحال ایک مقبول ذریعہء مواصلات ہے۔ شام کے وقت یا رات نو بجے ٹی وی پر ٹاک شوز یا head lines ملاحظہ کرنے والے افراد کا تناسب کم نہیں ہوا۔ آج جب شام آٹھ بجے ٹی وی آن کیا تو اتفاق سے ٹاک شو کا موضوع تھا انٹرا پارٹی انتخابات اور پارٹی کی قیادتیں۔ پیپلز پارٹی، مسلم لیگ، پی ٹی آئی سبھی کے انٹرا پارٹی الیکشن کے احوال چل رہے تھے۔ پھر نمایاں قائدین کے نام لیے گئے
پیپلز پارٹی:- ذوالفقار علی بھٹو، بےنظیر بھٹو، زرداری، بلاول بھٹو، آصفہ بھٹو، پارٹی قیادت کے نمایاں افراد ۔
مسلم لیگ نون:- نواز شریف، شہباز شریف، حمزہ شہباز، مریم نواز ۔
پی ٹی آئی:- عمران خان ہی موءسس اوروہی قائد انہی کے دم خم سے پارٹی ہے۔ غیر مشروط، عقیدت اور اتباع کا محور بس عمران خان کی شخصیت ہے، اختلاف ہے تو عمران خان سے، اتفاق ہے تو عمران خان سے۔
مردِ واحد یا پھرایک خاندان۔ بس ہر پارٹی میں اسی کا اجارہ ہے۔ کس منہ سے یہ لوگ جمہوریت کا نام لیتے ہیں۔ کبھی سوچا آپ نے؟؟ ووٹ دینے سے پہلے سوال کیا کبھی آپ نے ان، مقبول لیڈرز، سے؟ اکتائے دماغ کے ساتھ چینل بدلا تو حافظ نعیم الرحمن کے حلف کی خبر چل رہی تھی۔ سارامنظر ہی دلکش لگا۔ بھیگی آنکھیں، کپکپاتے الفاظ دعاؤں کی التجا. یہ ہے حافظ نعیم الرحمن کا حلف ۔ دماغ میں سوال اٹھا "کیا یہ شخص سالہا سال سے نسل در نسل اس جماعت کا گدی نشین ہے؟"
نہیں جی اس سے پہلے ایک درویش صفت، روشن کردار والا، ہمت و جہد کا استعارہ۔۔۔ سراج الحق تھا اسی ذمہ داری پہ ۔۔۔ تو کیا سراج الحق کو عوامی مقبولیت، یہ عہدہ، کروڑوں لوگوں کی دعائیں ان کے باپ دادا نے دلوائیں؟ نہیں جی، وہ تو حلف اٹھانے سے چند دن پہلے تک انہیں خبر تھی نہ خواہش اور ان سے پہلے جو اس منصب پر تھے وہ تھے سید منور حسن، وہ سید، یہ پٹھان، وہ کراچی سے، یہ کے پی سے، کیا سید منور حسن اپنے سے گزشتہ امیر جماعت کے رشتے دار تھے؟
نہیں، وہ بھی اول الذکر سبھی کی طرح ایک عام کارکن تھے۔
نعیم صدیقی (رحمہ اللہ علیہ) اپنی تصنیف "المودودی" میں لکھتے ہیں
"۔۔۔ کتنا سخت لمحہ ہے کہ اس شخص کے جسد کی امانت کو مٹی کے حوالے کرنے کے بعد میں اسی کی جدائی کاذکر چھیڑ رہا ہوں۔ ترجمان القرآن کی ادارت کرنے اوراس کے ذریعے دور دراز تک ایمان وحکمت کا نور پھیلانے والی ہستی نگاہوں سے اوجھل ہوچکی ہے۔ اس کی کرسی خالی ہے وہ اپنے تاریخی کمرے میں بھی موجود نہیں اور اہلخانہ کی مجلس میں بھی شریک نہیں۔اس کی کتابیں جیسے آنکھیں پھاڑ پھاڑ کر اسے ڈھونڈ رہی ہیں۔۔۔"
قارئین! نعیم صدیقی کا کرب جب ان الفاظ میں ڈھل رہاتھا تو شائد انھیں بھی اندازہ نہیں تھا کہ یہ تحریک پھل پھول لائے گی ، وسعت اختیار کرے گی۔ بلاشبہ...
