انسانی زندگی کا وجود چندخواص اور بعض لوازم کا محتاج ہے۔ انسان کا مادی وجود جہاں مختلف اشیاء کا متقاضی ہے وہیں وہ روحانیت کا بھی طلب گارہے۔انسان اپنی بے پناہ ایجادی قوت اور ترقی کے باوجود روحانیت کے بغیر تسکین اور اطمینان نہیں پاسکتا ۔ مادیت اور استعمار کی دوڑ میں آج انسان جس قدر آگے بڑھتا جارہا ہے اسی قدر اس کی روحانی تشنگی میں بھی اضافہ ہوتا جارہاہے۔روحانیت کے متلاشی انسان کا روحانیت کی آڑ میں استحصال آج ایک عام بات ہے۔اسلام جہاں سائنسی اور مادی طاقتوں کے بے اعتدالیوں پر ہمیں لگام کسنے کی حکمت ، طاقت ا ور توانائی فراہم کرتا ہے وہیں ہر اس منطق کا ابطال کرتا ہے جو انسانیت کے اصولوں کے مغائرہیں اور کائنات کی بقاء کے لئے ایک سنگین خطرہ بنتے جارہے ہیں۔سائنس علم،تحقیق ،مشاہدے اور تجربات کا ایک شعبہ ہے جس کی بے اعتدالی اور بے راہ روی کو صرف مذہب(قرآن) کنٹرول کرتا ہے۔اس حقیقت کے تناظر میں یہ کہا جائے تو بے جا نہ ہوگا کہ سائنس قرآن کا متابع ہے نہ کہ قرآن سائنس کا۔ سائنس کا مذہبی امور میں کوئی دخل نہیں ہے لیکن روحانیت کی ضرورت کے پیش نظر مذہب کا سائنسی معاملات میں عمل دخل ضروری ہے تاکہ انسانیت کی بقاء اور دنیا کو امن وسلامتی کا گہوارہ بنانے میں سائنسی علوم کے ماہرین کی بے اعتدالیوں اور علمی بے راہ روی پر روک لگائی جاسکے۔سائنس اور مذہب کے باہمی تعلق کو سمجھنا بہت ضروری ہے کیونکہ مذہب اور سائنس دونوں بھی انسانی زندگی کے لئے لازم و ملزوم کی حیثیت رکھتے ہیں۔اگر کوئی اس حقیقت سے سرموئے انحراف کرتا ہے تو وہ انسانی وجود کی تکمیل میں سب سے بڑی رکاوٹ سمجھاجائے گا۔ سائنسی علوم کے فروغ کے بعد تین اقسام کے لوگ منظر عام پر ابھر کر آئے ہیں اور وقت کے ساتھ ان کی تعداد میں اضافہ ہوتا جارہاہے۔اگر ان تینوں اقسام کے لوگوں کا بغور جائزہ لیا جائے تو ان میں ایک قدر مشترک نظر آتی ہے اور وہ ہے انانیت۔سائنس اور مذہب میں فرق کرنے والوں کی اکثر تعداد انانیت کا ہی شکار نظر آتی ہے۔مذکورہ تین قسم کے لوگوں میں ایک قسم ان مذہبی حضرات کی ہے جو سائنس کو درخور اعتناء نہیں سمجھتے اور ایسے لوگ مسلمانو ں میں بھی پائے جاتے ہیں ۔دوسری قسم کے لوگ صرف سائنس کو اہمیت دیتے ہیں ان لوگوں نے مذہب کو کبھی اہمیت نہیں دی بلکہ یہ مذہب اور خدا کے وجود کے منکر بھی ہیں۔تیسر ی قسم کے لوگ پورے معقول رویوں سے مذہب کی تائید کرتے ہیں اور مذہب کو بھی سائنس کی طرح معقول رویوں اور استدالال کی کسوٹی پر پرکھتے ہیں۔جن کے لئے مذہب قابل احترام اور سائنس قابل قبول ہے۔معقولیت ،غور و فکر اور تدبر ان کا خاصہ معلوم ہوتا ہے۔پہلی قسم دوغلے پن کا شکار ہے جو مذہب کو تو اہمیت دیتے ہیں لیکن سائنس کے فروغ اور سائنسی استدالال کے یکسر منکر ہیں۔سائنس کی ایجادات اور سہولتوں سے ہر پل لطف وحظ اور آرام اٹھاتے ہیں لیکن لوگوں کو قانون فطرت پر غور و خوض سے باز رکھنے میں تسکین پاتے ہیں۔دوسری قسم کے لوگ اپنی علمی بے اعتدالی کے باعث سائنسی علوم بلکہ انسانیت کے لئے ننگ نام بنے ہوئے ہیں۔ان لوگوں کی علمی موشگافیوں کی وجہ سے سائنس عوامی برہمی اور مذمت کے نشانے پر ہے۔یہ لوگ علم کے درپردہ منشائے فطرت و قدرت سے بغاوت میں مصروف ہیں۔اس دوسری قسم کے لوگوں کو اگر کانا دجال سے تشبیہہ دی جائے تو بے جا نہ ہوگا۔یہ لوگ سائنسی علوم کی ایک آنکھ رکھتے ہیں۔دانش و بینش اور عقل و فہم کی دوسری آنکھ سے یہ محروم ہے یاپھر ان کی دوسری آنکھ بند ہے۔سائنس کے فروغ اور ایجادات کے یہ علمبردار تو ہیں لیکن انسانیت ان کی علمی بے راہ روی کی وجہ سے تباہی و بربادی کے دہانے تک پہنچ چکی ہے۔تیسر ی قسم کے لوگ سائنس اور مذہب دونوں کی یکجائی کے موئید ہیں اور اس کام میں ہمہ تن جڑے ہوئے بھی ہیں۔تیسری قسم کے افراد کا یہ کام انسانیت کی بقاء اور جذبے بقائے باہم کے فروغ میں بہت معاون بھی ہے۔سائنس کی جتنی بھی علمی حیثیت ہے وہ بجا ہے لیکن اس پر خدا بیزار طبقے نے جو رویہ اختیار کیا ہوا ہے وہ سائنس کے اختیار کر دہ رویوں کے مغائر ہے۔کیونکہ ایک متعین علم کسی غیر متعین علم کی تعریف ہر گز نہیں کر سکتا ۔
سائنس اور قرآن:۔ سائنسی علوم اورقرآن کے مطالعے سے یہ بات روز روشن کی طرح عیاں ہوجاتی ہے کہ سائنس اور قرآن دونوں بھی دلیل و استدلال کے طلب گار ہیں۔ جہاں سائنس دلیل و حقائق پر مبنی ایک ایسا علم ہے جس میں بغیر دلیل کے کسی کلیے کو شرف قبولیت نہیں بخشا جاتاوہیں قرآن بھی تشکیک و ابہام کو گناہ قراردیتاہے۔اگر سائنس کے اس مزاج کو پرکھاجائے تو یہ عین اسلامی مزاج کے مطابق نظر آتا ہے۔اسلام حق پسندی،صداقت کا علمبردار علم دوست مذہب ہے۔قرآن علم اور صداقت کا حامی ہے۔اسلام روئے زمین پر وہ پہلا مذہب ہے جس نے آفاق و انفس کے مطالعے اور غور و خوض پر لوگوں کو ابھارا ،بلایا بلکہ دنیا کو صداقت اور سچائی کا جویا بنایا۔اسلام کے اسی مشاہدہ بینی اور تحقیقی مزاج نے دنیا کو علم و تحقیق کی جانب مائل و گامزن کیا۔قرآن میں جابجا سائنسی مضامین اور عنوانات کا واضح ثبوت موجود ہے۔قرآن میں اگر سائنسی مضامین کو تلاش کیا جائے تو ہمیں فخر ہوگا کہ قرآن کے مضامین میں حیاتیات(بیالوجی) کے متعلق علوم کا 328،مقامات پر،کیمیاء کے متعلق 37مقامات پر ،ریاضی کے تعلق سے 19،گنتی اور اعداد شماری کا باقاعدہ نظام ،طبیعات (فزکس) کے متعلق قرآن میں 31آیات کی موجودگی سائنسی مضامین کے درس و تدریس کی اہمیت کو اجاگر کرتی ہیں بلکہ قرآن ،تدریس سائنس کا شد و مد سے حامی نظرآتا ہے۔قرآن کے بیان کردہ اصولوں کو آج تک سائنس غلط ثابت نہیں کر سکی۔اگر یہ کہا جائے تو بے جا نہ ہوگا کہ قرآن اور اسلام نے سائنس کے دامن کووسعت اور وقار عطا کیا۔