دوست کسے بنائیں؟

ایک بزرگ فرماتے ہیں آدمی کی زندگی بے کیف ہے جب اس کا کوئی دوست نہیں اور آدمی درختوں کی طرح ہیں جو کچھ تو پھل دار ہوتے ہیں،کچھ صرف سایہ دار اورکچھ صرف کانٹے دار جھاڑیاں ہوتے ہیں۔اسی طرح کچھ دوست اس د نیا میں بھی اور آخرت میں بھی باعث رحمت ہوتے ہیں ،کچھ صرف اس دنیا کے لیے فائدہ مند ہوتے ہیں اور کچھ لوگوں کا نہ تو اس دنیا میں کوئی فائدہ ہے اور نہ آخرت میں اور یہی لوگ انسان کے روپ میں زہریلے بچھو ہوتے ہیں۔
مولانا رومی رحمہ اللہ فرماتے ہیں دوستوں کو اپنے دوست کی تکلیف جان کے برابرعزیز ہوتی ہے اور دوست سے جو تکلیف پہنچے وہ گراں نہیں ہوتی بلکہ تکلیف مغز اور دوستی اس کا پوست ہے۔آزمائش ومصیبت اور آزارمیں خوش ہونا دوستی کی علا مت ہے۔دوست کی مثال سونے کی سی ہے اور آزمائش آگ کے مثل ہے،خالص سونا آگ ہی میں خوش رنگ اور بے کھوٹ رہتا ہے اور ایک جگہ فرماتے ہیں دوستی محبت سے بھی بالاتر چیزکا نام ہے۔
اب سوال یہ پیدا ہوتاہے کہ دوست کسے بنائیں؟ایک طرف دوستی کی ضررت و اہمیت ذہن میں رکھےئے اوردوسری طرف کتنے ہی ہمارے پیارے وطن عزیز پاکستان میں کئی ذہین وفطین لوگ اور طلباء ایسے ہوتے ہیں جو بری دوستی اور بری صحبت کی وجہ سے اپنا مستقبل برباد کر بیٹھتے ہیں اور عمر بھر اس کی تلافی نہیں کر پاتے اور کتنی ہی دیندار گھرانوں کی سعید فطرت طالبات ایسی ہوتی ہیں جو بری دوستی اور سوسائٹی کی وجہ سے اپنی زندگیاں برباد کر بیٹھتی ہیں اور پھر ساری عمر ندامت کے آنسو بہاتے گزار دیتی ہیں۔اس سلسلہ میں والدین پر یہ بھاری ذمہ داری عائد ہوتی کہ وہ اپنی اولاد کو بچپن سے ہی اچھے اور نیک بچوں سے دوستی کی عادت ڈالیں۔بہت سے والدین ایسے ہیں جو اپنی اولاد پر بہت سی امیدیں لگاکران کو بڑی محنت اور محبت سے اور بھاری خرچوں سے تعلیم دلواتے ہیں لیکن افسوس بعض اولاد کی بری دوستیاں اپنے والدین کی امیدوں پر پانی پھیر دیتی ہیں۔اس لیے ضروری ہے کہ ندامت اور افسوس سے بچنے کے لیے صرف اچھے ،نیک لوگوں سے دوستی لگائی جائے کیوں کہ ایسی دوستی انسان کو کامیابی وکامرانی کی طرف لے جا ئے گی ۔ حضرت محمدﷺ کا ارشاد مبارک ہے :جب اللہ تعالی اپنا کرم خاص فرد پر کرتا ہے تو اسے ایک اچھا دوست عطا کر دیتا ہے ۔آپﷺ برے دوست اور برے ہمسائے سے پناہ مانگا کرتے تھے۔ اسی طرح دوجہانوں کے سردار رسول مکرمﷺنے اچھی اور بری دوستی کی مثال بیان فرمائی ہے ۔آپﷺ فرماتے ہیں:اچھے نیک آدمی سے دوستی کی مثال کستوری فروخت کرنے والے سے دوستی کی مانند ہے اور برے آدمی سے دوستی کی مثال آگ کی بھٹی جلانے والے سے دوستی کی مانند ہے۔جو لوگ کستوری فروش کے پاس بیٹھیں گے اسے کستوری فروش خود کچھ نہ کچھ خوشبو دے دے گایا وہ خود اس سے خرید لیں گے اگر یہ دونوں باتیں نہ ہوئیں توکستوری کی اچھی خوشبو تو اسے ضرور آئے گی اور جو لوگ آگ کی بھٹی جلانے والے کے پاس بیٹھیں گے ،بھٹی جلانے والا ان کے کپڑے جلائے گا اوراگر کپڑے نہ بھی جلائے تو بھٹی کا ناگوار دھواں تو انہیں ضرور آئے گا۔اس مثال سے ہمیں یہ سبق ملتا ہے کہ جو لوگ کسی اچھے ،نیک آدمی سے دوستی لگا کر اس کی صحبت میں بیٹھیں گے تو اس سے اچھی ،مفید اوربھلائی والی باتیں سننے کو ملیں گی اور جو کوئی برے سے دوستی لگاکراس کی صحبت بیٹھے گے تو اس سے جھوٹ،فریب،فحش گوئی،بے حیائی اور اس جیسی اللہ اور رسول کو ناراض کرنے والی باتیں سننے کو ملیں گی جس کا نقصان یہ ہو گاکہ اس کی سوچ اور اعمال دونوں بگڑ جائیں گے اور سوائے خسارے کے کچھ ہاتھ نہیں آئے گا،وہ دنیااورآخرت میں ندامت اورافسوس کے آنسو بہائے گا، اوراس وقت پچھتاواکسی کام نہ آئے گا۔

حصہ
mm
امیر حمزہ بن محمد سرور سانگلہ ہل ضلع ننکانہ کے رہائشی ہیں۔انہوں نے عربی اور اسلامیات میں ماسٹرز کیا ہے۔ سانگلہ ہل کے نواحی گاؤں علی آباد چک نمبر112میں مستقل رہائش پذیر ہیں ۔ان دنوں فیصل آبادمیں ایک رفاہی ادارے کے ساتھ منسلک ہیں، ان کے کالمز روز نامہ’’ امن ‘‘ روزنامہ’’ قوت‘‘روز نامہ’’ سماء‘‘ روزنامہ’’حریف‘‘ میں شایع ہوتے ہیں۔اپنے نام کی مناسبت سے ’’امیرقلم ‘‘ کے زیر عنوان لکھتے ہیں۔ ماہ نامہ’’ علم وآگہی ‘‘اوراسی طرح دیگردینی رسائل وجرائدمیں مختلف موضوعات پرمضامین سپردقلم کرتے رہتے ہیں۔انہوں نے نیشنل لیول پرکئی ایک تحریری مقابلہ جات میں حصہ لیااورنمایاں پوزیشنیں حاصل کیں ۔شعبہ صحافت سے خصوصی دلچسپی رکھتے ہیں ۔ ای میل:hh220635@gmail.com

جواب چھوڑ دیں