تاریکی میں ڈوبتی دنیا
معاشرہ افراد کی مرہونِ منت ترتیب پاتا ہے، افراد اپنی تربیت بہترین اطوار پر کرنے کی کوشش میں سرگرداں رہتے ہیں اور بہتر سے بہتر کی تلاش جاری ہے۔ تہذیبوں کا مطالعہ کیا جاتا ہے اور ان دفن شدہ تہذیبوں میں سے ان کے رہن سہن اور دیگر طور طریقوں پر تحقیق کی جاتی ہے اور باقاعدہ یہ ثابت بھی کیا جاتا ہے کہ ان تہذیبوں میں ایسا ہی ہوتا ہوگا۔ وقت کا تو نہیں، انسان کے طور طریقے ہر دور میں بدلتے رہتے ہیں۔ دنیا کی تاریخ انسانیت کی تذلیل جیسے واقعات سے بھری پڑی ہے، یہ جان کر دکھ ہوتا ہے کہ ایک انسان دوسرے انسان کو تکلیف دینے سے کسی قسم کی عبرت حاصل نہیں کرتا یا پھر ہر انسان اس سوچ کا حامل ہے کہ جو وہ کر رہا ہے وہ صحیح ہے اسے ویسا ہی کرنا تھا جیسا وہ کر رہا ہے لیکن وقت سوچ میں تبدیلی لے آتا ہے پھر پچھتاوالادے لادے زندگی گزر جاتی ہے۔
ہمارے پیارے بنی ﷺ کے چچا کہا کرتے تھے کہ ہمارا بھتیجا جو کہہ رہا ہے وہ بلکل صحیح ہے لیکن ہم اپنے آباؤ اجداد کو کیسے ترک کردیں۔ آج احساس کو بھی شرمندگی کا سامنا ہوگاکیونکہ وہ اپنی شدت کھوچکا ہے اور کسی اندھیری کال کوٹھری میں سسکیاں لے رہا ہوگا۔ ہم مادہ پرست لوگ ہیں جہاں احساسات کا تعلق کیمرے کی آنکھ کو دیکھانے کیلئے تو امڈ آتے ہیں لیکن حقیقی دکھ اور تکلیف سے باز رہنے کا ہنر خوب جانتے ہیں۔ دنیا اتنی رنگ برنگی ہوگئی ہے کہ پلک جھپکتے میں منظر بدل جاتا ہے اور وہ سب سامنے آموجود ہوتا ہے جو ہم دیکھنا چاہتے ہیں، منظر بدل لیتے ہیں۔
اب کسی کے لئے بھی ساری دنیا میں یہ کہنا ناممکن ہے کہ دنیا ایک خوبصورت جگہ ہے اور یہاں رہنے کیلئے کسی خوبصورت کونے کا انتخاب کر کے وہاں رہ لیا جائے، انسان نے اپنی تباہی کیلئے ایسا ایسا سامنا تیار کر رکھا ہے کہ جب اسے استعمال کیا گیا تو وہ وہاں بھی پہنچ جائے گا جہاں اس کی ضرورت نہیں ہوگی، یعنی جب تباہی کا عمل شروع ہوگا تو کوئی بھی اس تباہی سے کیسے محفوظ رہ سکے گا۔ دنیا نے ایک نا ایک دن ختم ہونا ہے اور مسلمانوں کے عقیدے کیمطابق اب قیامت کے قریب کی نشانیاں ظاہر ہونا شروع ہوگئی ہیں، اب یقینا قیامت آئی کھڑی ہے۔ فلسطین میں ہونے والا ظلم کسی ایسی ہی منزل کی جانب حتمی پیش قدمی کہا جاسکتا ہے۔ کوئی بولنے سے ڈر رہا ہے اور کوئی ایسے ڈھڑلے سے بول رہا ہے کہ اسے گولی سے مارا جا رہا ہے، ظالم اپنے قبیلے کے پر امن لوگوں کو مارنے سے بھی نہیں چوک رہا۔ پچھلے زمانوں میں یہ کام مخصوص لوگوں کے ذمے ہوا کرتا تھا لیکن آج تو سب، سب کچھ کرنے کیلئے پرتول رہے ہیں۔
پاکستان تو وہ ملک ہے جہاں بجلی کی تخفیف قوت (لوڈشیڈنگ)اس قدر ہوتی ہے کہ ملک کا اکثر حصہ تاریکی میں ڈوبا رہتا ہے۔ اس کے ساتھ ہی ساتھ بہت سارے ایسے امور ہیں جو ہمیں تاریکی...
۔23 مارچ کا یادگار دن
قوموں کی زندگی میں بعض لمحات بڑے فیصلہ کن ہوتے ہیں جو اپنے نتائج اور اثرات کے اعتبار سے خاصے دور رس اور تاریخ کا دھارا موڑنے کی اہلیت رکھتے ہیں، 23 مارچ کا یادگار دن ہماری قوم کیلئے بڑی اہمیت کا حامل ہے اسکی ایک تاریخی حیثیت ہے کہ سنہ 1940ء میں لاہور کے تاریخی شہر میں برصغیر کے تمام مسلمانوں کے نمائندوں نے قائد اعظم کی زیر صدارت ایک تاریخی اجتماع میں حصول پاکستان کی قرار داد منظور کی تھی۔ تا کہ برصغیر کے مسلمانوں کیلئے مسلم قومیت کی بنیاد پر ایک آزاد ملک حاصل کیا جا سکے۔ جس پر نہ غیر ملکی استعمار کے تاریک سائے پڑیں اور نہ ہی ہندو اکثریت اور چیرہ دستیاں مسلمانوں کے ارفع مقاصد کی راہ میں حائل ہونے پائیں۔ مسلمانان برصغیر اپنے لئے ایک الگ وطن اسی لئے چاہتے تھے جہاں قرآن و سنت کی تعلیمات کی روشنی میں وہ ایک مثال اسلامی معاشرہ تشکیل دیں جہاں اسلامی عدل و انصاف کا دور دورہ ہوا اور جو عصر حاضر میں سرمایہ داری نظام اور اشتراکیت کی قوتوں سے پسی ہوئی انسانیت کیلئے مشعل راہ ثابت ہو۔ اس عظیم مقصد کے لئے 23مارچ 1940ء کولاہور میں بادشاہی مسجد کے قریب ایک وسیع و عریض میدان میں لاکھوں مسلمان اکٹھے ہوئے اور بنگال کے وزیر اعلیٰ مولوی فضل حق نے ایک قرار داد پیش کی جس کی تائید تمام مسلمانوں نے دل و جان سے کر دی جس سے ان کی قسمت کا پانسہ پلٹ گیا۔ اس دن لاہور میں مسلمانان ہند نے اپنی منزل کا اعلان کیا تھا اور دو ٹوک الفاظ میں کہا تھا کہ ہم ہندوستان میں مسلمانوں کیلئے آزاد خطوں کی جدوجہد کا اعلان کرتے ہیں۔