امبریالوجی(Embryology)کے معروف سائنسدان کیتھ ایل مورے(Keith L Moore)نے قرآن میں موجود امبریالوجی کی زیرک نکات پر غور و خوض کرنے کے بعد اسلام اور قرآن کی حقانیت کو تسلیم کرتے ہوئے حلقہ بگوش اسلام ہوئے۔ڈاکٹر کیتھ ایل مورے اپنے ایک مقالے میں یو ں رقم طراز ہیں’’یہ بات مجھ پر عیاں ہوچکی ہے کہ یہ بیانات(انسانی نشوونما سے متعلق امبریالوجی کے زیرک نکات)محمد ﷺ پر اللہ تعالیٰ کی جانب سے نازل کئے گئے ہیں ،کیونکہ امبریالوجی کی جن باتوں کی آج ہم توضیح و تشریح کر رہے ہیں انھیں چودہ سو سال قبل قرآن نے پیش کردیا ۔اس سے یہ بات مجھ پر ثابت ہوتی ہے کہ محمد ﷺ اللہ کے پیغمبر ہیں‘‘۔قرآن،بائیبل اور سائنس کے مصنف موریس بوکالے(Maurice Buccaille) کااسلام اور قرآن کو سائنسی مزاج کا مذہب اور کتاب تسلیم کرتے ہوئے مسلمان ہونا دنیا کو سائنسی علوم سے لیس کرنے اور فروغ دینے میں قرآن اور اسلام کی خدمات کا ایک اعتراف ہے۔سائنسی علوم کے اکابرین کا بھی اس بات پر اجماع ہے کہ سائنسی ایجادات اور قرآنی تعلیمات میں کوئی تضاد نہیں پایا جاتا ۔اگر بالفرض کہیں تضاد محسوس بھی کیا جاتا ہے تو یہ تضاد محض قرآنی تعلیمات کی روح تک نارسائی کی وجہ سے ہے یا پھر سائنسی تجربے ،مشاہدے میں پائے جانے والے نقائص اس کا سبب ہیں۔
قرآن کے سائنسی مزاج سے دنیا کو متعار ف کرنے کی ضرورت؛۔کسی بھی شئے کی اہمیت و فضیلت اس کی نفع رسانی پر منحصر ہوتی ہے۔سائنس اپنی نفع بخشی اور ایجادات کی وجہ سے مقبول خاص و عام
ہوچکی ہے۔اگر یہ کہا جائے تو کوئی مبالغہ نہ ہو گا کہ سائنس آج زمانے کی ضرروت بن چکی ہے۔سائنس نے انسانی زندگی کے ہر شعبے پر اپنے گہرے اثرات مرتب کئے ہیں۔سائنس کی ہمہ گیریت اور اثر پذیر ی کی وجہ سے قرآنی علوم سے نا آشنا بعض نام نہاد جدید علوم کے ماہرین اسلام سے شاکی نظرآتے ہیں۔قرآن صرف شرعی احکام ،دینی امور ،مراسم عبودیت ،عقائد و احکام کا مرجع نہیں ہے بلکہ قرآن سائنسی علوم کے متعلق ہر پل ہماری رہبری و رہنمائی کرتانظرآتا ہے اور قرآنی آیات کی تشریٖح و تفہیم کے تحت کئی سائنسی مواد پرمباحث ہمیں مطالعے قرآن کے دوران ملتے ہیں۔میری نظر میں سائنسی معلومات سے قرآن فہمی میں بہت زیا دہ مدد ملتی ہے۔مثلاً جدید سائنسی نظریات کی رو سے زندگی کاآغاز پانی سے ہوا۔اس تناظر میں سورۃالانبیاء کی آیت نمبر 30’’ہم نے ہر جاندار چیز کو پانی ہی سے پیدا کیا ہے‘‘۔ہمارے سائنسی مزاج کو نمو دینے کے لئے کافی ہے کیونکہ نطفہ بھی تو مائع ہی کی ایک شکل ہے اگر ہم اسے مجازًپانی کہے تو کوئی مضائقہ نہیں۔قرآن کا یہ اعجاز ہے کہ جہاں اس کا ہر لفظ گنجینہ معنی کا پرتو ہے اور نئے معنی اخذ کرنے کی گنجائشرکھتا ہے وہیں اس کے پرانے مفاہیم کو بھی غلط ثابت نہیں کیا جاسکتا ۔ڈاکٹر حمید اللہ صاحب مورخ اسلام و مفسر قرآن کے مطابق جدید سائنسی نظریات سے متاثر ہوکر قرآنی حقائق کو سائنسی علوم کے مزاج کے مطابق ڈھالنا قطعاًدرست عمل نہیں ہے۔آپ فرماتے ہیں کہ سائنسی علوم ،نظریات و مفروضات دائمی نہیں ہوتے ہیں بلکہ انسانی شعور اور تحقیق کی روشنی میں بدلتے اور ترقی پاتے رہتے ہیں۔علم کی ترقی کے ساتھ سائنسی نظریات اور مفروضات میں تبدیلی اور تغیر پیدا ہونا لازمی ہے۔اس تناظر میں ایک مسلمان کے لئے ضروری ہے کہ وہ قرآن کے نصوص کو غیر یقینی اور متبدل نظریات پر محمول نہ کریں۔قرآن انسانیت کی رہنما کتا ب ہے۔قرآن زندگی کے سفر میں انسان کو مصائب ،دقتوں اور پریشانیوں سے بچاتا ہے۔قرآن زندگی سے وابستہ ہر شعبہ علم میں انسانیت کو رہبری فراہم کرتا ہے۔اس ضمن میں علامہ سیوطیؒ رقم طراز ہیں’’کتاب خدا وندی ہر چیز کی جامع کتاب ہے،کوئی علم اور مسئلہ ایسا نہیں جس کی اصل و اساس قرآن کریم میں موجو د نہ ہو، قرآن میں عجائب المخلوقات ،آسمان و زمین کی سلطنت اور عالم علوی و سفلی سے متعلق ہر شئے کی تفصیلات موجود ہیں،جن کی شرح و تفصیل کے لئے کئی جلدیں درکار ہیں‘‘۔(تفسیر جلال الدین سیوطیؒ ،جلد 2, سورۃالمومنون آیت نمبر 12،13،14)۔سائنس کائنات ،حیات انسانی کے جن پہلوؤں کو اپنی تحقیق کے ذریعے اجاگر کرتی ہے ان پہلوؤں کو بہتر طور پر سمجھنے میں قرآن کی آیات ہمار ی مدد کرتی ہیں۔’’عنقریب ہم ان کو اپنی نشانیاں آفاق میں بھی دکھائیں گے اور ان کے اپنے نفس میں بھی،یہاں تک کہ ان پر یہ بات کھل جائے گی کہ یہ قرآن واقعی برحق ہے‘‘۔(حم السجدہ53)۔سائنس مظاہر قدر ت پر غور و خوض میں مصروف ہے اور قرآن انسانوں سے مطالبہ کر رہا ہے کہ وہ انفس اور آفاق کی گتھیوں کو سلمجھانے کے لیے اللہ کی دکھائی گئی نشانیوں کو عبث نہ سمجھیں بلکہ غوو خوض اور تدبر سے کام لیں۔دیگر مذاہب اور ان کی کتابوں میں انسانوں کو غور وخوض اور فکر و تدبر سے روکا گیا ان افکار کے ردعمل میں سائنسی علوم اور سائنسدانوں کا مذہب بیزاری کی جانب مائل ہونا لازمی تھا۔سائنسی علوم کے ماہرین خواہ ان کا تعلق مشرق یا مغرب سے ہو اس بات کا اعتراف کیا ہے کہ اسلام ہی ایک ایسا مذہب اور قرآن ہی وہ واحد کتا ب ہے جو انسانوں کو غوروفکر اورمشاہدے و تجربے کی جانب راغب کرتی ہے جو کہ سائنس کا اساسی کلیہ ہے۔ تاریخ شاہد ہے کہ اسلام اور سائنس کبھی ایک دوسرے سے متصادم نہیں ہوئے۔اگرسائنس اور اسلام کے تصادم کے حوالے سے چند مسلمانوں کا تذکرہ بھی کیا جائے تو مجھے یہ کہنے میں کوئی تامل نہیں ہے کہ یہ ان کی رجعت پسندی تھی نہ کہ قرآنی اور اسلامی تعلیمات۔
