کراچی۔ پاؤں میں دبی چیونٹی

          بر صغیر ہندوستان اورپاکستان، جس میں بنگلہ دیش،نیپال اور بھوٹان بھی شامل ہیں، ایک ایسا خطہ زمین ہے جس کی دوارب سے زیادہ آبادی ہے۔ اگر تاریخ پر نظر ڈالیں تو اس پر بیشمار اقوام نے حکومتیں بھی کیں اور تبلیغ ، سیاحت اور تجارت کے بہانے ڈیرے بھی ڈالے ۔ بیشمار سلاطین نے حملے کئے چاہے وہ مسلمان بادشاہ و سلاطین ہوں یا ولنگدیزی و چنگیزی۔ اس لئے یہ بات کہی جاسکتی ہے کہ اعداد و شمارکے حساب سے یہاں کی مقامی آبادی سے کہیں زیادہ ، بلحاظ نسل دوسرے خطوں سے آنے والی آبادی زیادہ ہوگی۔

          اس پورے خطہ میں اب جس جگہ پاکستان ہے ، یہ خطہ بہت ساری جنگجو اقوام کا مر کز رہا۔ یہی وجہ ہے کہ اس خطہ میں شکل و صورت کے لحاظ سے ہر قسم کی رنگت اور آنکھوں والے پائے جاتے ہیں۔ اسی طرح بااعتبار مزاج ، رسم و رواج، بود و باش اور رہن سہن کے طور طریق اور اوڑھنے بچھا نے کے مال و اسباب وانداز بھی ایک دوسرے سے بہت مختلف ہیں۔

          سارے بر صغیر کا احاطہ فی الحال ممکن نہیں ، اس وقت گفتگو کو صرف پاکستان تک محدود رکھتے ہوئے اوراپنی بات کو آگے بڑھانے کے لئے کچھ وضاحتیں پیش کرنا چاہونگا۔

          پاکستان میں ایک کثیر آبادی عربوں کی نظر آئے گی، جیسے سید، ہاشمی، قریشی، عثمانی، انصاری، فاروقی اورشیخ وغیرہ۔ اس کے علاوہ بیگ، مغل، جنگیزی بھی بڑی تعداد میں ملیں گے۔ یہ عرب ہوں یا ترک یا چنگیزی، ان سب میں عرب کسی نہ کسی شکل میں موجود ہیں جو اپنی مادری زبان (عربی) بھول کر پاکستان میں مروج زبانوں میں سے کوئی ایک زبان بولتے ہیں۔ یہ ایساہی ہے جیسے بیشمار پٹھان جو ہندوستان میں آباد ہیں وہ پٹھان ہونے کے باوجود پشتو نہیں جانتے یاپھر وہ پاکستانی جو عرصہ دراز سے امریکہ و یورپ میں رہائش پزیر ہیں ان کی اولادیں پاکستان کی قومی یا علاقائی زبانوں کو بھول چکے ہیں۔

           مغل اور بیگ ترکی النسل ہونے کا دعویٰ کرتے ہیں جبکہ چنگیزی بلا واسطہ اپنا تعلق چنگیزیوں سے جوڑتے ہیں جو ایرانی زرطشت (آتش پرست) ہوتے تھے مگر بعد میں من حیث القوم مسلمان ہوگئے تھے۔

          تقسیمِ ہند کے بعد پاکستان کی طرف ہجرت کرنے والوں کی ایک بہت بڑی تعداد ہے، جس میں شیخ (نومسلم)، راجپوت، آرائیں، رائے، وائیں، قائم خانی، گجراتی (انڈین)، مالاباری، میمن کچھی اور کاٹھیاواڑی جیسے خاندان شامل ہیں جو پاکستان کے طول و عرض میں آکر آباد ہوئے۔

ہندوستان سے ہجرت کرکے آنے والوں کی ایک بڑی اکثریت نے بعد میں کراچی کا رخ کرلیا یوں کراچی کی آبادی جو ہزاروں میں ہوا کرتی تھی وہ لاکھوں پر مشتمل ہو گئی۔

          یہاں کی مقامی آبادی بلحاظ پیشہ ماہی گیروں پر مشتمل تھی اور باقی ماندہ ملیرندی کے ساتھ ساتھ زراعت اور باغبانی سے وابستہ تھی سو وہ آج بھی اسی طرح اپنے آبائی پیشے سے وابستہ ہے۔ یہ ساری آبادی بلوچوں کی تھی جو یہاں ”مکرانی“ کہلاتے تھے اور آج بھی عرفِ عام میں وہ مکرانی کہلاتے ہیں۔ اس وقت کراچی شہر اتنا مختصر تھا کہ کچھ فاصلے پر ملیر بھی ”ملیر شہر“ کہلاتا تھا (آج بھی پرانے لوگ ملیر کالونی کے ریلوے اسٹیشن کو ”ملیر سٹی“ کے نام سے جانتے ہونگے)۔

          اس شہر کو ہندوستان سے آنے والوں نے اپنی آماج گاہ بنایا، ملیں اور کارخانے تعمیر کئے، بڑے بڑے اسکول اور کالجز کی بنیاد ڈالی، روزگار کے اسباب پیدا کئے اور اپنے محسنوں (اس خطہ کے باسیوں) پر بوجھ بننے کی بجائے اپنے لئے روز گار کا ذریعہ بنا یا اور یہاں پہلے سے آباد لوگوں میں نیا وسیلہ روزگار متعارف کرایا۔ اس قدر لٹ پٹ کر آنے کے باوجود گلی اور سڑکوں، بازاروں اور مساجد کا کوئی کونا شاید ہی اس بات کی گواہی دے کہ ہاتھ پھیلاکر کھڑے ہونے والوں میں ان میں سے بھی کوئی شامل ہو۔

