انسان کی بقاء 

تمام سابقہ سماوی ادیان کو ختم کرکے اسلام کے سایہ میں آنے کا حکم اس بات کی دلیل ہے ،کہ سارے سماوی ادیان اپنا حقیقی وجود نہیں رکھتے۔ان کے پیروکاروں نے اپنے دینوں میں اپنی من مانی تحریفات کیں۔خدا وند کریم کے احکامات کو پسِ پشت ڈال کر خودسری کی،اور حفاظت کا صحیح حق ادا نہیں کیا۔اس کے بعد ضروری تھا ،کہ ایک ایسا دین انسانیت کو دیا جائے،جو تمام ادیان پر غالب ہو ،اور قیامت تک انسانوں کی رہنمائی کرے۔
اسلام کا شجر چودہ سوسال پہلے مکہ کی پاک سرزمین نمودار ہوااور پھلتا پھولتا پورے عالم کے انسانوں کے لیے شجر سایہ دار بن گیا۔اس کی آب یاری میں جہاں کہیں بھی کمی پائی گئی، وہاں کی انسانیت اس کے سایہ سے محروم رہی۔قرآن مجید کی سورہ مائدہ میں اللہ تعالی نے اسلام کے مکمل ہونے کا اعلان فرمایا، اس کے بعد کوئی گنجائش باقی نہیں رہتی، کہ کوئی کہے اسلام اس کی مکمل رہنمائی نہیں کرتا۔یہ بد اعتقادی ،اور تقدیر پر راسخ ایمان نہ ہونے کی من گھڑت دلیلوں کے سوا کچھ نہیں۔ایسا کبھی نہیں ہوا کہ تخلیق ،تخلیق کارسے آگے سے نکل کر اپنی مرضی سے اپنے مسائل کا مداوا کرے۔انسان تخلیق کردہ ہے،اس کے تمام تر انتظامات کا حل چاہے،طبقاتی ہوں،سماجی ہوں،معاشی ہوں ،معاشرتی ہوں یا نفسیاتی، ساری معلومات اسلام میں موجود ہیں۔
اسلامی ماحول کو نظرانداز کرکے کرہ ارض پر اپنی زندگی کو اچھی طرح نہیں گزار سکتے۔امراء ہوں، شرفا ء ہوں، مڈل کلاس ہوں یا غریب محنت کش ہوں، ہر ایک کی اسلامی تعلیمات سے دور ی کی حالتِ زار ناگفتہ بہ ہے۔آج جس معاشی ماڈ ل کو ہم دیکھتے ہیں ،وہ بنی نوع انسان کے لیے کسی طرح بھی سود مند نہیں۔اس بوسیدہ معاشی ماڈل میں اسلامی رسوخ کا شعور اجاگر کرنا ناگزیر ہے۔اسلامی تعلیم کی جدو جہد لازم ہے۔موجودہ دور میں جب کہ مہنگائی عالمی منڈی کے شانہ بشانہ چل رہی ہے،یورپی ممالک مالیاتی بحرانوں کے کچھار میں پھنستے جا رہے ہیں اور مشرقی ممالک عالمی اداروں کے مقروض ہو چکے ہیں،اس پُرآشوب دورمیں جہاں ہرشئے سٹے بازی، مہنگائی کے طوفان میں جکڑی ہوئی ہے۔ایسے تخلیقی نظامِ تعلیم میں خود کوشامل کیا جائے جس میں روحانیت ،اور دماغی سکون ہو۔ اسی روحانی ودماغی سکون کے حصول،اور اس پر فتن دور میں پیش آنے والے مسائل اور ان کے تدارک کی پیشن گوئی کرتے ہوئے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: حضرت معقل بن یساررضی اللہ عنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد نقل کرتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:’’ فتنوں کے زمانہ میں عبادت کا ثواب اتنا ہوگا،جتناکہ میری طرف ہجرت کا ثواب ہے۔‘‘ ( مشکوٰۃ حدیث نمبر (5156
برطانیہ کے بڑے ریاضی دان اور فلاسفر ’’برٹرنڈرسل نے کہا تھا‘‘ : ’’برائی کاخاتمہ صرف تبلیغ سے نہیں،بلکہ ایک خاص قسم کے منصفانہ معاشی نظام سے ہوسکتا ہے۔‘‘آج مسلم معاشروں میں معاشی نظام کی زبوں حالی اسلامی تعلیمات سے دوری کی وجہ سے ہے۔اور اس کی جڑوں کو غیرمنصفانہ دیمک لگ چکی ہے ۔ہائی کلا س طبقوں نے تعلیمی سطح اتنی اونچی ،اخراجات اس قدر وسیع کیے ہیں، کہ ان کی ساری زندگی،اور مستقبل کی آمدنی ،اسی سوچ وبچار،فکرمندی میں کھپ جاتی ہے۔ اسی بناپروہ تعلیمات اسلامی کو صرف رسمی سمجھتے ہیں،جس کی وجہ سے ایک اسلامی معاشرے کے خدوخال ،خال خال نظر آتے ہیں ،اور انسانیت تباہی کے دہانے پر پہنچ جاتی ہے۔یہ اسلامی تعلیمات سے دوری ہی ہے کہ فضول خرچی اور اصراف عام سی بات ہوگئی ہے۔شادی بیاہ کی رسموں میں جتنا پیسہ ضائع کیا جاتا ہے،اس پرماسوائے افسوس کے کیا کیاجا سکتا ہے ؟زندگی بے ترتیب اور غیر شرعی طریقوں سے گزارنے والوں نے کبھی غور نہیں کیا کہ زندگی کی ہر پل کم ہونی والی گھڑی کہاں اور کن لایعنی امور میں صر ف ہو رہی ہے۔
دین کی چھوٹی سی بات میں ایک عام اور دینی تعلیم سے نابلد آدمی بھی اپنی سوچ کے مطابق اختلاف کرتا نظر آتا ہے ۔وہ اسلامی تعلیم کو،غیرمعمولی تعلیم سمجھتاہی نہیں۔جب کہ انسانی بقاء کا واحد راستہ اسلام میں موجود ہے۔اس پر فتن دور میں صرف اہلِ ثروت لوگ ہی اپنے تمام مسائل کا حل اسلام کی تعلیم سے اخذ کرتے ہیں۔اور من جملہ تحفظ،عفت،افزائشِ نسل ،پاکدامنی،فقروفاقہ،شکوک وشبہات،کامل فلاح، کو اس گلوبائزیشن کے دور میں اسلامی نقطہ نظر سے حل کرتے ہیں۔اور دنیا میں کامیابی،اور آخرت میں فلاحِ دارین کے مستحق ٹھیرتے ہیں۔

جواب چھوڑ دیں