سائنسی علوم کے فروغ میں نظام تعلیم اور اساتذہ کا کردار؛۔کسی بھی معاشرے کی ترقی و تنزل کا راست تعلق اس کی علمی صلاحیت اور معیار پر منحصر ہوتا ہے۔حصول علم کے اولین مقاصد میں تحقیق ،جستجو،تجربہ ،مشاہدہ، اور حقائق تک پہنچنے کی سعی و کاوش شامل ہوتے ہیں۔تحقیق ،جستجو،تجربہ اور مشاہدے کاجویا اپنے شاگردوں میں پیدا کرنے میں اساتذہ کا نمایاں کردار ہوتا ہے۔ معاشرے کو اوج کمال تک پہنچانے میں سائنسی انداز فکر اور سائنسی مزاج کا پایا جانا نہایت ضروری ہوتا ہے۔سائنس کی تحقیق ،ترقی و تنزل کا راست تعلق معاشرے کے نظام تعلیم سے جڑا ہوتا ہے۔کسی بھی ملک و معاشرے کا طرز زندگی اس کے نظام تعلیم کا پرتو ہوتا ہے ۔بچوں کی شخصیت بھی اسی نظام تعلیم کے تحت ڈھلنے لگتی ہے۔تعلیم معاشرے کو فرسودہ بندیشوں سے آزادی فراہم کرنے میں کلیدی کردار نبھاتی ہے اسی لئے مقاصد تعلیم میں یہ بات واضح کرنا ضروری ہے کہ آیا ہم تعلیم کو معاشرے کی تبدیلی اور جدید کاری کے ایک ذریعہ بنانا چاہتے ہیں یا پرانی فرسودہ اور غیر معقول روایات پر جمے رہتے ہیں۔اسلام روایات شکن مذہب ہے ۔ فرسودہ ، غیر عقلی اور خلاف انسانیت تعلیمی روش کا اسلام نے سد باب کیا ہے۔اسلام نے ہر مسلمان پر غو و خوض اور فکر و تدبر پر زور دیا۔تعلیم کے حصول کو ہر مسلم پر فرض قرار دیا۔تحصیل علم کے متعلق کہا کہ ’’میری بات دوسروں تک پہنچاو اگر چیکہ وہ ایک بات ہی کیوں نہ ہو‘‘۔(حدیث)۔عموماًاساتذہ کے بے پروائی اور عدم توجہ کے باعث سائنس کو طلبہ ایک خشک اور غیر دلچسپ مضمون سمجھنے لگے ہیں۔اساتذہ کی معلمانہ جہالتوں کے باعث مضمون سائنس کا مطالعہ آج طلبہ کے لئے ایک سزا سے کم نہیں ہے۔اکثر دیکھا گیا ہے کہ سائنس کے اساتذہ ،سائنس کے چند ضابطے(فارمولے) خاکے اور بنیادی معلومات کو بغیر کسی تفہیم و تشریح کے طلبہ کے دماغوں میں ٹھونستے رہتے ہیں۔ایک لائق استاد جانتا ہے کہ جس طرح سے کسی سوراخ والے برتن میں پانی یا کوئی بھی مائع ذخیرہ کرنا مشکل ہی نہیں بلکہ ناممکن امر ہے بالکل اسی طرح رٹے بازی کا علم بھی دماغ سے ایسے محو ہوجاتا ہے جس طرح سے سوراخ والے برتن سے پانی خارج ہوجاتا ہے۔سائنسی نظریات و ر جحانات سہل تفہیم و تشریح کے بغیربے کیف اور بے جان ہوجاتے ہیں اور یہ مضمون طلبہ کے لئے سوہان روح بن جاتا ہے۔ہمارے روایتی اور فرسودہ طریقہ ہائے تدریس برائے سائنس کی وجہ سے سائنس اپنی اہمیت اور افادیت سے دور ہوتی جارہی ہے۔سائنس کے اساتذہ کو اس جانب توجہ کرنے کی ضرورت ہے تاکہ طلبہ کو سائنسی مضامین کی جانب راغب کیا جاسکے ۔مسلمانوں کا سائنس سے عدم التفات ہی ان کی معاشی اور دیگر پسماندگیوں کا سبب ہے۔اگر ہماری تعلیم میں سائنس کی معیاری تدریس بھی شامل رہیں گی تو یقیناً ہم غیر شعوری طور پر اپنی عمومی زندگیوں میں بھی سائنسی طرز کو اختیار کرنے لگیں گے۔سائنسی مزاج پیدا ہونے کے بعد یقیناًً آدمی جواز ،ثبوت اور شواہد کا مطالبہ کرے گا۔جب کوئی فرد اپنی بات کو جواز ،ثبوت اور شواہد کے بغیر پیش کرے گا تو پھر ہم اسے قبول نہیں کریں گے۔ان اوصاف کی وجہ سے آدمی غلط کو غلط اور صحیح کو صحیح کہے گا ۔اپنی غلطی تسلیم کرئے گا اور بے جا انانیت کا اظہار کرنے سے باز رہے گا۔مسلم معاشرے کا یہ المیہ ہے کہ ہم بات کی تصدیق اور تحقیق کے بجائے اختلاف اور تضاد کو قیاس آرائیوں پر ہوادینے لگتے ہیں اور باہمی مسائل میں پیچیدگیاں بڑھتی جاتی ہیں۔سائنس ہماری ترقی میں ہی مددگارنہیں ہے بلکہ ہمارے سماجی رویوں کو بدلنے بھی مددگار ثابت ہوتی ہے جس کی وجہ سے ہماری شخصیت کا جھول ختم ہوجاتا ہے اور ہم معاشرے کے لئے قابل قبول بلکہ قابل تحسین ہوجاتے ہیں۔سائنس صرف ڈاکٹر ،انجینئر یا سائنسدان نہیں پیدا کرتی ہے بلکہ ہماری زندگی کے عام رویوں میں بھی تبدیلی کی نقیب ہوتی ہے۔
عصر حاضر کے مسلمانوں کی سائنس سے عدم توجہ؛۔آج مسلمان سائنسی علوم میں پیچھے رہنے کے باعث مادی اور معاشی ترقی میں بہت پسماند ہ ہوگئے ہیں۔آج زمانے میں جتنی بھی مصنوعات اشیاء خواہ وہ زندگی کے کسی بھی شعبے سے تعلق رکھتی ہوں ان کے ایجادات اور دریافت میں کسی مسلمان کا کوئی عمل دخل اوراعانت شامل نہیں ہے۔آج دنیا میں مسلمانوں کے زیر تصرف 57ممالک ہیں جہاں مسلمانوں کی اپنی حکومت ہے۔دنیا میں مسلمانوں کی آبادی تقریباً ایک ارب 60(ساٹھ )کروڑ پر مشتمل ہے لیکن یہ ہمارے لئے بڑی شرمندگی کی بات ہے کہ اب تک صرف تین مسلمانوں نے نوبیل پرائز حاصل کیا
ہے۔دنیا کی پانچ سو (500)یونیورسٹیوں کی لسٹ میں چند مسلم یونیورسٹیز کا نام شامل ضرورہے لیکن دنیا کی 100ٹاپ یونیورسٹیز میں کسی مسلم یونیورسٹی کا نام تک شامل نہیں ہے۔ابھی حال میں کی گئی یونیورسٹیز
کی عالمی درجہ بندی میں علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کو ایشیاء کی ٹاپ10یونیورسٹیز کی فہرست میں شامل کیا گیا ہے لیکن یہاں بھی سائنس کی تحقیق اور سائنس علوم کی ترویج و فروغ کی سمت کی جانے والی پیش رفت اطمینان بخش نہیں ہے۔عرب ممالک میں سائنس تو کجا نظام تعلیم ہی ا طمینان بخش نہیں ہے۔اگر یہ کہاجائے تو بے جا نہ ہوگا کہ مسلم جامعات کے عالمی درجے میں کسی قدر اضافہ ضرورہوا ہے لیکن عالمی معیار کی جامعات آج تک ہم قائم نہیں کرسکے۔
کسی بھی چیز کی قبولیت ،فضیلت اس کی نفع رسانی پر منحصر ہوتی ہے۔جاپان میں بد ھ مذہب کا جب اولین دور میں داخلہ ہوا تو اس کے حکمران نے حکم صادر کیا کہ پہلے اس مذہب پر چند لوگوں کو عمل پیرا کیا جائے اگر اس مذہب کے ذریعے ان کے طرز زندگی میں تبدیلی ،معاشی خوشحالی،روحانیت اور پاگیزگی پیدا ہوجائے تو اس کو ہم اپنی پوری مملکت میں نافذ کردیں گے۔یہ قول ہم مسلمانو ں کے ذہنوں کو جھنجھوڑ نے کے لئے کافی ہے کہ کیا آج مذہب ہماری زندگیوں کو تبدیل کر رہا ہے۔کیا ہم اپنے ہاتھوں مذہب کی تذلیل اورمذہب اسلام کے لئے ننگ نام بنے ہوئے نہیں ہیں۔آج کے ہمارے مزاج اور ہماری طرز زندگی دیکھ کر کوئی اسلام قبول کرسکتا ہے ۔ہمیں آج اس بات پر ٹھنڈے دماغ سے غور کرنے کی سخت ضرورت ہے۔
