ٹارگٹ

ریلوے پھاٹک بند تھا۔ مسافر ٹرین کے گزرنے کا وقت ہورہا تھا۔ سڑک کے دونوں اطراف میں ٹریفک کا ہجوم جمع ہورہا تھا۔ اس ہجوم میں تنویر بھی شامل تھا۔ وہ اپنی موٹر بائیک پر سوار تھا۔ کل شام وہ اپنے والدین سے ملنے گاؤں پہنچا تھااور آج وہ اپنے کام پر واپس لوٹ رہا تھا۔ چند عجلت پسند لوگ پھاٹک کے اطراف میں سے نکلنے کی کوشش کررہے تھے۔ اس خطرے سے غافل کہ ان کی ذراسی بے احتیاطی جان لیوا بھی ثابت ہوسکتی تھی۔ تنویر دوسرے لوگوں کے ہمراہ انتظار کی کیفیت میں اپنے گرد و پیش کے مناظر دیکھ رہا تھا کہ ایک آواز اس کے کانوں سے ٹکرائی۔ ’’بھائی صاحب۔۔۔ کیا آپ میری مدد کریں گے۔۔۔‘‘ تنویر نے چونک کر اس کی طرف دیکھا۔ دیکھنے میں وہ ایک سلجھا ہوا نوجوان نظر آتا تھا۔
’’میرا نام رفیق ہے۔ میں ایک مسافر ہوں۔ لیکن یہاں کوئی مسافر گاڑی موجود نہیں ہے۔ آپ اگلے اسٹاپ تک مجھے اپنے ساتھ لے لیجیے۔ آپ کی عنایت ہوگی‘‘ اس سے پہلے کہ تنویر اس سے کوئی سوال پوچھے اس نے خود ہی تمام سوالات کے جوابات دے دیے تھے۔ تنویر جانتا تھا کہ اگلا اسٹاپ تقریباً دس کلومیٹر دور ہے۔ اس نوجوان کا انداز ایسا تھا کہ تنویر اسے انکار نہ کرپایا۔ بس آنکھ کے اشارے سے تنویر نے اسے اپنے پیچھے بیٹھنے کی اجازت دے دی تھی۔ بیٹھتے ہوئے رفیق اک خاص انداز میں مسکرایا تھا کہ جیسے بات بن گئی ہو۔ پھر ٹرین شور مچاتے ہوئے آئی اور چھک۔۔۔ چھک کرتے سامنے سے گزرگئی۔ اب پھاٹک کھل چکا تھا۔ ٹریفک پھر سے رواں دواں ہوچکی تھی۔ تنویر نے بھی اپنی موٹر بائیک آگے بڑھادی تھی۔ ابھی تین کلومیٹر کا سفر طے ہوا تھا کہ تنویر کو اپنی کمر میں کچھ چبھنے کا احساس ہوا۔ تنویر فوراً سمجھ گیا تھا کہ یہ چبھن کس چیز کی ہے لیکن تنویر گھبرایا نہیں۔ اس وقت موٹر بائیک اسی کلومیٹر فی گھنٹہ کی ر فتار سے سفر کررہی تھی۔ ارد گرد کا علاقہ اجاڑ و سنسان تھا۔ پھر رفیق نے سانپ جیسی پھنکار کی آواز میں تنویر کے کان میں سرگوشی کی۔