23 مارچ کو قرار داد کی منظوری کے بعد قیام پاکستان کی جدوجہد فیصلہ کن مرحلے میں داخل ہو چکی تھی۔ قوم کو ایک واضح نصب العین مل چکا تھا اور خوش قسمتی سے قائد اعظمؒ جیسے مدبر قائد میسر تھے جن کی قیادت سحر انگیز اور ولولہ انگیز ہونے کے علاوہ سیاست میں صداقت اور دیانتداری کی علمبردار تھی۔ دوسری جنگ عظیم کے خاتمے تک مسلمانان ہند مسلم لیگ کے پرچم تلے متحد ہو چکے تھے۔ 1945ء میں وائسرائے ہند لارڈ ویول نے مسلم لیگ اور مطالبہ پاکستان کی مقبولیت اور دوسری جماعتوں کی طاقت کا اندازہ کرنے کیلئے انتخابات کروائے۔ کانگرس کے ایماء پر بننے والے مسلمانوں کے نام نہاد متحدہ محاذ کی مخالفت کے باوجود مسلم لیگ کو تاریخی فتح حاصل ہوئی اور مسلم لیگ مسلمانان ہند کی نمائندہ جماعت بن کر سامنے آئی اور اس طرح حصول پاکستان کی منزل قریب سے قریب تر ہو گئی۔ اکتوبر 1946 ء میں ایک عبوری حکومت قائم کی گئی جس میں مسلم نمائندگان کی قیادت خان لیاقت علی خان نے کی ادھر حکومتی ایوانوں میں قائد اعظم ؒمسلمانوں کے سیاسی حقوق کے تحفظ اور قیام پاکستان کیلئے سیاسی جنگ لڑ رہے تھے تو دوسری طرف ہندو مسلم فسادات نے پورے ملک کو بری طرح اپنی لپیٹ میں لے رکھا تھا۔ ان فسادات میں لاکھوں مسلمان شہید ہوئے۔3 جون کو تقسیم ہند کے...
وہ دانائے سبل ختم الرسل
قارئین کرام یہ ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ ختم نبوت مسلمانوں کا قطعی اجماعی عقیدہ ہے، اس پر بیسیوں آیاتِ قرآنیہ اور سیکڑوں احادیث صحیحہ میں دلائل موجود ہیں۔ قرآن مجید میں وارد لفظِ خاتم النبیین میں کسی قسم کی تاویل اور تخصیص کی گنجائش نہیں ہے۔ اس میں تاویل و تخصیص کرنے والا دراصل قرآن و حدیث کی تکذیب کرتا ہے۔
چودہ سو سال سے زائد کا عرصہ گزر جانے کے باوجود امتِ محمدیہ کا آج بھی اس پر اجماع ہے کہ مدعی نبوت اوراس کے پیروکارخارج از اسلام اور مرتد ہیں۔ تاریخ گواہ ہے جب بھی کسی باغی، طالع آزما یا فتنہ پرداز نے اپنے آپ کونبی کہنے کی جرأت کی، مسلمانوں نے اس کے خلاف بھرپورجہاد کیا۔ ہر مسلمان کا غیر متزلزل عقیدہ اور ایمان یہ ہے کہ حضور سرورِ عالم سیدنا محمدﷺ آخری نبی ہیں۔ حضورﷺ کی تشریف آوری کے بعد نبوت کا سلسلہ ختم ہو گیا۔ حضور اکرمﷺ کے بعد کوئی نیا نبی نہیں آسکتا اور جو شخص اپنے نبی ہونے کا دعویٰ کرتا ہے اور جو بدبخت اس کے اس دعویٰ کو سچا تسلیم کرتا ہے وہ دائرہ اسلام سے خارج اور مرتد ہے اور اسی سزا کا مستحق ہے جو اللہ تبارک تعالیٰ نے مرتدکے لیے مقررکی ہے۔
بحیثیت مسلمان ازروئے قرآن و حدیث ہمارا اس بات پر پختہ یقین ہے کہ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اللہ کے آخری نبی اور رسول ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے اپنی آخری کتاب قرآن مجید ان پر نازل فرماکر دین کی تکمیل کردی اور قرآن کو تا قیامت محفوظ بھی کردیا۔ سلسلہ نبوت پر ختم کی مہر بھی لگادی آپ صلی اللہ علیہ وسلم آخری نبی و رسول ہیں آپ صلی اللّٰہ علیہ وسلم کی امت آخری امت ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد نہ کوئی نبی ہے نہ رسول ہے نہ تھا نہ تا قیامت ہوگا۔ اسی طرح آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی امت آخری امت ہےاور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم آخری نبی ہیں۔ قرآن مجید میں اس بات کی صراحت مختلف آیات میں ملتی ہے۔ جیسا کہ سورہ احزاب کی چالیسویں آیت میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تمہارے مَردوں میں سے کسی کے باپ نہیں ہیں لیکن وہ اللہ کے رسول ہیں اور سب انبیا کے آخر میں (سلسلۂِ نبوت ختم کرنے والے) ہیں اور اللہ ہر چیز کا خوب علم رکھنے والا ہے۔
بہت سی احادیث میں بھی ختم نبوت کی تصدیق موجود ہے۔ حدیث مبارکہ ہے۔ میری اور مجھ سے پہلے انبیاء کی مثال ایسی ہے جیسے کسی شخص نے ایک گھر بنایا، اس کو بہت عمدہ اور آراستہ پیراستہ بنایا مگر ایک کونے میں ایک اینٹ کی جگہ چھوڑدی، پس لوگ جوق درجوق آتے ہیں اور تعجب کرتے ہیں اور یہ کہتے ہیں یہ اینٹ کیوں نہیں لگادی گئی۔ آپ نے فرمایا: وہ اینٹ میں ہوں اور میں انبیاء کرام کا خاتم ہوں۔ اسی مفہوم کی ایک اور حدیث مبارکہ حضرت جابر بن عبداللہ رضى الله تعالى عنه نے بھی روایت کی ہے۔(صحیح البخاری، کتاب المناقب، باب خاتم النّبیین...