اہم بلاگز
چراغ تو روشن ہیں
پی ٹی اے کی ایک رپورٹ کے مطابق پاکستان میں سوشل میڈیا صارفین کی تعداد 16 کروڑ کے لگ بھگ ہے۔ اس رپورٹ میں مکمل سچائی ہو پھر بھی ٹی وی بہرحال ایک مقبول ذریعہء مواصلات ہے۔ شام کے وقت یا رات نو بجے ٹی وی پر ٹاک شوز یا head lines ملاحظہ کرنے والے افراد کا تناسب کم نہیں ہوا۔ آج جب شام آٹھ بجے ٹی وی آن کیا تو اتفاق سے ٹاک شو کا موضوع تھا انٹرا پارٹی انتخابات اور پارٹی کی قیادتیں۔ پیپلز پارٹی، مسلم لیگ، پی ٹی آئی سبھی کے انٹرا پارٹی الیکشن کے احوال چل رہے تھے۔ پھر نمایاں قائدین کے نام لیے گئے
پیپلز پارٹی:- ذوالفقار علی بھٹو، بےنظیر بھٹو، زرداری، بلاول بھٹو، آصفہ بھٹو، پارٹی قیادت کے نمایاں افراد ۔
مسلم لیگ نون:- نواز شریف، شہباز شریف، حمزہ شہباز، مریم نواز ۔
پی ٹی آئی:- عمران خان ہی موءسس اوروہی قائد انہی کے دم خم سے پارٹی ہے۔ غیر مشروط، عقیدت اور اتباع کا محور بس عمران خان کی شخصیت ہے، اختلاف ہے تو عمران خان سے، اتفاق ہے تو عمران خان سے۔
مردِ واحد یا پھرایک خاندان۔ بس ہر پارٹی میں اسی کا اجارہ ہے۔ کس منہ سے یہ لوگ جمہوریت کا نام لیتے ہیں۔ کبھی سوچا آپ نے؟؟ ووٹ دینے سے پہلے سوال کیا کبھی آپ نے ان، مقبول لیڈرز، سے؟ اکتائے دماغ کے ساتھ چینل بدلا تو حافظ نعیم الرحمن کے حلف کی خبر چل رہی تھی۔ سارامنظر ہی دلکش لگا۔ بھیگی آنکھیں، کپکپاتے الفاظ دعاؤں کی التجا. یہ ہے حافظ نعیم الرحمن کا حلف ۔ دماغ میں سوال اٹھا "کیا یہ شخص سالہا سال سے نسل در نسل اس جماعت کا گدی نشین ہے؟"
نہیں جی اس سے پہلے ایک درویش صفت، روشن کردار والا، ہمت و جہد کا استعارہ۔۔۔ سراج الحق تھا اسی ذمہ داری پہ ۔۔۔ تو کیا سراج الحق کو عوامی مقبولیت، یہ عہدہ، کروڑوں لوگوں کی دعائیں ان کے باپ دادا نے دلوائیں؟ نہیں جی، وہ تو حلف اٹھانے سے چند دن پہلے تک انہیں خبر تھی نہ خواہش اور ان سے پہلے جو اس منصب پر تھے وہ تھے سید منور حسن، وہ سید، یہ پٹھان، وہ کراچی سے، یہ کے پی سے، کیا سید منور حسن اپنے سے گزشتہ امیر جماعت کے رشتے دار تھے؟
نہیں، وہ بھی اول الذکر سبھی کی طرح ایک عام کارکن تھے۔
نعیم صدیقی (رحمہ اللہ علیہ) اپنی تصنیف "المودودی" میں لکھتے ہیں
"۔۔۔ کتنا سخت لمحہ ہے کہ اس شخص کے جسد کی امانت کو مٹی کے حوالے کرنے کے بعد میں اسی کی جدائی کاذکر چھیڑ رہا ہوں۔ ترجمان القرآن کی ادارت کرنے اوراس کے ذریعے دور دراز تک ایمان وحکمت کا نور پھیلانے والی ہستی نگاہوں سے اوجھل ہوچکی ہے۔ اس کی کرسی خالی ہے وہ اپنے تاریخی کمرے میں بھی موجود نہیں اور اہلخانہ کی مجلس میں بھی شریک نہیں۔اس کی کتابیں جیسے آنکھیں پھاڑ پھاڑ کر اسے ڈھونڈ رہی ہیں۔۔۔"
قارئین! نعیم صدیقی کا کرب جب ان الفاظ میں ڈھل رہاتھا تو شائد انھیں بھی اندازہ نہیں تھا کہ یہ تحریک پھل پھول لائے گی ، وسعت اختیار کرے گی۔ بلاشبہ...
تاریکی میں ڈوبتی دنیا
معاشرہ افراد کی مرہونِ منت ترتیب پاتا ہے، افراد اپنی تربیت بہترین اطوار پر کرنے کی کوشش میں سرگرداں رہتے ہیں اور بہتر سے بہتر کی تلاش جاری ہے۔ تہذیبوں کا مطالعہ کیا جاتا ہے اور ان دفن شدہ تہذیبوں میں سے ان کے رہن سہن اور دیگر طور طریقوں پر تحقیق کی جاتی ہے اور باقاعدہ یہ ثابت بھی کیا جاتا ہے کہ ان تہذیبوں میں ایسا ہی ہوتا ہوگا۔ وقت کا تو نہیں، انسان کے طور طریقے ہر دور میں بدلتے رہتے ہیں۔ دنیا کی تاریخ انسانیت کی تذلیل جیسے واقعات سے بھری پڑی ہے، یہ جان کر دکھ ہوتا ہے کہ ایک انسان دوسرے انسان کو تکلیف دینے سے کسی قسم کی عبرت حاصل نہیں کرتا یا پھر ہر انسان اس سوچ کا حامل ہے کہ جو وہ کر رہا ہے وہ صحیح ہے اسے ویسا ہی کرنا تھا جیسا وہ کر رہا ہے لیکن وقت سوچ میں تبدیلی لے آتا ہے پھر پچھتاوالادے لادے زندگی گزر جاتی ہے۔
ہمارے پیارے بنی ﷺ کے چچا کہا کرتے تھے کہ ہمارا بھتیجا جو کہہ رہا ہے وہ بلکل صحیح ہے لیکن ہم اپنے آباؤ اجداد کو کیسے ترک کردیں۔ آج احساس کو بھی شرمندگی کا سامنا ہوگاکیونکہ وہ اپنی شدت کھوچکا ہے اور کسی اندھیری کال کوٹھری میں سسکیاں لے رہا ہوگا۔ ہم مادہ پرست لوگ ہیں جہاں احساسات کا تعلق کیمرے کی آنکھ کو دیکھانے کیلئے تو امڈ آتے ہیں لیکن حقیقی دکھ اور تکلیف سے باز رہنے کا ہنر خوب جانتے ہیں۔ دنیا اتنی رنگ برنگی ہوگئی ہے کہ پلک جھپکتے میں منظر بدل جاتا ہے اور وہ سب سامنے آموجود ہوتا ہے جو ہم دیکھنا چاہتے ہیں، منظر بدل لیتے ہیں۔
اب کسی کے لئے بھی ساری دنیا میں یہ کہنا ناممکن ہے کہ دنیا ایک خوبصورت جگہ ہے اور یہاں رہنے کیلئے کسی خوبصورت کونے کا انتخاب کر کے وہاں رہ لیا جائے، انسان نے اپنی تباہی کیلئے ایسا ایسا سامنا تیار کر رکھا ہے کہ جب اسے استعمال کیا گیا تو وہ وہاں بھی پہنچ جائے گا جہاں اس کی ضرورت نہیں ہوگی، یعنی جب تباہی کا عمل شروع ہوگا تو کوئی بھی اس تباہی سے کیسے محفوظ رہ سکے گا۔ دنیا نے ایک نا ایک دن ختم ہونا ہے اور مسلمانوں کے عقیدے کیمطابق اب قیامت کے قریب کی نشانیاں ظاہر ہونا شروع ہوگئی ہیں، اب یقینا قیامت آئی کھڑی ہے۔ فلسطین میں ہونے والا ظلم کسی ایسی ہی منزل کی جانب حتمی پیش قدمی کہا جاسکتا ہے۔ کوئی بولنے سے ڈر رہا ہے اور کوئی ایسے ڈھڑلے سے بول رہا ہے کہ اسے گولی سے مارا جا رہا ہے، ظالم اپنے قبیلے کے پر امن لوگوں کو مارنے سے بھی نہیں چوک رہا۔ پچھلے زمانوں میں یہ کام مخصوص لوگوں کے ذمے ہوا کرتا تھا لیکن آج تو سب، سب کچھ کرنے کیلئے پرتول رہے ہیں۔
پاکستان تو وہ ملک ہے جہاں بجلی کی تخفیف قوت (لوڈشیڈنگ)اس قدر ہوتی ہے کہ ملک کا اکثر حصہ تاریکی میں ڈوبا رہتا ہے۔ اس کے ساتھ ہی ساتھ بہت سارے ایسے امور ہیں جو ہمیں تاریکی...