’’موٹربائیک روکو۔۔۔ ورنہ گولی ماردوں گا ۔۔۔‘‘ اس نے ریوالور کی نالی تنویر کی کمر سے لگا رکھی تھی۔ رفیق ایک عادی چور تھا لیکن اس کا طریقہ کار عام چوروں سے بہت مختلف تھا۔ وہ صرف اور صرف موٹرسائیکلیں چراتا تھا اور پھر چور بازار میں ان کا ایک ایک پرزہ مہنگے داموں بیچ دیتا تھا۔ چور بازار کے چند دکان دار اس کے واقف تھے۔ موٹرسائیکلیں چھیننے کی ان وارداتوں میں اس نے جانے کتنے لوگوں کو زخمی کیا تھا۔ موٹرسائیکل کا مالک اس کا پیچھا نہ کرے اس لیے وہ مالک کی ٹانگ میں ایک گولی کا تحفہ ضرور دیتا تھا۔ اور آج تنویر اس کا بہت آسان شکار تھا۔ ایسا رفیق سوچ رہا تھا۔ پھر رفیق حیران رہ گیا۔ اس کی وجہ دو باتیں تھیں۔ ایک تو تنویر نے موٹربائیک روکی نہیں تھی اور دوسرے وہ مسکرا رہا تھا۔
’’میں نے کہا فوراً بائیک روکو ورنہ گولی مار دوں گا‘‘ رفیق نے دوبارہ دھمکی تھی تھی۔
’’تو روکا کس نے ہے مارو گولی۔۔۔ موٹر سائیکل کی رفتار بہت زیادہ ہے ۔ میں مروں گا تو بچو گے تم بھی نہیں۔۔۔ یہ بات تو طے ہے۔۔۔‘‘اب رفیق کو احساس ہواکہ وہ بہت بری طرح پھنس چکا ہے۔ اگر تنویر کو کچھ ہوجاتا تو حادثہ ہوجاتا اور اس حادثہ میں رفیق کا زخمی ہونا یا پھر مر جانا سامنے کی بات تھی۔
’’سوچ کیا رہے ہو۔۔۔ ہتھیار جیب میں رکھ لو کسی اچھی سی جگہ پر رک کر بات کرتے ہیں۔ ‘ تنویر نے اسے بات کرنے کی پیشکش کی تھی۔ اس پیشکش میں دم تھا۔ موٹربائیک ہاتھ نہ بھی لگتی جان بچنے کا امکان تھا۔ پھر کچھ سوچ کر رفیق خوف زدہ ہوگیا۔ وہ اس علاقے کے چپے چپے سے واقف تھا۔ آگے نہر پر پولیس کی چیک پوسٹ تھی۔ وہاں اکثر موٹرسائیکل سواروں کی چیکنگ ہوتی تھی۔ اگر وہاں پہنچ کر بات کھل گئی تو کیا ہوگااور اگر وہ اسلحہ سمیت گرفتار ہوگیا تو کیا ہوگا۔ بہت سارے صدمات نے اسے ایک ساتھ گھیر لیا تھا۔ تنویر بہت مہارت کے ساتھ ڈرائیونگ کررہا تھا۔ بچنے کا کوئی امکان نہیں تھا۔ پھر رفیق نے اپنے ہتھیار سڑک کنارے اگی ہوئی جھاڑیوں میں پھینک دیا۔ یہاں سے ہتھیار واپس لینے کی صورت باقی رہتی۔ اب چیک پوسٹ کے آثار نظر آنے لگے تھے۔ لیکن تنویر نے موٹر بائیک کی رفتار آہستہ نہیں کی تھی۔ اب سڑک کنارے پولیس ٹیم نظر آنے لگی تھی۔ سڑک کا نصف حصہ آمد و رفت کے لیے کھلا تھا۔ موٹربائیک اسی کلومیٹر فی گھنٹہ کی رفتار سے پولیس والوں کے پاس سے شوں کرکے گزری تھی اور پھر رفیق دھک سے رہ گیا۔ جبکہ تنویر کی مسکراہٹ اور زیادہ گہری ہوگئی تھی۔ پولیس ٹیم نے ایڑھیاں بجا کر تنویر کو سلامی دی تھی۔ ’’کک۔۔۔ کک۔۔۔کون ہو تم۔۔۔‘‘ رفیق حد سے زیادہ خوف زدہ ہو چکا تھا۔
’’میں بھی اک پولیس آفیسر ہوں۔۔۔‘ اب کی بار تنویر ہنس پڑا تھا۔
