روئے زمین پر ہوا،پانی اور غذا کی طرح تعلیم بھی انسانی زندگی کے لئے بے حد اہم ہے۔تعلیم کے ذریعے انسان معاشرے میں سر اٹھا کر چلنے کے لائق ہوتا ہے۔اکتساب اور آموزش میں ماحول کو بڑی قدر کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔تعلیمی اداروں(اسکولس) کا طلبہ کی نفسیات پر بہت گہرا اثر مرتب ہوتا ہے۔طلبہ کی شخصیت کی تعمیر میٖں اسکول کا ماحول،اساتذہ کا رویہ اور نصاب تعلیم اہم کردار انجام دیتے ہیں۔ طلبہ میں اکتسابی صلاحیتوں کو پروان چڑھانے میں اسکول اور بالخصوص کمرۂ جماعت کا اکتسابی ماحول کلیدی اہمیت کا حامل ہوتا ہے۔بڑی حد تک طلبہ کی اکتسابی کامیابی کا دارومدار کمرۂ جماعت کے تعلیمی ماحول پر منحصر ہوتا ہے۔درس و تدریس کے جذبے سے سرشاراساتذہ،موثر اکتساب کے فروغ کے لئے کمرۂ جماعت کے اکتسابی ماحول کو اپنے تبحر علمی،تدریسی تجربات اور مہارتوں کے ذریعے پرکیف اور زندہ بنادیتے ہیں۔ اکثر اساتذہ اور ،ذمہ داران مدارس تعلیمی نصاب کی تکمیل کے تعاقب میں کمرۂ جماعت کے اکتسابی ماحول کو زندہ،دلچسپ اور تخلیقیت سے بھر پور بنانے میں بہت کم وقت صرف کرتے ہیں۔جس کی وجہ سے ایک کارآمد اور کامیاب اکتساب پروان چڑھنے سے قاصر رہتا ہے۔کمرۂ جماعت میں بہتر اور مثالی اکتسابی ماحول کی عدم موجودگی کے باعث طلبہ بے چینی ، اضطراب اور عدم دلچسپی کا شکار ہوجاتے ہیں جس کی وجہ سے ان کی اکتسابی صلاحیتیں ٹھٹھر کر رہ جاتی ہیں۔کمرۂ جماعت کے غیر آرام دہ، غیر فطر ی اور غیر اکتسابی ماحول کی وجہ سے طلبہ ذہنی دباؤ کا شکار ہوجاتے ہیں ۔ان میں اکتساب کی نمو و شرح گرنے لگتی ہے۔کمرۂ جماعت کا غیر اکتسابی ماحول طلبہ کی فطری صلاحیتوں کو پروان چڑھنے نہیں دیتا ۔کمرۂ جماعت کا غیر فطری ماحول طلبہ کی اکتسابی صلاحیتوں کی نمومیں تحدیدی کردار ادا کرتا ہے۔جب طلبہ کمرۂ جماعت کے ماحول کو غیر آرام دہ اور غیر دلچسپ محسوس کرنے لگتے ہیں تب انھیں اکتساب کی جانب گامزن رکھنے والا ان کا فطری تجسس ختم ہوجاتا ہے اور تحریک و رغبت کا جذبہ بھی سرد پڑجاتا ہے۔اپنے پیشے سے لگاؤ رکھنے والا استادسازگار اکتسابی ماحول کے زیر اثربہتر تدریسی مواد اور طلبہ کے درمیان ربط باہم پیدا کرتے ہوئے زندگی بھر جاری رہنے والے اکتساب کی بنیادیں استوار کرتے ہیں۔
تعلیمی شعبے کے سب سے بڑے شراکت دار (Stake Holder) طلبہ ہوتے ہیں۔لیکن تعلیمی شعبے میں سب سے زیادہ نظرانداز کئے جانے والے بھی طلبہ ہی ہیں۔ہمارے تعلیمی نظام میں طلبہ کے میلانات ،رجحانات ،مزاج اور تعلیمی و اکتسابی ضرورتوں کا کوئی خاص خیال نہیں رکھاجاتا۔شرارتی اور سست روطلبہ کے لئے ہمارے اسکولوں کا دامن نہایت ہی تنگ ہے بلکہ ہماراتعلیمی نظام ایسے طلبہ کو قبول کرنے تک کا متحمل نہیں ہے۔ہمارے اسکولوں کا ذہانت اور پھسڈی پن پر مبنی طلبہ کی تقسیم کا کلیہ نہایت ہی ظالمانہ معلوم ہوتا ہے۔پڑھنے لکھنے میں خاص طور پر ریاضی میں مہارت کے حامل طالب علم کو ذہین قرار دیا جاتا ہے جب کہ ریاضی کے برخلاف دیگر مضامین میں قابلیت کے حامل ،لکھنے پڑھنے میں کسی قدر کمزور طالب علم کو کند ذہن کہاجاتا ہے۔ذہانت کی تعریف کا یہ کلیہ اپنی تنگ نظری کے باعث ماہرین تعلیم کے نزدیک آج تکقبولیت کادرجہ حاصل نہیں کر سکا۔ہمارے اسکول اور کمرۂ جماعت کی تنظیم و ترتیب ایسی ہوتی ہے جہاں دل کش و پرکیف اکتساب اور موثر درس و تدریس بہت ہی مشکل ہے۔ موثر اکتساب کی فراہمی آج اساتذہ کی ترجیح اس لئے بھی نہیں رہی کہ طلبہ کی تعلیمی کارکردگی کا پیمانہ نمبر اور گریڈبن گئے ہیں۔اسکول اور کمرۂ جماعت کا ماحول موثر اکتساب اور تخلیقی جذبے کو پروان چڑھانے میں مانع ہے۔کمرۂ جماعت کا بھدا،بھونڈا اور بے رونق پیڑن (ترتیب ) پراثر و پر کیف تعلیمی ماحولپیدا کرنے میں یکسر ناکام ہوگیا ہے۔
اسکولز تعلیم و تربیت اور درس واکتساب کی فراہمی کے دعویدار ادارے ہیں اسی لئے ان پر بچوں کی ذمہ داری زیادہ عائد ہوتی ہے۔ بچوں کی تربیت ، ترسیل علم و اکتساب میں اسکول خاص طور پر کمرۂ جماعت کا بڑا عمل دخل ہوتاہے۔ا سکول کے لیے ضروری ہے کہ طلبہ کی اکتسابی صلاحیتوں کے فروغ میں معاون اکتسابی ماحول کو اپنے ادار ے اور ہر کمرۂ جماعت کا لازمی حصہ بنائیں۔ذمہ داران و منتظمین مدارس اسکول اور کمرۂ جماعت کے ماحول کو طلبہ کی فطرت سے ہم آہنگ کرنے کے اقدامات کریں۔اکتساب کی شرح ہر طالب علم میں کم اور زیادہ پائی جاتی ہے اور اکتساب کا راست تعلق ماحول ،اساتذہ اور تدریسی مواد سے جڑا ہوتا ہے۔غیرتعلیمی ماحول میں طلبہ اپنے اکتساب کو برقرار نہیں رکھ پاتے ۔طلبہ میں اکتساب کی برقراری کے لئے سب سے پہلے اسکول اور کمرۂ جماعت کے ماحول کو دلچسپ اور تخلیقی نوعیت کا بنانا ضروری ہوتا ہے۔ موثر کارآمد اور نتیجہ خیز اکتساب کے لئے کمرۂ جماعت کا ماحول طلبہ دوست ہونا چاہئے جہاں طلبہ بلا خوف و خطراپنے اکتساب کو پروان چڑھا سکیں۔ طلبہ مرکوز کمرۂ جماعت کی چند خصوصیات کو ذیل میں پیش کیا گیا ہے جو موثر اکتساب کے فروغ میں نہایت کارگرثابت ہوئی ہیں۔
(1 کمرۂ جماعت کا ماحول طلبہ میں اکتساب سے رغبت و تحریک پیدا کرنے کے ساتھ اکتساب کو دلچسپ اور پرکیف بنادیتا ہے۔طلبہ اکتسا ب سے لطف اندوز ہوتے ہیں۔