الوداع نہیں کہتے
بی بی سی جماعت اسلامی کی خبریں عموما نہیں لگاتا۔ لیکن اس نے یہ خبر بہت کم وقت میں دے دی کہ جماعت اسلامی کے امیر سراج الحق صاحب اپنے امارات عہدے سے مستعفی ہوگئے ہیں۔ہم جانتے ہیں بی بی سی کس کا چینل ہے۔ان کی نیتیں بھی یہ تھیں کہ اس خبر سے جماعت کو کمزور شکست خوردہ سمجھا جائے گا۔یہ خبر بھی سنی کہ حافظ نعیم صاحب نے دھاندلی والی نشست لینے سے انکار کردیا۔جو کہتے تھے کہ سیاستدانوں کا کوئی اخلاق نہیں ہوتا۔ان دیانتدار اور اعلی کردار کے حامل سیاست دانوں کو دیکھیں۔ایک نے ہاتھ آئی سیٹ ٹھکرا دی۔ دوسرے نے پارٹی کی سربراہی چھوڑ کر ثابت کر دیا کہ جماعت اسلامی میں عہدوں کی نہیں بلکہ ویلیوز کی اہمیت ہوتی ہے۔اور بےشک یہ احساسِ ذمہ داری فقط جماعت اسلامی میں پایا جاتا ہے۔
ان دونوں واقعات سے ہوا یہ کہ جماعت اسلامی کی جمہوریت شورائیت اور واضح ہوگئی۔ عوام جماعت اسلامی سے مذید متاثر ہوگئی۔ جی ہاں جماعت اسلامی عوامی مقبولیت حاصل کر چکی ہے۔ہر شعبہ ہائے زندگی کے لوگ اس کی دیانت خدمت کے قائل ہوچکے ہیں۔اس الیکشن کے بعد یہ مغالطہ ختم ہوچکا ہے کہ جماعت کا ووٹ بینک نہیں بنتا جماعت اسلامی کا کم ازکم یہ نتیجہ اس الیکشن میں تھا کہ اسے بلوچستان میں دو سیٹیں کے پی کے میں تین اور سندھ میں پندرہ سے زیادہ ہوتیں اگر زبردستی انتقال ہوئی پارٹی کے نئے جیون کی تیاری نہ ہوتی۔ ووٹ جماعت کو ملا ہے کراچی عوام نے اسے منتخب کیا ہے یہ ہاری نہیں اسے ہروایا ہے۔
یہ استعفی دراصل ہمارے قائد کی اعلی ظرفی ہے۔ انہوں اخلاقی طور سے اچھا کیا۔یہ استعفی ہر اس کارکن پر طمانچہ ہے۔جو سمجھتے ہیں کہ اس میں جماعت کا اس کی قیادت کا کوئی قصور ہے۔ ان سب حالات میں کسی کا کوئی قصور نہیں نہ کارکن کا قصوروار ہے نہ ہی امیر کا قصور ہے۔سمجھنے کی بات ہے کہ جماعت کا مقابلہ وقت کے اصل فرعون سے ہے۔ سیکولر لبرلز ساری طاقتیں مل کر اس کے خلاف ہیں اسلام کے دشمن فرعون نمرود ابو جہل دجالی فتنے آسان ٹاسک کسی بھی دور میں نہیں تھے۔ہمارے دور کے فرعون طاقت میں قدیم فرعون سے کہیں آگے ہیں۔الیکٹرانک میڈیا جماعت کو نہیں دکھاتا۔پرنٹ میڈیا جماعت پسند اسلام پسند تحریر نہیں چھاپتا۔عوام اگر قبولتی ہے اصل نتائج نہیں دیے جاتے۔قیادت کا کیا قصور وہ کیا اپنی جان مار دیں۔اس الیکشن کو آپ صلح حدیبیہ سے جوڑ لیں یقین کریں جماعت کی مقبولیت میں اضافہ ہی ہوا ہے۔جس عوام نے جماعت کو ووٹ دیا وہ اس کی شکست پر حیران ہے۔ جان چکی ہے کہ دینی جماعتوں میں خطرہ صرف جماعت اسلامی ہے۔عوام نے کبھی کسی موروثی مذہبی لیڈر یا پیر کو یوں اپنے عہدوں سے مستعفی ہوتے نہیں دیکھا۔جماعت اسلامی عوام کے لیے حل ہے تو باطل نظام کے لیے روک ہی روک ہے۔
یہ جماعت اسلامی کے لیڈر کی اعلی قیادت ہے۔جس میں حافظ نعیم الرحمن، مشتاق احمد صاحب، اکبر چترالی اور مولانا ہدایت الرحمن جیسے ہیرے پیدا کیے اور چمکنے کے خوب مواقع دیے۔سراج صاحب آپ...
