ریلوے پھاٹک بند تھا۔ مسافر ٹرین کے گزرنے کا وقت ہورہا تھا۔ سڑک کے دونوں اطراف میں ٹریفک کا ہجوم جمع ہورہا تھا۔ اس ہجوم میں تنویر بھی شامل تھا۔ وہ اپنی موٹر بائیک پر سوار تھا۔ کل شام وہ اپنے والدین سے ملنے گاؤں پہنچا تھااور آج وہ اپنے کام پر واپس لوٹ رہا تھا۔ چند عجلت پسند لوگ پھاٹک کے اطراف میں سے نکلنے کی کوشش کررہے تھے۔ اس خطرے سے غافل کہ ان کی ذراسی بے احتیاطی جان لیوا بھی ثابت ہوسکتی تھی۔ تنویر دوسرے لوگوں کے ہمراہ انتظار کی کیفیت میں اپنے گرد و پیش کے مناظر دیکھ رہا تھا کہ ایک آواز اس کے کانوں سے ٹکرائی۔ ’’بھائی صاحب۔۔۔ کیا آپ میری مدد کریں گے۔۔۔‘‘ تنویر نے چونک کر اس کی طرف دیکھا۔ دیکھنے میں وہ ایک سلجھا ہوا نوجوان نظر آتا تھا۔
’’میرا نام رفیق ہے۔ میں ایک مسافر ہوں۔ لیکن یہاں کوئی مسافر گاڑی موجود نہیں ہے۔ آپ اگلے اسٹاپ تک مجھے اپنے ساتھ لے لیجیے۔ آپ کی عنایت ہوگی‘‘ اس سے پہلے کہ تنویر اس سے کوئی سوال پوچھے اس نے خود ہی تمام سوالات کے جوابات دے دیے تھے۔ تنویر جانتا تھا کہ اگلا اسٹاپ تقریباً دس کلومیٹر دور ہے۔ اس نوجوان کا انداز ایسا تھا کہ تنویر اسے انکار نہ کرپایا۔ بس آنکھ کے اشارے سے تنویر نے اسے اپنے پیچھے بیٹھنے کی اجازت دے دی تھی۔ بیٹھتے ہوئے رفیق اک خاص انداز میں مسکرایا تھا کہ جیسے بات بن گئی ہو۔ پھر ٹرین شور مچاتے ہوئے آئی اور چھک۔۔۔ چھک کرتے سامنے سے گزرگئی۔ اب پھاٹک کھل چکا تھا۔ ٹریفک پھر سے رواں دواں ہوچکی تھی۔ تنویر نے بھی اپنی موٹر بائیک آگے بڑھادی تھی۔ ابھی تین کلومیٹر کا سفر طے ہوا تھا کہ تنویر کو اپنی کمر میں کچھ چبھنے کا احساس ہوا۔ تنویر فوراً سمجھ گیا تھا کہ یہ چبھن کس چیز کی ہے لیکن تنویر گھبرایا نہیں۔ اس وقت موٹر بائیک اسی کلومیٹر فی گھنٹہ کی ر فتار سے سفر کررہی تھی۔ ارد گرد کا علاقہ اجاڑ و سنسان تھا۔ پھر رفیق نے سانپ جیسی پھنکار کی آواز میں تنویر کے کان میں سرگوشی کی۔
’’موٹربائیک روکو۔۔۔ ورنہ گولی ماردوں گا ۔۔۔‘‘ اس نے ریوالور کی نالی تنویر کی کمر سے لگا رکھی تھی۔ رفیق ایک عادی چور تھا لیکن اس کا طریقہ کار عام چوروں سے بہت مختلف تھا۔ وہ صرف اور صرف موٹرسائیکلیں چراتا تھا اور پھر چور بازار میں ان کا ایک ایک پرزہ مہنگے داموں بیچ دیتا تھا۔ چور بازار کے چند دکان دار اس کے واقف تھے۔ موٹرسائیکلیں چھیننے کی ان وارداتوں میں اس نے جانے کتنے لوگوں کو زخمی کیا تھا۔ موٹرسائیکل کا مالک اس کا پیچھا نہ کرے اس لیے وہ مالک کی ٹانگ میں ایک گولی کا تحفہ ضرور دیتا تھا۔ اور آج تنویر اس کا بہت آسان شکار تھا۔ ایسا رفیق سوچ رہا تھا۔ پھر رفیق حیران رہ گیا۔ اس کی وجہ دو باتیں تھیں۔ ایک تو تنویر نے موٹربائیک روکی نہیں تھی اور دوسرے وہ مسکرا رہا تھا۔
’’میں نے کہا فوراً بائیک روکو ورنہ گولی مار دوں گا‘‘ رفیق نے دوبارہ دھمکی تھی تھی۔
’’تو روکا کس نے ہے مارو گولی۔۔۔ موٹر سائیکل کی رفتار بہت زیادہ ہے ۔ میں مروں گا تو بچو گے تم بھی نہیں۔۔۔ یہ بات تو طے ہے۔۔۔‘‘اب رفیق کو احساس ہواکہ وہ بہت بری طرح پھنس چکا ہے۔ اگر تنویر کو کچھ ہوجاتا تو حادثہ ہوجاتا اور اس حادثہ میں رفیق کا زخمی ہونا یا پھر مر جانا سامنے کی بات تھی۔
’’سوچ کیا رہے ہو۔۔۔ ہتھیار جیب میں رکھ لو کسی اچھی سی جگہ پر رک کر بات کرتے ہیں۔ ‘ تنویر نے اسے بات کرنے کی پیشکش کی تھی۔ اس پیشکش میں دم تھا۔ موٹربائیک ہاتھ نہ بھی لگتی جان بچنے کا امکان تھا۔ پھر کچھ سوچ کر رفیق خوف زدہ ہوگیا۔ وہ اس علاقے کے چپے چپے سے واقف تھا۔ آگے نہر پر پولیس کی چیک پوسٹ تھی۔ وہاں اکثر موٹرسائیکل سواروں کی چیکنگ ہوتی تھی۔ اگر وہاں پہنچ کر بات کھل گئی تو کیا ہوگااور اگر وہ اسلحہ سمیت گرفتار ہوگیا تو کیا ہوگا۔ بہت سارے صدمات نے اسے ایک ساتھ گھیر لیا تھا۔ تنویر بہت مہارت کے ساتھ ڈرائیونگ کررہا تھا۔ بچنے کا کوئی امکان نہیں تھا۔ پھر رفیق نے اپنے ہتھیار سڑک کنارے اگی ہوئی جھاڑیوں میں پھینک دیا۔ یہاں سے ہتھیار واپس لینے کی صورت باقی رہتی۔ اب چیک پوسٹ کے آثار نظر آنے لگے تھے۔ لیکن تنویر نے موٹر بائیک کی رفتار آہستہ نہیں کی تھی۔ اب سڑک کنارے پولیس ٹیم نظر آنے لگی تھی۔ سڑک کا نصف حصہ آمد و رفت کے لیے کھلا تھا۔ موٹربائیک اسی کلومیٹر فی گھنٹہ کی رفتار سے پولیس والوں کے پاس سے شوں کرکے گزری تھی اور پھر رفیق دھک سے رہ گیا۔ جبکہ تنویر کی مسکراہٹ اور زیادہ گہری ہوگئی تھی۔ پولیس ٹیم نے ایڑھیاں بجا کر تنویر کو سلامی دی تھی۔ ’’کک۔۔۔ کک۔۔۔کون ہو تم۔۔۔‘‘ رفیق حد سے زیادہ خوف زدہ ہو چکا تھا۔
’’میں بھی اک پولیس آفیسر ہوں۔۔۔‘ اب کی بار تنویر ہنس پڑا تھا۔
’’اب ۔۔۔ اب ہم کہاں جا رہے ہیں۔۔۔‘‘ خوف سے رفیق کی آنکھیں پھیل گئی تھیں۔