(2)کمرۂ جماعت کا ماحول طلبہ میں ایسی اکتسابی مہارتوں کے فروغ کا باعث بنتا ہے جس کے زیر اثر اکتساب (سیکھنا ) ان کے لئے آسان اور نہایت ہی مسرت انگیز عملبن جاتا ہے۔
(3) طلبہ مرکوزکمرۂ جماعت کا ماحول طلبہ کو اکتسابی (سیکھنے)وقت کی قدردانی کا خوگر بناتا ہے۔کمرۂ جماعت کا صحت مند تدریسی ماحول طلبہ کو اکستابی اوقات کونفع بخش اور کارآمد بنانے پر مائل کرتا ہے۔
(4)طلبہ مرکوز کمرۂ جماعت طلبہ میں اکتساب( سیکھنے) کا احساس پیدا کرتے ہوئے انھیں سخت محنت اور اطمینان بخش تجربات کی روشنی میں اکتساب کو جاری رکھنے کی ترغیب فراہم کرتا ہے۔
(5)طلبہ مرکوز کمرۂ جماعت طلبہ کو اپنے تدریسی مواد کو ایک دوسرے سے شیئرکر تے ہوئے اجتماعی اکتساب( مل جھل کر سیکھنے)کا جذبہ و تحریک پیدا کرتا ہے۔
(6) مرۂ جماعت کا ماحول کنٹرول نظم و ضبط کو فروغ دیتا ہے جس کی وجہ سے طلبہ میں احساس تحفظ و طمانیت کی کیفیت پروان چڑھتی ہے جس کی وجہ سے وہ دوران اکتساب آزادانہ طور پر سوال و جواب اور گفت و شنید کی روش اختیار کرنے لگتے ہیں۔
(7)کمرۂ جماعت کا ماحول طلبہ کو درس و اکتساب میں فعال شمولیت کا موقع فراہم کرنے علاوہ مقرر کردہ اہداف کی سمت پیش قدمی اور ان کے حصول کو یقینی بناتا ہے۔
طلبہ میں اکتساب و ان کی اکتسابی صلاحیتوں کو پروان چڑھانے کے لئے اساتذہ اپنا قیمتی وقت نکالیں ، منصوبہ بندی اور حکمت عملیاں وضع کریں تاکہ ایک جامع موثر اور جاندار کمرۂ جماعت کو وجود میں لاسکیں۔ذیل میں چند ایسی تدابیر بیان کی جارہی ہیں جنھیں اپنا کر اساتذ ہ کمرۂ جماعت میں درس و تدریس کے لئے ساز گار اور کمرۂ جماعت میں اکتساب کے لئے مددگار ماحول پیدا کرسکتے ہیں۔
(1)اساتذ ہ طلبہ سے ایسا تعلق رکھیں جو ان میں اعتماد کی فضا پیدا کرے اور ان کے حوصلوں کو جلادے۔اساتذہ کا یہ عمل طلبہ میں نہ صرف ان کی توقیر و عزت افزائی کا باعث بنے گا بلکہ وہ استاد کے درس اور پند
و نصائح کو کان لگاکر سنیں گے اور عمل کرنے پر مائل ہوں گے۔
(2)منصوبہ بندی، فیصلہ سازی اور پروگرامس پر عمل آوری میں تمام طلبہ کی فعال شرکت کو اساتذہ یقینی بنائیں۔طلبہ کی آرا و تجاویز کی قدردانی سے نہ صرف وہ گرم جوشی سے تعلیمی سرگرمیوں میں حصہ لیں گے بلکہ ان کے برتاؤ اور اخلاق میں خوش گوار تبدیلیاں واقع ہوں گی اور کمرۂ جماعت میں وہ تخلیقی اور اختراعی آرا کی پیش کش میں تذبذ ب کا شکار نہیں ہوں گے۔
(3)طلبہ کو ان کے بہتر اکتساب کے لئے شعوری طور پر غور و فکر کرنے اور اکتسابی صلاحیتوں کو مہمیزکرنے والی مہارتوں کو سیکھنے کا گر سکھائیں تاکہ طلبہ کمرۂ جماعت میں بہترین اکتسا ب و تعلیم کو حاصل کرسکیں۔
(4)دوران تدریس طلبہ کو ان کی تعلیمی ترقی کے مظاہرہ کا موقع فراہم کریں۔اساتذہ کی جانب سے دوران تدریس طلبہ کی تعلیمی و اکتسابی ترقی کے اظہار کے لئے فراہم کردہ موقعوں سے طلبہ نہ صرف اپنی ترقی اور تعلیمی حالت سے واقف رہتے ہیں بلکہ اعلیٰ اہداف کے تعین میں انھیں مدد بھی ملتی ہے۔
(5)طلبہ میں پائے جانے والے انفرادی اکتسابی تفاوت کو پیش نظر رکھتے ہوئے اساتذہ ایسے تدابیر اختیار کریں جو طلبہ کی اکتسابی ضرورتو ں کی تکمیل میں معاون ہونے کہ ساتھ لچکدار ہو ں اور مختلف النوع تعلیمی سرگرمیوں کی انجام دہی کو ممکنبنا سکیں۔ طلبہ میں پائے جانے والے انفرادی تفاوت و تعلیمی صلاحیتوں کے حساب سے ان کی اکتسابی ضرروتوں کی تکمیل کی جاسکے۔
(6)طلبہ کو ذہنی طور پر نظم و ضبط کا عادی بنائیں تاکہ ان کے برتاؤ اور رویوں سے شائشتہ اور مہذب پن ظاہر ہو۔سماجی اقدار کے فروغ کے باعث طلبہ دوسروں کی قدر اور فکرمندی کے عادی ہوجاتے ہیں۔طلبہ میں تفریق پیدا کرنے والے عوامل و عناصر سے پرہیز کریں۔صرف مسابقتی جذبے کے فروغ کے لئے بچوں میں صحت مند مسابقت کو رواج دیں تاکہ ان کے مظاہروں میں بہتری پیدا کی جاسکے۔
(7)طلبہ کے اکتسابی جذبے کو فروغ دینے کے لئے ان کو مختلف تعلیمی سرگرمیوں میں شریک ہونے پر ابھاریں۔طلبہ کو کمرۂ جماعت میں تدریسی سرگرمیوں کی انجا م دہی کے دوران ان کو اپنا تعاون تخلیقی انداز میں پیش کرنے کی ترغیب و تحریک کے ساتھ مناسب مواقع بھی فراہم کریں۔
(8)طلبہ کی نشستوں کو اس طرح ترتیب دیں کہ انھیں سیکھنے ،دیکھنے اور اپنا جواب و ردعمل پیش کرنے میں کوئی دقت نہ پیش آئے۔نشستوں کی ترتیب نہ صرف طلبہ کو آرام فراہم کرتی ہے بلکہ اکتساب کی نمو میں کلیدی کردار ادا کرتی ہے۔
(9)اساتذہ اپنے درس و تدریس اور منصوبہ سبق کو موثر اور دلچسپ بنائیں۔اساتذہ کی جانب سے استعمال کردہ طریقے تدریس اور تخلیقی و اختراعی تکنیک طلبہ میں اکتساب کے فروغ اور دلچسپی کی برقراری میں نہایت مددگار ثابت ہوتی ہے۔خشک اور طلبہ کو افتادگی کی جانب مائل کرنے والے طریقے تدریس سے اجتناب کی سخت ضرورت ہوتی ہے۔
(10)اساتذہ طلبہ کی ہر مثبت سرگرمی کی ستائش کرتے ہوئے ان میں تحریک و رغبت کو پیدا کرنے میں کامیابی حاصل کرتے ہیں۔طلبہ کی تعریف ستائش سے ان میں احساس طمانیت پیدا ہوتا ہے اور وہ اپنی اکتسابی سرگرمیوں کو اور تیز کردیتے ہیں۔ استاد کاطلبہ کے بارے میں اپنی فکر مندی کا اظہار بھی ان میں تحریک و جذبہ پیدا کرتا ہے۔
