دم توڑتی آوازیں

دس جنوری کوکوڑے کے ڈھیرپراک مسلاہواپھول پایاگیا، اس پھول کوتلاش کرتے ہوئے پانچ روزگزرچکے تھے مگرجب وہ ملا توتارتاراوربکھراہواتھا۔ اس پھول کوزینب کانام دیاگیا۔اسے مسلے جانے کاسبب خواہ کچھ بھی رہاہومگرایک بات توواضح ہوگئی کہ بہارماتم کناں اورچمن خزاں کی زدمیں ہے ۔قانون نافذکرنے والے ادارے ابھی تک اس انسان نمادرندے کوتلاش نہیں کرپائے کہ جس نے زینب کی آبروریزی کی ، اس کابہیمانہ قتل کرکے کوڑے کے ڈھیرپراسے کوڑا سمجھ کرپھینک گیا۔اس سانحے سے قبل بھی اسی شہرمیں 12عزتوں پرڈاکہ ڈالاگیامگرقاتل سرعام دندناتے رہے اورقانون ان کے سامنے بے بس نظرآیا۔
زینب کی لاش ملنے سے قبل بھی کئی لاشیں ملیں مگرکسی کی آہ تک نہ نکلی ، سیاستدان آپس میں الجھتے رہے ، حکمران اپنی خرمستیوں میں کھوئے رہے ، میڈیاسیاست پرتبصرے اورتجزیے احسن طریقے سے پیش کرتارہا، اینکراورصحافی اپنازوربیان حالات حاضرہ پرصرف کرتے رہے ، اہل قلم اپنے قلم کی جولانیاں سیاست کی نکتہ چینیوں پردکھاتے رہے ، سوشل میڈیاپربیٹھے لوگ اپنی سیلفیاں بنابناکرلوگوں سے دادوصول کرتے رہے ، مظلوم کے اہل محلہ بھی اپنے کام سے کام کے اصول پرکاربندرہے ، پوراشہران واقعات وسانحات کومعمولی سمجھ کرنظراندازکرتارہا،مذہبی طبقہ اورعلماء نے ان واقعات کومذہب سے خارج سمجھا، ملک میں بسنے والے باشندے پہلے سے کئی مشکلات میں گھرے خود کوبچانے میں کوشاں رہے ، بے حسی کایہ عالم تھاکہ اخبارات ان سانحات کوجلی حروف میں عام سے خاص تک چیخ چیخ کرپیش کرتے رہے مگرلوگوں کی نظریں اسے دیکھنے سے قاصررہیں ۔2017کے ابتدائی 6ماہ کے اندراندرایسے سینکڑوں واقعات وقوع پذیرہوئے کہ جن میں بنت حوااپنی عزت وناموس سے محروم کردی گئی مگرلوگ تماشادیکھنے اکٹھے ہوتے رہے اورکچھ نہ کرپائے۔
لوگوں کووہ والدین نظرنہ آئے جوآہ وبکاکرتے رہے اورانصاف کے لئے دربدرپھرتے رہے ۔الغرض زینب سے قبل بھی کتنی زینبوں کوتارتارکیاگیا، محافظ سوئے رہے ، میڈیااونگتارہا، ارباب اقتدارمدہوش رہے، سوشل میڈیاکی آنکھ نہ کھلی ۔نامعلوم کتنی زینبوں کی لاشیں کوڑے میں ملائی گئیں ،کتنی زینبوں کوبے دردی سے موت کے گھاٹ اتاراگیا، کتنوں کوجنسی تشددکانشانہ بنایاگیا، زینب کے ماں باپ کی طرح کتنے والدین انصاف کے لئے تڑپتے رہے مگرہمیں ہوش کہاں تھا، اب جوہوش آیاہے توصرف ایک زینب کے قتل کاحساب کیوں مانگاجائے ؟گمنام لٹی اورکٹی ہوئی ان زینبوں کے خون کابدلہ کس سے لیاجائے گا، ان کی عزت لوٹنے والوں کوکون پھانسی دے گا، کون سی عدالت کارروائی کرے گی، کون سی فوج ان کے لئے میدان میں اترے گی ، کون سا میڈیاان کے گھروں کی آواز بنے گا، کون سے سیاسی کھلاڑی ان کے گھروں پردستک دیں گے ، کون سے علما ء ان کے لئے اپنے خطبے وقف کریں گے ، کون سے حکمران ان کے ماں باپ کودلاسادیں گے ، کون سے اداکاراوراینکر ان کے لیے بولیں گے اورآوازاٹھائیں گے ، کون سے لوگ ان کے لئے شمعیں روشن کریں گے ، کون سا سوشل میڈیا ان کے لئے انصاف کا تقاضاکرے گا۔