طنز و مزاح
کہاں کی بات کہاں نکل گئی
قارئین کا صاحبِ مضمون سے متفق ہونا لازم ہے کیونکہ یہ تحریر اسی مقصد کے لیے لکھی گئی ہے۔ کچھ لوگوں کو نصحیت کرنے کا جان لیوا مرض لاحق ہوتا ہے۔ جہاں کچھ غلط سلط ہوتا دیکھتے ہیں زبان میں کھجلی اور پیٹ میں مروڑ اُٹھنے لگتا ہے ایسا ہم نہیں کہتے ان لوگوں کے پند و نصائح وارشادات سننے والے متاثرین کہتے ہیں۔
اللہ معاف کرے اکثر نوجوانوں کو نصحیت کرنے کے جرم کی پاداش میں ہماری ان گنہگار آنکھوں نے ان بزرگوں کو کئی مرتبہ منہ کی کھاتے دیکھا ہے۔ مگر نہ وہ اپنی روش سے باز آتے ہیں اور نہ ہی کتے کی ٹیڑھی دم سیدھی ہوتی ہے۔ اب قریشی صاحب کی بیوہ کو ہی لے لیجیے عمر دراز کی ستر بہاریں دیکھ چکی ہیں، بیوگی کے پچاس سال گزارنے والی اپنی زندگی سے سخت بیزار ہے۔ شادی کے کچھ عرصے بعد ہی موصوفہ نے اپنے پر پرزے نکالنا شروع کر دئیے تھے۔
دن رات صبح شام وہی گھسا پٹا راگ الاپتی رہتی تھیں تمہارے ماں باپ کی خدمت میں کیوں کروں؟ تمہارے سارے کام میں کیوں کروں؟ میں غلام نہیں ہوں۔ جو تمہاری ہر بات مانوں وغیرہ وغیرہ۔ قریشی صاحب بھلے مانس آدمی تھے شرافت اور منکسر المزاجی ان کی گھٹی میں پڑی ہوئی تھی۔ کان دبائے، نظریں جھکائے بیوی صاحبہ کے فرمودات سنتے اور سر دھنتے رہتے۔ ان کا یہ معصومانہ انداز بیوی صاحبہ کے تن بدن میں آگ لگا دیتا پھر جو گھمسان کی جنگ چھڑتی جس میں بیوی صاحبہ فتح کے جھنڈے گاڑنے کے بعد قریشی صاحب سے اپنے تلوے چٹوا کر انہیں مورد الزام ٹھہراتے ہوئے فرد جرم عائد کر کے سزا سنا دیتیں۔ قید بامشقت کے تیسرے سال ہی قریشی صاحب کے کُل پرزے جواب دے گئے۔
گھر کی مسند صدارت و وزارت پر بیوی صاحبہ براجمان تھیں بیچارے قریشی صاحب کی حیثیت کا قارئین خود اندازہ لگا سکتے ہیں۔ گنے چنے چند سالوں کی رفاقت کے بعد ایک شام قریشی صاحب داعئ اجل کو لبیک کہہ گئے۔ لواحقین میں ایک بیوہ اور پانچ بیٹیاں چھوڑیں۔ ماں کے طور اطوار، رنگ ڈھنگ، چال ڈھال اور انداز کا مہلک زہر اولاد کی نسوں میں اتر چکا تھا۔ اور خربوزے کو دیکھ کر خربوزیاں رنگ پکڑتی چلی گئیں۔ موصوفہ کی کل کائنات بس یہ پانچ بیٹیاں ہیں۔ پانچوں کنورای جو شادی کے نام پر ایسے اچھلتی ہیں جیسے بچھو نے ڈنک مارا ہو۔ قبر میں پیر لٹکائی قریشی صاحب کی بیوہ صبح شام خود کو کوستے رہتی ہیں کہ اس جیسے چاہو جیو کے سلوگن نے ان کی دنیا و آخرت ملیامیٹ کر کے رکھ دی۔ مگر اب پچھتائے کیا ہوت جب چڑیاں چگ گئیں کھیت۔ ہم اگر اپنی روزمرہ زندگی پر نظر دوڑائیں تو کتنی چیزیں ہیں جو کہ ہم غلط سمجھتے ہیں لیکن پھر بھی کرتے ہیں نہ جاننا اتنا سنگین نہیں ہوتا جتنا کہ جان کر حقیقت سے نگاہیں چرانا ہوتا ہے۔ چچ چچ ہم آنکھوں دیکھی مکھی نگلنے کے عادی بنا دیے گئے ہیں۔
2021ء میں گھریلو تشدد کا بل اسمبلی سے منظور کروا کر ہماری نوجوان نسل کو یہ پیغامِ تقویت...
