گم شدہ بچے، غم زدہ باپ اورتڑپتی مائیں 

اسے چمن میں کھلے ڈیڑھ سال ہواتھامگروہ حسن ودلکشی کی ساری حدیں پھلانگ چکاتھا، اس کی خوشبوسے پوراگلستاں معطرتھا، شایداسی لئے وہ حسان کے نام سے موسوم ہوا۔لہلہاتااورمہکتاہواچمن کسی کوبھی اچھانہیں لگتااورچمن میں وہ پھول جوسب سے حسین ہووہ بھی ٹہنی پہ مسکراتااچھانہیں لگتا۔حسان بھی حسین تھا، وہ چمن کی بہارتھاسواسے اچک لیاگیا، اسے چمن سے جداکردیاگیا، 5فروری سے وہ لاپتہ ہے۔نامعلوم کہ وہ مرجھاگیا، اس کی پتیاں اورپنکھڑیاں بکھرچکیں ، وہ پاؤں تلے روندا گیایاپھرخاک میں ملادیاگیا، بہرکیف یہ توواضح ہوا کہ نکلتی کلیاں ، کھلتے پھول اورپھوٹتی کونپلیں مسل اورکچل دی جاتی ہیں ۔ام حسان کی گوداجڑگئی، ماں کی مامتاکو ترسادیاگیا،آنکھوں میں وحشت اوردل میں ویرانیاں ہیں ، آنکھوں سے اشکوں کے سیلاب رواں ہوئے مگرطوفاں اٹھائے بِناصحراکی نذرہوئے، اس ماں کی تڑپ دیکھی نہیں جاتی ،باپ ماراماراپھرتاہے ،نگاہیں متلاشی ہیں، دردرکی خاک چھان ماری، گھرگھرتلاش کیا، اپنوں اورغیروں سے پوچھ لیا، مسجدکے لاؤڈسپیکربھی چیخ چیخ کر دہائیاں دیتے رہے، ہواؤں اورفضاؤں نے اس صداوالتجاکوسنامگروہ ظالم اغواکاراس معصوم کولئے نجانے کس اندھیری کوٹھڑی میں جاچھپاکہ اس کے کان ان سسکتی ہوئی آوازوں سے ہم آہنگ نہ ہوسکے ، اس کادل اُس پتھرسے کہیں سخت نکلاکہ جس پتھرپرکمزورلاٹھی پڑی ، وہ پھٹااورچشمے پھوٹ پڑے ۔
بچہ اٹھاتے ہوئے اس کے ہاتھ ذرابھی نہ کانپے مگرماں باپ کارواں رواں کانپ اٹھا،دل تک لرزگیا، بے آب بسمل کی طرح تڑپ گئے، بچہ رویاہوگا، بلکاہوگامگراس ظالم کادل سنگ دل ثابت ہوا۔تلاش وبسیارکرتے ہوئے باپ غم زدہ اورماں ہوش وحواس سے عاری ہے، کسی کی موت پرلوگ صبرکرلیتے ہیں مگروہ توزندہ پربھی صبرنہیں کرپارہے، وہ لٹے پٹے یوں دکھائی دیتے ہیں جیسے ان کی متاعِ حیات لٹ گئی ہو، یہ سچ ہے کہ وہ لٹ چکے ہیں مگرخبرصرف انہیں ہے ، دنیاوالے تواس سے بے خبردنیاکی خبرمیں سرگرداں ہیں ۔
انہیں تسلی دوں توکیسے ؟ کہوں توکیا؟ الفاظ ڈھونڈتاہوں مگرالفاظ ملتے نہیں ، جملے جوڑتاہوں مگر ترکیب پاتے نہیں، زبان لڑکھڑاتی اورآوازکانپتی ہے ، جسم پرلرزہ طاری ہے ۔وجہ یہ نہیں کہ اس دکھ سے میں آشنانہیں بلکہ دکھ تویہ ہے کہ دکھ بانٹنے والاکوئی نہیں ، دردتویہ ہے کہ ہمدردکوئی نہیں ۔یہاں انسان نہیں انسانیت مرچکی ہے ، شیطان نہیں شیطانیت گھرکرچکی ہے ۔اس ناگفتہ بہ حالت میں فقط اسی صبرکی تلقین کروں گاجس صبرکادامن حضرت یعقوب ؑ نے تھاما، جوصبرسیدناابراہیم ؑ نے کیااور جس صبرسے اماں حاجرہ گزریں ۔
