ایک قوم بن کر دکھائیں

نقیب قتل ہوا۔۔۔۔ سوشل میڈیا پر زبردست مہم چلی۔۔۔ کسی نے زبان کو بنیاد بنایا اور اسے پشتون کا ہیرو بنا کرپیش کردیا۔۔۔ اس کی خوبصورت اور فوٹو شاپس تصاویر کی بھر مار کردی گئی۔۔۔۔۔ سوشل میڈیا پر ایسی مہم چلی کہ چیف جسٹس سے لیکر وزیر اعلی سندھ تک سبھی حرکت میں آگئے اور صرف چند دنوں میں کئی بے گناہ انسانوں کے خون سے ہاتھ رنگنے والا ایس ایس پی ملیر راؤ انوار معطل ہوگیا بلکہ اچانک غائب بھی ہوگیا۔۔۔ زمین نگل گئی کہ آسمان کھا گیا۔۔۔۔ کچھ خبر نہیں۔

نقیب اللہ کے قتل کو سوشل میڈیا پر لسانی رنگ دے دیا گیا اور کہا گیا کہ راؤ انوار نے جتنے پولیس مقابلے کیے ان میں اکثریت پشتو بولنے والے تھے۔۔۔۔ لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگرنقیب سے قبل ہلاک ہونے والے  پشوبولنےوالے تھے تو ان کے قتل پر احتجاج کیوں نہیں ہوا، سوشل میڈیا حرکت میں کیوں نہیں آیا، ان کی خوبصورت تصاویر فیس بک اور واٹس ایپ کی زینت کیوں نہیں بنی۔۔۔ اس لیے کہ وہ نقیب کی طرح لبرل نہیں تھے، ان میں اس اکثر داڑھی والے تھے اور حلیوں سےدیندار بھی لگتے تھے۔ کیا ان یہ حلیہ ان کا قصور ٹھہر گیا یا کچھ اور۔

مانا نقیب قتل ہوا۔۔۔ ایک ماں کا لخت جگر اور ایک باپ کا سہارا چھن گیا۔۔۔ دو بچوں کو یتیم کردیا گیا اور کئی دوست تنہا ہوگئے لیکن اس سے قبل جو انہی جیسے پولیس مقابلوں میں مارے جاتے تھے وہ کسی ماں کے دل کا ٹکڑا نہ تھے، کسی باپ کی امیدوں کا سہار انہ تھے، کئی بہنوں کی آرزوؤں کا مرکز نہ تھے۔۔۔۔۔

شارع فیصل پرپولیس کی گولیوں سے چھلنی ہونے والا رکشہ ڈرائیور مقصود بھی تو کسی ماں کو سپوت تھا، کسی باپ خواہشوں کا مرکز تھا، چھ بہنوں کا اکلوتا سہارا تھا۔۔۔۔ خوبصورت تھا ۔۔۔۔ لیکن سوشل میڈیا کو اس کی بہنوں کی آہ و بکا سنائی دی نہ اس کی ماں کی پتھرائی آنکھیں دکھائی دیں۔۔۔۔ کیوں؟

نقیب اللہ پشو بولنے والا تھا اس لیے اسے مارا گیا اور مقصودپنجابی بولنے والا تھا اس لیے مارا گیا جواس کے علاوہ مار دیئے گئے وہ کون تھے؟

قومی اسمبلی کے اسپیکر ایاز صادق کی ہدایت پر نیشنل کمیشن فار ہیومین رائٹس نے جو رپورٹ تیار کی ہے وہ شاید اس سوال کا کچھ جواب دے سکے۔ رپورٹ کے چئیرمین جسٹس ریٹائرڈ علی نواز چوہان نے نیوز کانفرنس میں انکشاف کیا ہے کہ راؤ انوار نے کل 192 پولیس مقابلے‘کروائے‘ جن میں 444 افراد کو ابدی نیند سلادیا گیا۔ یہ کون لوگ تھے، پنجابی، پشتون، اردو بولنے والے، بلوچ سندھی یا کوئی اور۔

دلچسپ بات اور غور طلب بات یہ ہے کہ ان پولیس مقابلوں میں مارے جانے والوں میں اسے اکثر کی تو شناخت ہی نہیں ہو سکی، وہ کون لوگ تھے، ان کے گھر والے رشتے دار کہاں ہیں، اور وہ کیوں ان کی شناخت کو نہیں آئے۔ کیا پولیس کا خوف اور سامنے آنے کی صورت میں انہیں بھی گرفتار ہوجانے کا ڈر تو راستے کی رکاوٹ نہیں بن گیا؟ یا پھر انہیں خوف تھا کہ کہیں ان پر بھی دہشت گردی کا الزام لگا کر کسی پولیس مقابلے میں مار دیا جائے گا۔ جب ظالم اتنا آرگنائزڈ ہے تو پھر مظلوم کیوں بکھرے ہوئے؟

یہ وہ سوچ ہے جو قوم کو قوم نہیں بننے دیتی، جیسے جیسے ہم مختلف خانوں میں بٹتے چلے جائیں گے کسی بند گلی میں قید ہوتے چلے جائیں گے جہاں نکلنے کا کوئی راستہ نہیں ملے گا لیکن ہماری اس سوچ کا سب سے زیادہ فائدہ حکمرانوں کو ہوگا جو ہمیں انہی ایشوز میں الجھاکر اپنا الو سیدھا کرنا خوب جانتے ہیں۔ بکھری سوچوں اور الجھے ذہنوں کے ساتھ کوبھی قوم ترقی کی منازل طے نہیں کرپاتیں ۔ تیزی سے بدلتی دنیا میں ٹیکنالوجی جہاں انتشار پیدا کرسکتی ہے تو اسے اتحاد کو ذریعہ کیوں نہ بنا لیا جائے۔ جس طرح نقیب کے لیے لوگ ایک آواز ہوئے اور زینب کےلیے سوشل میڈیا نے ناممکن کو ممکن کردکھایا اسی طرح ظلم کے سب مظلوم خلاف کھڑے ہوجائیں تو شاید بند گلی سے نکلنے کا کوئی راستہ مل پائے۔

حصہ

جواب چھوڑ دیں