’’تم بتاؤ۔۔۔ مجرم کی جگہ کہاں ہوتی ہے؟ ‘‘ سوالیہ انداز میں تنویر نے اپنی بات ادھوری چھوڑ دی تھی۔ پھر وہ ہواجس کی تنویر کو بھی امید نہیں تھی۔ رفیق نے چلتی بائیک سے چھلانگ لگا دی تھی۔ اس کا جسم رول کرتاہوا سڑک کے ساتھ نشیب میں جا گرا تھا۔ اب تنویر نے بائیک کی رفتار آہستہ کی اور یوٹرن لیا۔ وہ رفیق کو اس حال میں کبھی چھوڑ نہیں سکتا تھا۔رفیق نشیب میں بے ہوش پڑ اتھا۔ پھر تنویر نے امداد کے لیے متعلقہ ادارے کو فون کردیا۔
جب رفیق کو ہوش آیا تو وہ ہسپتال میں موجود تھا۔ چند لمحوں تک وہ ساکت لیٹا چھت کو گھورتا رہا۔ پھر اسے سب کچھ یاد آگیا۔ وہ ایک جھٹکے سے اٹھ بیٹھا۔ خوش قسمتی سے اس کے جسم کی ہڈیاں سلامت رہی تھیں اور اسے کوئی گہری چوٹ بھی نہیں آئی تھی۔ اس نے اپنے ارد گرد دیکھا اور پھر شرم کے احساس سے اس کی آنکھیں جھک گئیں۔ اس کے ہاتھ میں ہتھکڑی تھی جو بیڈ کے ساتھ مقفل تھی اور دائیں طرف اس کی بوڑھی ماں اور اکلوتی بہن بیٹھی سوالیہ نظرں سے اس کی طرف دیکھ رہی تھیں۔ انہیں اب جا کر معلوم ہوا تھا کہ اس ماں کا بیٹا ‘ اس بہن کا بھائی اک چور ہے۔ آج رفیق تنویر کو بھی دیکھ رہا تھا۔ وہ اس وقت فل یونیفارم میں موجود تھا۔ نفرت سے رفیق نے اپنا چہرہ دوسری سمت میں پھیر لیا۔ جب ایک گم راہ انسان خود کو حق پر سمجھتا ہے تو یہ اس کے لیے بہت بدقسمتی والی بات ہوتی ہے۔ وہ اپنے موجودہ حالات کا ذمہ دار تنویر کو سمجھ رہا تھا۔ رفیق کی ماں تنویر سے کہہ رہی تھی ’’اے بیٹا۔۔۔ اب میں جان چکی ہوں کہ میرا بیٹا گناہ گار ہے۔ اس نے بہت سے لوگوں کے ساتھ ظلم کیا ہے۔ اسے ان مظالم کی سزا ملنی ہی چاہیے مگر بیٹا ہمارا یہ آخری سہارا ہے۔ اسے سزا ہو جائے گی۔۔۔ یہ جیل چلا جائے گا تو ہمارا کیا ہوگا۔ ہم ماں بیٹی تو دربدر کی ٹھوکریں کھانے پر مجبور ہوجائیں گے۔۔۔ ہماری حالت پر رحم کرو اور اسے معاف کر دو۔۔۔‘‘ اس ماں کی آنکھوں میں آنسو آگئے تھے۔
’’ماں جی۔۔۔ میں آپ کے درد کو سمجھ سکتا ہوں لیکن فرض اور قانون کے ہاتھوں میں مجبور ہوں۔ خود ہی سوچیے اگر مدد کے نام پر اسی طرح لوگوں کو لوٹنے کا سلسلہ جاری رہا تو کون کس کی مدد کرے گا۔۔۔‘‘ اس سوال کا جواب رفیق کی ماں کے پاس نہیں تھا۔
’’اور رہی بات سہارے کی ۔۔۔تو ہم سب کا ایک ہی سہارا ہے۔۔۔‘‘تنویر نے اوپر کی طرف انگلی اٹھادی تھی۔ تنویر کا کہنا درست تھا۔ اللہ تعالیٰ کی پاک ذات کے علاوہ کون ہے جو کسی کو سہارا دے۔ اب رفیق سانپ کی مانند پھنکار رہا تھا۔
’’انسپکٹر۔۔۔ وقت وقت کی بات ہے۔ وقت تمہارا تھا تو میں پکڑا گیا۔ لیکن وقت پھر آئے گا۔ میں واپس لوٹوں گا اور تمہیں ٹارگٹ کروں گا۔ میرا انتظار کرنا۔۔۔‘‘ بات ابھی رفیق کے منہ میں تھی کہ رفیق کی ماں نے اس کے منہ پر زور سے طمانچہ دے مارا۔
’’چور تو تم ہو ہی۔۔۔ اب خونی بننے کا بھی سوچ رہے ہو۔۔۔‘‘ تنویر کی طرف سے رفیق کی ماں نے اسے جواب دیا تھا۔
’’ماں جی ایسے لوگوں پر باتوں کا اثر نہیں ہوا۔ ایسے لوگوں کو راستے پر لانے کا راستہ کچھ اور ہوتا ہے۔۔۔‘‘ پھر وہ رفیق کی طرف پلٹا۔
’’میں تمہارا انتظار کروں گا۔۔۔‘‘ تنویر اتنی بات کہہ کر وارڈ میں سے باہر نکل گیا۔ اس کی ماں اور بہن تنویر کے پیچھے گئے تھے اور رفیق کو اس صدمے نے گھیر لیا تھا کہ اس کے زخمی ہونے اور گرفتار ہونے کا کوئی اثر اس کی ماں اور بہن پر نہیں ہوا تھا۔ رفیق کو کوئی گہری چوٹ تو نہیں آئی تھی مگر بائیک سے گرنے اور پھر سڑک پر لڑھکنے کی وجہ سے جسم کی جلد جگہ جگہ سے پھٹ گئی تھی اور پٹھوں پر بھی دباؤ آیا تھا۔ اگلے ایک ہفتے تک ہسپتال میں اس کا علاج ہوا۔ پھر اسے حوالات میں منتقل کر دیا گیا۔ پھر عدالت میں اس پر مقدمہ چلا۔ عدالت میں اُن لوگوں نے اس کے خلاف گواہی دی تھی جو اس سے مختلف حالات اور اوقات میں متاثر ہوئے تھے۔ایسے میں صرف ایک آدمی رفیق کی پیروی کرتا رہا تھا۔ وہ رفیق کا رشتہ دار تھا۔ پھر رفیق کو اس کے جرم کے مطابق قید کی سزا سنا دی گئی۔ اب رفیق کے روز و شب جیل کی قید‘ مصیبت اور مشقت میں گزررہے تھے۔ ایسے میں اسے اپنی ماں اور بہن کا خیال شدت سے ستاتا تھا۔انہیں سہارا کون دے گا۔ پھر یہ بات سوچ کر اس کے دل کو سکون مل جاتا کہ ان کا رشتہ دار اس مصیبت کی گھڑی میں ضرور انہیں سہارا دے گا۔ پھر اسے تنویر پرغصہ آنے لگتا۔ اس کے مطابق اس کے ایسے حالات کا ذمہ دار تنویر ہی تو تھا۔ اس نے پکا ارادہ کر لیا تھا کہ جیل میں سے نکلنے کے بعد وہ تنویر کو ضرور ٹارگٹ کرے گا ۔ وقت کا اپنا ایک نظام ہے۔ اچھا ہو یا بُرا یہ گزر ہی جاتا ہے اور پھر رفیق کو جیل کی قید سے رہائی مل گئی۔ اب وہ آزاد تھا لیکن قید کے دنوں میں اس کی ماں اور بہن اس سے ملاقات کے لیے نہیں آئے تھے۔وہ سمجھ سکتا تھا کہ اس کے لواحقین اس سے ناراض ہیں۔ اسے یقین تھا کہ اپنے گھر جا کر وہ اپنی ماں اور بہن کو منالے گا۔ لیکن اس سے پہلے اسے ایک اور کام کرنا تھا۔ اسے تنویر کو ٹارگٹ کرنا تھا۔ اس نے اپنے جرائم پیشہ دوستوں سے رابطہ کیا۔ یہاں سے اسے ہتھیار بھی مل گیا اور تنویر کے گھر کر پتہ بھی۔ اب وہ رات کے وقت تنویر کے گھر کے پاس چھپا تنویر کی واپسی کا انتظار کررہا تھا۔ ٹھیک ساڑھے آٹھ بجے اسے بہت کم روشنی میں تنویر آتا دکھائی دیا۔ اس وقت لوڈ شیڈنگ کی وجہ سے بجلی بند تھی۔جب تنویر پاس پہنچا تو رفیق نے ایک کے بعد ایک اس پر تین فائر داغ دیے۔ تنویر گر پڑا تھا۔ اندھیرے کا فائدہ اٹھا کررفیق فرار ہونے میں کامیاب ہوگیا۔ پہلے تو وہ اپنے جرائم پیشہ دوستوں کے پاس گیا۔ ہتھیار واپس کیا۔ اور اب وہ پیدل ہی اپنے گھر کی طرف روانہ ہوا۔ آج وہ بہت خوش تھا۔ وہ اپنے دشمن کو ٹارگٹ کرنے میں کامیاب ہوچکا تھا۔ ٹھیک ایک گھنٹے بعد وہ اپنے گھر کے سامنے کھڑا تھا۔ پھر وہ پریشان ہوگیا۔ گھر کے دروازے پر تالا لگا ہوا تھا۔ رات کے دس بج رہے تھے اور گھر پر تالا لگا تھا۔ بات تو پریشانی والی تھی۔ پھر رفیق نے پڑوسی کے دروازے پر دستک دی۔ پڑوسی باہر نکلا اور پھر رفیق کو دیکھ کر طنز سے بولا ’’آگئے تم۔۔۔ بچے تو والدین کا سہارا ہوتے ہیں۔ اور تم نے اپنی حرکات کی وجہ سے انہیں بے سہارا کر دیا۔ وہ تو بھلا ہو تمہارے اس رشتہ دار کا جس نے تمہاری ماں اور بہن کو دربدر کی ٹھوکریں کھانے سے بچا لیا۔ اب اس کی جان خطرے میں ہے۔ تمہاری ماں اور بہن اس کی خبر گیری کے لیے ہسپتال گئی ہیں۔۔۔‘‘ یہ خبر سن کر رفیق پریشان ہوگیا۔
’’میں جانتا تھا کہ میرا تایا زاد ہی اس مشکل وقت میں ہماری مدد کرے گا۔ لیکن اسے کیا ہوگیا۔۔۔‘‘ وہ سوچ میں گم ہسپتال کی طرف روانہ ہوگیا۔وہ ایمرجنسی کے قریب پہنچا ہی تھا کہ اس کے کانوں سے اپنی ماں اور بہن کے رونے کی آواز ٹکرائی۔ ان آوازوں میں بڑا درد تھا۔
’’میرا بچہ۔۔۔ ہائے میرا بچہ۔۔۔‘‘ اب رفیق کے لیے رکنا مشکل تھا۔ وہ دوڑ کر اپنی ماں کے قریب پہنچا۔
’’عاطف کو کیا ہوا۔۔۔‘‘ اس کے لہجے میں بے چینی تھی۔ ماں نے پلٹ کر اپنے بیٹے کی طرف دیکھا۔ تقریباً دو سال بعد ماں اور بیٹا آمنے سامنے آئے تھے۔ رفیق کا خیال تھا کہ ماں اسے اپنے سینے سے لگا لے گی۔ لیکن پھر جو ہوا وہ رفیق کی سمجھ سے بھی باہر تھا۔ ماں نے اس پر تھپڑوں کی بارش کر دی تھی۔ ساتھ ہی وہ رفیق کو بددعائیں دے رہی تھی۔
’’تیرا بیڑہ غرق ہوجائے۔ تو نے ہم سے ہمارا سہارا چھین لیا۔ ایک تو بیٹا ہے خبیث اور ایک وہ بیٹا ہے فرشتہ۔۔۔ جس نے ہماری آنکھوں میں موجود آنسوؤں کو مسکراہٹوں میں بدل دیا۔ جس نے تیری ماں کو اپنی ماں اور تیری بہن کو اپنی بہن سمجھ کر ایک فرماں بردار بیٹے اور بھائی کا فرض ادا کیا۔ اس پر تم نے جان لیوا حملہ کیا۔۔۔ ‘‘ رفیق دیوار سے جا لگا تھا۔ پھر آپریشن تھیٹر کا دروازہ کھلا۔ سٹریچر پر تنویر موجود تھا۔ یہ وہی تنویرتھا جس نے اپنی ڈیوٹی کے ساتھ ساتھ فرض اور پیار کے رشتوں کو بھی نبھایا تھا۔
’’ماں جی پریشان ہونے کی ضرورت نہیں ہے۔ ایک گولی جلد کو چیر کر نکل گئی تھی۔ اب کوئی خطرے والی بات نہیں ہے۔۔۔‘‘ انچارج ڈاکٹر رفیق کی ماں کو بتا رہا تھا۔ اس وقت تنویر ہوش میں تھا۔ اس کے ہونٹوں پر اب بھی مسکراہٹ موجود تھی۔ اک خاص قسم کی لہر رفیق کے وجود میں اٹھی تھی۔ پھر رفیق کی آنکھوں کے سامنے موجود منظر دھندلا گیا۔ اچانک ہی آنسوؤں کا ایک سیلاب رفیق کی آنکھوں میں موجزن ہوگیا تھا۔ پھر وہ تڑپ کر آگے بڑھا اور پھر تنویر کے قدموں کو تھام کر رونے لگا۔ یہ پچھتاوے کے آنسو تھے۔ یہ دکھ کے آنسو تھے۔ رفیق کو اس بات کا احساس ہوگیا تھا کہ اس کا راستہ غلط تھا۔
’’میں نے جرم کیا ہے۔۔۔ مجھے جیل بھیج دو۔۔۔ لیکن اب مجھے اس بات کی تسلی رہے گی کہ ایک نالائق بیٹا اگر جیل میں ہے تو دوسرا لائق بیٹا میری ماں کے پاس موجود ہے۔ ‘‘ رفیق روتے ہوئے کہہ رہا تھا۔ ایسے میں اس کے کانوں سے تنویر کی آواز ٹکرائی۔ وہ ماں سے کہہ رہا تھا۔ ’’دیکھا ماں جی۔۔۔ میں نا کہتا تھا کہ ایسے لوگوں کو راستے پر لانے کا راستہ کچھ اور ہے ۔۔۔پیار‘ اچھے سلوک اور محبت کے راستے پر چل کر ہی ہم ان اپنوں کو اپنے پاس لاسکتے ہیں۔۔۔‘‘ اب بات رفیق کی سمجھ میں آئی تھی۔ ایک ہی وقت میں وہ دونوں ایک دوسرے کو ٹارگٹ بنانے کی کوشش کررہے تھے۔ وہ علیحدہ بات تھی کہ تنویر اپنا ٹارگٹ حاصل کرنے میں کامیاب ہوچکا تھا۔
اہم بلاگز
ملمع کاری سے بچ کے
مجھے کریانے سے متعلق تمام سودا سلف چچا جان اسلم سے ہی لینا پسند ہے، میں نے ہمیشہ انہیں ایماندار تاجر ہی پایا جو ناپ تول میں کمی بیشی نہیں کرتا اور پیمانہ بھر کے دیتا ہے۔ ابیہہ ہمیشہ ڈاکٹر محمود سے دوا لیا کرتی ہے اسے ڈاکٹر کا پوری توجہ اور یکسوئی سے مسئلہ سننا اور مشورہ دینا بہت پسند ہے۔
ایسا آپ کے ارد گرد بھی ہوتا ہے نا ! آپ ایک بار کے تجربے یا بعض اوقات صرف مشاہدے اور کبھی محض دوسروں کے تجربات سے استفادہ کرتے ہوئے ٹھگ دکاندار سے کنارہ کش ہو جاتے ہیں۔ اب آپ خیر خواہی کا حق یوں ادا کرتے ہیں کہ اپنے قریبی لوگوں سے اپنے مشاہدے و تجربے کا تذکرہ کرتے ہیں انھیں ٹھگ بازوں سے مطلع کرتے ہیں اور نبض شناس طبیب کی جانب رہنمائی کرتے ہیں۔ گویا دو فطری خصوصیات اچھائی کے پرچار میں معاون ہوتی ہے۔
1: ذاتی اصلاح
2: خیر خواہی