والدین اور بیٹیاں
آج اسکول کی بچیوں کو اظہار خیال کے لیے موضوع دیا تھا کہ " آپ کے ساتھ والدین کیا سلوک ہے" جی بچیوں کے ساتھ والدین کا سلوک
چونکہ اسمبلی کے لیے موضوع نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)کی وہ حدیث تھی جس میں آپ صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلم نے بیٹیوں سے نفرت کرنے اور انہیں حقیر جاننے سے منع کیا ہے ،انہیں اللہ تعالیٰ کی رحمت قرار دیا ہے اور ان کی پرورش کرنے والے کو جنت میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ ہونے کی بشارت سنائی ہے۔ اس لیے بچیوں کے ساتھ اس حدیث پر تفصیل سے بات ہوئی اور انہیں کل کی اسمبلی میں اس پر بات کرنے کا کہا گیا اور تاکید کی گئی کہ سب طالبات کل اسمبلی میں بتائیں گی کہ انکے والدین انکے ساتھ کیا سلوک کرتے ہیں۔
اب آج وہ اسمبلی منعقد ہوئی اور بچیوں نے اظہار خیال کرنا شروع کیا۔ کسی نے کہا والدین ہمیں پالنے کے لیے ساری قربانیاں دیتے ہیں، کسی نے کہا کہ والدین ہماری سب خواہشات پوری کرتے ہیں، کسی نے کہا وہ ہمیں تہزیب سکھاتے ہیں، کسی نے کہا وہ ہماری اچھی تربیت کرتے ہیں، کسی نے کہا کہ وہ ہمیں کھلاتے پلاتے ہیں ، ایک رائے یہ آئی کہ وہ ہمیں کپڑے خرید کر دیتے ہیں، ایک نے کہا کہ وہ مجھے کوئی کام نہیں کرنے دیتے ایک اور نے کہا کہ صبح آنکھ کھلتی ہے تو ناشتہ تیار ہوتا ہے۔ ایک بات یہ آئی کہ انکا مرکز و محور ہماری پڑھائی ہے ایک اور کہا کہ وہ ہمیں کامیاب دیکھنا چاہتے ہیں۔
اور آخر میں ایک بات ایسی سامنے آئی کہ ہم سب کھلکھلا کے ہنس پڑے حالانکہ اپنے والدین کی ان کوششوں اور محبتوں کو سن کہ ماحول سنجیدہ لگ رہا تھا۔
اس نے کہا " میم ۔ میرے والدین بھی میرے ساتھ بہت اچھا سلوک کرتے ہیں، میری ہر ضرورت پوری کرتے ہیں مگر جب گھر میں چکن بنتا ہے تو leg pieces بھائی کو ملتا ہے۔ " اس معصوم بچی کے اس معصوم تبصرے پر ہم مسکرائے بغیر نہ رہ سکے ۔
تو تمام والدین سے گزارش ہے کہ ہمیں پتہ ہے آپ نے اپنی بیٹیوں کو شہزادیوں کے جیسا پالا ہے اور گڑیوں کے جیسا لاڈلا رکھا ہے مگر جب چکن خریدیں تو leg pieces زیادہ ڈلوا لیا کریں۔
زندگی بدل گئی !
شوہر اچھا ہو بیوی بچوں کا خیال رکھتا ہو تو زندگی پرسکون ہوجاتی ہے مگر یہاں تو زبردستی نوکری پر بھیجو پھر خود بازار جاٶ ضرورت کا سارا سامان خود اٹھاٶ پھر گھر کی صفائی، کھانا بنانا، بچوں کو اسکول چھوڑنا اور لانا سارا دن اسی میں گزر جاتا ہے یہاں تک کے امّی سے بات تک کرنے کا ٹائم نہیں ملتا مہینوں گزر جاتے ہیں امّی سے ملاقات ہوئے۔
فائزہ نے دکھوں کا قصہ سنا کر سکون کا سانس لیا تو میں نے بھی تسلی دی اللہ آسانی کرے تمھارے لیئے۔آج پھر کئی مہینوں بعد فائزہ سے ملاقات ہوئی تو پتہ چلا وہ گھر خالی کر کے دوسرے محلے میں چلی گئی ہے کرائے داروں کے لیۓ یہی پریشانی ہے اللہ سب کو اپنا گھر نصیب کرے۔ فائزہ بڑی خوش اورپہلے سے بہت اچھی لگ رہی تھی خوش ہوکر بتانے لگی۔ میرے شوہر تو جی ایسے فرمابردار ہوئے ہیں کے بس پوچھو مت۔ ویسے میں نے پوچھا نہیں تھا پر فائزہ بتاۓ بغیر کہاں رہتی۔
خوشی خوشی بتانے لگی صبح وقت سے پہلے نوکری پر چلے جاتے ہیں ساتھ بچوں کو بھی اسکول چھوڑ دیتے ہیں گھر کی ساری ذمہ داری خود لے لی ہے میں تو بس اب گھر میں رہتی ہوں اور اتنے محنتی ہوگۓ ہیں کے رات رات بھر گھر نہیں آتے یہاں تک کے کئی کئی دن کام کے سلسلے میں شہر سے باہر رہتے ہیں اور میں اپنی امّی کے گھر آرام کرنے چلی جاتی ہوں رزق میں ایسی برکت ہے کہ کبھی کبھی ہر چیز ڈبل آجاتی ہے پچھلے ہفتے دو سینڈل بلکل ایک جیسی لے آۓ بس ایک نمبر چھوٹی تھی پھر وہ تبدیل کرنی پڑی۔ کبھی راشن میں بھی چیزیں ڈبل ہوجاتی ہیں بس اللہ کا کرم ہے۔ میں تو کونے والی نورن دادی کو دعائيں دیتی ہوں۔ یہ سب ان ہی کی وجہ سے ہوا ہے۔ انھوں نے مسجد کے مولوی صاحب کا پتہ دیا تھا۔ مولوی صاحب نے ایک وظیفہ بتایا تھا پڑھنے کو وہ بھی تہجد میں بس پھر کیا تھا میری تو قسمت ہی پلٹ گئی۔ زندگی آسان ہوگئی ہے۔
مجھے بڑی حیرانی ہوئی کہ ایک وظیفے سے قسمت بدل گئی بھئی یہ کونسا وظیفہ ہے چلو چھوڑو۔مگر فائزہ کہا مانتی بتائے بغیر۔ عربی کے چند الفاظ بڑے ادب سے سنائے اور چہرے پر ہاتھ پھیر کر تین بار آمین آمین آمین کہا۔ بس یہ وظیفہ پڑھ لو شوہر آپ کے قدموں میں اور ہاں کسی اور کو بھی بتا دیں اگر کوئی پریشان ہو تو کسی کا بھلا ہو جائے اچھی بات ہے۔ میرا نمبر بھی لے لیا اور پھر فائزہ مسکراتی ہوئی گھر روانہ ہو گئی۔
ہفتے بعد ہی ایک انجان نمبر سے فون آیا۔ ریسو کرنے پر فائزہ نے سلام دعا کی اور زور زور سے روتے ہوئے کہنے لگی میں تو لوٹ گئی بر باد ہوگئی بس بہن میرا شوہر تو ہاتھ سے نکل گیا پتہ نہیں کیا کمی تھی مجھ میں جو دوسری شادی کر لی اللہ ہی سمجھے گا ایسی عورتوں کو جو شادی شدہ بچوں والے مردوں سے شادی کر لیتی ہیں۔ میں...