(11)ہر طالب علم کو مخصوص تعلیمی سرگرمیاں تفویض کرتے ہوئے ان کے تعلیمی و اکتسابی مظاہرے کو مہمیز کیا جاسکتا ہے۔طلبہ کی تعلیمی و اکتسابی سرگرمیوں کی خوبیوں اور خامیوں کی نشاندہی سے وہ اپنے نقائص پر قابو پانے میں کامیاب ہوتے ہیں اور اکتساب کے بہتر طریقے اختیارکرنے لگتے ہیں۔
(12)استاد کی جانب سے کسی بھی قسم کی جانب داری اور طرفداری کا اظہار نہیں ہونا چاہئے۔ اساتذہ اپنے برتاؤ اور رویوں سے طلبہ میں مساوات اور برابری کے جذبے کو فروغ دیں۔
(13) طلبہ میں ایک دوسری کی مدد اور اشتراک سے جذبہ اکتساب کو فروغ دینے کی اساتذہ کوشش کریں۔خود غرضی اور مفاد پرستی کی خرابیوں کو اجاگر کریں۔جذبہ اتحاد باہمی اور تعاون کے فروغ کے لیئے طلبہ کو راغب کریں۔اساتذہ طلبہ میں گروہی سرگرمیوں کے ذریعہ اجتماعی اور مشترکہ اکتسابی ماحول کو فروغ دیں۔
اساتذہ ہر پل یہ بات یاد رکھیں کہ دنیا تبدیلیوں کی زد میں ہے۔اگر نئی نسل تخلیقی صلاحیتوں سے عاری ہوگی تب دنیا اسے روند کر گزر جائے گئی۔زمانے میں عزت و وقار کے لئے طلبہ کو علم و ہنر سے آراستہ کرنا ضروری ہوتا ہے۔ ہر طالب علم کے اکتساب کی شرح دوسرے طالب علم سے مختلف اور جداگانہ ہوتی ہے۔طلبہ میں پائے جانے والے تفاوت و تفریق کا لحاظ کرتے ہوئے اساتذہ اور منتظمین مدارس تدریسی سرگرمیوں کی انجام دہی کو ممکن بنائیں۔ اساتذہ معاشرے کے فریم کو گزند پہنچائے بغیر طلبہ کو زندگی بسر کرنے کے گر سکھائیں۔ دنیا کے فریم ورک میں رہتے ہوئے ہی اپنی سرگرمیوں اور زندگی گزارنے کی تعلیم و تربیت نہ صرف طلبہ بلکہ معاشرے کے لئے سود مند ہوتی ہے۔ طلبہ کی شخصیت کی تعمیر اورمعاشرے کی تعمیر و ترقی میں یہ حکمت عملی و اصول نہایت کارگر تصور کیا جاتا ہے۔دنیا کے فریم ورک کے احترام سے معاشرہ بھی صحت مند خطوط پر گامزن رہتا ہے۔اساتذہ مروجہ نظام تعلیم کی قباحتوں اور خرابیوں پر نکتہ چینی کرنے کے بجائے طلبہ کی تخلیقی صلاحیتوں کے فروغ کے لئے اپنی صلاحیتوں کو بروئے کار لائیں۔وسائل کی کمی اور تنگی کا گلہ کرنے سے بہتر ہے کہ
شکوۂ ظلمت شب سے تو کہیں بہتر تھا اپنے حصے کی کوئی شمع جلاتے جاتے
بچوں کی نفسیات اس بات کی غماز ہے کہ بچے ماحول سے بہت جلد مانوس ہوجاتے ہیں۔ذمہ داران مدارس اور اساتذہ طلبہ کو کمرۂ جماعت میں ایسا ماحول فراہم کریں جو انھیں خود کار اکتساب پر ابھارے سوال کرنے کی جسارت و جذبہ پیدا کرے۔کمرۂ جماعت کا ماحول طلبہ کے جذبہ تجسس اور اکتساب کو مہمیز کرتا ہے۔اساتذہ جب طلبہ پر بندش لگاتے ہیں،روکنے ٹوکنے لگ جاتے ہیں،سوالات کرنے سے باز رکھتے ہیں تب طلبہ کی تخلیقی صلاحیتں ماند پڑنے لگتی ہے اور سیکھنے کا جذبہ بھی کمرۂ جماعت کے غیر موافق ماحول کی وجہ سے دم توڑنے لگتا ہے۔طلبہ کی صلاحیتوں کے فروغ کے لئے انھیں موافق ماحول فراہم کرنا بے حد ضروری ہوتا ہے۔طلبہ کو ایسا اکتسابی و تعلیمی ماحول فراہم کیا جائے جس کے زیر اثر ان کی اکتسابی اور تخلیقی صلاحیتں جلا پا سکے۔اساتذہ کمرۂ جماعت میں طلبہ کو ایسی سرگرمیوں میں مصروف کریں جس کے ذریعہ نہ صرف خود کار اکتساب کی راہ ہموار ہو بلکہ ان کا تخلیقی ذہن بھی ترقی کرپائے۔والدین اور اساتذہ بچوں میں مطالعہ اور کام سے لگن پیدا کرنے کی سعی و جستجو کریں۔اسکول کے علاوہ گھر کاعمدہ ماحول بچوں کی ذہنی صلاحیتوں کو پروان چڑھانے میں کلیدی کردارانجام دیتا ہے۔ اسکول اور گھر بچوں کے منفی رویوں کو مثبت رویوں میں تبدیل کرنے والا صحت مند ماحول فراہم کریں۔اساتذہ والدین اور ذمہ داران مدارس و محکمہ تعلیم کے ارباب مجاز پر تعلیمی ماحول کی تبدیلی پر انحصار کرنے کے بجائے طلبہ کی اکتسابی وتخلیقی صلاحیتوں کو پروان چڑھانے کے لئے اپنے سے جو کچھ ہوسکتا ہے کریں۔کوئی دقیقہ فروگزاشت نہ رکھیں ۔ کمرۂ جماعت میں نصاب ،درسی کتب اور امتحانات کو طلبہ کی تعلیمی تقاضوں کے مطابق ہم آہنگ بنائیں اور اس میں لچک و ندرت پیدا کریں۔اساتذہ کمرۂ جماعت میں ایسا اکتسابی ماحول پیدا کریں جوطلبہ کی فطرت سے مطابقت رکھتا ہو۔ان کی اکستابی صلاحیتوں کو پروان چڑھا سکتا ہوں ۔ طلبہ کی مختلف ذہنی صلاحیتوں کے فروغ میں معاون ہو اورطلبہ کی تعلیمی ضرویات کی تکمیل کا متحمل ہو۔اساتذہ کمرۂ جماعت میں اکتساب کے فروغ اور طلبہ کی شخصیت سازی کے لئے موافق ماحول کی تخلیق کو ممکن بنائیں۔کمرۂ جماعت کو بچوں کی خیالی دنیا کی طرح رنگین اور جاذب و دل کش ہونا چاہئے۔کمرۂ جماعت کا ماحول روکھا،پھیکا،ساکن و جامد اور بے کیف نہ ہو۔اساتذہ روایتی طریقے تدریس کے بجائے ایسے غیر روایتی تدریسی طریقوں کو اپنائے جو طلبہ کی فطرت سے مطابقت رکھتے ہوں اور ان میں اکتسابی دلچسپی پیدا کرتے ہوں۔اسکولز اور اساتذہ بچوں کو تعلیم و تربیت فراہم کرنے کا بلند بانگ دعویٰ کرتے ہیں اسی لئے ان پر زائد ذمہ داری عائد ہوتی ہے ۔ وہ بچوں کی نفسیات کو ملحوظ رکھتے ہوئے کمرۂ جماعت کا ماحول اور اکتسابی
حکمت عملیا ں وضع و اختیار کریں۔
اہم بلاگز
چراغ تو روشن ہیں
پی ٹی اے کی ایک رپورٹ کے مطابق پاکستان میں سوشل میڈیا صارفین کی تعداد 16 کروڑ کے لگ بھگ ہے۔ اس رپورٹ میں مکمل سچائی ہو پھر بھی ٹی وی بہرحال ایک مقبول ذریعہء مواصلات ہے۔ شام کے وقت یا رات نو بجے ٹی وی پر ٹاک شوز یا head lines ملاحظہ کرنے والے افراد کا تناسب کم نہیں ہوا۔ آج جب شام آٹھ بجے ٹی وی آن کیا تو اتفاق سے ٹاک شو کا موضوع تھا انٹرا پارٹی انتخابات اور پارٹی کی قیادتیں۔ پیپلز پارٹی، مسلم لیگ، پی ٹی آئی سبھی کے انٹرا پارٹی الیکشن کے احوال چل رہے تھے۔ پھر نمایاں قائدین کے نام لیے گئے