’’اب ۔۔۔ اب ہم کہاں جا رہے ہیں۔۔۔‘‘ خوف سے رفیق کی آنکھیں پھیل گئی تھیں۔
’’تم بتاؤ۔۔۔ مجرم کی جگہ کہاں ہوتی ہے؟ ‘‘ سوالیہ انداز میں تنویر نے اپنی بات ادھوری چھوڑ دی تھی۔ پھر وہ ہواجس کی تنویر کو بھی امید نہیں تھی۔ رفیق نے چلتی بائیک سے چھلانگ لگا دی تھی۔ اس کا جسم رول کرتاہوا سڑک کے ساتھ نشیب میں جا گرا تھا۔ اب تنویر نے بائیک کی رفتار آہستہ کی اور یوٹرن لیا۔ وہ رفیق کو اس حال میں کبھی چھوڑ نہیں سکتا تھا۔رفیق نشیب میں بے ہوش پڑ اتھا۔ پھر تنویر نے امداد کے لیے متعلقہ ادارے کو فون کردیا۔
جب رفیق کو ہوش آیا تو وہ ہسپتال میں موجود تھا۔ چند لمحوں تک وہ ساکت لیٹا چھت کو گھورتا رہا۔ پھر اسے سب کچھ یاد آگیا۔ وہ ایک جھٹکے سے اٹھ بیٹھا۔ خوش قسمتی سے اس کے جسم کی ہڈیاں سلامت رہی تھیں اور اسے کوئی گہری چوٹ بھی نہیں آئی تھی۔ اس نے اپنے ارد گرد دیکھا اور پھر شرم کے احساس سے اس کی آنکھیں جھک گئیں۔ اس کے ہاتھ میں ہتھکڑی تھی جو بیڈ کے ساتھ مقفل تھی اور دائیں طرف اس کی بوڑھی ماں اور اکلوتی بہن بیٹھی سوالیہ نظرں سے اس کی طرف دیکھ رہی تھیں۔ انہیں اب جا کر معلوم ہوا تھا کہ اس ماں کا بیٹا ‘ اس بہن کا بھائی اک چور ہے۔ آج رفیق تنویر کو بھی دیکھ رہا تھا۔ وہ اس وقت فل یونیفارم میں موجود تھا۔ نفرت سے رفیق نے اپنا چہرہ دوسری سمت میں پھیر لیا۔ جب ایک گم راہ انسان خود کو حق پر سمجھتا ہے تو یہ اس کے لیے بہت بدقسمتی والی بات ہوتی ہے۔ وہ اپنے موجودہ حالات کا ذمہ دار تنویر کو سمجھ رہا تھا۔ رفیق کی ماں تنویر سے کہہ رہی تھی ’’اے بیٹا۔۔۔ اب میں جان چکی ہوں کہ میرا بیٹا گناہ گار ہے۔ اس نے بہت سے لوگوں کے ساتھ ظلم کیا ہے۔ اسے ان مظالم کی سزا ملنی ہی چاہیے مگر بیٹا ہمارا یہ آخری سہارا ہے۔ اسے سزا ہو جائے گی۔۔۔ یہ جیل چلا جائے گا تو ہمارا کیا ہوگا۔ ہم ماں بیٹی تو دربدر کی ٹھوکریں کھانے پر مجبور ہوجائیں گے۔۔۔ ہماری حالت پر رحم کرو اور اسے معاف کر دو۔۔۔‘‘ اس ماں کی آنکھوں میں آنسو آگئے تھے۔
’’ماں جی۔۔۔ میں آپ کے درد کو سمجھ سکتا ہوں لیکن فرض اور قانون کے ہاتھوں میں مجبور ہوں۔ خود ہی سوچیے اگر مدد کے نام پر اسی طرح لوگوں کو لوٹنے کا سلسلہ جاری رہا تو کون کس کی مدد کرے گا۔۔۔‘‘ اس سوال کا جواب رفیق کی ماں کے پاس نہیں تھا۔
