سوشل میڈیا کا غلط استعمال

سوشل میڈیا ‘الیکٹرانک میڈیا اور پرنٹ میڈیا کی موجودہ دورمیں اہمیت وافادیت سے ہرشخص واقف ہے ۔ ایک وقت تھا جب اخبار کی چھپائی اور اس کی لوگوں تک رسائی ایک انتہائی مشکل مرحلہ ہوا کرتا تھا ۔ تاہم جیسے جیسے وقت گزرتا گیا ویسے ویسے اس میں جدت آتی گئی اور آج صورت حال یہ ہے کہ ایک بٹن دبائیں اور اپنی بات پوری دنیا تک پہنچا دیں۔ پرنٹ میڈیا کی ترقی کے بعدالیکٹرانک میڈیا کا دورآیا اور اس نے بھی کم ہی عرصے میں لوگوں کے دلوں میں اپنی جگہ بنالی ۔ جب الیکٹرانک میڈیا کو اپنی طاقت کا اندازہ ہوا تو اس نے کہیں کہیں اپنے مفادات کی خاطر اس کا غلط استعمال بھی شروع کردیا۔ جس کی دیکھا دیکھی میں ایک اور انقلابی دور آیا جس میں سوشل میڈیا نے نہ صرف پرنٹ میڈیا کو پیچھے چھوڑ دیا بلکہ الیکٹرانک میڈیا کو بھی اپنا محتاج بنالیا۔ سوشل میڈیا الیکٹرانک میڈیا کے غلط استعمال کے باعث وجود میںآیا تاہم اب یہ ہی سوشل میڈیا ہر اچھے اور برے لوگوں کی پہنچ میں ہے‘جو ہر غلط کام کو صحیح کرکے دنیا کو دکھانے پر تلے ہوئے ہیں اور اس آڑ میں اپنے مذموم مقاصد کو بھی حاصل کررہے ہیں۔
ذرائع ابلاغ کے کچھ اصول ہیں جیسا کہ اخبارات اورالیکٹرانک میڈیا میں کسی بھی خبر کی تشہیر سے قبل اسے کئی مراحل سے گزرنا پڑتا ہے جس میں پہلے خبر دینے والا کا قد کاٹھ دیکھا جاتا ‘پھر ایڈیٹر اس خبر کی اہمیت پر نیوز ایڈیٹر سے مشورہ کرتا تھا جس کے بعد اس کی تشہیر کا فیصلہ کیاجاتا تھا ‘ ذرائع ابلاغ کے اداروں میں آج بھی ایک ایڈیٹوریل بورڈ اس کام پر مامور ہے۔ تاہم سوشل میڈیا میں اس کے حوالے سے کوئی اصول نہیں۔جس کا جو دل چاہا اس نے لکھ دیااور شیئر کرکے اپنے مقاصد کو حاصل کرلیا۔
آج جہاں سوشل میڈیا بے نامی اورمن گھڑت خبروں کا گڑھ بنا ہوا ہے وہیں یہ سوشل میڈیا کئی حقیقت اور سچائی پر مبنی خبروں کی عکاسی بھی کرتا دکھائی دیتا ہے۔ لیکن بات پھر وہیں آجاتی ہے کہ اس میں کوئی چیک اینڈ بیلنس موجود نہیں۔ اس میں نہ یہ دیکھا جاتا ہے کہ خبر دینے والا کون ہے اور نہ کسی کو یہ معلوم ہے کہ اس خبر سے اس کی یا کسی اور کی زندگی یا پھر ملک کے امیج پر کیا اثرات مرتب ہوں گے۔ بس جو دل میں آیا لکھا اور شیئر کردیا‘جس سے معاشرے میں بہت سابگاڑ سامنے آرہا ہے۔
میں جس مسئلے پر سوشل میڈیا صارفین کی توجہ مبذول کراناچا ہتا ہوں وہ ایک انتہائی نازک معاملہ ہے ۔ چند روز سے سوشل میڈیا پر ایک خبر زیرگردش ہے کہ پولیو کے قطروں اور حفاظتی ٹیکوں سے بچوں کی جان جارہی ہے۔ لہٰذا شہری پولیوکے قطرے پلانے والوں سے بالکل تعاون نہ کریں اور انہیں اپنے بچوں کو قطرے نہ پلانے دیں۔ ساتھ ہی حفاظتی ٹیکوں سے متعلق بھی یہ ہی من گھڑت کہانیاں بناکر سوشل میڈیا پر پھیلائی جارہی ہیں‘ جس کا یہ ردعمل نکلا ہے کہ اب گھرگھر جانے والی پولیو ٹیم سے بہت کم لوگ تعاؤن کررہے ہیں اور اپنے بچوں کو قطرے پلانے سے انکاری ہیں‘ ان تمام خاندانوں کا ایک ہی جواب سامنے آتا ہے کہ فیس بک پرویڈیو میں دیکھا ہے کہ پولیو کے قطرے پینے سے بچے مررہے ہیں اور حفاظتی ٹیکوں سے بچوں میں بیماریاں پھیل رہی ہیں۔ یہ سب باتیں اور ویڈیوز من گھڑت اور ایک سازش کے تحت پھیلائی جارہی ہیں ان لوگوں کومقصدصرف یہ ہے کہ پاکستان سے پولیو ختم نہ ہو اور پاکستان میں بچے موذی امراض سے مرتے رہیں۔