یہی دو خصوصیات اصلاح ملت اور قومی ایشوز میں بھی ہمیں مطلوب ہیں ۔ سوچنے کی بات ہے کہ حکمران کا چناؤ بھیڑ چال کا شکار کیوں ہو جاتا ہے۔ ہم سمجھ بوجھ رکھنے والے با شعور لوگ آخر ملی معاملے میں اتنی سطحی سوچ کیوں رکھتے ہیں۔ ہم جو ملمع کاری کے مزاج شناس ہیں۔ ناخالص دودھ یا ملاوٹ شدہ اشیاء کو خالص کے نام پر بیچنے والے ملمع کاروں کی بدولت، اور کبھی اپنے عزیزوں، دوستوں کے ملمع کار رویوں کی بدولت جو اپنے اندر کے غلط جذبات کو بھلائی چنا کر پیش کرتے ہیں۔ اپنے معاشرے کے ان ملمع کاروں سے اکثرو بیشتر ہم بناء کچھ کہے کنارہ کشی اختیار کر لیتے ہیں، کبھی محض نظر انداز کر دیتے ہیں ہم ان کی ملمع کاری کا شعور رکھنے کی بدولت ان کے ظاہری حلیے اور مصنوعی چہروں سے دھوکا نہیں کھاتے۔ لیکن قومی معاملات میں ہم اچھے برے کی پہچان ہی کھو دیتے ہیں، ہم ملمع کاری اور بغیر ملمع کاری۔ صاف اور سیدھے نظریے کو سپورٹ ہی نہیں کرتے۔ یہ کیسے ممکن ہے اپنے ذاتی معاملات تو نک سک سے چلانے کی خاطر ہم ہر ہر ملمع کار سے بچ کر رہتے ہیں لیکن قومی ملی معاملات میں ہمارے قلب ایسی تڑپ سے نا آشنا ہی دکھائی دیتے ہیں۔ یقینا ان معاملات کی بھی ہم سمجھ رکھتے ہیں، یقینا ہم اچھے سیاست دان اور برے سیاستدان کی صفات سے بھی آگاہ ہیں۔ ہم جانتے ہیں ان میں سے جو ملمع کار ہیں اور جو ملت کے حقیقی خیر خواہ ہیں۔
حیرت ہے نا کہ زکوٰۃ صدقات جمع کروانے کے لئے ہم ایماندار اور کرپٹ میں بخوبی تمیز کر لیتے ہیں۔ ہم اصلاح ملت کی خاطر کیے جانے والے اجتماع کی رونق کا باعث بھی بنتے ہیں لیکن انہی مصلح لوگوں کی راہ کی دیوار بھی ہم ہی بنتے ہیں۔ ہمارا حال ان نا سمجھ اور نادان بچوں سے کچھ مختلف نہیں جو اصلی اور جعلی شے کی پہچان رکھتے ہوئے بھی جعلی شے خرید کر کبھی تو چند روپے بچانے کی کوشش کرتے ہیں، کبھی ہلکی شے کی زیادہ مقدار ان کی توجہ کھینچ...
سیاسی وفاداریاں تبدیل کرنے کا چلن
پاکستان کی تعمیر وترقی کے نئے راستے کھولنے کے دعوے کرنے والے ملک کے حالات تو نہ سنوار سکے البتہ چڑھتے سورج کے پجاری بننے کی مشق جاری رکھی گئی، یعنی وفاداریاں تبدیل کرنے کا چلن زندہ رکھا گیا، یہ کوئی آج رواج پانے والی سرگرمی نہیں، یہ قیام پاکستان سے پہلے بھی رواج تھا سیاسی وفاداریاں تبدیل کرنا معمول کی بات رہی، کچھ فیصلے تو بہت خوب تھے جیسے واقعہ کربلا میں "حر" کے کردار کو امر کرنے والا چلن نئی تاریخ رقم کرگیا، اس حوالے سے پھر حق کے لئے اقتدار کو ٹھوکر مارنے والوں کی تعظیم تاریخ بھی سنہری حروف سے کرتی رہی، یہ واقعہ اچھائی اور برائی کے درمیان فرق کو واضح کرگیا، اس حوالے سے آج کالم نگار اور شاعر حسن نثاراپنے اس شعر میں تاحال خود کو یزیدی پیروکار تسلیم کرتے ہوئے امام عالی مقام کے منتظر دکھائی دیتے ہیں۔
میراحسین ابھی کربلا نہیں پہنچا،
میں حر ہوں اور ابھی لشکریزید میں ہوں
جبکہ اس عہد میں وفاداریاں بدلنے کا معیار یکسر مختلف ہے، اس عہد میں حکومت ملنے کی امید پر فیورٹ پارٹی کو جوائن کرنے کا رواج عام ہے، یہ طریقہ کار پاکستان میں شروع سے اب تک مروج ہے۔ حالانکہ ماضی میں سیاسی وفاداریاں تبدیل کرنے کی اس روایت کی حوصلہ شکنی کی جاتی تھی مگر اب ایسا تو ہرگزنہیں، بہرحال الیکشن جیتنے والے ارکان حکومت سازی کے عمل کے دوران بھی سیاسی وفاداریاں تبدیل کرنے کی روایت عام کررہے ہیں، یہ کام ماضی میں تو عظیم مقصد کے لئے تھا مگر اب محض اپنے ذاتی فائدے کی خاطر وفاداریاں تبدیل کرنے کی روایت کو آگے بڑھایا گیا ہے۔
قیام پاکستان سے قبل بھی سیاسی وفاداریاں بدلنے کا رواج تھا، 1946 کے انتخابات میں یونینسٹ پارٹی 175 کے ایوان میں صرف 18 نشستوں پر کامیابی حاصل کر پائی۔صرف نو برس کی مختصر مدت میں وہ سب کچھ ہو گیا جس کا 1937 میں خواب بھی نہیں دیکھا جا سکتا تھا۔ انتخابات کے بعد ان 18 نشستوں پر کامیاب ہونے والے نصف سے زیادہ ارکان آل انڈیا مسلم لیگ سے آ ملے۔
قیام پاکستان کے بعد بھی سیاسی وابستگیاں تبدیل کرنے کی یہ روایت قائم رہی۔ 1957 میں جب صدر اسکندر مرزا نے پارلیمنٹ میں اپنی سیاسی جماعت ری پبلکن پارٹی بنانے کا اعلان کیا تو مسلم لیگ میں شامل متعدد ارکان فوری طور پر اس نومولود پارٹی کا حصہ بن گئے،سیاسی وابستگیاں تبدیل کرنے کا یہ سلسلہ ایوب خان کے دور میں بھی جاری رہا۔ کچھ افراد کو دولت کے ذریعے، کچھ کو وزارتی ترغیبات کے ذریعے اور کچھ کوحکومتی دباؤ کے ذریعے اپنا ہمنوا بنایا گیا۔ ہر عہد میں ایسے کردار بکثرت پائے گئے جو قومی مفاد کے نام پر پاکستان کے عوام کی مشکلات کو بڑھانے والوں سے جاملے ،مسلسل وفاداریاں تبدیل کرنے والوں کی کہانی لکھنے بیٹھ جائوں تو پھر ایک وسیع میدان میں بولی کیلئے سج کر آنے والے ارکان کی خریدوفروخت کی طویل فہرست اور انکے کردار موجود ہیں جو اپنے ہر غلط یوٹرن کو بڑی ڈھٹائی سے قومی مفاد کا نام دیتے رہے۔
ہر دور میں سیاسی وفاداری تبدیل کرنے...