بن بُلائے مہمان ! بَلائے جان
بن بلائے مہمان وہ بھی چپک جانے والے ایک دو دن سے زیادہ برداشت نہیں ہوتے اور اگر زیادہ ہی رک جائیں تو سارے گھر کو ہی تکلیف اور نقصان پہنچاتے ہیں اور سارے ہی لوگ ان سے کنّی کترا کر گزرنے کی کوشش کرتے ہیں کہ یہ ہمارے ساتھ ہی نہ چپک جائیں۔
ایسا ہی معاملہ ہم لوگوں کے ساتھ ہوا ہے پہلے تو اس خطرناک اماں نے اپنی اولاد کو بھیج دیا وہ ملک ملک گھوما اور یہیں ڈیرا ڈال لیا۔نہ جانے کیا کیا تباہ و برباد کیا اور یہ حضرت انسان بے بس اور بے کس منہ چھپائے گھومتا رہا حتی کہ اپنے بیماروں مجبور پیاروں سے ملنے اور ان کی تیمارداری سے بھی محروم رہا کچھ وقت گزرنے کے بعد جب اس نے دیکھا کہ ماحول ٹھنڈا ہوگیا ہے لوگ سکون میں ہیں تقریبات عروج پر ہیں اسکول، مساجد اور پارک بھرے ہوئے ہیں تو اس نے ناک بھوں چڑھایا اور سوچا ! یہ میری اولاد تو ٹھنڈی ہوتی جا رہی ہے برسوں محنت کی ہے میں نے اس پر اسے اتنی جلدی ہار نہیں ماننا چاہیے۔ اب مجھے ہی کچھ کرنا ہوگا تو لیجئے جناب پورے جوش اور بھرپور شیطانیت کے ساتھ کرونا کی امی جان اُُمِ کرونا (امیکرون) تباہ حال لوگوں کو اور تباہ کرنے دنیا میں انسانوں پر آدھمکی۔
کتنے دور اندیش تھے وہ لوگ جنہوں نے چاند پر پلاٹ بک کروائے تھے گوگل سرچ کرکے دیکھتے ہیں، تب پتہ چلے گا کہ وہ لوگ کرونا سے بچنے کے لیے چاند پر پہنچ گئے یا اس سے بھی کہیں آگے عالم برزخ پہنچ گئے۔
ہمارے گھر میں تین افراد پر اٌمِ کرونا فدا ہوگئی ہیں ہماری امی جان، بھیا اور آپی پر۔ان تینوں نے قرنطینہ کے نام پر ایک ایک کمرے پر قبضہ جما لیا ہے ابّا جان تو امی کے کمرے کے دروازے کے قدموں میں ہی پلنگ ڈالے پڑے ہیں اور ہم نے لاؤنج میں صوفے پر ڈیرہ جما لیا ہے البتہ ماسی خوش نظر ارہی ہے کہ تینوں کمروں کی صفائی سے جان بخشی ہوئی ہے۔
ویڈیو کال اور فون کال پر ہی سب رشتے داروں نے مزاج پرسی اور تیمارداری کرکے اپنا فرض نبھایا کیونکہ ہم سب مجبور ہیں ایک ان دیکھے وائرس سے۔سلائی والی آنٹی نے جب نئے سلے ہوئے سوٹ ہمیں بھجوائے تو اس کے ساتھ سوٹ کے کپڑے کے ماسک بھی بنے ہوئے رکھے تھے۔ سلائی والی آنٹی کو فون کرنے پر پتہ چلا کہ یہی فیشن چل رہا ہے، انہوں نے ایک آفر بھی دی کے ہم فینسی ماسک بھی بناتے ہیں ستارے موتیوں اور کڑھائی والے ان کا بھی پیکج ہے جو پیکج آپ لینا پسند کریں۔
نہ جانے کتنے ابہام ذہن میں گردش کر رہے ہیں۔ابھی تو ہم ڈر کے مارے اس قابل بھی نہیں ہوئے کی واٹس ایپ یا فیس بک پر اپنا اسٹیٹس لگائیں۔
I am vaccinated
کیوں کہ ابھی تو ہم اکّڑ بکّڑ ہی کر رہے تھے کہ چائنا کی ویکسین لگوائیں، کینیڈا کی یا پاکستانی کے اچانک، اْمِ کرونا سے پہلے بوسٹر بھی آٹپکا۔سوچ رہے ہیں ڈائریکٹ بوسٹر ہی لگوا لیں۔
یہ بلائے ناگہانی ہے بس...
