ریاض واشنگٹن پھر ایک ساتھ ؟

سعودی ولی عہد کا برطانیہ کے بعد امریکہ کا دورہ کافی چیلنجز لیے ہوئے ہے۔اگر چہ امریکی ایوان بالا نے چوالیس ووٹوں کے مقابلے چون ووٹوں سے یمن جنگ میں امریکی شمولیت روکنے کی قرارداد مسترد کردی ہے جس کے نتیجے میں ریاض کو یمن کی جنگی مہم میں امریکی حمایت حاصل رہے گی۔مگر دوسری طرف اوبامہ انتظامیہ کے دور میں ستمبر 2016میں پاس کیا گیا جاسٹا (Justice against sponsor of terrorism act)
قانون اب بھی شاہی خاندان کے لیے خطرے کی ایک تلوار ہے۔ اس قانون کے تحت نائن الیون سانحے سے متاثر ہونیوالے خاندان سعودیہ پر ہرجانوں کے دعوے دائر کرسکتے ہیں۔ فی الحال صدر ٹرمپ کو اس قانون کے استعمال کی جلدی نہیں۔وہ اطمینان سے سعودیہ کی بھاری سرمایہ کاری کو خوش آمدید کہہ رہے ہیں۔ سعودیہ کی اربوں ڈالر کی اسلحہ خریداری سے امریکن معیشت کی گراوٹ دور ہوگی اورنئے روزگار کے مواقع بھی پیدا ہونگے۔ سعودی بانڈز کے علاوہ اب شاہی خاندان سرکاری تیل گیس کمپنی آرامکو کے حصص کی عوامی پیشکش کو نیویارک کے تجارتی مرکز میں کھپانا چاہتے ہیں۔ آرامکو کے عوامی حصص کی خریداری کے لیے کئی ممالک نے دلچسپی ظاہر کی تھی جس میں روس بھی شامل تھا روس آرامکو میں اپنے پینشنر فنڈز کی براہ راست سرمایہ کاری کرنا چاہتا تھا مگر مبینہ طور سے شام تنازعے میں روس ایران مضبوط نیکسس سے ناراض ہوکر شاہی خاندان نے اب تین تجارتی مراکز کو شارٹ لسٹ کردیا ہے۔ لندن نیویارک اور ہانگ کانگ یعنی چین۔ یا تو ان تینوں میں سے ایک تجارتی مرکز میں حصص کھپائے جائیں گے یا ان میں سے دو یا تین کے کمبینیشن میں آرامکو سرمایہ کاری تقسیم کردی جائے گی۔ ایک تجویز یہ بھی ہے کہ آرامکو کے عوامی حصص سعودی اسٹاک ایکسچینج میں لگادیئے جائیں مگر یہ بھاری سرمایہ کاری مقامی اسٹاک ایکسچینج کو ڈبو بھی سکتی ہے اس لیے ابھی اِس آئیڈیے پر کام سست ہے۔ آرامکو کی کْل مالیت دو کھرب امریکی ڈالرز ہے اور سعودی , آرامکو کی امریکہ میں اتنی ہی مالیت کا تقاضہ کرہے ہیں جس پر امریکی سرمایہ کار مطمئین دکھائی نہیں دیتے۔ اس لیے اب آرامکو کی عوامی حصص کی پیشکش 2019تک موخر ہونے کے امکانات ہیں وگرنہ یہ ڈیل 2018کی آخری ششماہی میں مکمل ہوجانی تھی۔ امریکہ آمد سے قبل ولی عہد محمد بن سلمان نے عزم ظاہر کیا کہ اگر ایران ایٹمی طاقت حاصل کرے گا تو سعودیہ بھی ایسا ہی کرے گا دراصل یہ ایران ڈیل کے ضمن میں یورپی یونین پر دباؤ بنائے رکھنے کا طریقہ ہے کہ یورپ اور امریکہ متوازن رویہ رکھیں اور سعودی خدشات کو نظرانداز نہ کریں جیسا کہ صدر ٹرمپ نے پچھلے دنوں ایران ڈیل کے سقم دور کرنے کیلیے مزید کچھ وقت کی مہلت جاری کی ہے اگر ایران نے امریکی خدشات اور مطالبات پورے نہ کیے توامریکہ اس ڈیل سے نکل جائے گا دراصل ایرانی بڑھتا ہوا میزائل پروگرام ان خدشات کا باعث بنا ہے اور سعودی بھی اس پروگرام کو اپنے لیے خطرہ تصور کرتے ہیں اسی لیے اسلحہ ریس کی شدت میں اضافہ ہورہا ہے جو مشرق وسطی میں مزید افراتفری لائے گا۔ محمد بن سلمان اگرچہ اپنے کئی خدشات سے امریکہ میں نجات حاصل کررہے ہیں جیسے ایران جارحیت پر امریکی سخت رویہ یا قطر محاصرے پر امریکی حمایت۔ یا پھر یمن جنگ میں امریکی حمایت کاحصول۔ یہ تینوں پوائنٹس کامیابی سے بنانے کے بعد شاہ زادے محمد ایک پبلک ریلشنگ کاکام کرتے ہوئے بھی دکھائی دے رہے ہیں انہوں نے امریکی نشریاتی ادارے کو انٹرویو میں کہا کہ میں سمجھتاہوں کہ خواتین بالکل مردوں کی برابر سطح کی انسان ہیں اور انہیں انکے حقوق حاصل ہونے چاہییں۔ اسی طرح کے کئی اور اقدامات شاہزادہ نے اٹھائے ہیں جن کی وجہ سے ایک قدامت پسند معاشرے میں انقلابی تبدیلیاں رونما ہورہی ہیں اور وہ یہ سب امریکی عوام کو دکھانا بھی چاہتے ہیں تاکہ نائن الیون کے بعد جو عربوں کا تاثر امریکی عوام میں بنا ہے وہ زائل ہوسکے دراصل یہ کوشش یکطرفہ نہیں ہے۔ صدر ٹرمپ نے خود اس سلسلے میں پہل کی تھی حتی کہ شاہ زادہ محمد کی طرف سے کی گئی ہائی پروفائل گرفتاریوں کو بھی صدر ٹرمپ نے بھرپور اخلاقی حمایت دی تھی۔ جو دھچکا اوبامہ دور میں سعودی امریکی تعلقات کو پہنچا تھا اور اس کے نتیجے میں پہلی مرتبہ سعودی فرماں روا نے روس کا دورہ کیا تھا اب اس کے رنگ پھیکے پڑتے دکھائی دے رہے ہیں آثار یہی نظر آرہے ہیں کہ واشنگٹن ایک بار پھر ریاض کو رام کرلے گا ۔

جواب چھوڑ دیں