بس ایک سوال؟
مسئلہ محض یہ نہیں کہ ہم اسے قُربِ قیامت کی نشانی کہیں یا اشرافیہ کی ادا۔ سوال یہ بھی ہے کہ یوں اس تیزرفتاری سے ہم تنزلی کی دلدل میں گرتے گئے تو باقی بچے گا کیا؟۔ ربِ ذوالجلال جس کو گواہ کر کے یہ وطن حاصل کیا گیا اسی رب کے احکامات کو پارلیمنٹ کے فلور پہ دھڑلے سے توڑا گیا ہم جیسے ڈرپوک لوگ تو کانپ کر رہ گئے کہ بس آئی قیامت۔ دنیا کو راضی کرنے کی خاطر غیرت و حمیت کے سودے ہوئے ( پھر شاید عملِ قومِ لوط کی راہ ہموار کرنے کے لئے ) ٹرانس جینڈر کی باتیں ہونے لگیں۔ ہمیں لگا بس صور اسرافیل پھونکا جانا باقی ہے۔
سچ تو یہ ہے کہ اشرافیہ کی گھٹیا ذہنیت سے ہمیں کراہیت سی محسوس ہونے لگی۔ قوم کی نفسیات عجیب ہے۔ ذاتی دشمنوں کو معاف کرنے سے پہلے ہزار بار سوچیں گے مگر قومی مجرموں کے لئے دل نرم بڑے پڑ جاتے ہیں۔ پرویز مشرف کے بارے میں اشرافیہ اور کچھ ادارے بھی یک زبان ہیں کہ انہیں وطن واپس آنے دیا جائے انہیں معاف کر دیا جائے۔
راقم کی چند گزارشات ہیں:-
• یہ ملک صرف آپ کا نہیں اس پر 22 کروڑ عوام بھی کچھ حق رکھتے ہیں۔ آپ کی ایسی باتوں سے ان کا دل دکھا ہے۔
• پرویز مشرف صاحب کے انفرادی کردار ، ذاتیات پر کوئی کیچڑ اچھالے ہم بھی مذمت کریں گے۔ مگر جن اعمال کا تعلق قوم و ملک سے ہے ان پر خاموشی یا معاف کر دیا جائے کہنے والے ہمارے نزدیک قوم و ملک کے خیرخواہ نہیں ہیں۔
• پرویز مشرف نے آئین کو توڑا۔
• پرویز مشرف بے نظیر بھٹو قتل کیس میں مفرور ہیں۔
• امریکہ کو افغانستان پہ بمباری کرنے کے لئے اڈے استعمال کرنے کی اجازت دی۔ ان دنوں کے اخبارات کے تراشے اگر کہیں سنبھال رکھے ہوں دیکھئیے ذرا معصوم لال گلابی گالوں والے بچے خون میں لت پت بوڑھے جوان عورتیں اپاہج کیا ان سب کی زندگی کوئی قیمت نہیں رکھتی تھی؟ اور پرویز مشرف صاحب کی زندگی بڑی قیمت رکھتی ہے؟۔
• بلوچستان سے سیکڑوں افراد غائب کرایے گئے ان کا اتہ پتہ آج تک کسی کو نہیں چل سکا۔ کیا یہ جرم قابلِ معافی ہے؟۔
• ڈاکٹر عافیہ صدیقی جیسا قیمتی ہیرا بڑے آرام سے دشمن کے حوالے کر دیا۔
• ملک میں فحاشی بدچلنی کا وہ سیلاب جاری کیا کہ آج اس کے اثرات ہم معاشرے میں بڑے واضح دیکھ رہے ہیں۔
ایک سوال:
کیا مجرم جب بیمار ہو جائے وہ مجرم نہیں رہتا؟ اس کے سارے جرائم خودبخود معاف ہو جاتے ہیں؟۔ اگر ہاں تو کون احمق اس ملک و ملت کے ساتھ وفا نبھائے گا ؟ ہر کوئی ڈالرز کی بھیک بھی وصول کرے گا امریکہ بہادر کو بھی راضی رکھے گا اور عدلیہ، مقننہ، انتظامیہ سب کی نظروں میں قابلِ رحم بھی ٹھہرے گا۔
رہی بات ملک وملت کی، معاشرے کی تباہی وبربادی کی تو وہ تو ہر ایک باری باری اپنے حصہ کا کردار ادا کر ہی رہا ہے خوب بڑے دھڑلے سے ناؤ کو ڈبونے میں لگے ہیں سب۔ ہاں معاشرے کا چہرہ یعنی...
آپﷺکے نکاح میں پوشیدہ حکمتیں
قومِ مسلم کے لیے سب سے زیادہ اذیت ناک بات آپ ﷺکی شان بلند میں گستاخی کا ہونا ہے۔دنیا بھر کے مسلمانوں کے جذبات تڑپ جاتے ہیں اور وہ غم و غصہ کے انگاروں پر لوٹنے لگتے ہیں جب کوئی بد بخت ایسا کرنے کی جسارت کرتا ہے توگستاخی کرنے والے کی ایک ایک سانس اُمت مسلمہ پر بھاری گزرتی ہے۔اس کی وجہ یہ ہے کہ ہم اپنے مال،جان،اولاد،ماں باپ،عزت آبرو سے بڑھ کراپنے نبی سے محبت کرتے ہیں۔ اور اس پر کسی قسم کا کوئی سمجھوتا نہیں کر سکتے۔
جب کبھی کہیں ایسی گھٹیاجسارت ہوتی ہے تو اُمت مسلمہ کا امتحان ہوتا ہے اور دو پہلو سامنے آتے ہیں۔ایک حکمران طبقے کی نا اہلی،خوف یا احتیاط اور دوسرا عام عوام کا والہانہ جذبہ عشق۔حکمران معاشی اورسیاسی مصلحتوں کے پیش نظر صرف مذمتی بیانات دینے پر ہی اکتفا کرتے ہیں جبکہ عوام کے جذبات یہ ہوتے ہیں کہ گستاخی کرنے والے بدبخت کوفوراً کڑی سے کڑی سزا ملے ،اسے عبرت کا نشان بنایا جائے اور اس کے ملک سے بھی ہر طرح کے تعلقات ختم کیے جائیں جب تک کے وہ سرکاری سطح پر توہین کرنے والے کوقرار واقعی سزا نہ دے۔ حالیہ دنوں میں بھارت کی ایک لعینہ نوپور شرما نے اُمہات المومنین کے توہین آمیز ذکر کی آڑ میں نبی ﷺ کی شان میں گستاخی کی ہے۔ اس گستاخ کی سزا دنیا و آخرت میں اب اس کا مقدر ہے، لیکن جن باتوں کو بنیاد بنا کر گستاخی کی گئی ہے پوری دنیا کے سامنے اس غلط فہمی کا ازالہ بھی ضروری ہے تا کہ آئندہ کوئی ان باتوں کو دلیل بنا کر منفی پروپیگنڈہ نہ کر سکے۔
آپ ﷺکی ظاہری حیات مقدسہ کا ایک ایک قول و فعل حکمتوں سے لبریز ہے۔ آپ ﷺکی ایک ایک ادا مبارک اس مشن عظیم کی ادائیگی کا حصہ ہے جو پروردگار نے آپ کو سونپا تھا۔ قیامت تک کے لیے نافذ العمل دین کے فروغ کے لیے آپ نے بہترین حکمت عملی سے کام لیا۔اسی طرح آپ ﷺنے جتنے بھی نکاح فرمائے وہ دین اسلام کے فروغ اور مشن عظیم کے لیے معاون تھے اور وقت نے یہ ثابت بھی کیا کہ ایک ایک نکاح سے اسلام کو تقویت ملی۔ لہٰذا غیر مسلموں کی جانب سے یہ کہنا کہ آپﷺنعوذ باللہ اپنی خواہشات کی تکمیل کے لیے نکاح فرماتے تھے سراسر غلط ہے۔
آپ ﷺنے جس قبیلے میں نکاح فرمایا ایک وقت آیا پورا پورا قبیلہ دائرہ اسلام میں داخل ہو گیا۔ جیسے حضرت جویریہؓ کی مثال لے لیں۔حضرت خدیجہؓ نے فرمایا تھاکہ کسی بیٹی سے اس کے قبیلے کو اتنا فائدہ نہیں ہوا جتنا جویریہؓ سے ہوا۔حضرت عائشہؓ کے علاوہ آپ ﷺنے جتنے نکاح فرمائے وہ یا تو بیوہ سے فرمائے یا مطلقہ سے۔اور بعض امہات المومنین تو آپ ﷺکے عقد مبارک میں آنے سے قبل ایک نکاح میں رہیں ،شوہر کے انتقال کے بعد دوسرے نکاح میں اورپھران کے شوہر کے انتقال کے بعد یا علیحدگی کی صورت میں آپ ﷺکے نکاح میں آئیں۔ یعنی اگر مقصد دنیاوی خواہش پر مبنی ہوتا تو آپﷺ ایک سے ایک بڑھ کر کنواری...