۔23 مارچ کا یادگار دن
قوموں کی زندگی میں بعض لمحات بڑے فیصلہ کن ہوتے ہیں جو اپنے نتائج اور اثرات کے اعتبار سے خاصے دور رس اور تاریخ کا دھارا موڑنے کی اہلیت رکھتے ہیں، 23 مارچ کا یادگار دن ہماری قوم کیلئے بڑی اہمیت کا حامل ہے اسکی ایک تاریخی حیثیت ہے کہ سنہ 1940ء میں لاہور کے تاریخی شہر میں برصغیر کے تمام مسلمانوں کے نمائندوں نے قائد اعظم کی زیر صدارت ایک تاریخی اجتماع میں حصول پاکستان کی قرار داد منظور کی تھی۔ تا کہ برصغیر کے مسلمانوں کیلئے مسلم قومیت کی بنیاد پر ایک آزاد ملک حاصل کیا جا سکے۔ جس پر نہ غیر ملکی استعمار کے تاریک سائے پڑیں اور نہ ہی ہندو اکثریت اور چیرہ دستیاں مسلمانوں کے ارفع مقاصد کی راہ میں حائل ہونے پائیں۔ مسلمانان برصغیر اپنے لئے ایک الگ وطن اسی لئے چاہتے تھے جہاں قرآن و سنت کی تعلیمات کی روشنی میں وہ ایک مثال اسلامی معاشرہ تشکیل دیں جہاں اسلامی عدل و انصاف کا دور دورہ ہوا اور جو عصر حاضر میں سرمایہ داری نظام اور اشتراکیت کی قوتوں سے پسی ہوئی انسانیت کیلئے مشعل راہ ثابت ہو۔ اس عظیم مقصد کے لئے 23مارچ 1940ء کولاہور میں بادشاہی مسجد کے قریب ایک وسیع و عریض میدان میں لاکھوں مسلمان اکٹھے ہوئے اور بنگال کے وزیر اعلیٰ مولوی فضل حق نے ایک قرار داد پیش کی جس کی تائید تمام مسلمانوں نے دل و جان سے کر دی جس سے ان کی قسمت کا پانسہ پلٹ گیا۔ اس دن لاہور میں مسلمانان ہند نے اپنی منزل کا اعلان کیا تھا اور دو ٹوک الفاظ میں کہا تھا کہ ہم ہندوستان میں مسلمانوں کیلئے آزاد خطوں کی جدوجہد کا اعلان کرتے ہیں۔
23 مارچ کو قرار داد کی منظوری کے بعد قیام پاکستان کی جدوجہد فیصلہ کن مرحلے میں داخل ہو چکی تھی۔ قوم کو ایک واضح نصب العین مل چکا تھا اور خوش قسمتی سے قائد اعظمؒ جیسے مدبر قائد میسر تھے جن کی قیادت سحر انگیز اور ولولہ انگیز ہونے کے علاوہ سیاست میں صداقت اور دیانتداری کی علمبردار تھی۔ دوسری جنگ عظیم کے خاتمے تک مسلمانان ہند مسلم لیگ کے پرچم تلے متحد ہو چکے تھے۔ 1945ء میں وائسرائے ہند لارڈ ویول نے مسلم لیگ اور مطالبہ پاکستان کی مقبولیت اور دوسری جماعتوں کی طاقت کا اندازہ کرنے کیلئے انتخابات کروائے۔ کانگرس کے ایماء پر بننے والے مسلمانوں کے نام نہاد متحدہ محاذ کی مخالفت کے باوجود مسلم لیگ کو تاریخی فتح حاصل ہوئی اور مسلم لیگ مسلمانان ہند کی نمائندہ جماعت بن کر سامنے آئی اور اس طرح حصول پاکستان کی منزل قریب سے قریب تر ہو گئی۔ اکتوبر 1946 ء میں ایک عبوری حکومت قائم کی گئی جس میں مسلم نمائندگان کی قیادت خان لیاقت علی خان نے کی ادھر حکومتی ایوانوں میں قائد اعظم ؒمسلمانوں کے سیاسی حقوق کے تحفظ اور قیام پاکستان کیلئے سیاسی جنگ لڑ رہے تھے تو دوسری طرف ہندو مسلم فسادات نے پورے ملک کو بری طرح اپنی لپیٹ میں لے رکھا تھا۔ ان فسادات میں لاکھوں مسلمان شہید ہوئے۔3 جون کو تقسیم ہند کے...
وہ دانائے سبل ختم الرسل
قارئین کرام یہ ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ ختم نبوت مسلمانوں کا قطعی اجماعی عقیدہ ہے، اس پر بیسیوں آیاتِ قرآنیہ اور سیکڑوں احادیث صحیحہ میں دلائل موجود ہیں۔ قرآن مجید میں وارد لفظِ خاتم النبیین میں کسی قسم کی تاویل اور تخصیص کی گنجائش نہیں ہے۔ اس میں تاویل و تخصیص کرنے والا دراصل قرآن و حدیث کی تکذیب کرتا ہے۔
چودہ سو سال سے زائد کا عرصہ گزر جانے کے باوجود امتِ محمدیہ کا آج بھی اس پر اجماع ہے کہ مدعی نبوت اوراس کے پیروکارخارج از اسلام اور مرتد ہیں۔ تاریخ گواہ ہے جب بھی کسی باغی، طالع آزما یا فتنہ پرداز نے اپنے آپ کونبی کہنے کی جرأت کی، مسلمانوں نے اس کے خلاف بھرپورجہاد کیا۔ ہر مسلمان کا غیر متزلزل عقیدہ اور ایمان یہ ہے کہ حضور سرورِ عالم سیدنا محمدﷺ آخری نبی ہیں۔ حضورﷺ کی تشریف آوری کے بعد نبوت کا سلسلہ ختم ہو گیا۔ حضور اکرمﷺ کے بعد کوئی نیا نبی نہیں آسکتا اور جو شخص اپنے نبی ہونے کا دعویٰ کرتا ہے اور جو بدبخت اس کے اس دعویٰ کو سچا تسلیم کرتا ہے وہ دائرہ اسلام سے خارج اور مرتد ہے اور اسی سزا کا مستحق ہے جو اللہ تبارک تعالیٰ نے مرتدکے لیے مقررکی ہے۔
بحیثیت مسلمان ازروئے قرآن و حدیث ہمارا اس بات پر پختہ یقین ہے کہ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اللہ کے آخری نبی اور رسول ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے اپنی آخری کتاب قرآن مجید ان پر نازل فرماکر دین کی تکمیل کردی اور قرآن کو تا قیامت محفوظ بھی کردیا۔ سلسلہ نبوت پر ختم کی مہر بھی لگادی آپ صلی اللہ علیہ وسلم آخری نبی و رسول ہیں آپ صلی اللّٰہ علیہ وسلم کی امت آخری امت ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد نہ کوئی نبی ہے نہ رسول ہے نہ تھا نہ تا قیامت ہوگا۔ اسی طرح آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی امت آخری امت ہےاور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم آخری نبی ہیں۔ قرآن مجید میں اس بات کی صراحت مختلف آیات میں ملتی ہے۔ جیسا کہ سورہ احزاب کی چالیسویں آیت میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تمہارے مَردوں میں سے کسی کے باپ نہیں ہیں لیکن وہ اللہ کے رسول ہیں اور سب انبیا کے آخر میں (سلسلۂِ نبوت ختم کرنے والے) ہیں اور اللہ ہر چیز کا خوب علم رکھنے والا ہے۔
بہت سی احادیث میں بھی ختم نبوت کی تصدیق موجود ہے۔ حدیث مبارکہ ہے۔ میری اور مجھ سے پہلے انبیاء کی مثال ایسی ہے جیسے کسی شخص نے ایک گھر بنایا، اس کو بہت عمدہ اور آراستہ پیراستہ بنایا مگر ایک کونے میں ایک اینٹ کی جگہ چھوڑدی، پس لوگ جوق درجوق آتے ہیں اور تعجب کرتے ہیں اور یہ کہتے ہیں یہ اینٹ کیوں نہیں لگادی گئی۔ آپ نے فرمایا: وہ اینٹ میں ہوں اور میں انبیاء کرام کا خاتم ہوں۔ اسی مفہوم کی ایک اور حدیث مبارکہ حضرت جابر بن عبداللہ رضى الله تعالى عنه نے بھی روایت کی ہے۔(صحیح البخاری، کتاب المناقب، باب خاتم النّبیین...