’’اور رہی بات سہارے کی ۔۔۔تو ہم سب کا ایک ہی سہارا ہے۔۔۔‘‘تنویر نے اوپر کی طرف انگلی اٹھادی تھی۔ تنویر کا کہنا درست تھا۔ اللہ تعالیٰ کی پاک ذات کے علاوہ کون ہے جو کسی کو سہارا دے۔ اب رفیق سانپ کی مانند پھنکار رہا تھا۔
’’انسپکٹر۔۔۔ وقت وقت کی بات ہے۔ وقت تمہارا تھا تو میں پکڑا گیا۔ لیکن وقت پھر آئے گا۔ میں واپس لوٹوں گا اور تمہیں ٹارگٹ کروں گا۔ میرا انتظار کرنا۔۔۔‘‘ بات ابھی رفیق کے منہ میں تھی کہ رفیق کی ماں نے اس کے منہ پر زور سے طمانچہ دے مارا۔
’’چور تو تم ہو ہی۔۔۔ اب خونی بننے کا بھی سوچ رہے ہو۔۔۔‘‘ تنویر کی طرف سے رفیق کی ماں نے اسے جواب دیا تھا۔
’’ماں جی ایسے لوگوں پر باتوں کا اثر نہیں ہوا۔ ایسے لوگوں کو راستے پر لانے کا راستہ کچھ اور ہوتا ہے۔۔۔‘‘ پھر وہ رفیق کی طرف پلٹا۔
’’میں تمہارا انتظار کروں گا۔۔۔‘‘ تنویر اتنی بات کہہ کر وارڈ میں سے باہر نکل گیا۔ اس کی ماں اور بہن تنویر کے پیچھے گئے تھے اور رفیق کو اس صدمے نے گھیر لیا تھا کہ اس کے زخمی ہونے اور گرفتار ہونے کا کوئی اثر اس کی ماں اور بہن پر نہیں ہوا تھا۔ رفیق کو کوئی گہری چوٹ تو نہیں آئی تھی مگر بائیک سے گرنے اور پھر سڑک پر لڑھکنے کی وجہ سے جسم کی جلد جگہ جگہ سے پھٹ گئی تھی اور پٹھوں پر بھی دباؤ آیا تھا۔ اگلے ایک ہفتے تک ہسپتال میں اس کا علاج ہوا۔ پھر اسے حوالات میں منتقل کر دیا گیا۔ پھر عدالت میں اس پر مقدمہ چلا۔ عدالت میں اُن لوگوں نے اس کے خلاف گواہی دی تھی جو اس سے مختلف حالات اور اوقات میں متاثر ہوئے تھے۔ایسے میں صرف ایک آدمی رفیق کی پیروی کرتا رہا تھا۔ وہ رفیق کا رشتہ دار تھا۔ پھر رفیق کو اس کے جرم کے مطابق قید کی سزا سنا دی گئی۔ اب رفیق کے روز و شب جیل کی قید‘ مصیبت اور مشقت میں گزررہے تھے۔ ایسے میں اسے اپنی ماں اور بہن کا خیال شدت سے ستاتا تھا۔انہیں سہارا کون دے گا۔ پھر یہ بات سوچ کر اس کے دل کو سکون مل جاتا کہ ان کا رشتہ دار اس مصیبت کی گھڑی میں ضرور انہیں سہارا دے گا۔ پھر اسے تنویر پرغصہ آنے لگتا۔ اس کے مطابق اس کے ایسے حالات کا ذمہ دار تنویر ہی تو تھا۔ اس نے پکا ارادہ کر لیا تھا کہ جیل میں سے نکلنے کے بعد وہ تنویر کو ضرور ٹارگٹ کرے گا ۔ وقت کا اپنا ایک نظام ہے۔ اچھا ہو یا بُرا یہ گزر ہی جاتا ہے اور پھر رفیق کو جیل کی قید سے رہائی مل گئی۔ اب وہ آزاد تھا لیکن قید کے دنوں میں اس کی ماں اور بہن اس سے ملاقات کے لیے نہیں آئے تھے۔وہ سمجھ سکتا تھا کہ اس کے لواحقین اس سے ناراض ہیں۔ اسے یقین تھا کہ اپنے گھر جا کر وہ اپنی ماں اور بہن کو منالے گا۔ لیکن اس سے پہلے اسے ایک اور کام کرنا تھا۔ اسے تنویر کو ٹارگٹ کرنا تھا۔ اس نے اپنے جرائم پیشہ دوستوں سے رابطہ کیا۔ یہاں سے اسے ہتھیار بھی مل گیا اور تنویر کے گھر کر پتہ بھی۔ اب وہ رات کے وقت تنویر کے گھر کے پاس چھپا تنویر کی واپسی کا انتظار کررہا تھا۔ ٹھیک ساڑھے آٹھ بجے اسے بہت کم روشنی میں تنویر آتا دکھائی دیا۔ اس وقت لوڈ شیڈنگ کی وجہ سے بجلی بند تھی۔جب تنویر پاس پہنچا تو رفیق نے ایک کے بعد ایک اس پر تین فائر داغ دیے۔ تنویر گر پڑا تھا۔ اندھیرے کا فائدہ اٹھا کررفیق فرار ہونے میں کامیاب ہوگیا۔ پہلے تو وہ اپنے جرائم پیشہ دوستوں کے پاس گیا۔ ہتھیار واپس کیا۔ اور اب وہ پیدل ہی اپنے گھر کی طرف روانہ ہوا۔ آج وہ بہت خوش تھا۔ وہ اپنے دشمن کو ٹارگٹ کرنے میں کامیاب ہوچکا تھا۔ ٹھیک ایک گھنٹے بعد وہ اپنے گھر کے سامنے کھڑا تھا۔ پھر وہ پریشان ہوگیا۔ گھر کے دروازے پر تالا لگا ہوا تھا۔ رات کے دس بج رہے تھے اور گھر پر تالا لگا تھا۔ بات تو پریشانی والی تھی۔ پھر رفیق نے پڑوسی کے دروازے پر دستک دی۔ پڑوسی باہر نکلا اور پھر رفیق کو دیکھ کر طنز سے بولا ’’آگئے تم۔۔۔ بچے تو والدین کا سہارا ہوتے ہیں۔ اور تم نے اپنی حرکات کی وجہ سے انہیں بے سہارا کر دیا۔ وہ تو بھلا ہو تمہارے اس رشتہ دار کا جس نے تمہاری ماں اور بہن کو دربدر کی ٹھوکریں کھانے سے بچا لیا۔ اب اس کی جان خطرے میں ہے۔ تمہاری ماں اور بہن اس کی خبر گیری کے لیے ہسپتال گئی ہیں۔۔۔‘‘ یہ خبر سن کر رفیق پریشان ہوگیا۔
’’میں جانتا تھا کہ میرا تایا زاد ہی اس مشکل وقت میں ہماری مدد کرے گا۔ لیکن اسے کیا ہوگیا۔۔۔‘‘ وہ سوچ میں گم ہسپتال کی طرف روانہ ہوگیا۔وہ ایمرجنسی کے قریب پہنچا ہی تھا کہ اس کے کانوں سے اپنی ماں اور بہن کے رونے کی آواز ٹکرائی۔ ان آوازوں میں بڑا درد تھا۔
’’میرا بچہ۔۔۔ ہائے میرا بچہ۔۔۔‘‘ اب رفیق کے لیے رکنا مشکل تھا۔ وہ دوڑ کر اپنی ماں کے قریب پہنچا۔