مناسک حج
حج کی تین اقسام ہیں جن میں حج قران، حج تمتع اور حج افراد۔ حج قران میں حاجی حضرات عمرہ اور حج کا احرام اکٹھا پہنتے ہیں ۔ پہلے عمرہ ادا کرتے ہیں اور پھر حج کے ارکان ادا کرنے کے بعد احرام کھولتے ہیں۔ حج تمتع میں حاجی حضرات صرف عمرے کا احرام پہن کرعمرہ کی ادائیگی کے بعد احرام کھول دیتے ہیں اور پھر ایام حج یعنی 8 ذوالحجہ کو حج کا احرام باندھ کر مناسک حج کی ادائیگی کرتے ہیں۔ جبکہ حج افراد میں حاجی حضرات صرف حج کی نیت سے احرام پہن کر مکہ شریف میں داخل ہوتے ہیں اور مناسک حج کی ادائیگی کے بعد احرام کھول دیتے ہیں۔ ایام حج 8 ذوالحجہ سے شروع ہوکر 12 ذوالحجہ کو اختتام پذیر ہوتے ہیں اور بعض صورتوں میں 13 ذوالحجہ کو مکمل ہوتے ہیں۔حج کے پانچ لازمی ایام ہیں۔
حج کا پہلا دن:
حج کے پہلے دن یعنی 8 ذوالحجہ کو حجاج کرام احرام پہن کر منیٰ میں دوپہر تک پہنچتے ہیں ۔ منیٰ میں ظہر، عصر، مغرب ، عشاءاور اگلی صبح فجر کی نمازوں کی ادائیگی اور رات کو منیٰ میں قیام کرنا سنت ہے۔
حج کا دوسرا دن:
حج کا دوسرا دن یعنی 9 ذوالحجہ عرفہ کا دن کہلاتا ہے ، آج کے دن حج کا رکن اعظم یعنی میدان عرفات میں قیام کرنا ہے جسے وقوف عرفات کہتے ہیں۔ اور وقوت عرفات کی ادائیگی کے بغیر حج ادا نہیں ہوتا ۔طلوع آفتاب کے بعد حجاج کرام منیٰ سے عرفات کی طرف روانہ ہوتے ہیں۔ میدان عرفات میں حجاج کرام ظہر کی نماز سے پہلے حج کا خطبہ سماعت فرماتے ہیں اور ظہر اور عصر کی نمازیں ادا کرتے ہیں۔ زوال سے لیکر غروب آفتاب تک میدان عرفات کے کسی بھی حصہ میں وقوف کیا جاسکتا ہے ۔ عرفات کے یہ چند گھنٹے پورے حج کا نچوڑ ہیں۔ افضل اور اعلی تو یہ ہے کہ آپ قبلہ رخ کھڑے ہوکر وقوف کریں ، تھک جائیں تو کچھ دیر بیٹھ کر پھر کھڑے ہوجائیں، پورے خشوع و خضوع اور عاجزی کیساتھ ذکر الٰہی، قرآن پاک کی تلاوت ، درود شریف اور استغفار میں مشغول رہیں۔وقفہ وقفہ سے تلبیہ یعنی لبیک اللھم لبیک بھی پکارتے رہیں ۔ خوب رو رو کر نبی کریم ﷺ ، اہل بیتؓ، صحابہ کرام ؓ کی دراجات کی بلندی ، اپنے لئے اپنے اہل و عیال کے لئے اور پوری امت رسول کی مغفرت کے لئے دعائیں مانگیں کیونکہ یہ دعاﺅں کی قبولیت کا وقت ہے۔ وقوف عرفات میں ہاتھ اُٹھا کر دعا مانگنا سنت ہے۔غروب آفتاب کے بعد مغرب کی نماز پڑھے بغیر میدان عرفات چھوڑ کر مزدلفہ کی طرف روانہ ہوا جاتا ہے ۔ اور مزدلفہ پہنچ کر مغرب اور عشاءکی نمازوں کی ادائیگی کی جاتی ہے۔کھلے آسمان تلے مزدلفہ کے میدان میں رات کے وقت ذکر واذکار کرنا اور سونا سنت موکدہ ہے اور مزدلفہ کی یہ رات شب قدر سے افضل شمار ہوتی ہے۔ اور اسی جگہ سے رمی ( جمرہ یعنی شیطان کو مارنے ) کے لئے کنکریاں بھی اکٹھی کی جاتی ہیں۔ اور ہر حاجی تقریبا 70 کے...
طنز و مزاح
والدین اور بیٹیاں
آج اسکول کی بچیوں کو اظہار خیال کے لیے موضوع دیا تھا کہ " آپ کے ساتھ والدین کیا سلوک ہے" جی بچیوں کے ساتھ والدین کا سلوک
چونکہ اسمبلی کے لیے موضوع نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)کی وہ حدیث تھی جس میں آپ صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلم نے بیٹیوں سے نفرت کرنے اور انہیں حقیر جاننے سے منع کیا ہے ،انہیں اللہ تعالیٰ کی رحمت قرار دیا ہے اور ان کی پرورش کرنے والے کو جنت میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ ہونے کی بشارت سنائی ہے۔ اس لیے بچیوں کے ساتھ اس حدیث پر تفصیل سے بات ہوئی اور انہیں کل کی اسمبلی میں اس پر بات کرنے کا کہا گیا اور تاکید کی گئی کہ سب طالبات کل اسمبلی میں بتائیں گی کہ انکے والدین انکے ساتھ کیا سلوک کرتے ہیں۔
اب آج وہ اسمبلی منعقد ہوئی اور بچیوں نے اظہار خیال کرنا شروع کیا۔ کسی نے کہا والدین ہمیں پالنے کے لیے ساری قربانیاں دیتے ہیں، کسی نے کہا کہ والدین ہماری سب خواہشات پوری کرتے ہیں، کسی نے کہا وہ ہمیں تہزیب سکھاتے ہیں، کسی نے کہا وہ ہماری اچھی تربیت کرتے ہیں، کسی نے کہا کہ وہ ہمیں کھلاتے پلاتے ہیں ، ایک رائے یہ آئی کہ وہ ہمیں کپڑے خرید کر دیتے ہیں، ایک نے کہا کہ وہ مجھے کوئی کام نہیں کرنے دیتے ایک اور نے کہا کہ صبح آنکھ کھلتی ہے تو ناشتہ تیار ہوتا ہے۔ ایک بات یہ آئی کہ انکا مرکز و محور ہماری پڑھائی ہے ایک اور کہا کہ وہ ہمیں کامیاب دیکھنا چاہتے ہیں۔
اور آخر میں ایک بات ایسی سامنے آئی کہ ہم سب کھلکھلا کے ہنس پڑے حالانکہ اپنے والدین کی ان کوششوں اور محبتوں کو سن کہ ماحول سنجیدہ لگ رہا تھا۔
اس نے کہا " میم ۔ میرے والدین بھی میرے ساتھ بہت اچھا سلوک کرتے ہیں، میری ہر ضرورت پوری کرتے ہیں مگر جب گھر میں چکن بنتا ہے تو leg pieces بھائی کو ملتا ہے۔ " اس معصوم بچی کے اس معصوم تبصرے پر ہم مسکرائے بغیر نہ رہ سکے ۔
تو تمام والدین سے گزارش ہے کہ ہمیں پتہ ہے آپ نے اپنی بیٹیوں کو شہزادیوں کے جیسا پالا ہے اور گڑیوں کے جیسا لاڈلا رکھا ہے مگر جب چکن خریدیں تو leg pieces زیادہ ڈلوا لیا کریں۔
زندگی بدل گئی !
