عوامی رد عمل

نواز شریف عوامی بندہ،عوام کی نبض پر جس کا ہاتھ،عوام کا نشہ،عوام کا مستقبل وغیرہ وغیرہ۔یہی وہ نواز شریف ہے۔جس کیلیے عوام کٹ مرنے کو تیار تھے،جس کے لیے ماؤں بہنوں نے اپنا زیور، روپیہ پیسہ سب کچھ پیش کر دیا تھا۔لوگ اس کی خاطر لڑنے کو مرنے کو تیار تھے۔لیکن ہر برتن اپنے ظرف کے مطابق ہی اپنے اندر کچھ سمو سکتا ہے اور نواز شریف کا ظرف کا پیمانہ چھلک گیا اور وہ عوام کی محبت کو ان کی کمزوری سمجھ بیٹھا۔وہ یہ نہیں سمجھ سکا کہ آج قرض اتارو ملک سنواروکے لیے جس عوام نے اپنا دھن اس پر نچھاور کیا ہے وہ اس کے لیے نہیں بلکہ اپنے ملک کے لیے کیا ہے۔یہ ملک ہے تو ہماری شناخت ہے،یہ ملک ہے تو ہم باعزت شہری ہیں۔یہ ملک ہے تو آج نواز شریف، نواز شریف ہے۔اور خاکم بدہن یہ ملک نہیں تو ہم بھی محض ایک ہجو م ہیں۔آج اسی نواز شریف کو جوتا پڑا کل جس نے اپنے کریڈٹ پہ ایٹمی دھماکہ کیا تھا۔نہیں بلکہ یہ اس نواز شریف کو جوتا پڑا جس نے ممتاز قادری کو رات کے اندھیرے میں پھانسی دی۔جس نے ختم نبوت کے قانون میں ترمیم کرنی چاہی۔یہ اس نواز شریف کو جو تا پڑا جس نے پاکستان کو اپنے ابا جی کی جاگیر سمجھ لیا تھا۔یہ اس نواز شریف کو جوتا پڑا۔جس نے عوام کے مال کو اپنے ابا جی کا مال سمجھ کر کھایا۔عوام اس نواز شریف کو سزا ہوتے دیکھنا چاہتے ہیں جس نے ان کا بھروسہ توڑا۔لوگ قانون کی پیچیدگیوں کو نہ سمجھتے ہیں نہ سمجھنا چاہتے ہیں وہ تو اپنے مجرم کی سزا چاہتے ہیں۔
اور جب یہ انتظار طویل ہونے لگتا ہے تو ان کے صبر کا پیمانہ لبریز ہونے لگا ہے۔اب چاہے خواجہ آصف ہاتھ لگے،اور اس کو سیاہی سے رنگا جائے یا احسن اقبال جن کو کچھ دن پہلے جوتا مارا گیا یا پھر نواز شریف۔سب کا عوامی مستقبل یہی ہے!عوامی عدالت کا فیصلہ یہ جوتا ہے۔جب ہم بے بس ہوجاتے ہیں توپھراپنی بے بسی اور جھنجلاہٹ کو دور کرنے کے لیے ایسی حرکت کر بیٹھتے ہیں جس سے سامنے والے کو ہماری اذیت کا اندازہ ہو جائے۔اور جب اذیت حد سے سوا ہو جائے توپھرآیندہ کیا ہوگا یا ہو سکتا ہے،دماغ یہ سوچنے سے قاصر ہو جاتا ہے۔صرف اپنی اذیت اور تکلیف کا ازالہ آ پ کی پہلی ترجیح رہتی ہے۔اب اس ازالے کے لیے کوئی کسی کی جان بھی لے لیتا ہے جیسے سلمان تاثیر کو اس اذیت کا خمیازہ بھگتنا پڑا جو انہوں نے اپنے بیان سے عوام کو دی۔اب مجھے ڈر ہے کہ مریم نواز شریف کے حالیہ بیان کے بعد ان کے ساتھ بھی کچھ اسی قسم کا عوامی ردعمل سامنے آ سکتا ہے۔مریم نواز اب ہوشیار باش۔۔۔۔کہ دوسرا جوتا شاید۔۔آپ کے لیے ہو۔کیونکہ یہ عوام کی جہالت نہیں ان کے جذبات و احساسات ہیں۔

جواب چھوڑ دیں