پیپلز پارٹی:- ذوالفقار علی بھٹو، بےنظیر بھٹو، زرداری، بلاول بھٹو، آصفہ بھٹو، پارٹی قیادت کے نمایاں افراد ۔
مسلم لیگ نون:- نواز شریف، شہباز شریف، حمزہ شہباز، مریم نواز ۔
پی ٹی آئی:- عمران خان ہی موءسس اوروہی قائد انہی کے دم خم سے پارٹی ہے۔ غیر مشروط، عقیدت اور اتباع کا محور بس عمران خان کی شخصیت ہے، اختلاف ہے تو عمران خان سے، اتفاق ہے تو عمران خان سے۔
مردِ واحد یا پھرایک خاندان۔ بس ہر پارٹی میں اسی کا اجارہ ہے۔ کس منہ سے یہ لوگ جمہوریت کا نام لیتے ہیں۔ کبھی سوچا آپ نے؟؟ ووٹ دینے سے پہلے سوال کیا کبھی آپ نے ان، مقبول لیڈرز، سے؟ اکتائے دماغ کے ساتھ چینل بدلا تو حافظ نعیم الرحمن کے حلف کی خبر چل رہی تھی۔ سارامنظر ہی دلکش لگا۔ بھیگی آنکھیں، کپکپاتے الفاظ دعاؤں کی التجا. یہ ہے حافظ نعیم الرحمن کا حلف ۔ دماغ میں سوال اٹھا "کیا یہ شخص سالہا سال سے نسل در نسل اس جماعت کا گدی نشین ہے؟"
نہیں جی اس سے پہلے ایک درویش صفت، روشن کردار والا، ہمت و جہد کا استعارہ۔۔۔ سراج الحق تھا اسی ذمہ داری پہ ۔۔۔ تو کیا سراج الحق کو عوامی مقبولیت، یہ عہدہ، کروڑوں لوگوں کی دعائیں ان کے باپ دادا نے دلوائیں؟ نہیں جی، وہ تو حلف اٹھانے سے چند دن پہلے تک انہیں خبر تھی نہ خواہش اور ان سے پہلے جو اس منصب پر تھے وہ تھے سید منور حسن، وہ سید، یہ پٹھان، وہ کراچی سے، یہ کے پی سے، کیا سید منور حسن اپنے سے گزشتہ امیر جماعت کے رشتے دار تھے؟
نہیں، وہ بھی اول الذکر سبھی کی طرح ایک عام کارکن تھے۔
نعیم صدیقی (رحمہ اللہ علیہ) اپنی تصنیف "المودودی" میں لکھتے ہیں
"۔۔۔ کتنا سخت لمحہ ہے کہ اس شخص کے جسد کی امانت کو مٹی کے حوالے کرنے کے بعد میں اسی کی جدائی کاذکر چھیڑ رہا ہوں۔ ترجمان القرآن کی ادارت کرنے اوراس کے ذریعے دور دراز تک ایمان وحکمت کا نور پھیلانے والی ہستی نگاہوں سے اوجھل ہوچکی ہے۔ اس کی کرسی خالی ہے وہ اپنے تاریخی کمرے میں بھی موجود نہیں اور اہلخانہ کی مجلس میں بھی شریک نہیں۔اس کی کتابیں جیسے آنکھیں پھاڑ پھاڑ کر اسے ڈھونڈ رہی ہیں۔۔۔"
قارئین! نعیم صدیقی کا کرب جب ان الفاظ میں ڈھل رہاتھا تو شائد انھیں بھی اندازہ نہیں تھا کہ یہ تحریک پھل پھول لائے گی ، وسعت اختیار کرے گی۔ بلاشبہ...
تاریکی میں ڈوبتی دنیا
معاشرہ افراد کی مرہونِ منت ترتیب پاتا ہے، افراد اپنی تربیت بہترین اطوار پر کرنے کی کوشش میں سرگرداں رہتے ہیں اور بہتر سے بہتر کی تلاش جاری ہے۔ تہذیبوں کا مطالعہ کیا جاتا ہے اور ان دفن شدہ تہذیبوں میں سے ان کے رہن سہن اور دیگر طور طریقوں پر تحقیق کی جاتی ہے اور باقاعدہ یہ ثابت بھی کیا جاتا ہے کہ ان تہذیبوں میں ایسا ہی ہوتا ہوگا۔ وقت کا تو نہیں، انسان کے طور طریقے ہر دور میں بدلتے رہتے ہیں۔ دنیا کی تاریخ انسانیت کی تذلیل جیسے واقعات سے بھری پڑی ہے، یہ جان کر دکھ ہوتا ہے کہ ایک انسان دوسرے انسان کو تکلیف دینے سے کسی قسم کی عبرت حاصل نہیں کرتا یا پھر ہر انسان اس سوچ کا حامل ہے کہ جو وہ کر رہا ہے وہ صحیح ہے اسے ویسا ہی کرنا تھا جیسا وہ کر رہا ہے لیکن وقت سوچ میں تبدیلی لے آتا ہے پھر پچھتاوالادے لادے زندگی گزر جاتی ہے۔
ہمارے پیارے بنی ﷺ کے چچا کہا کرتے تھے کہ ہمارا بھتیجا جو کہہ رہا ہے وہ بلکل صحیح ہے لیکن ہم اپنے آباؤ اجداد کو کیسے ترک کردیں۔ آج احساس کو بھی شرمندگی کا سامنا ہوگاکیونکہ وہ اپنی شدت کھوچکا ہے اور کسی اندھیری کال کوٹھری میں سسکیاں لے رہا ہوگا۔ ہم مادہ پرست لوگ ہیں جہاں احساسات کا تعلق کیمرے کی آنکھ کو دیکھانے کیلئے تو امڈ آتے ہیں لیکن حقیقی دکھ اور تکلیف سے باز رہنے کا ہنر خوب جانتے ہیں۔ دنیا اتنی رنگ برنگی ہوگئی ہے کہ پلک جھپکتے میں منظر بدل جاتا ہے اور وہ سب سامنے آموجود ہوتا ہے جو ہم دیکھنا چاہتے ہیں، منظر بدل لیتے ہیں۔
اب کسی کے لئے بھی ساری دنیا میں یہ کہنا ناممکن ہے کہ دنیا ایک خوبصورت جگہ ہے اور یہاں رہنے کیلئے کسی خوبصورت کونے کا انتخاب کر کے وہاں رہ لیا جائے، انسان نے اپنی تباہی کیلئے ایسا ایسا سامنا تیار کر رکھا ہے کہ جب اسے استعمال کیا گیا تو وہ وہاں بھی پہنچ جائے گا جہاں اس کی ضرورت نہیں ہوگی، یعنی جب تباہی کا عمل شروع ہوگا تو کوئی بھی اس تباہی سے کیسے محفوظ رہ سکے گا۔ دنیا نے ایک نا ایک دن ختم ہونا ہے اور مسلمانوں کے عقیدے کیمطابق اب قیامت کے قریب کی نشانیاں ظاہر ہونا شروع ہوگئی ہیں، اب یقینا قیامت آئی کھڑی ہے۔ فلسطین میں ہونے والا ظلم کسی ایسی ہی منزل کی جانب حتمی پیش قدمی کہا جاسکتا ہے۔ کوئی بولنے سے ڈر رہا ہے اور کوئی ایسے ڈھڑلے سے بول رہا ہے کہ اسے گولی سے مارا جا رہا ہے، ظالم اپنے قبیلے کے پر امن لوگوں کو مارنے سے بھی نہیں چوک رہا۔ پچھلے زمانوں میں یہ کام مخصوص لوگوں کے ذمے ہوا کرتا تھا لیکن آج تو سب، سب کچھ کرنے کیلئے پرتول رہے ہیں۔
پاکستان تو وہ ملک ہے جہاں بجلی کی تخفیف قوت (لوڈشیڈنگ)اس قدر ہوتی ہے کہ ملک کا اکثر حصہ تاریکی میں ڈوبا رہتا ہے۔ اس کے ساتھ ہی ساتھ بہت سارے ایسے امور ہیں جو ہمیں تاریکی...