شوہر اچھا ہو بیوی بچوں کا خیال رکھتا ہو تو زندگی پرسکون ہوجاتی ہے مگر یہاں تو زبردستی نوکری پر بھیجو پھر خود بازار جاٶ ضرورت کا سارا سامان خود اٹھاٶ پھر گھر کی صفائی، کھانا بنانا، بچوں کو اسکول چھوڑنا اور لانا سارا دن اسی میں گزر جاتا ہے یہاں تک کے امّی سے بات تک کرنے کا ٹائم نہیں ملتا مہینوں گزر جاتے ہیں امّی سے ملاقات ہوئے۔
فائزہ نے دکھوں کا قصہ سنا کر سکون کا سانس لیا تو میں نے بھی تسلی دی اللہ آسانی کرے تمھارے لیئے۔آج پھر کئی مہینوں بعد فائزہ سے ملاقات ہوئی تو پتہ چلا وہ گھر خالی کر کے دوسرے محلے میں چلی گئی ہے کرائے داروں کے لیۓ یہی پریشانی ہے اللہ سب کو اپنا گھر نصیب کرے۔ فائزہ بڑی خوش اورپہلے سے بہت اچھی لگ رہی تھی خوش ہوکر بتانے لگی۔ میرے شوہر تو جی ایسے فرمابردار ہوئے ہیں کے بس پوچھو مت۔ ویسے میں نے پوچھا نہیں تھا پر فائزہ بتاۓ بغیر کہاں رہتی۔
خوشی خوشی بتانے لگی صبح وقت سے پہلے نوکری پر چلے جاتے ہیں ساتھ بچوں کو بھی اسکول چھوڑ دیتے ہیں گھر کی ساری ذمہ داری خود لے لی ہے میں تو بس اب گھر میں رہتی ہوں اور اتنے محنتی ہوگۓ ہیں کے رات رات بھر گھر نہیں آتے یہاں تک کے کئی کئی دن کام کے سلسلے میں شہر سے باہر رہتے ہیں اور میں اپنی امّی کے گھر آرام کرنے چلی جاتی ہوں رزق میں ایسی برکت ہے کہ کبھی کبھی ہر چیز ڈبل آجاتی ہے پچھلے ہفتے دو سینڈل بلکل ایک جیسی لے آۓ بس ایک نمبر چھوٹی تھی پھر وہ تبدیل کرنی پڑی۔ کبھی راشن میں بھی چیزیں ڈبل ہوجاتی ہیں بس اللہ کا کرم ہے۔ میں تو کونے والی نورن دادی کو دعائيں دیتی ہوں۔ یہ سب ان ہی کی وجہ سے ہوا ہے۔ انھوں نے مسجد کے مولوی صاحب کا پتہ دیا تھا۔ مولوی صاحب نے ایک وظیفہ بتایا تھا پڑھنے کو وہ بھی تہجد میں بس پھر کیا تھا میری تو قسمت ہی پلٹ گئی۔ زندگی آسان ہوگئی ہے۔
مجھے بڑی حیرانی ہوئی کہ ایک وظیفے سے قسمت بدل گئی بھئی یہ کونسا وظیفہ ہے چلو چھوڑو۔مگر فائزہ کہا مانتی بتائے بغیر۔ عربی کے چند الفاظ بڑے ادب سے سنائے اور چہرے پر ہاتھ پھیر کر تین بار آمین آمین آمین کہا۔ بس یہ وظیفہ پڑھ لو شوہر آپ کے قدموں میں اور ہاں کسی اور کو بھی بتا دیں اگر کوئی پریشان ہو تو کسی کا بھلا ہو جائے اچھی بات ہے۔ میرا نمبر بھی لے لیا اور پھر فائزہ مسکراتی ہوئی گھر روانہ ہو گئی۔
ہفتے بعد ہی ایک انجان نمبر سے فون آیا۔ ریسو کرنے پر فائزہ نے سلام دعا کی اور زور زور سے روتے ہوئے کہنے لگی میں تو لوٹ گئی بر باد ہوگئی بس بہن میرا شوہر تو ہاتھ سے نکل گیا پتہ نہیں کیا کمی تھی مجھ میں جو دوسری شادی کر لی اللہ ہی سمجھے گا ایسی عورتوں کو جو شادی شدہ بچوں والے مردوں سے شادی کر لیتی ہیں۔ میں...
بن بُلائے مہمان ! بَلائے جان
بن بلائے مہمان وہ بھی چپک جانے والے ایک دو دن سے زیادہ برداشت نہیں ہوتے اور اگر زیادہ ہی رک جائیں تو سارے گھر کو ہی تکلیف اور نقصان پہنچاتے ہیں اور سارے ہی لوگ ان سے کنّی کترا کر گزرنے کی کوشش کرتے ہیں کہ یہ ہمارے ساتھ ہی نہ چپک جائیں۔
ایسا ہی معاملہ ہم لوگوں کے ساتھ ہوا ہے پہلے تو اس خطرناک اماں نے اپنی اولاد کو بھیج دیا وہ ملک ملک گھوما اور یہیں ڈیرا ڈال لیا۔نہ جانے کیا کیا تباہ و برباد کیا اور یہ حضرت انسان بے بس اور بے کس منہ چھپائے گھومتا رہا حتی کہ اپنے بیماروں مجبور پیاروں سے ملنے اور ان کی تیمارداری سے بھی محروم رہا کچھ وقت گزرنے کے بعد جب اس نے دیکھا کہ ماحول ٹھنڈا ہوگیا ہے لوگ سکون میں ہیں تقریبات عروج پر ہیں اسکول، مساجد اور پارک بھرے ہوئے ہیں تو اس نے ناک بھوں چڑھایا اور سوچا ! یہ میری اولاد تو ٹھنڈی ہوتی جا رہی ہے برسوں محنت کی ہے میں نے اس پر اسے اتنی جلدی ہار نہیں ماننا چاہیے۔ اب مجھے ہی کچھ کرنا ہوگا تو لیجئے جناب پورے جوش اور بھرپور شیطانیت کے ساتھ کرونا کی امی جان اُُمِ کرونا (امیکرون) تباہ حال لوگوں کو اور تباہ کرنے دنیا میں انسانوں پر آدھمکی۔
کتنے دور اندیش تھے وہ لوگ جنہوں نے چاند پر پلاٹ بک کروائے تھے گوگل سرچ کرکے دیکھتے ہیں، تب پتہ چلے گا کہ وہ لوگ کرونا سے بچنے کے لیے چاند پر پہنچ گئے یا اس سے بھی کہیں آگے عالم برزخ پہنچ گئے۔
ہمارے گھر میں تین افراد پر اٌمِ کرونا فدا ہوگئی ہیں ہماری امی جان، بھیا اور آپی پر۔ان تینوں نے قرنطینہ کے نام پر ایک ایک کمرے پر قبضہ جما لیا ہے ابّا جان تو امی کے کمرے کے دروازے کے قدموں میں ہی پلنگ ڈالے پڑے ہیں اور ہم نے لاؤنج میں صوفے پر ڈیرہ جما لیا ہے البتہ ماسی خوش نظر ارہی ہے کہ تینوں کمروں کی صفائی سے جان بخشی ہوئی ہے۔
ویڈیو کال اور فون کال پر ہی سب رشتے داروں نے مزاج پرسی اور تیمارداری کرکے اپنا فرض نبھایا کیونکہ ہم سب مجبور ہیں ایک ان دیکھے وائرس سے۔سلائی والی آنٹی نے جب نئے سلے ہوئے سوٹ ہمیں بھجوائے تو اس کے ساتھ سوٹ کے کپڑے کے ماسک بھی بنے ہوئے رکھے تھے۔ سلائی والی آنٹی کو فون کرنے پر پتہ چلا کہ یہی فیشن چل رہا ہے، انہوں نے ایک آفر بھی دی کے ہم فینسی ماسک بھی بناتے ہیں ستارے موتیوں اور کڑھائی والے ان کا بھی پیکج ہے جو پیکج آپ لینا پسند کریں۔
نہ جانے کتنے ابہام ذہن میں گردش کر رہے ہیں۔ابھی تو ہم ڈر کے مارے اس قابل بھی نہیں ہوئے کی واٹس ایپ یا فیس بک پر اپنا اسٹیٹس لگائیں۔
I am vaccinated
کیوں کہ ابھی تو ہم اکّڑ بکّڑ ہی کر رہے تھے کہ چائنا کی ویکسین لگوائیں، کینیڈا کی یا پاکستانی کے اچانک، اْمِ کرونا سے پہلے بوسٹر بھی آٹپکا۔سوچ رہے ہیں ڈائریکٹ بوسٹر ہی لگوا لیں۔
یہ بلائے ناگہانی ہے بس...