انہیں یہ کیسے بتاؤں کے جس ملک کے ایک بڑے صوبے میں قلیل عرصے میں 600بچے گم شدگی کااشتہاربنیں وہاں حسان کس کھیت کی مولی ہے ۔جن تھانوں میں صرف ایک سال میں 1134بچوں کے اغواکااندراج ہواور41بچے بازیاب نہ ہوسکیں وہاں اک حسان کوکون پوچھے ۔انہیں یہ کیسے باورکراؤں کہ یہ وہ لاغراورحدسے گرامعاشرہ ہے کہ جس معاشرے کاایک فرد100ماؤں کے لخت جگرہوس کی بھینٹ چڑھائے اورپھرٹکڑے ٹکڑے کرکے تیزاب میں ڈبوکرکہے کہ مجھے کوئی شرمندگی نہیں توپھروہاں حسان کی واپسی کیسے ممکن ہے ۔ان کے سامنے یہ حقیقت کیسے بیان کروں کہ کم سن بچے سمگل ہورہے ہیں ، ان کے اعضاء بے دردی سے کاٹے اوربیچے جارہے ہیں ، وحشی درندے انہیں اپنی ہوس کانشانہ بنارہے ہیں ۔یہ انکشاف کیسے کروں کہ جہاں بچوں کی مسخ شدہ دریدہ وبریدہ لاشیں ندی نالوں میں بہادی جائیں ، جہاں ماؤں کے جگرگوشوں کے جگرنکالے جارہے ہوں ، جہاں ماؤں کانورِ نظراندھی اوراندھیر راہوں سے لاوارث ،اوندھے منہ، بے جان لوتھڑے کی صورت میں ملے ، جہاں بچوں کواپاہج بناکرانہیں چوکوں اورچوراہوں پرتجوری بنادیاجائے، جہاں انسانوں کے جم غفیراورخفیہ کیمروں کی دیکھتی آنکھوں میں دھول جھونک کربچے غائب کردیے جائیں،جہاں اسپتالوں میں مسیحائی کے بجائے خودمسیحانومولودوں کودرندوں کے ہاتھ فروخت کرے ، جہاں معصوم کلیوں اورمہکتے پھولوں کومسلنے اورکچلنے کی رِیت پرانی ہو، وہاں اک حسان کوصحیح سالم ڈھونڈنابھوسے کے ڈھیرسے سوئی تلاش کرنے کے مترادف ہی توہے ۔
اس حقیقت کوتسلیم کرناہوگاکہ حسان شہاب ثاقب کی مانندٹوٹ کرتاریکیوں میں کہیں کھوگیا، اب وہ نظرآتاہے نہ اس کانشان ملتاہے ۔یہ حسان کاقصور ہے کہ اس نے اس بے درداوربے حس معاشرے کی گودمیں آنکھ کھولی ، ایسی حکمرانی میں جنم لیاکہ جس میں حکمرانوں پر صبح وشام پیسے کی ہوس اوراقتدارکی بھوک منڈلاتی رہتی ہے ، اسی لیے انہیں ان دوچیزوں کے سوا کچھ دکھائی نہیں دیتا۔ تم محافظوں کاگلہ کرتے ہوکہ وہ ٹال مٹول سے کام لیتے ہیں ، جن محافظوں کی فائلوں کے قبرستان پہلے سے ایسی شکایتوں سے بھرے پڑے ہوں وہاں مزیدایک فائل دفن کرنے کی گنجائش نہیں ہوتی ، ایسے میں وہ ٹال مٹول سے کام نہ لیں توکیا کریں ؟تم میڈیاپرحکمرانوں سے استدعاکرتے ہو،وہ ڈھونڈتے توہیں مگرایک دوسرے کے عیب اورخامیاں ، وہ بازیاب کرانے کی کوشش توکرتے ہیں مگرایک دوسرے سے کرسئ اقتدار۔
اے حسان کے بدنصیب والدنجم خان !تجھے بے حس معاشرے کی دانش مندانہ یہ بات سنائی نہیں دیتی کہ جس میں تجھے متنبہ کیاجارہاہے ماضی پہ آنسونہ بہامستقبل کی فکرکر، اس کامفہوم کچھ یوں ہے کہ بھاگتے چورکی لنگوٹی سنبھال، باقی بچوں کی فکرکراس لئے کہ چیلیں ابھی بھی سروں پرمنڈلارہی ہیں ، ایک کوڈھونڈنے کی چاہ میں ذراسی بھی غفلت کے نتیجے میں چیلیں آن کی آن میں دوسروں پربھی نہ جھپٹ پڑیں ۔سچ تویہ ہے کہ سینکڑوں بچے اغواہوئے،لاپتہ ہوئے اوراٹھالئے گئے، چپہ چپہ چھان ماراگیامگرانہیں آسمان کھاگیایازمین نگل گئی ، یہ توخودزمین وآسمان بھی نہیں جانتے ، ایسے میں تم کس چیزکاسراغ لگاتے پھرتے ہو؟

حصہ

جواب چھوڑ دیں