’’عاطف کو کیا ہوا۔۔۔‘‘ اس کے لہجے میں بے چینی تھی۔ ماں نے پلٹ کر اپنے بیٹے کی طرف دیکھا۔ تقریباً دو سال بعد ماں اور بیٹا آمنے سامنے آئے تھے۔ رفیق کا خیال تھا کہ ماں اسے اپنے سینے سے لگا لے گی۔ لیکن پھر جو ہوا وہ رفیق کی سمجھ سے بھی باہر تھا۔ ماں نے اس پر تھپڑوں کی بارش کر دی تھی۔ ساتھ ہی وہ رفیق کو بددعائیں دے رہی تھی۔
’’تیرا بیڑہ غرق ہوجائے۔ تو نے ہم سے ہمارا سہارا چھین لیا۔ ایک تو بیٹا ہے خبیث اور ایک وہ بیٹا ہے فرشتہ۔۔۔ جس نے ہماری آنکھوں میں موجود آنسوؤں کو مسکراہٹوں میں بدل دیا۔ جس نے تیری ماں کو اپنی ماں اور تیری بہن کو اپنی بہن سمجھ کر ایک فرماں بردار بیٹے اور بھائی کا فرض ادا کیا۔ اس پر تم نے جان لیوا حملہ کیا۔۔۔ ‘‘ رفیق دیوار سے جا لگا تھا۔ پھر آپریشن تھیٹر کا دروازہ کھلا۔ سٹریچر پر تنویر موجود تھا۔ یہ وہی تنویرتھا جس نے اپنی ڈیوٹی کے ساتھ ساتھ فرض اور پیار کے رشتوں کو بھی نبھایا تھا۔
’’ماں جی پریشان ہونے کی ضرورت نہیں ہے۔ ایک گولی جلد کو چیر کر نکل گئی تھی۔ اب کوئی خطرے والی بات نہیں ہے۔۔۔‘‘ انچارج ڈاکٹر رفیق کی ماں کو بتا رہا تھا۔ اس وقت تنویر ہوش میں تھا۔ اس کے ہونٹوں پر اب بھی مسکراہٹ موجود تھی۔ اک خاص قسم کی لہر رفیق کے وجود میں اٹھی تھی۔ پھر رفیق کی آنکھوں کے سامنے موجود منظر دھندلا گیا۔ اچانک ہی آنسوؤں کا ایک سیلاب رفیق کی آنکھوں میں موجزن ہوگیا تھا۔ پھر وہ تڑپ کر آگے بڑھا اور پھر تنویر کے قدموں کو تھام کر رونے لگا۔ یہ پچھتاوے کے آنسو تھے۔ یہ دکھ کے آنسو تھے۔ رفیق کو اس بات کا احساس ہوگیا تھا کہ اس کا راستہ غلط تھا۔
’’میں نے جرم کیا ہے۔۔۔ مجھے جیل بھیج دو۔۔۔ لیکن اب مجھے اس بات کی تسلی رہے گی کہ ایک نالائق بیٹا اگر جیل میں ہے تو دوسرا لائق بیٹا میری ماں کے پاس موجود ہے۔ ‘‘ رفیق روتے ہوئے کہہ رہا تھا۔ ایسے میں اس کے کانوں سے تنویر کی آواز ٹکرائی۔ وہ ماں سے کہہ رہا تھا۔ ’’دیکھا ماں جی۔۔۔ میں نا کہتا تھا کہ ایسے لوگوں کو راستے پر لانے کا راستہ کچھ اور ہے ۔۔۔پیار‘ اچھے سلوک اور محبت کے راستے پر چل کر ہی ہم ان اپنوں کو اپنے پاس لاسکتے ہیں۔۔۔‘‘ اب بات رفیق کی سمجھ میں آئی تھی۔ ایک ہی وقت میں وہ دونوں ایک دوسرے کو ٹارگٹ بنانے کی کوشش کررہے تھے۔ وہ علیحدہ بات تھی کہ تنویر اپنا ٹارگٹ حاصل کرنے میں کامیاب ہوچکا تھا۔

جواب چھوڑ دیں