ٹک ٹاک ایک نشہ
ٹک ٹاک مختصر ویڈیو کی ایسی ایپ ہے جس میں وہی ویڈیو چلتی ہے جو ’’مختصر‘‘ ہو۔بس ایک ویڈیو وائرل ہونے کی دیر ہے پھر آپ ایک ہی رات میں ہیرو بن گئے۔گویاٹک ٹاک سوشل میڈیا کا ایک ایسا پلیٹ فارم ہے جس میں وہی ویڈیو وائرل ہوتی ہے جس میں سب کچھ’’ پلیٹ‘‘میں رکھ کر پیش کیا جائے۔بلکہ نوجوان نسل تو وائرل ہونے کے لئے ایسی اشیاء بھی ’’پیش‘‘ کر دیتی ہیں جن کا پیش نہیں ’’زیر‘‘میں ہونا ہی معیاری،مناسب اور اخلاقی ہوتا ہے۔مگرچائنہ والوں کو کون سمجھائے کہ جس لباس کو ہم پاکستانی اعلیٰ اخلاقی اقدار سے گرا ہوا سمجھتے ہیں ان کے ہاں وہ لباس اعلی اقدار کا حامل سمجھا جاتا ہے۔بلکہ یوں کہنا مناسب ہوگا کہ لباس کا صرف سرا ہی نظر آتا ہو تو اسے اخلاقی لباس سمجھا جاتا ہے۔چائنہ اور یورپ میں تو اسی کی زیبائش مناسب ہوتی ہے جس کی ’’نمائش ‘‘زیادہ ہو۔ ان کے سامنے تو بھاری بھر کم فراک،غرارہ و شرارہ زیب تن کر کے جائیں تو وہ حیران ششدر رہ جاتے ہیں کہ ان کا ناتواں جسم ایسا لباس ’’کیری‘‘ کرتاکیسے ہے۔شائد اسی وجہ سی چینی اور یورپی خواتین وہی لباس زیب تن کرتی ہیں جو ہمیں زیب نہ دیتا ہو۔
میں نے اپنے انتہائی معصوم و سادہ دوست شاہ جی سے ایک معصومانہ سوال کیا کہ مرشد ٹک ٹاک پر کیسے وائرل ہوا جاتا ہے۔شاہ جی نے شانِ بے نیازی (بے نیازی کو کسی نیازی سے نہ ملایا جائے )اور لاپروائی سے جواب دیا کہ فی زمانہ ٹک ٹاک ہی نہیں ہر جگہ وائرل ہونے کا ایک فارمولہ ہے۔میں نے متجسسانہ انداز میں پوچھا کہ مرشد وہ کیا۔فرمانے لگے۔’’جو دکھتی ہے وہ بکتی ہے‘‘یعنی جو دکھتا ہے وہی بکتا ہے۔شاہ جی کے جواب پر سوال در سوال ذہن میں کود آیا کہ کیا اس فارمولہ کا اطلاق صنف نازک(جسے میں ہمیشہ صنف آہن کہتا ہوں)پر ہی ہوتا ہے یا صنف معکوس بھی اس زد میں آتے ہیں۔کہنے لگے فارمولہ تو وہی ہے بس الفاظ کے چنائو کو بدلنا ہوگا،یعنی۔۔۔۔۔یعنی مرد حضرات کے لئے الفاظ بدل کر ایسے ہو جائیں گے کہ ’’جو بَکتا ہے وہ بِکتا ہے‘‘
چین نے جب ٹک ٹاک ایپ متعارف کروائی تو اس کا مقصد سیلیکون شہر میں بیٹھ کر ایسی مختصر مدتی ،مختصر ویڈیو،مختصر لباس میں بنا کر پیش کرنا تھاکہ جو اپلوڈ ہوتے ہی وائرل ہو جائے،اور ایسا ہی ہوتا تھا۔اس لئے ہماری نوجوان نسل بھی چین کے نقش پا پر اپنے قدم جمائے ویسی ہی مختصر ویڈیو بناتے ہیں جو وائرل ہو جائے۔مجھے حیرت یہ نہیں کہ آج کی نسل سستی شہرت کے لئے ایسا کیوں کرتی ہے۔پریشانی یہ ہے کہ انہیں شہرت مل بھی جاتی ہے۔اب تو ٹک ٹاک بھی ایک حمام سا ہی دکھائی دیتا ہے ،وہ جس کے بارے میں اکثر سیاستدان بیان بازی کیا کرتے ہیں کہ اس حمام میں سبھی ننگے ہیں۔اب تو ٹک ٹاک دیکھ کر بھی لگتا ہے کہ اس حمام میں بھی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ویڈیو وائرل ہونے کے بارے میں ایک دوست کی بات یاد آگئی ،اس نے ایک دن مجھ سے پوچھا کہ یار ابھی تک...
زمانہ بدل رہا ہے مگر۔۔۔۔۔۔۔
ملکی سیاسی حالات و اقعات کو دیکھتے ہوئے لگتا ہے کہ زمانہ بدل رہا ہے۔ملکی معاشی حالات ،خاص کر قیمتوں کی گرانی کو دیکھ کر تو یہی لگتا ہے کہ اتنا جلدی تو گرگٹ رنگ نہیں بدلتا جس قدر عصر حاضر میں تبدیلیاں رونما ہو رہی ہیں۔دور حاضر میں جس سرعت کے ساتھ پاکستان کے سیاسی و معاشی حالات میں تغیر وتبدل رونما ہو رہے ہیں ان کو دیکھتے ہوئے مجھے تو نہرو کے اس بیان کی صداقت برحق ہونے کا یقین ہوچلا کہ ’’میں اتنی دھوتیاں نہیں بدلتا جتنے پاکستان وزیراعظم بدلتا ہے‘‘۔موجودہ حالات کو دیکھتے ہوئے میں یہ کہہ سکتا ہوں کہ آج تک ہم نہ وزیراعظم بدلنے سے باز آئے اور نہ ہی ہندو بنئے دھوتیاں بدلنے۔ہم تو وہ قوم ہیں جو اپنے وزیر اعظم کے غبارے سے ہوا میں ہی ہوا نکال دیتے ہیں(میاں صاحب والا واقعہ)،پھر بھی ہم سے یہ گلہ ہے کہ ہم وفادار نہیں۔ہوا میں معلق ہونے کی بنا پر تاریخ میں دو شخصیات کو شہرت نصیب ہوئی،میاں صاحب اور سومنا ت کا مجسمہ۔ایک کو محمود غزنوی اور دوسرے کو مشرف نے شرف بخشتے ہوئے ہوا سے نیچے اتارا۔یہ الگ بات کہ دونوں نے ہوا سے اتارنے کے لئے انداز ایک سا ہی اپنایا۔
سب بدل رہا ہے،اور یہ تبدیلی اس قدر تیزی سے رونما ہو رہی ہے کہ حضرت انسان بھی اب تو ’’حضرت‘‘ہوتا چلا جا رہا ہے،حضرت یہاں پر اردو والا نہیں بلکہ پنجابی والا ہے۔کیونکہ معاملات میں یا تو پنجابی حضرت ہوتے ہیں یا پھر مولانا حضرتِ فضل الرحمٰن۔مولانا صاحب تو اتنے حضرت ہیں کہ اپنے ’’پیٹ اور ویٹ‘‘ کو بھی اللہ کا فضل ہی سمجھتے ہیں۔ویسے ان کے پیٹ اور ویٹ کو دیکھتے ہوئے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ وہ پاکستان کی بھی اتنا ہی خیال رکھتے ہیں جتنا کہ اپنے پیٹ اور ویٹ کا۔اسی لئے دونوں ان کے کنٹرول سے باہر ہوتے جا رہے ہیں۔
حضرت انسان تو بدل رہا ہے یقین جانئے کہانیوں کے کردار بھی اب پہلے سے نہیں رہے۔وہ بھی حضرت انسان کی طرح چالاک و چوبند ہوتے جا رہے ہیں۔اب کوے ارو لومڑی کی کہانی کو ہی لے لیجئے جس میں کوے کے منہ میں گوشت کا ٹکڑا دیکھ کر لومڑی کوے کے خوش گلو ہونے پر عرض کرتی ہے کہ اے کوے میاں کوئی گانا تو سنائو۔جس پر کوا کائیں کائیں کرتا ہے ، اس کے منہ سے گوشت کا ٹکڑا گرتا ہے،لومڑی اسے اٹھاتی ہے اور اپنی راہ لیتی ہے۔وہی کہانی اب بدل کر ایسے ہو گئی ہے کہ یونہی لومڑی کوے کی خوش الحانی کی تعریف و توصیف میں عرض کرتی ہے کہ کوے میاں اپنی پیاری سی آواز میں کوئی ملکہ ترنم نورجہاں کا پر ترنم گانا تو سنائو۔اب کہانی کے مطابق کوے کو بھی ’’میاں صاحبان‘‘کی طرح فورا گانا شروع کر دینا چاہئے مگر نہیں اب ایسا نہیں ،میں نے کہا نا کہ زمانہ بدل گیا تو کہانیوں کے کرداروں میں بھی تبدیلی رونما ہو چکی ہے۔اب کوے لومڑی کے منہ سے اپنی تعریف سنتے ہی ،اپنے منہ والا گوشت کا ٹکڑا کھاتا ہے،زبان سے اپنی چونچ صاف کرتے...