ٹک ٹاک ایک نشہ
ٹک ٹاک مختصر ویڈیو کی ایسی ایپ ہے جس میں وہی ویڈیو چلتی ہے جو ’’مختصر‘‘ ہو۔بس ایک ویڈیو وائرل ہونے کی دیر ہے پھر آپ ایک ہی رات میں ہیرو بن گئے۔گویاٹک ٹاک سوشل میڈیا کا ایک ایسا پلیٹ فارم ہے جس میں وہی ویڈیو وائرل ہوتی ہے جس میں سب کچھ’’ پلیٹ‘‘میں رکھ کر پیش کیا جائے۔بلکہ نوجوان نسل تو وائرل ہونے کے لئے ایسی اشیاء بھی ’’پیش‘‘ کر دیتی ہیں جن کا پیش نہیں ’’زیر‘‘میں ہونا ہی معیاری،مناسب اور اخلاقی ہوتا ہے۔مگرچائنہ والوں کو کون سمجھائے کہ جس لباس کو ہم پاکستانی اعلیٰ اخلاقی اقدار سے گرا ہوا سمجھتے ہیں ان کے ہاں وہ لباس اعلی اقدار کا حامل سمجھا جاتا ہے۔بلکہ یوں کہنا مناسب ہوگا کہ لباس کا صرف سرا ہی نظر آتا ہو تو اسے اخلاقی لباس سمجھا جاتا ہے۔چائنہ اور یورپ میں تو اسی کی زیبائش مناسب ہوتی ہے جس کی ’’نمائش ‘‘زیادہ ہو۔ ان کے سامنے تو بھاری بھر کم فراک،غرارہ و شرارہ زیب تن کر کے جائیں تو وہ حیران ششدر رہ جاتے ہیں کہ ان کا ناتواں جسم ایسا لباس ’’کیری‘‘ کرتاکیسے ہے۔شائد اسی وجہ سی چینی اور یورپی خواتین وہی لباس زیب تن کرتی ہیں جو ہمیں زیب نہ دیتا ہو۔
میں نے اپنے انتہائی معصوم و سادہ دوست شاہ جی سے ایک معصومانہ سوال کیا کہ مرشد ٹک ٹاک پر کیسے وائرل ہوا جاتا ہے۔شاہ جی نے شانِ بے نیازی (بے نیازی کو کسی نیازی سے نہ ملایا جائے )اور لاپروائی سے جواب دیا کہ فی زمانہ ٹک ٹاک ہی نہیں ہر جگہ وائرل ہونے کا ایک فارمولہ ہے۔میں نے متجسسانہ انداز میں پوچھا کہ مرشد وہ کیا۔فرمانے لگے۔’’جو دکھتی ہے وہ بکتی ہے‘‘یعنی جو دکھتا ہے وہی بکتا ہے۔شاہ جی کے جواب پر سوال در سوال ذہن میں کود آیا کہ کیا اس فارمولہ کا اطلاق صنف نازک(جسے میں ہمیشہ صنف آہن کہتا ہوں)پر ہی ہوتا ہے یا صنف معکوس بھی اس زد میں آتے ہیں۔کہنے لگے فارمولہ تو وہی ہے بس الفاظ کے چنائو کو بدلنا ہوگا،یعنی۔۔۔۔۔یعنی مرد حضرات کے لئے الفاظ بدل کر ایسے ہو جائیں گے کہ ’’جو بَکتا ہے وہ بِکتا ہے‘‘
چین نے جب ٹک ٹاک ایپ متعارف کروائی تو اس کا مقصد سیلیکون شہر میں بیٹھ کر ایسی مختصر مدتی ،مختصر ویڈیو،مختصر لباس میں بنا کر پیش کرنا تھاکہ جو اپلوڈ ہوتے ہی وائرل ہو جائے،اور ایسا ہی ہوتا تھا۔اس لئے ہماری نوجوان نسل بھی چین کے نقش پا پر اپنے قدم جمائے ویسی ہی مختصر ویڈیو بناتے ہیں جو وائرل ہو جائے۔مجھے حیرت یہ نہیں کہ آج کی نسل سستی شہرت کے لئے ایسا کیوں کرتی ہے۔پریشانی یہ ہے کہ انہیں شہرت مل بھی جاتی ہے۔اب تو ٹک ٹاک بھی ایک حمام سا ہی دکھائی دیتا ہے ،وہ جس کے بارے میں اکثر سیاستدان بیان بازی کیا کرتے ہیں کہ اس حمام میں سبھی ننگے ہیں۔اب تو ٹک ٹاک دیکھ کر بھی لگتا ہے کہ اس حمام میں بھی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ویڈیو وائرل ہونے کے بارے میں ایک دوست کی بات یاد آگئی ،اس نے ایک دن مجھ سے پوچھا کہ یار ابھی تک...
تزکیہ اور تزکیر کراتی عمدہ کاوش!!