الوداع نہیں کہتے
بی بی سی جماعت اسلامی کی خبریں عموما نہیں لگاتا۔ لیکن اس نے یہ خبر بہت کم وقت میں دے دی کہ جماعت اسلامی کے امیر سراج الحق صاحب اپنے امارات عہدے سے مستعفی ہوگئے ہیں۔ہم جانتے ہیں بی بی سی کس کا چینل ہے۔ان کی نیتیں بھی یہ تھیں کہ اس خبر سے جماعت کو کمزور شکست خوردہ سمجھا جائے گا۔یہ خبر بھی سنی کہ حافظ نعیم صاحب نے دھاندلی والی نشست لینے سے انکار کردیا۔جو کہتے تھے کہ سیاستدانوں کا کوئی اخلاق نہیں ہوتا۔ان دیانتدار اور اعلی کردار کے حامل سیاست دانوں کو دیکھیں۔ایک نے ہاتھ آئی سیٹ ٹھکرا دی۔ دوسرے نے پارٹی کی سربراہی چھوڑ کر ثابت کر دیا کہ جماعت اسلامی میں عہدوں کی نہیں بلکہ ویلیوز کی اہمیت ہوتی ہے۔اور بےشک یہ احساسِ ذمہ داری فقط جماعت اسلامی میں پایا جاتا ہے۔
ان دونوں واقعات سے ہوا یہ کہ جماعت اسلامی کی جمہوریت شورائیت اور واضح ہوگئی۔ عوام جماعت اسلامی سے مذید متاثر ہوگئی۔ جی ہاں جماعت اسلامی عوامی مقبولیت حاصل کر چکی ہے۔ہر شعبہ ہائے زندگی کے لوگ اس کی دیانت خدمت کے قائل ہوچکے ہیں۔اس الیکشن کے بعد یہ مغالطہ ختم ہوچکا ہے کہ جماعت کا ووٹ بینک نہیں بنتا جماعت اسلامی کا کم ازکم یہ نتیجہ اس الیکشن میں تھا کہ اسے بلوچستان میں دو سیٹیں کے پی کے میں تین اور سندھ میں پندرہ سے زیادہ ہوتیں اگر زبردستی انتقال ہوئی پارٹی کے نئے جیون کی تیاری نہ ہوتی۔ ووٹ جماعت کو ملا ہے کراچی عوام نے اسے منتخب کیا ہے یہ ہاری نہیں اسے ہروایا ہے۔
یہ استعفی دراصل ہمارے قائد کی اعلی ظرفی ہے۔ انہوں اخلاقی طور سے اچھا کیا۔یہ استعفی ہر اس کارکن پر طمانچہ ہے۔جو سمجھتے ہیں کہ اس میں جماعت کا اس کی قیادت کا کوئی قصور ہے۔ ان سب حالات میں کسی کا کوئی قصور نہیں نہ کارکن کا قصوروار ہے نہ ہی امیر کا قصور ہے۔سمجھنے کی بات ہے کہ جماعت کا مقابلہ وقت کے اصل فرعون سے ہے۔ سیکولر لبرلز ساری طاقتیں مل کر اس کے خلاف ہیں اسلام کے دشمن فرعون نمرود ابو جہل دجالی فتنے آسان ٹاسک کسی بھی دور میں نہیں تھے۔ہمارے دور کے فرعون طاقت میں قدیم فرعون سے کہیں آگے ہیں۔الیکٹرانک میڈیا جماعت کو نہیں دکھاتا۔پرنٹ میڈیا جماعت پسند اسلام پسند تحریر نہیں چھاپتا۔عوام اگر قبولتی ہے اصل نتائج نہیں دیے جاتے۔قیادت کا کیا قصور وہ کیا اپنی جان مار دیں۔اس الیکشن کو آپ صلح حدیبیہ سے جوڑ لیں یقین کریں جماعت کی مقبولیت میں اضافہ ہی ہوا ہے۔جس عوام نے جماعت کو ووٹ دیا وہ اس کی شکست پر حیران ہے۔ جان چکی ہے کہ دینی جماعتوں میں خطرہ صرف جماعت اسلامی ہے۔عوام نے کبھی کسی موروثی مذہبی لیڈر یا پیر کو یوں اپنے عہدوں سے مستعفی ہوتے نہیں دیکھا۔جماعت اسلامی عوام کے لیے حل ہے تو باطل نظام کے لیے روک ہی روک ہے۔
یہ جماعت اسلامی کے لیڈر کی اعلی قیادت ہے۔جس میں حافظ نعیم الرحمن، مشتاق احمد صاحب، اکبر چترالی اور مولانا ہدایت الرحمن جیسے ہیرے پیدا کیے اور چمکنے کے خوب مواقع دیے۔سراج صاحب آپ...
طنز و مزاح
کہاں کی بات کہاں نکل گئی
قارئین کا صاحبِ مضمون سے متفق ہونا لازم ہے کیونکہ یہ تحریر اسی مقصد کے لیے لکھی گئی ہے۔ کچھ لوگوں کو نصحیت کرنے کا جان لیوا مرض لاحق ہوتا ہے۔ جہاں کچھ غلط سلط ہوتا دیکھتے ہیں زبان میں کھجلی اور پیٹ میں مروڑ اُٹھنے لگتا ہے ایسا ہم نہیں کہتے ان لوگوں کے پند و نصائح وارشادات سننے والے متاثرین کہتے ہیں۔
اللہ معاف کرے اکثر نوجوانوں کو نصحیت کرنے کے جرم کی پاداش میں ہماری ان گنہگار آنکھوں نے ان بزرگوں کو کئی مرتبہ منہ کی کھاتے دیکھا ہے۔ مگر نہ وہ اپنی روش سے باز آتے ہیں اور نہ ہی کتے کی ٹیڑھی دم سیدھی ہوتی ہے۔ اب قریشی صاحب کی بیوہ کو ہی لے لیجیے عمر دراز کی ستر بہاریں دیکھ چکی ہیں، بیوگی کے پچاس سال گزارنے والی اپنی زندگی سے سخت بیزار ہے۔ شادی کے کچھ عرصے بعد ہی موصوفہ نے اپنے پر پرزے نکالنا شروع کر دئیے تھے۔
دن رات صبح شام وہی گھسا پٹا راگ الاپتی رہتی تھیں تمہارے ماں باپ کی خدمت میں کیوں کروں؟ تمہارے سارے کام میں کیوں کروں؟ میں غلام نہیں ہوں۔ جو تمہاری ہر بات مانوں وغیرہ وغیرہ۔ قریشی صاحب بھلے مانس آدمی تھے شرافت اور منکسر المزاجی ان کی گھٹی میں پڑی ہوئی تھی۔ کان دبائے، نظریں جھکائے بیوی صاحبہ کے فرمودات سنتے اور سر دھنتے رہتے۔ ان کا یہ معصومانہ انداز بیوی صاحبہ کے تن بدن میں آگ لگا دیتا پھر جو گھمسان کی جنگ چھڑتی جس میں بیوی صاحبہ فتح کے جھنڈے گاڑنے کے بعد قریشی صاحب سے اپنے تلوے چٹوا کر انہیں مورد الزام ٹھہراتے ہوئے فرد جرم عائد کر کے سزا سنا دیتیں۔ قید بامشقت کے تیسرے سال ہی قریشی صاحب کے کُل پرزے جواب دے گئے۔
گھر کی مسند صدارت و وزارت پر بیوی صاحبہ براجمان تھیں بیچارے قریشی صاحب کی حیثیت کا قارئین خود اندازہ لگا سکتے ہیں۔ گنے چنے چند سالوں کی رفاقت کے بعد ایک شام قریشی صاحب داعئ اجل کو لبیک کہہ گئے۔ لواحقین میں ایک بیوہ اور پانچ بیٹیاں چھوڑیں۔ ماں کے طور اطوار، رنگ ڈھنگ، چال ڈھال اور انداز کا مہلک زہر اولاد کی نسوں میں اتر چکا تھا۔ اور خربوزے کو دیکھ کر خربوزیاں رنگ پکڑتی چلی گئیں۔ موصوفہ کی کل کائنات بس یہ پانچ بیٹیاں ہیں۔ پانچوں کنورای جو شادی کے نام پر ایسے اچھلتی ہیں جیسے بچھو نے ڈنک مارا ہو۔ قبر میں پیر لٹکائی قریشی صاحب کی بیوہ صبح شام خود کو کوستے رہتی ہیں کہ اس جیسے چاہو جیو کے سلوگن نے ان کی دنیا و آخرت ملیامیٹ کر کے رکھ دی۔ مگر اب پچھتائے کیا ہوت جب چڑیاں چگ گئیں کھیت۔ ہم اگر اپنی روزمرہ زندگی پر نظر دوڑائیں تو کتنی چیزیں ہیں جو کہ ہم غلط سمجھتے ہیں لیکن پھر بھی کرتے ہیں نہ جاننا اتنا سنگین نہیں ہوتا جتنا کہ جان کر حقیقت سے نگاہیں چرانا ہوتا ہے۔ چچ چچ ہم آنکھوں دیکھی مکھی نگلنے کے عادی بنا دیے گئے ہیں۔
2021ء میں گھریلو تشدد کا بل اسمبلی سے منظور کروا کر ہماری نوجوان نسل کو یہ پیغامِ تقویت...