۔23 مارچ کا یادگار دن
قوموں کی زندگی میں بعض لمحات بڑے فیصلہ کن ہوتے ہیں جو اپنے نتائج اور اثرات کے اعتبار سے خاصے دور رس اور تاریخ کا دھارا موڑنے کی اہلیت رکھتے ہیں، 23 مارچ کا یادگار دن ہماری قوم کیلئے بڑی اہمیت کا حامل ہے اسکی ایک تاریخی حیثیت ہے کہ سنہ 1940ء میں لاہور کے تاریخی شہر میں برصغیر کے تمام مسلمانوں کے نمائندوں نے قائد اعظم کی زیر صدارت ایک تاریخی اجتماع میں حصول پاکستان کی قرار داد منظور کی تھی۔ تا کہ برصغیر کے مسلمانوں کیلئے مسلم قومیت کی بنیاد پر ایک آزاد ملک حاصل کیا جا سکے۔ جس پر نہ غیر ملکی استعمار کے تاریک سائے پڑیں اور نہ ہی ہندو اکثریت اور چیرہ دستیاں مسلمانوں کے ارفع مقاصد کی راہ میں حائل ہونے پائیں۔ مسلمانان برصغیر اپنے لئے ایک الگ وطن اسی لئے چاہتے تھے جہاں قرآن و سنت کی تعلیمات کی روشنی میں وہ ایک مثال اسلامی معاشرہ تشکیل دیں جہاں اسلامی عدل و انصاف کا دور دورہ ہوا اور جو عصر حاضر میں سرمایہ داری نظام اور اشتراکیت کی قوتوں سے پسی ہوئی انسانیت کیلئے مشعل راہ ثابت ہو۔ اس عظیم مقصد کے لئے 23مارچ 1940ء کولاہور میں بادشاہی مسجد کے قریب ایک وسیع و عریض میدان میں لاکھوں مسلمان اکٹھے ہوئے اور بنگال کے وزیر اعلیٰ مولوی فضل حق نے ایک قرار داد پیش کی جس کی تائید تمام مسلمانوں نے دل و جان سے کر دی جس سے ان کی قسمت کا پانسہ پلٹ گیا۔ اس دن لاہور میں مسلمانان ہند نے اپنی منزل کا اعلان کیا تھا اور دو ٹوک الفاظ میں کہا تھا کہ ہم ہندوستان میں مسلمانوں کیلئے آزاد خطوں کی جدوجہد کا اعلان کرتے ہیں۔
23 مارچ کو قرار داد کی منظوری کے بعد قیام پاکستان کی جدوجہد فیصلہ کن مرحلے میں داخل ہو چکی تھی۔ قوم کو ایک واضح نصب العین مل چکا تھا اور خوش قسمتی سے قائد اعظمؒ جیسے مدبر قائد میسر تھے جن کی قیادت سحر انگیز اور ولولہ انگیز ہونے کے علاوہ سیاست میں صداقت اور دیانتداری کی علمبردار تھی۔ دوسری جنگ عظیم کے خاتمے تک مسلمانان ہند مسلم لیگ کے پرچم تلے متحد ہو چکے تھے۔ 1945ء میں وائسرائے ہند لارڈ ویول نے مسلم لیگ اور مطالبہ پاکستان کی مقبولیت اور دوسری جماعتوں کی طاقت کا اندازہ کرنے کیلئے انتخابات کروائے۔ کانگرس کے ایماء پر بننے والے مسلمانوں کے نام نہاد متحدہ محاذ کی مخالفت کے باوجود مسلم لیگ کو تاریخی فتح حاصل ہوئی اور مسلم لیگ مسلمانان ہند کی نمائندہ جماعت بن کر سامنے آئی اور اس طرح حصول پاکستان کی منزل قریب سے قریب تر ہو گئی۔ اکتوبر 1946 ء میں ایک عبوری حکومت قائم کی گئی جس میں مسلم نمائندگان کی قیادت خان لیاقت علی خان نے کی ادھر حکومتی ایوانوں میں قائد اعظم ؒمسلمانوں کے سیاسی حقوق کے تحفظ اور قیام پاکستان کیلئے سیاسی جنگ لڑ رہے تھے تو دوسری طرف ہندو مسلم فسادات نے پورے ملک کو بری طرح اپنی لپیٹ میں لے رکھا تھا۔ ان فسادات میں لاکھوں مسلمان شہید ہوئے۔3 جون کو تقسیم ہند کے...
وہ دانائے سبل ختم الرسل
قارئین کرام یہ ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ ختم نبوت مسلمانوں کا قطعی اجماعی عقیدہ ہے، اس پر بیسیوں آیاتِ قرآنیہ اور سیکڑوں احادیث صحیحہ میں دلائل موجود ہیں۔ قرآن مجید میں وارد لفظِ خاتم النبیین میں کسی قسم کی تاویل اور تخصیص کی گنجائش نہیں ہے۔ اس میں تاویل و تخصیص کرنے والا دراصل قرآن و حدیث کی تکذیب کرتا ہے۔
چودہ سو سال سے زائد کا عرصہ گزر جانے کے باوجود امتِ محمدیہ کا آج بھی اس پر اجماع ہے کہ مدعی نبوت اوراس کے پیروکارخارج از اسلام اور مرتد ہیں۔ تاریخ گواہ ہے جب بھی کسی باغی، طالع آزما یا فتنہ پرداز نے اپنے آپ کونبی کہنے کی جرأت کی، مسلمانوں نے اس کے خلاف بھرپورجہاد کیا۔ ہر مسلمان کا غیر متزلزل عقیدہ اور ایمان یہ ہے کہ حضور سرورِ عالم سیدنا محمدﷺ آخری نبی ہیں۔ حضورﷺ کی تشریف آوری کے بعد نبوت کا سلسلہ ختم ہو گیا۔ حضور اکرمﷺ کے بعد کوئی نیا نبی نہیں آسکتا اور جو شخص اپنے نبی ہونے کا دعویٰ کرتا ہے اور جو بدبخت اس کے اس دعویٰ کو سچا تسلیم کرتا ہے وہ دائرہ اسلام سے خارج اور مرتد ہے اور اسی سزا کا مستحق ہے جو اللہ تبارک تعالیٰ نے مرتدکے لیے مقررکی ہے۔
بحیثیت مسلمان ازروئے قرآن و حدیث ہمارا اس بات پر پختہ یقین ہے کہ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اللہ کے آخری نبی اور رسول ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے اپنی آخری کتاب قرآن مجید ان پر نازل فرماکر دین کی تکمیل کردی اور قرآن کو تا قیامت محفوظ بھی کردیا۔ سلسلہ نبوت پر ختم کی مہر بھی لگادی آپ صلی اللہ علیہ وسلم آخری نبی و رسول ہیں آپ صلی اللّٰہ علیہ وسلم کی امت آخری امت ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد نہ کوئی نبی ہے نہ رسول ہے نہ تھا نہ تا قیامت ہوگا۔ اسی طرح آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی امت آخری امت ہےاور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم آخری نبی ہیں۔ قرآن مجید میں اس بات کی صراحت مختلف آیات میں ملتی ہے۔ جیسا کہ سورہ احزاب کی چالیسویں آیت میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تمہارے مَردوں میں سے کسی کے باپ نہیں ہیں لیکن وہ اللہ کے رسول ہیں اور سب انبیا کے آخر میں (سلسلۂِ نبوت ختم کرنے والے) ہیں اور اللہ ہر چیز کا خوب علم رکھنے والا ہے۔
بہت سی احادیث میں بھی ختم نبوت کی تصدیق موجود ہے۔ حدیث مبارکہ ہے۔ میری اور مجھ سے پہلے انبیاء کی مثال ایسی ہے جیسے کسی شخص نے ایک گھر بنایا، اس کو بہت عمدہ اور آراستہ پیراستہ بنایا مگر ایک کونے میں ایک اینٹ کی جگہ چھوڑدی، پس لوگ جوق درجوق آتے ہیں اور تعجب کرتے ہیں اور یہ کہتے ہیں یہ اینٹ کیوں نہیں لگادی گئی۔ آپ نے فرمایا: وہ اینٹ میں ہوں اور میں انبیاء کرام کا خاتم ہوں۔ اسی مفہوم کی ایک اور حدیث مبارکہ حضرت جابر بن عبداللہ رضى الله تعالى عنه نے بھی روایت کی ہے۔(صحیح البخاری، کتاب المناقب، باب خاتم النّبیین...
