پاکستان میں نا قص تعلیمی اقدامات اور شرح خواندگی میں کمی

اکسویں صدی کے اس انفارمیشن ٹیکنا لو جی کے دور میں تعلیم کی ضرورت بہت اہمیت کی حامل ہے ۔تعلیم کے بغیر کسی قوم کی ترقی ممکن نہیں۔ تعلیم یافتہ قومیں ترقی کے میدان میں منہ بولتا ثبوت ہیں۔تعلیم انفرادی اور اجتماعی طور پر سب کے لئے ضروری ہے جو کہ کسی بھی قوم کو معاشی ترقی، معاشرتی استحکام اور فنی ترقی میں مدد دیتی ہے ۔
پاکستان میں اس وقت لاکھو ں کی تعداد میں تعلیمی ادارے قائم ہیں جس میں تین قسم کے تعلیمی نظام ہیں ۔ ایک سرکا ری تعلیم نظام ، دوسرا پرائیوٹ تعلیمی نظام اور تیسرا مدارس دینیہ کا نظام شامل ہے۔اور تینوں تعلیمی نظام سے تیار ہونے والے لوگوں کے ذہن، سوچ ، رویے ،فکر اور نظریات ایک دوسرے سے مختلف ہوتے ہیں۔پرائیوٹ تعلیمی اداروں میں زیادہ تر بر طانیہ اور امریکہ کے نصاب رائج ہیں۔ جبکہ سرکاری اداروں میں تعلیمی نظام انتہائی خراب ہے ۔ اور نا اہل اساتذہ کی بھرتیاں کی جارہی ہیں۔اساتذہ کی تربیت کے لئے کوئی موئثر اقدامات بھی نہیں کئے جاتے۔جوکہ شرح خواندگی میں رکاوٹ کا سبب بن رہی ہے۔اقوام متحدہ کے اعداد و شمار کے مطابق پاکستان میں دو کروڑ پچاس لاکھ بچے اسکول نہیں جا تے ۔ جس کی وجہ یا تو بھاری مقدار میں فیس کی وصولی ہے یا پھر تعلیمی اداروں کے قیام میں کمی ہے اسی وجہ سے غریب خاندان کے لوگ اپنے بچوں کو تعلیم کے بجائے کام کرنے کی طرف متوجہ کرتے ہیں ۔بے روزگاری اورمہنگائی بھی شرح خواندگی کے اضافے میں ایک بڑی رکاوٹ ہے ۔ وزارت تعلیم کی جانب سے جاری کردہ اعداد و شمار کے مطابق پاکستان کی شرح خواندگی 85% فیصد ہے۔مفت تعلیمی اداروں کمی وجہ سے 60سے 70 فیصد بچے پاکستان میں اسکول نہیں جاتے ۔کسی بھی قوم کا قیمتی سرمایہ اس قوم کے بچے ہوا کرتے ہیں ۔بچے بڑے ہوکرمستقبل کا معما ر بنتے ہیں۔ماں کی گود بچے کی پہلی درسگاہ ہوتی ہے ۔اسی درسگاہ سے وہ فرمانبرداری ، اخلاق حسنہ اور زندگی گزارنے کا سلیقہ سیکھتے ہیں ۔دیہی علاقوں میں تعلیم پر کوئی خاص توجہ نہیں دی جاتی اور نا ہی تعلیم کے فروغ کے لئے کوئی سیمینار یاپروگرامات کا انعقاد کیا جاتا ہے یہی وجہ ہے کہ زیادہ تر دیہات کے لوگ تعلیم کی اہمیت سے اجاگر نہیں ہوتے۔
جب تک ناقص تعلیمی پالیسیوں اور شرح خواندگی کے لئے کوئی مو ئثراقدامات نہیں کئے جائینگے تب تک شرح خواندگی میں اضافہ ناممکن ہے ۔سرکاری تعلیمی اداروں میں بجلی ،صاف پانی اور بیت الخلاء کی کوئی خاص سہولت موجود نہیں ہے اور نا ہی تعلیم کے حصول کے لئے کوئی سیمنار منعقد ہوتے ہیں جس کی وجہ سے زیادہ تر طلبہ و طالبات نویں اور دسویں جماعت کے بعد اپنی تعلیم کو روک دیتے ہیں ۔اور پرائیوٹ تعلیمی اداراے جہاں پر زیادہ تر آکسفرڈ اور کیمبرج کے نصاب رائج ہیں ۔ جس کو پڑھ کر بچوں میں مغربی رسم و رواج سمو جاتے ہیں ۔ پاکستان میں ایسے تعلیمی اداروں کی ضرورت ہے جو مغربی ممالک کی پاکستانی نظام تعلیم کے خلاف اس یلغار کے سامنے رکاوٹ کھڑی کرسکے ۔ناقص تعلیمی نظام کے پیش نظر حکومت پاکستان اور ارباب قتدارکو اس جانب توجہ کی اشد ضرورت ہے۔

حصہ
mm
محمد فیضان خان اردو یونیورسٹی کے طالب علم اور بلاگر ہیں

جواب چھوڑ دیں