والدین اور بیٹیاں
آج اسکول کی بچیوں کو اظہار خیال کے لیے موضوع دیا تھا کہ " آپ کے ساتھ والدین کیا سلوک ہے" جی بچیوں کے ساتھ والدین کا سلوک
چونکہ اسمبلی کے لیے موضوع نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)کی وہ حدیث تھی جس میں آپ صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلم نے بیٹیوں سے نفرت کرنے اور انہیں حقیر جاننے سے منع کیا ہے ،انہیں اللہ تعالیٰ کی رحمت قرار دیا ہے اور ان کی پرورش کرنے والے کو جنت میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ ہونے کی بشارت سنائی ہے۔ اس لیے بچیوں کے ساتھ اس حدیث پر تفصیل سے بات ہوئی اور انہیں کل کی اسمبلی میں اس پر بات کرنے کا کہا گیا اور تاکید کی گئی کہ سب طالبات کل اسمبلی میں بتائیں گی کہ انکے والدین انکے ساتھ کیا سلوک کرتے ہیں۔
اب آج وہ اسمبلی منعقد ہوئی اور بچیوں نے اظہار خیال کرنا شروع کیا۔ کسی نے کہا والدین ہمیں پالنے کے لیے ساری قربانیاں دیتے ہیں، کسی نے کہا کہ والدین ہماری سب خواہشات پوری کرتے ہیں، کسی نے کہا وہ ہمیں تہزیب سکھاتے ہیں، کسی نے کہا وہ ہماری اچھی تربیت کرتے ہیں، کسی نے کہا کہ وہ ہمیں کھلاتے پلاتے ہیں ، ایک رائے یہ آئی کہ وہ ہمیں کپڑے خرید کر دیتے ہیں، ایک نے کہا کہ وہ مجھے کوئی کام نہیں کرنے دیتے ایک اور نے کہا کہ صبح آنکھ کھلتی ہے تو ناشتہ تیار ہوتا ہے۔ ایک بات یہ آئی کہ انکا مرکز و محور ہماری پڑھائی ہے ایک اور کہا کہ وہ ہمیں کامیاب دیکھنا چاہتے ہیں۔
اور آخر میں ایک بات ایسی سامنے آئی کہ ہم سب کھلکھلا کے ہنس پڑے حالانکہ اپنے والدین کی ان کوششوں اور محبتوں کو سن کہ ماحول سنجیدہ لگ رہا تھا۔
اس نے کہا " میم ۔ میرے والدین بھی میرے ساتھ بہت اچھا سلوک کرتے ہیں، میری ہر ضرورت پوری کرتے ہیں مگر جب گھر میں چکن بنتا ہے تو leg pieces بھائی کو ملتا ہے۔ " اس معصوم بچی کے اس معصوم تبصرے پر ہم مسکرائے بغیر نہ رہ سکے ۔
تو تمام والدین سے گزارش ہے کہ ہمیں پتہ ہے آپ نے اپنی بیٹیوں کو شہزادیوں کے جیسا پالا ہے اور گڑیوں کے جیسا لاڈلا رکھا ہے مگر جب چکن خریدیں تو leg pieces زیادہ ڈلوا لیا کریں۔
زندگی بدل گئی !
شوہر اچھا ہو بیوی بچوں کا خیال رکھتا ہو تو زندگی پرسکون ہوجاتی ہے مگر یہاں تو زبردستی نوکری پر بھیجو پھر خود بازار جاٶ ضرورت کا سارا سامان خود اٹھاٶ پھر گھر کی صفائی، کھانا بنانا، بچوں کو اسکول چھوڑنا اور لانا سارا دن اسی میں گزر جاتا ہے یہاں تک کے امّی سے بات تک کرنے کا ٹائم نہیں ملتا مہینوں گزر جاتے ہیں امّی سے ملاقات ہوئے۔
فائزہ نے دکھوں کا قصہ سنا کر سکون کا سانس لیا تو میں نے بھی تسلی دی اللہ آسانی کرے تمھارے لیئے۔آج پھر کئی مہینوں بعد فائزہ سے ملاقات ہوئی تو پتہ چلا وہ گھر خالی کر کے دوسرے محلے میں چلی گئی ہے کرائے داروں کے لیۓ یہی پریشانی ہے اللہ سب کو اپنا گھر نصیب کرے۔ فائزہ بڑی خوش اورپہلے سے بہت اچھی لگ رہی تھی خوش ہوکر بتانے لگی۔ میرے شوہر تو جی ایسے فرمابردار ہوئے ہیں کے بس پوچھو مت۔ ویسے میں نے پوچھا نہیں تھا پر فائزہ بتاۓ بغیر کہاں رہتی۔
خوشی خوشی بتانے لگی صبح وقت سے پہلے نوکری پر چلے جاتے ہیں ساتھ بچوں کو بھی اسکول چھوڑ دیتے ہیں گھر کی ساری ذمہ داری خود لے لی ہے میں تو بس اب گھر میں رہتی ہوں اور اتنے محنتی ہوگۓ ہیں کے رات رات بھر گھر نہیں آتے یہاں تک کے کئی کئی دن کام کے سلسلے میں شہر سے باہر رہتے ہیں اور میں اپنی امّی کے گھر آرام کرنے چلی جاتی ہوں رزق میں ایسی برکت ہے کہ کبھی کبھی ہر چیز ڈبل آجاتی ہے پچھلے ہفتے دو سینڈل بلکل ایک جیسی لے آۓ بس ایک نمبر چھوٹی تھی پھر وہ تبدیل کرنی پڑی۔ کبھی راشن میں بھی چیزیں ڈبل ہوجاتی ہیں بس اللہ کا کرم ہے۔ میں تو کونے والی نورن دادی کو دعائيں دیتی ہوں۔ یہ سب ان ہی کی وجہ سے ہوا ہے۔ انھوں نے مسجد کے مولوی صاحب کا پتہ دیا تھا۔ مولوی صاحب نے ایک وظیفہ بتایا تھا پڑھنے کو وہ بھی تہجد میں بس پھر کیا تھا میری تو قسمت ہی پلٹ گئی۔ زندگی آسان ہوگئی ہے۔
مجھے بڑی حیرانی ہوئی کہ ایک وظیفے سے قسمت بدل گئی بھئی یہ کونسا وظیفہ ہے چلو چھوڑو۔مگر فائزہ کہا مانتی بتائے بغیر۔ عربی کے چند الفاظ بڑے ادب سے سنائے اور چہرے پر ہاتھ پھیر کر تین بار آمین آمین آمین کہا۔ بس یہ وظیفہ پڑھ لو شوہر آپ کے قدموں میں اور ہاں کسی اور کو بھی بتا دیں اگر کوئی پریشان ہو تو کسی کا بھلا ہو جائے اچھی بات ہے۔ میرا نمبر بھی لے لیا اور پھر فائزہ مسکراتی ہوئی گھر روانہ ہو گئی۔
ہفتے بعد ہی ایک انجان نمبر سے فون آیا۔ ریسو کرنے پر فائزہ نے سلام دعا کی اور زور زور سے روتے ہوئے کہنے لگی میں تو لوٹ گئی بر باد ہوگئی بس بہن میرا شوہر تو ہاتھ سے نکل گیا پتہ نہیں کیا کمی تھی مجھ میں جو دوسری شادی کر لی اللہ ہی سمجھے گا ایسی عورتوں کو جو شادی شدہ بچوں والے مردوں سے شادی کر لیتی ہیں۔ میں...