الوداع نہیں کہتے
بی بی سی جماعت اسلامی کی خبریں عموما نہیں لگاتا۔ لیکن اس نے یہ خبر بہت کم وقت میں دے دی کہ جماعت اسلامی کے امیر سراج الحق صاحب اپنے امارات عہدے سے مستعفی ہوگئے ہیں۔ہم جانتے ہیں بی بی سی کس کا چینل ہے۔ان کی نیتیں بھی یہ تھیں کہ اس خبر سے جماعت کو کمزور شکست خوردہ سمجھا جائے گا۔یہ خبر بھی سنی کہ حافظ نعیم صاحب نے دھاندلی والی نشست لینے سے انکار کردیا۔جو کہتے تھے کہ سیاستدانوں کا کوئی اخلاق نہیں ہوتا۔ان دیانتدار اور اعلی کردار کے حامل سیاست دانوں کو دیکھیں۔ایک نے ہاتھ آئی سیٹ ٹھکرا دی۔ دوسرے نے پارٹی کی سربراہی چھوڑ کر ثابت کر دیا کہ جماعت اسلامی میں عہدوں کی نہیں بلکہ ویلیوز کی اہمیت ہوتی ہے۔اور بےشک یہ احساسِ ذمہ داری فقط جماعت اسلامی میں پایا جاتا ہے۔
ان دونوں واقعات سے ہوا یہ کہ جماعت اسلامی کی جمہوریت شورائیت اور واضح ہوگئی۔ عوام جماعت اسلامی سے مذید متاثر ہوگئی۔ جی ہاں جماعت اسلامی عوامی مقبولیت حاصل کر چکی ہے۔ہر شعبہ ہائے زندگی کے لوگ اس کی دیانت خدمت کے قائل ہوچکے ہیں۔اس الیکشن کے بعد یہ مغالطہ ختم ہوچکا ہے کہ جماعت کا ووٹ بینک نہیں بنتا جماعت اسلامی کا کم ازکم یہ نتیجہ اس الیکشن میں تھا کہ اسے بلوچستان میں دو سیٹیں کے پی کے میں تین اور سندھ میں پندرہ سے زیادہ ہوتیں اگر زبردستی انتقال ہوئی پارٹی کے نئے جیون کی تیاری نہ ہوتی۔ ووٹ جماعت کو ملا ہے کراچی عوام نے اسے منتخب کیا ہے یہ ہاری نہیں اسے ہروایا ہے۔
یہ استعفی دراصل ہمارے قائد کی اعلی ظرفی ہے۔ انہوں اخلاقی طور سے اچھا کیا۔یہ استعفی ہر اس کارکن پر طمانچہ ہے۔جو سمجھتے ہیں کہ اس میں جماعت کا اس کی قیادت کا کوئی قصور ہے۔ ان سب حالات میں کسی کا کوئی قصور نہیں نہ کارکن کا قصوروار ہے نہ ہی امیر کا قصور ہے۔سمجھنے کی بات ہے کہ جماعت کا مقابلہ وقت کے اصل فرعون سے ہے۔ سیکولر لبرلز ساری طاقتیں مل کر اس کے خلاف ہیں اسلام کے دشمن فرعون نمرود ابو جہل دجالی فتنے آسان ٹاسک کسی بھی دور میں نہیں تھے۔ہمارے دور کے فرعون طاقت میں قدیم فرعون سے کہیں آگے ہیں۔الیکٹرانک میڈیا جماعت کو نہیں دکھاتا۔پرنٹ میڈیا جماعت پسند اسلام پسند تحریر نہیں چھاپتا۔عوام اگر قبولتی ہے اصل نتائج نہیں دیے جاتے۔قیادت کا کیا قصور وہ کیا اپنی جان مار دیں۔اس الیکشن کو آپ صلح حدیبیہ سے جوڑ لیں یقین کریں جماعت کی مقبولیت میں اضافہ ہی ہوا ہے۔جس عوام نے جماعت کو ووٹ دیا وہ اس کی شکست پر حیران ہے۔ جان چکی ہے کہ دینی جماعتوں میں خطرہ صرف جماعت اسلامی ہے۔عوام نے کبھی کسی موروثی مذہبی لیڈر یا پیر کو یوں اپنے عہدوں سے مستعفی ہوتے نہیں دیکھا۔جماعت اسلامی عوام کے لیے حل ہے تو باطل نظام کے لیے روک ہی روک ہے۔
یہ جماعت اسلامی کے لیڈر کی اعلی قیادت ہے۔جس میں حافظ نعیم الرحمن، مشتاق احمد صاحب، اکبر چترالی اور مولانا ہدایت الرحمن جیسے ہیرے پیدا کیے اور چمکنے کے خوب مواقع دیے۔سراج صاحب آپ...
طنز و مزاح
کہاں کی بات کہاں نکل گئی
قارئین کا صاحبِ مضمون سے متفق ہونا لازم ہے کیونکہ یہ تحریر اسی مقصد کے لیے لکھی گئی ہے۔ کچھ لوگوں کو نصحیت کرنے کا جان لیوا مرض لاحق ہوتا ہے۔ جہاں کچھ غلط سلط ہوتا دیکھتے ہیں زبان میں کھجلی اور پیٹ میں مروڑ اُٹھنے لگتا ہے ایسا ہم نہیں کہتے ان لوگوں کے پند و نصائح وارشادات سننے والے متاثرین کہتے ہیں۔
اللہ معاف کرے اکثر نوجوانوں کو نصحیت کرنے کے جرم کی پاداش میں ہماری ان گنہگار آنکھوں نے ان بزرگوں کو کئی مرتبہ منہ کی کھاتے دیکھا ہے۔ مگر نہ وہ اپنی روش سے باز آتے ہیں اور نہ ہی کتے کی ٹیڑھی دم سیدھی ہوتی ہے۔ اب قریشی صاحب کی بیوہ کو ہی لے لیجیے عمر دراز کی ستر بہاریں دیکھ چکی ہیں، بیوگی کے پچاس سال گزارنے والی اپنی زندگی سے سخت بیزار ہے۔ شادی کے کچھ عرصے بعد ہی موصوفہ نے اپنے پر پرزے نکالنا شروع کر دئیے تھے۔
دن رات صبح شام وہی گھسا پٹا راگ الاپتی رہتی تھیں تمہارے ماں باپ کی خدمت میں کیوں کروں؟ تمہارے سارے کام میں کیوں کروں؟ میں غلام نہیں ہوں۔ جو تمہاری ہر بات مانوں وغیرہ وغیرہ۔ قریشی صاحب بھلے مانس آدمی تھے شرافت اور منکسر المزاجی ان کی گھٹی میں پڑی ہوئی تھی۔ کان دبائے، نظریں جھکائے بیوی صاحبہ کے فرمودات سنتے اور سر دھنتے رہتے۔ ان کا یہ معصومانہ انداز بیوی صاحبہ کے تن بدن میں آگ لگا دیتا پھر جو گھمسان کی جنگ چھڑتی جس میں بیوی صاحبہ فتح کے جھنڈے گاڑنے کے بعد قریشی صاحب سے اپنے تلوے چٹوا کر انہیں مورد الزام ٹھہراتے ہوئے فرد جرم عائد کر کے سزا سنا دیتیں۔ قید بامشقت کے تیسرے سال ہی قریشی صاحب کے کُل پرزے جواب دے گئے۔
گھر کی مسند صدارت و وزارت پر بیوی صاحبہ براجمان تھیں بیچارے قریشی صاحب کی حیثیت کا قارئین خود اندازہ لگا سکتے ہیں۔ گنے چنے چند سالوں کی رفاقت کے بعد ایک شام قریشی صاحب داعئ اجل کو لبیک کہہ گئے۔ لواحقین میں ایک بیوہ اور پانچ بیٹیاں چھوڑیں۔ ماں کے طور اطوار، رنگ ڈھنگ، چال ڈھال اور انداز کا مہلک زہر اولاد کی نسوں میں اتر چکا تھا۔ اور خربوزے کو دیکھ کر خربوزیاں رنگ پکڑتی چلی گئیں۔ موصوفہ کی کل کائنات بس یہ پانچ بیٹیاں ہیں۔ پانچوں کنورای جو شادی کے نام پر ایسے اچھلتی ہیں جیسے بچھو نے ڈنک مارا ہو۔ قبر میں پیر لٹکائی قریشی صاحب کی بیوہ صبح شام خود کو کوستے رہتی ہیں کہ اس جیسے چاہو جیو کے سلوگن نے ان کی دنیا و آخرت ملیامیٹ کر کے رکھ دی۔ مگر اب پچھتائے کیا ہوت جب چڑیاں چگ گئیں کھیت۔ ہم اگر اپنی روزمرہ زندگی پر نظر دوڑائیں تو کتنی چیزیں ہیں جو کہ ہم غلط سمجھتے ہیں لیکن پھر بھی کرتے ہیں نہ جاننا اتنا سنگین نہیں ہوتا جتنا کہ جان کر حقیقت سے نگاہیں چرانا ہوتا ہے۔ چچ چچ ہم آنکھوں دیکھی مکھی نگلنے کے عادی بنا دیے گئے ہیں۔
2021ء میں گھریلو تشدد کا بل اسمبلی سے منظور کروا کر ہماری نوجوان نسل کو یہ پیغامِ تقویت...