          کراچی دارالحکومت تھا، تخت و تاج اٹھاکر اسلام آباد لے گئے، ہزاروں گھرانوں کو جو حکومتی اداروں سے وابستہ تھے یا تو ملا زمتوں سے ہاتھ دھونا پڑے یا ایک بار پھر ہجرت کا سامنا کرنا پڑا۔ مگر کیا کوئی صدائے احتجاج بلند ہوئی؟۔ وہ تو پہلے ہی ناتواں تھے لیکن جو سندھ کے باسی تھے وہ سندھ سے دارالخلافہ کی منتقلی پر کیوں خاموش رہے؟۔ ممکن ہے کہ کراچی کو سندھ کا حصہ تصور ہی نہ کرتے ہوں اس لئے کہ وہ اس خطہ میں آباد ہی کب تھے یہاں تو بلوچوں کی آبادی تھی۔ کراچی کا اپنا ایک خاص تشخص رہا ہے یہی وجہ ہے کہ اب بھی اگر کوئی پاکستان کے دیگر صوبوں سے کراچی آنا چاہے تو کبھی یہ نہیں کہے گا کہ وہ سندھ جا رہا ہے۔

          پھر ایک قیامت اور ٹوٹی، ذوالفقارعلی بھٹو کی حکومت بنی، راتوں رات ہر کارخانہ، اسکول کالج اورملیں قومیالی گئیں۔ زندگی بھر کی جمع پونجیاں بحق سرکار ضبط کر لی گئیں، لیکن ملک کی ترقی و خوشحالی کی توقع پر اہل کراچی خاموش رہے۔ اسی دور میں ”کوٹا سسٹم“ بھی بنادیا گیا، گویا چار وں جانب سے جکڑبندیاں شروع ہو گئیں مگر صابرین نے صبر کیا۔ صابرین نے تو صبر کیا لیکن ”محسنین“ نے بھی کوئی آواز نہیں اٹھائی۔

          کراچی کی دہشت کو بہانہ بناکر ایوبی دور سے تاحال آپریشنوں کا ایک نہ ختم ہونے والا سلسلہ چلا آرہا ہے جس کی زد میں نوے فیصد سے زیادہ وہی آبادی آئی ہے جن کا تعلق پاکستان بنانے والوں میں تھا جو لاکھوں کی تعداد میں مارے گئے۔ حالیہ آپریشن میں تو کمال ہی ہو گیا۔ وہ آبادی جو ایوبی دور سے لیکر تاحال ہر قسم کے الزامات کا شکار رہی اس کے خلاف کسی بھی عمل کی صورت میں ایک کنکر تک اچھالنے کا رد عمل سامنے نہیں آیا لیکن وہ آبادی جس کو یہ دعویٰ ہے کہ وہی کراچی کے اصل باشندے ہیں (لیاری گینگ وار والے) ان کی جانب جب جب بھی فورسز نے رخ کیا ان کو شدید مزاحمت کا سامنا رہااور درجنوں جوان شہید کئے گئے۔ ایسا ردعمل آج بھی اس وقت سامنے آتا ہے جب ان کے خلاف کسی کارروائی کو روبہ عمل لایا جاتا ہے لیکن ان کی جانب سے ہمارے قانون نافذ کرنے والے اداروں کو اب بھی کوئی شکایت نہیں۔

          غور طلب بات یہ ہے کراچی کی ایک بڑی سیاسی جماعت کے مرکزی دفتر کے ساتھ بیسیوں اور دفاتر بھی سیل کئے گئے لیکن ان کے سیل کئے جانے کا کوئی قانونی جواز نہیں بتایا گیا۔ سیاسی پارٹی کو نہ تو کالعدم قرار دیا گیا اور نہ ہی عدالت نے ایسا کرنے کو کہا۔ نہ تو صوبائی حکمت نے کوئی حکم جاری کیا اور نہ ہی وفاق کی جانب سے ایسا کرنے کو کہا گیا تو پھر ایسا کس نے کیا اور کن اختیارات کا سہارا لیا گیا؟۔ یہ ایک بہت اہم نقطہ ہے جو کسی بھی سیاسی جماعت کی جانب سے نہیں اٹھایاجانا ایک بہت بڑا سوالیہ نشان ہے۔

          کہتے ہیں کہ چیونٹی بھی پیر میں دبا دی جائے تو وہ کاٹ لیتی ہے، سو آج کل چیونٹی بہت سختی کے ساتھ پاوں میں دبی ہوئی ہے۔ مسلنے سے قبل اس بات پر ضرور غور کرلینا چاہیے بعض اوقات کچھ ایکشن سانپ کے منھ میں چھپکلی کی طرح بھی بن جاتے ہیں جس کو نہ تو اگلتے بن پڑتی ہے نہ نگلتے، لہٰذا کوڑھی اور اندھے پن سے بچنے کا سوچ لینا زیادہ بہتر ثابت ہوگا۔

حصہ
mm
حبیب الرحمن ایک کہنہ مشق قلم کار ہیں وہ بتول، اردو ڈائجسٹ، سرگزشت، سنڈے میگزین(جسارت)، جسارت اخبار میں "صریر خامہ" ٹائیٹل اور کچھ عرحہ پہلے تک "اخبار نو" میں "عکس نو" کے زیر عنوان کالم لکھتے رہے ہیں۔انہوں نے جامعہ کراچی سے سیاسیات میں ماسٹرز کیا ہے۔معالعہ اور شاعری کا شوق رکھتے ہیں۔

جواب چھوڑ دیں