“مصروف زندگی”

میری اس سے پہلی ملاقات لائبریری میں ہوئی، اس نے بتایا تھا کہ اسے یونیورسٹی کی جانب سے ملنے والی ایک سرگرمی کے سلسلے میں لائبریری کا رخ کرنا پڑا ہے، ورنہ اسے کتابوں سے بالکل بھی دلچسپی نہیں ہے، اس نے سر گرمی مکمل کرنے میں مجھ سے تعاون کرنے کی درخواست کی کیونکہ وہ ان کاموں سے نابلد تھا۔ اب وہ اکثر لائبریری آتا، صبح اخبار میں لگی سرخیوں کو پڑھ کر وہ حالت حاضرہ پر پہلے اپنی اور بعد میں میری رائے جانا کرتا تھا، پھر ایک روز اس نے مجھے بتایا کے اس نے باقاعدہ کتابوں کا مطالعہ کرنا شروع کریا ہے، ابتدا میں اس نے ناول کو پڑھنا شروع کیا، ہر ناول کے مکمل ہونے پر وہ مجھے اپنے الفاظ میں ناول کا خلاصہ بیان کرتا تھا، میں اکثر اس سے کہتا کے ناول نہ پڑھا کرو یہ ذہنوں میں سنہرے خواب دکھانے کے سوا کچھ بھی نہیں کرتے، تعلیم سے فراغت کے بعد مجھے نوکری کے سلسلے لاہور جانا پڑا،میں نے اس سے آخری ملاقات میں کہا کے اب دیکھتے ہیں کے تم میرے بعد مطالعہ کرنے کے شوق کو برقرار رکھ بھی پاتے ہو یا نہیں ، اس نے مجھ سے عہد کیا کے وہ مطالعہ کرنے کی عادت کو نہیں چھوڑے گا اور ہر کتاب کو پڑھنے کے بعد اس میں ایک گلاب کا پھول رکھ دیا کرے گا جو اس بات کی دلیل ہوگی کے وہ کتاب پڑھ چکا ہے، میں پانچ سالوں بعد لائبریری میں کھڑا ہوں، ادب، تاریخ، اسلام غرض شیلف میں رکھی تقریباً ہر کتاب میں رکھا سوکھا گلاب مجھے لمحے بھر میں ماضی میں لے گیا، مجھے خوشی محسوس ہورہی تھی کے میرے شوق کو دیکھتے ہوئے کسی اور نے بھی مطالعے کو اپنا شوق بنایا پر افسوس اس بات کا تھا کے اس پورے عرصے میں، میں خود ایک کتاب بھی نہیں پڑھ پایا تھا، اس مصروف زندگی میں کئی بار مجھے فرصت کے لمحات بھی میسر آئے تھے، مگر میں ان اوقات میں سوشل میڈیا استعمال کرنے کا عادی ہوچکا تھا۔

جواب چھوڑ دیں