پاکستان میں 2010میں پولیو کے 144کیس سامنے آئے۔ جس کے بعد متعلقہ اداروں اور پولیو ورکرز کی انتھک محنت کے بعد 2017میں اس کی تعدادگھٹ کر صرف 8رہ گئی ہے ‘2017میں پنجاب میں ایک کیس ‘سندھ میں 2‘خیبر پختونخوا 1‘بلوچستان 3اورگلگت بلتستان میں ایک کیس سامنے آیا۔جب کہ فاٹا اور آزاد کشمیر میں 2017ء پولیو ورکرز کی انتھک محنت کے بعد کوئی کیس سامنے نہیں آیااور یہ سب عوام کے تعاون سے ممکن ہوا۔
پولیو کے حوالے سے دنیا کے جیداور ممتاز عالم دین کے فتوؤں کے باوجود آج بھی کئی گھرانے ایسے ہیں جو اپنے بچوں کو پولیوکے قطرے پلانے سے انکاری ہیں۔ ان کی اس طرح ذہن سازی کی گئی ہے کہ وہ اسے نسل کشی کی دوا سمجھ بیٹھے ہیں اور یہ سب سوشل میڈیا کے ذریعے ہوا ہے۔ اس میں کسی حدتک قصور الیکٹرانک میڈیا اورسائبر کرائم ڈپارٹمنٹ کابھی ہے جو ایسی من گھڑت خبروں کو نوٹس میں نہیں لاتا اور نہ ہی اس حوالے سے عوام میں شعور فراہم کرتا ہے۔ بھارت ہم سے آبادی میں کئی گنا بڑاملک ہے اور وہاں2011ء سے اب تک کوئی پولیو کیس سامنے نہیں آیا جس کے بعد اسے پولیو فری ممالک میں شامل کردیاگیا ہے ۔ اس وقت دنیا میں صرف 3ممالک ایسے ہیں جہاں یہ موذی بیماری موجود ہے جس میں نائجیریا‘ افغانستان اور پاکستان شامل ہے۔ پاکستان میں پولیو کاخاتمہ نہ ہونے کی ایک بڑی وجہ افغانستان سے آنے والے مہاجرین بھی ہیں جو اپنے بچوں کو پولیو کے قطرے پلانے سے گریز کرتے ہیں۔ جس کی وجہ سے آج تک پاکستان اس موذی بیماری سے پاک نہیں ہوسکا۔
پولیو ایک خطرناک وائر س ہے جو ایک بار اس کا شکار ہوجاتا ہے وہ ساری زندگی کے لیے اپاہج ہوجاتا ہے ۔ ہم اپنی کم عقلی اور پروپیگنڈے کے سامنے سر خم کرلیتے ہیں مگر اس کا نقصان ہماری آنے والی نسلوں کو ہوگاجس کا ہمیں آج بالکل بھی اندازہ نہیں۔ حکومتی ادارے دوست ممالک کے تعاون سے جہاں اس موذی بیمار ی کے خاتمے کے لیے کوشا ں ہے وہیں معاشرے کے کچھ ناسور اس مہم کو ہمیشہ ناکام بنانے پر تلے نظرآتے ہیں ہمیں ان کی باتوں پر دھیان نہیں دینا چاہیے۔ کیوں کہ اگر یہ پولیو ویکیسن نسل کشی یا پھر بچوں کی اموات کا سبب بن رہی ہوتی تو اس وقت ملک میں صرف انہیں کے بچے زندہ ہوتے جنہوں نے پولیو ویکسین اپنے بچوں کو نہیں پلائی۔ اور اگر یہ ویکسین نسل کشی کا سبب بن رہی ہوتی تو آج پاکستان میں آبادی جس تیزی سے پھیل رہی ہے وہ اس طرح نہ پھیلتی۔
میری سوشل میڈیا صارفین سے گزارش ہے کہ وہ ایسی خبروں ‘تصاویر اور ویڈیوزکو شیئر کرنے سے پہلے اس کی تصدیق کرلیں اور اگر آپ اس کی اسطاعت نہیں رکھتے تو پھر کم از کم ایسی من گھڑت خبروں کو پھیلانے کا باعث بھی نہ بنیں۔ میری حکومت اور قانون نافذ کرنے والے اداروں سے بھی یہ ہی گزارش ہے کہ وہ ایسی من گھڑت خبروں کا فوری نوٹس لے کر سازشی عناصر کے خلاف بھرپور کارروائی کا آغاز کریں تاکہ پاکستان جلد سے جلد پولیو جیسے مرض سے پاک ہوجائے۔

حصہ
mm
روزنامہ جسارت سے وابستہ ہونے کے ساتھ ساتھ مختلف بلاگز ویب سائٹس پر بلاگ ‘فیچرز اور تاریخی کہانیاں لکھتے ہیں۔ روزنامہ جسارت کے سنڈے میگزین میں بھی لکھ رہے ہیں۔ روزنامہ جناح کراچی میں بطور سندھ رنگ میگزین کے انچارج کے طورپر اپنی خدمات بھی انجام دے چکے ہیں۔ زیادہ تر معاشرتی مسائل پر لکھنے کا شوق ہے۔ اس کے علاوہ کراچی پریس کلب کے ممبر اورپاکستان فیڈرل کونسل آف کالمسٹ کے بھی ممبرہیں۔

جواب چھوڑ دیں