بن بُلائے مہمان ! بَلائے جان
بن بلائے مہمان وہ بھی چپک جانے والے ایک دو دن سے زیادہ برداشت نہیں ہوتے اور اگر زیادہ ہی رک جائیں تو سارے گھر کو ہی تکلیف اور نقصان پہنچاتے ہیں اور سارے ہی لوگ ان سے کنّی کترا کر گزرنے کی کوشش کرتے ہیں کہ یہ ہمارے ساتھ ہی نہ چپک جائیں۔
ایسا ہی معاملہ ہم لوگوں کے ساتھ ہوا ہے پہلے تو اس خطرناک اماں نے اپنی اولاد کو بھیج دیا وہ ملک ملک گھوما اور یہیں ڈیرا ڈال لیا۔نہ جانے کیا کیا تباہ و برباد کیا اور یہ حضرت انسان بے بس اور بے کس منہ چھپائے گھومتا رہا حتی کہ اپنے بیماروں مجبور پیاروں سے ملنے اور ان کی تیمارداری سے بھی محروم رہا کچھ وقت گزرنے کے بعد جب اس نے دیکھا کہ ماحول ٹھنڈا ہوگیا ہے لوگ سکون میں ہیں تقریبات عروج پر ہیں اسکول، مساجد اور پارک بھرے ہوئے ہیں تو اس نے ناک بھوں چڑھایا اور سوچا ! یہ میری اولاد تو ٹھنڈی ہوتی جا رہی ہے برسوں محنت کی ہے میں نے اس پر اسے اتنی جلدی ہار نہیں ماننا چاہیے۔ اب مجھے ہی کچھ کرنا ہوگا تو لیجئے جناب پورے جوش اور بھرپور شیطانیت کے ساتھ کرونا کی امی جان اُُمِ کرونا (امیکرون) تباہ حال لوگوں کو اور تباہ کرنے دنیا میں انسانوں پر آدھمکی۔
کتنے دور اندیش تھے وہ لوگ جنہوں نے چاند پر پلاٹ بک کروائے تھے گوگل سرچ کرکے دیکھتے ہیں، تب پتہ چلے گا کہ وہ لوگ کرونا سے بچنے کے لیے چاند پر پہنچ گئے یا اس سے بھی کہیں آگے عالم برزخ پہنچ گئے۔
ہمارے گھر میں تین افراد پر اٌمِ کرونا فدا ہوگئی ہیں ہماری امی جان، بھیا اور آپی پر۔ان تینوں نے قرنطینہ کے نام پر ایک ایک کمرے پر قبضہ جما لیا ہے ابّا جان تو امی کے کمرے کے دروازے کے قدموں میں ہی پلنگ ڈالے پڑے ہیں اور ہم نے لاؤنج میں صوفے پر ڈیرہ جما لیا ہے البتہ ماسی خوش نظر ارہی ہے کہ تینوں کمروں کی صفائی سے جان بخشی ہوئی ہے۔
ویڈیو کال اور فون کال پر ہی سب رشتے داروں نے مزاج پرسی اور تیمارداری کرکے اپنا فرض نبھایا کیونکہ ہم سب مجبور ہیں ایک ان دیکھے وائرس سے۔سلائی والی آنٹی نے جب نئے سلے ہوئے سوٹ ہمیں بھجوائے تو اس کے ساتھ سوٹ کے کپڑے کے ماسک بھی بنے ہوئے رکھے تھے۔ سلائی والی آنٹی کو فون کرنے پر پتہ چلا کہ یہی فیشن چل رہا ہے، انہوں نے ایک آفر بھی دی کے ہم فینسی ماسک بھی بناتے ہیں ستارے موتیوں اور کڑھائی والے ان کا بھی پیکج ہے جو پیکج آپ لینا پسند کریں۔
نہ جانے کتنے ابہام ذہن میں گردش کر رہے ہیں۔ابھی تو ہم ڈر کے مارے اس قابل بھی نہیں ہوئے کی واٹس ایپ یا فیس بک پر اپنا اسٹیٹس لگائیں۔
I am vaccinated
کیوں کہ ابھی تو ہم اکّڑ بکّڑ ہی کر رہے تھے کہ چائنا کی ویکسین لگوائیں، کینیڈا کی یا پاکستانی کے اچانک، اْمِ کرونا سے پہلے بوسٹر بھی آٹپکا۔سوچ رہے ہیں ڈائریکٹ بوسٹر ہی لگوا لیں۔
یہ بلائے ناگہانی ہے بس...
ٹک ٹاک ایک نشہ
ٹک ٹاک مختصر ویڈیو کی ایسی ایپ ہے جس میں وہی ویڈیو چلتی ہے جو ’’مختصر‘‘ ہو۔بس ایک ویڈیو وائرل ہونے کی دیر ہے پھر آپ ایک ہی رات میں ہیرو بن گئے۔گویاٹک ٹاک سوشل میڈیا کا ایک ایسا پلیٹ فارم ہے جس میں وہی ویڈیو وائرل ہوتی ہے جس میں سب کچھ’’ پلیٹ‘‘میں رکھ کر پیش کیا جائے۔بلکہ نوجوان نسل تو وائرل ہونے کے لئے ایسی اشیاء بھی ’’پیش‘‘ کر دیتی ہیں جن کا پیش نہیں ’’زیر‘‘میں ہونا ہی معیاری،مناسب اور اخلاقی ہوتا ہے۔مگرچائنہ والوں کو کون سمجھائے کہ جس لباس کو ہم پاکستانی اعلیٰ اخلاقی اقدار سے گرا ہوا سمجھتے ہیں ان کے ہاں وہ لباس اعلی اقدار کا حامل سمجھا جاتا ہے۔بلکہ یوں کہنا مناسب ہوگا کہ لباس کا صرف سرا ہی نظر آتا ہو تو اسے اخلاقی لباس سمجھا جاتا ہے۔چائنہ اور یورپ میں تو اسی کی زیبائش مناسب ہوتی ہے جس کی ’’نمائش ‘‘زیادہ ہو۔ ان کے سامنے تو بھاری بھر کم فراک،غرارہ و شرارہ زیب تن کر کے جائیں تو وہ حیران ششدر رہ جاتے ہیں کہ ان کا ناتواں جسم ایسا لباس ’’کیری‘‘ کرتاکیسے ہے۔شائد اسی وجہ سی چینی اور یورپی خواتین وہی لباس زیب تن کرتی ہیں جو ہمیں زیب نہ دیتا ہو۔
میں نے اپنے انتہائی معصوم و سادہ دوست شاہ جی سے ایک معصومانہ سوال کیا کہ مرشد ٹک ٹاک پر کیسے وائرل ہوا جاتا ہے۔شاہ جی نے شانِ بے نیازی (بے نیازی کو کسی نیازی سے نہ ملایا جائے )اور لاپروائی سے جواب دیا کہ فی زمانہ ٹک ٹاک ہی نہیں ہر جگہ وائرل ہونے کا ایک فارمولہ ہے۔میں نے متجسسانہ انداز میں پوچھا کہ مرشد وہ کیا۔فرمانے لگے۔’’جو دکھتی ہے وہ بکتی ہے‘‘یعنی جو دکھتا ہے وہی بکتا ہے۔شاہ جی کے جواب پر سوال در سوال ذہن میں کود آیا کہ کیا اس فارمولہ کا اطلاق صنف نازک(جسے میں ہمیشہ صنف آہن کہتا ہوں)پر ہی ہوتا ہے یا صنف معکوس بھی اس زد میں آتے ہیں۔کہنے لگے فارمولہ تو وہی ہے بس الفاظ کے چنائو کو بدلنا ہوگا،یعنی۔۔۔۔۔یعنی مرد حضرات کے لئے الفاظ بدل کر ایسے ہو جائیں گے کہ ’’جو بَکتا ہے وہ بِکتا ہے‘‘
چین نے جب ٹک ٹاک ایپ متعارف کروائی تو اس کا مقصد سیلیکون شہر میں بیٹھ کر ایسی مختصر مدتی ،مختصر ویڈیو،مختصر لباس میں بنا کر پیش کرنا تھاکہ جو اپلوڈ ہوتے ہی وائرل ہو جائے،اور ایسا ہی ہوتا تھا۔اس لئے ہماری نوجوان نسل بھی چین کے نقش پا پر اپنے قدم جمائے ویسی ہی مختصر ویڈیو بناتے ہیں جو وائرل ہو جائے۔مجھے حیرت یہ نہیں کہ آج کی نسل سستی شہرت کے لئے ایسا کیوں کرتی ہے۔پریشانی یہ ہے کہ انہیں شہرت مل بھی جاتی ہے۔اب تو ٹک ٹاک بھی ایک حمام سا ہی دکھائی دیتا ہے ،وہ جس کے بارے میں اکثر سیاستدان بیان بازی کیا کرتے ہیں کہ اس حمام میں سبھی ننگے ہیں۔اب تو ٹک ٹاک دیکھ کر بھی لگتا ہے کہ اس حمام میں بھی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ویڈیو وائرل ہونے کے بارے میں ایک دوست کی بات یاد آگئی ،اس نے ایک دن مجھ سے پوچھا کہ یار ابھی تک...