والدین اور بیٹیاں
آج اسکول کی بچیوں کو اظہار خیال کے لیے موضوع دیا تھا کہ " آپ کے ساتھ والدین کیا سلوک ہے" جی بچیوں کے ساتھ والدین کا سلوک
چونکہ اسمبلی کے لیے موضوع نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)کی وہ حدیث تھی جس میں آپ صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلم نے بیٹیوں سے نفرت کرنے اور انہیں حقیر جاننے سے منع کیا ہے ،انہیں اللہ تعالیٰ کی رحمت قرار دیا ہے اور ان کی پرورش کرنے والے کو جنت میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ ہونے کی بشارت سنائی ہے۔ اس لیے بچیوں کے ساتھ اس حدیث پر تفصیل سے بات ہوئی اور انہیں کل کی اسمبلی میں اس پر بات کرنے کا کہا گیا اور تاکید کی گئی کہ سب طالبات کل اسمبلی میں بتائیں گی کہ انکے والدین انکے ساتھ کیا سلوک کرتے ہیں۔
اب آج وہ اسمبلی منعقد ہوئی اور بچیوں نے اظہار خیال کرنا شروع کیا۔ کسی نے کہا والدین ہمیں پالنے کے لیے ساری قربانیاں دیتے ہیں، کسی نے کہا کہ والدین ہماری سب خواہشات پوری کرتے ہیں، کسی نے کہا وہ ہمیں تہزیب سکھاتے ہیں، کسی نے کہا وہ ہماری اچھی تربیت کرتے ہیں، کسی نے کہا کہ وہ ہمیں کھلاتے پلاتے ہیں ، ایک رائے یہ آئی کہ وہ ہمیں کپڑے خرید کر دیتے ہیں، ایک نے کہا کہ وہ مجھے کوئی کام نہیں کرنے دیتے ایک اور نے کہا کہ صبح آنکھ کھلتی ہے تو ناشتہ تیار ہوتا ہے۔ ایک بات یہ آئی کہ انکا مرکز و محور ہماری پڑھائی ہے ایک اور کہا کہ وہ ہمیں کامیاب دیکھنا چاہتے ہیں۔
اور آخر میں ایک بات ایسی سامنے آئی کہ ہم سب کھلکھلا کے ہنس پڑے حالانکہ اپنے والدین کی ان کوششوں اور محبتوں کو سن کہ ماحول سنجیدہ لگ رہا تھا۔
اس نے کہا " میم ۔ میرے والدین بھی میرے ساتھ بہت اچھا سلوک کرتے ہیں، میری ہر ضرورت پوری کرتے ہیں مگر جب گھر میں چکن بنتا ہے تو leg pieces بھائی کو ملتا ہے۔ " اس معصوم بچی کے اس معصوم تبصرے پر ہم مسکرائے بغیر نہ رہ سکے ۔
تو تمام والدین سے گزارش ہے کہ ہمیں پتہ ہے آپ نے اپنی بیٹیوں کو شہزادیوں کے جیسا پالا ہے اور گڑیوں کے جیسا لاڈلا رکھا ہے مگر جب چکن خریدیں تو leg pieces زیادہ ڈلوا لیا کریں۔
زندگی بدل گئی !
شوہر اچھا ہو بیوی بچوں کا خیال رکھتا ہو تو زندگی پرسکون ہوجاتی ہے مگر یہاں تو زبردستی نوکری پر بھیجو پھر خود بازار جاٶ ضرورت کا سارا سامان خود اٹھاٶ پھر گھر کی صفائی، کھانا بنانا، بچوں کو اسکول چھوڑنا اور لانا سارا دن اسی میں گزر جاتا ہے یہاں تک کے امّی سے بات تک کرنے کا ٹائم نہیں ملتا مہینوں گزر جاتے ہیں امّی سے ملاقات ہوئے۔
فائزہ نے دکھوں کا قصہ سنا کر سکون کا سانس لیا تو میں نے بھی تسلی دی اللہ آسانی کرے تمھارے لیئے۔آج پھر کئی مہینوں بعد فائزہ سے ملاقات ہوئی تو پتہ چلا وہ گھر خالی کر کے دوسرے محلے میں چلی گئی ہے کرائے داروں کے لیۓ یہی پریشانی ہے اللہ سب کو اپنا گھر نصیب کرے۔ فائزہ بڑی خوش اورپہلے سے بہت اچھی لگ رہی تھی خوش ہوکر بتانے لگی۔ میرے شوہر تو جی ایسے فرمابردار ہوئے ہیں کے بس پوچھو مت۔ ویسے میں نے پوچھا نہیں تھا پر فائزہ بتاۓ بغیر کہاں رہتی۔
خوشی خوشی بتانے لگی صبح وقت سے پہلے نوکری پر چلے جاتے ہیں ساتھ بچوں کو بھی اسکول چھوڑ دیتے ہیں گھر کی ساری ذمہ داری خود لے لی ہے میں تو بس اب گھر میں رہتی ہوں اور اتنے محنتی ہوگۓ ہیں کے رات رات بھر گھر نہیں آتے یہاں تک کے کئی کئی دن کام کے سلسلے میں شہر سے باہر رہتے ہیں اور میں اپنی امّی کے گھر آرام کرنے چلی جاتی ہوں رزق میں ایسی برکت ہے کہ کبھی کبھی ہر چیز ڈبل آجاتی ہے پچھلے ہفتے دو سینڈل بلکل ایک جیسی لے آۓ بس ایک نمبر چھوٹی تھی پھر وہ تبدیل کرنی پڑی۔ کبھی راشن میں بھی چیزیں ڈبل ہوجاتی ہیں بس اللہ کا کرم ہے۔ میں تو کونے والی نورن دادی کو دعائيں دیتی ہوں۔ یہ سب ان ہی کی وجہ سے ہوا ہے۔ انھوں نے مسجد کے مولوی صاحب کا پتہ دیا تھا۔ مولوی صاحب نے ایک وظیفہ بتایا تھا پڑھنے کو وہ بھی تہجد میں بس پھر کیا تھا میری تو قسمت ہی پلٹ گئی۔ زندگی آسان ہوگئی ہے۔
مجھے بڑی حیرانی ہوئی کہ ایک وظیفے سے قسمت بدل گئی بھئی یہ کونسا وظیفہ ہے چلو چھوڑو۔مگر فائزہ کہا مانتی بتائے بغیر۔ عربی کے چند الفاظ بڑے ادب سے سنائے اور چہرے پر ہاتھ پھیر کر تین بار آمین آمین آمین کہا۔ بس یہ وظیفہ پڑھ لو شوہر آپ کے قدموں میں اور ہاں کسی اور کو بھی بتا دیں اگر کوئی پریشان ہو تو کسی کا بھلا ہو جائے اچھی بات ہے۔ میرا نمبر بھی لے لیا اور پھر فائزہ مسکراتی ہوئی گھر روانہ ہو گئی۔
ہفتے بعد ہی ایک انجان نمبر سے فون آیا۔ ریسو کرنے پر فائزہ نے سلام دعا کی اور زور زور سے روتے ہوئے کہنے لگی میں تو لوٹ گئی بر باد ہوگئی بس بہن میرا شوہر تو ہاتھ سے نکل گیا پتہ نہیں کیا کمی تھی مجھ میں جو دوسری شادی کر لی اللہ ہی سمجھے گا ایسی عورتوں کو جو شادی شدہ بچوں والے مردوں سے شادی کر لیتی ہیں۔ میں...
بن بُلائے مہمان ! بَلائے جان
بن بلائے مہمان وہ بھی چپک جانے والے ایک دو دن سے زیادہ برداشت نہیں ہوتے اور اگر زیادہ ہی رک جائیں تو سارے گھر کو ہی تکلیف اور نقصان پہنچاتے ہیں اور سارے ہی لوگ ان سے کنّی کترا کر گزرنے کی کوشش کرتے ہیں کہ یہ ہمارے ساتھ ہی نہ چپک جائیں۔
ایسا ہی معاملہ ہم لوگوں کے ساتھ ہوا ہے پہلے تو اس خطرناک اماں نے اپنی اولاد کو بھیج دیا وہ ملک ملک گھوما اور یہیں ڈیرا ڈال لیا۔نہ جانے کیا کیا تباہ و برباد کیا اور یہ حضرت انسان بے بس اور بے کس منہ چھپائے گھومتا رہا حتی کہ اپنے بیماروں مجبور پیاروں سے ملنے اور ان کی تیمارداری سے بھی محروم رہا کچھ وقت گزرنے کے بعد جب اس نے دیکھا کہ ماحول ٹھنڈا ہوگیا ہے لوگ سکون میں ہیں تقریبات عروج پر ہیں اسکول، مساجد اور پارک بھرے ہوئے ہیں تو اس نے ناک بھوں چڑھایا اور سوچا ! یہ میری اولاد تو ٹھنڈی ہوتی جا رہی ہے برسوں محنت کی ہے میں نے اس پر اسے اتنی جلدی ہار نہیں ماننا چاہیے۔ اب مجھے ہی کچھ کرنا ہوگا تو لیجئے جناب پورے جوش اور بھرپور شیطانیت کے ساتھ کرونا کی امی جان اُُمِ کرونا (امیکرون) تباہ حال لوگوں کو اور تباہ کرنے دنیا میں انسانوں پر آدھمکی۔
کتنے دور اندیش تھے وہ لوگ جنہوں نے چاند پر پلاٹ بک کروائے تھے گوگل سرچ کرکے دیکھتے ہیں، تب پتہ چلے گا کہ وہ لوگ کرونا سے بچنے کے لیے چاند پر پہنچ گئے یا اس سے بھی کہیں آگے عالم برزخ پہنچ گئے۔
ہمارے گھر میں تین افراد پر اٌمِ کرونا فدا ہوگئی ہیں ہماری امی جان، بھیا اور آپی پر۔ان تینوں نے قرنطینہ کے نام پر ایک ایک کمرے پر قبضہ جما لیا ہے ابّا جان تو امی کے کمرے کے دروازے کے قدموں میں ہی پلنگ ڈالے پڑے ہیں اور ہم نے لاؤنج میں صوفے پر ڈیرہ جما لیا ہے البتہ ماسی خوش نظر ارہی ہے کہ تینوں کمروں کی صفائی سے جان بخشی ہوئی ہے۔
ویڈیو کال اور فون کال پر ہی سب رشتے داروں نے مزاج پرسی اور تیمارداری کرکے اپنا فرض نبھایا کیونکہ ہم سب مجبور ہیں ایک ان دیکھے وائرس سے۔سلائی والی آنٹی نے جب نئے سلے ہوئے سوٹ ہمیں بھجوائے تو اس کے ساتھ سوٹ کے کپڑے کے ماسک بھی بنے ہوئے رکھے تھے۔ سلائی والی آنٹی کو فون کرنے پر پتہ چلا کہ یہی فیشن چل رہا ہے، انہوں نے ایک آفر بھی دی کے ہم فینسی ماسک بھی بناتے ہیں ستارے موتیوں اور کڑھائی والے ان کا بھی پیکج ہے جو پیکج آپ لینا پسند کریں۔
نہ جانے کتنے ابہام ذہن میں گردش کر رہے ہیں۔ابھی تو ہم ڈر کے مارے اس قابل بھی نہیں ہوئے کی واٹس ایپ یا فیس بک پر اپنا اسٹیٹس لگائیں۔
I am vaccinated
کیوں کہ ابھی تو ہم اکّڑ بکّڑ ہی کر رہے تھے کہ چائنا کی ویکسین لگوائیں، کینیڈا کی یا پاکستانی کے اچانک، اْمِ کرونا سے پہلے بوسٹر بھی آٹپکا۔سوچ رہے ہیں ڈائریکٹ بوسٹر ہی لگوا لیں۔
یہ بلائے ناگہانی ہے بس...
ٹک ٹاک ایک نشہ
ٹک ٹاک مختصر ویڈیو کی ایسی ایپ ہے جس میں وہی ویڈیو چلتی ہے جو ’’مختصر‘‘ ہو۔بس ایک ویڈیو وائرل ہونے کی دیر ہے پھر آپ ایک ہی رات میں ہیرو بن گئے۔گویاٹک ٹاک سوشل میڈیا کا ایک ایسا پلیٹ فارم ہے جس میں وہی ویڈیو وائرل ہوتی ہے جس میں سب کچھ’’ پلیٹ‘‘میں رکھ کر پیش کیا جائے۔بلکہ نوجوان نسل تو وائرل ہونے کے لئے ایسی اشیاء بھی ’’پیش‘‘ کر دیتی ہیں جن کا پیش نہیں ’’زیر‘‘میں ہونا ہی معیاری،مناسب اور اخلاقی ہوتا ہے۔مگرچائنہ والوں کو کون سمجھائے کہ جس لباس کو ہم پاکستانی اعلیٰ اخلاقی اقدار سے گرا ہوا سمجھتے ہیں ان کے ہاں وہ لباس اعلی اقدار کا حامل سمجھا جاتا ہے۔بلکہ یوں کہنا مناسب ہوگا کہ لباس کا صرف سرا ہی نظر آتا ہو تو اسے اخلاقی لباس سمجھا جاتا ہے۔چائنہ اور یورپ میں تو اسی کی زیبائش مناسب ہوتی ہے جس کی ’’نمائش ‘‘زیادہ ہو۔ ان کے سامنے تو بھاری بھر کم فراک،غرارہ و شرارہ زیب تن کر کے جائیں تو وہ حیران ششدر رہ جاتے ہیں کہ ان کا ناتواں جسم ایسا لباس ’’کیری‘‘ کرتاکیسے ہے۔شائد اسی وجہ سی چینی اور یورپی خواتین وہی لباس زیب تن کرتی ہیں جو ہمیں زیب نہ دیتا ہو۔
میں نے اپنے انتہائی معصوم و سادہ دوست شاہ جی سے ایک معصومانہ سوال کیا کہ مرشد ٹک ٹاک پر کیسے وائرل ہوا جاتا ہے۔شاہ جی نے شانِ بے نیازی (بے نیازی کو کسی نیازی سے نہ ملایا جائے )اور لاپروائی سے جواب دیا کہ فی زمانہ ٹک ٹاک ہی نہیں ہر جگہ وائرل ہونے کا ایک فارمولہ ہے۔میں نے متجسسانہ انداز میں پوچھا کہ مرشد وہ کیا۔فرمانے لگے۔’’جو دکھتی ہے وہ بکتی ہے‘‘یعنی جو دکھتا ہے وہی بکتا ہے۔شاہ جی کے جواب پر سوال در سوال ذہن میں کود آیا کہ کیا اس فارمولہ کا اطلاق صنف نازک(جسے میں ہمیشہ صنف آہن کہتا ہوں)پر ہی ہوتا ہے یا صنف معکوس بھی اس زد میں آتے ہیں۔کہنے لگے فارمولہ تو وہی ہے بس الفاظ کے چنائو کو بدلنا ہوگا،یعنی۔۔۔۔۔یعنی مرد حضرات کے لئے الفاظ بدل کر ایسے ہو جائیں گے کہ ’’جو بَکتا ہے وہ بِکتا ہے‘‘
چین نے جب ٹک ٹاک ایپ متعارف کروائی تو اس کا مقصد سیلیکون شہر میں بیٹھ کر ایسی مختصر مدتی ،مختصر ویڈیو،مختصر لباس میں بنا کر پیش کرنا تھاکہ جو اپلوڈ ہوتے ہی وائرل ہو جائے،اور ایسا ہی ہوتا تھا۔اس لئے ہماری نوجوان نسل بھی چین کے نقش پا پر اپنے قدم جمائے ویسی ہی مختصر ویڈیو بناتے ہیں جو وائرل ہو جائے۔مجھے حیرت یہ نہیں کہ آج کی نسل سستی شہرت کے لئے ایسا کیوں کرتی ہے۔پریشانی یہ ہے کہ انہیں شہرت مل بھی جاتی ہے۔اب تو ٹک ٹاک بھی ایک حمام سا ہی دکھائی دیتا ہے ،وہ جس کے بارے میں اکثر سیاستدان بیان بازی کیا کرتے ہیں کہ اس حمام میں سبھی ننگے ہیں۔اب تو ٹک ٹاک دیکھ کر بھی لگتا ہے کہ اس حمام میں بھی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ویڈیو وائرل ہونے کے بارے میں ایک دوست کی بات یاد آگئی ،اس نے ایک دن مجھ سے پوچھا کہ یار ابھی تک...