کون سے لوگ ان کے لئے احتجاج کرتے ہوئے اپنی جانیں نچھاور کریں گے ، کون سے لوگ بیان دیتے ہوئے آنسوبہائیں گے ،آخرکون ہے جوپوچھے گاان گمنام موت کی ودیوں میں اترجانے والی زینبوں کو، تارتارہوئی زینبوں کو،کون ہے جویادکرے گاانہیں جنہیں بھلادیاگیا۔
اے زینب یہ تیری قسمت کہ تیری لاش نے لوگوں کے سوئے ہوئے ضمیربیدارکردئیے، لوگ تیرے لئے لاکھوں کی تعدادمیں سڑکوں پرسراپااحتجاج بن گئے یہی نہیں بلکہ دونے تواپنی جانوں کے نذرانے بھی پیش کردئیے ، یہ دوگمنام لوگ بھی بھلادیئے گئے ، ان کاخون بھی رائیگاں گیا، تیرے ماں باپ کی دھاڑیں اورآہیں کام کرگئیں ،اشکوں کے سیلاب تیرے لئے بہائے گئے، سیاستدانوں کوتیراگھرنظرآیا، ہرایک کارخ تیرے گھرکی جانب تھا، ہرنامی گرامی شخصیت اورسیاستدان کاہاتھ تسلی کے لئے تیرے والدکے کندھوں پررکھاگیا، یہ الگ بات ہے کہ وہ اس موقع سے خوب فائدہ اٹھاتے رہے اوراپنی سیاست چمکاتے رہے ، تیرے لئے شمعیں روشن ہوئیں ، میڈیابول اٹھا، عالمی میڈیانے تیرے ساتھ بیتے واقعے کوالمناک سانحے سے تعبیرکیا، شوبزبھی تیرے لئے دست بدعاہوا، گھرگھرتیری مظلومیت کے چرچے تھے، تیرے لئے ہرکس وناکس کی آوازاٹھی، سوشل میڈیاکاتوُخاص موضوع بنی، تیرے لئے لائک اورکمنٹ کے ہارپروئے گئے ،تیرے لئے انصاف کے تقاضے ہوئے، عدالت عظمیٰ نے ازخودنوٹس لیا، اہل قلم نے تجھے اپنے قلم کی زبان بخشی، اخبارات کی سرخیاں تیرے لئے وقف ہوئیں ، کئی صفحات پرتیرے تذکرے بکھرے ، تیری معصوم تصویریں اورآخری ہوم ورک لوگوں کورُلاگیا، نظام زندگی معطل ہوکررہ گیا، تیری صورت میں سب کواپنی بیٹی نظرآئی، خفیہ ایجنسیاں تیرے قاتل کی تلاش میں سرگرداں ہوئیں ، آرمی چیف خودتیرے لئے فکرمندہوا۔
یہ سب کچھ اپنی جگہ دل فریب حقیقت ہے مگرمیں یہ حقیقت بھی کیسے بھلادوں کہ اب وہی لوگ یہ کہہ رہے ہیں کہ حالات اب معمول پرآچکے ہیں ۔ہاں واقعی وہ لوگ سچ کہہ رہے ہیں کہ حالات اب معمول پرآچکے ہیں ، تیرے لئے اٹھنے والی آوازیں اب دم توڑتی جارہی ہیں ، تُوبھی ان گمنام لٹنے والی بچیوں کی طرح لاوارث ہوتی جارہی ہے ، جنھیں سب نے بھلادیا۔
ہاں تیرے بعداک تماشالگااورختم ہوگیا، اک ہجوم تھاجواکٹھاہواورچھٹ گیا، اک چراغ تھاجوجلااوربجھ گیا، اک باب تھاجوکھلااوربندہوگیا،اک آہٹ تھی جوسنائی دی اورخاموش ہوگئی،اک لہرتھی جواٹھی اورتھم گئی، اک شورتھاجوبپاہوااوردم توڑگیا، اک امیدتھی جوبندھی اورٹوٹ گئی، اک آوازتھی جوبلندہوئی اورکھوگئی۔ اب کوئی نہیں جوپوچھے کہ زینب کاقاتل پکڑاگیا، کیااسے سزاہوئی، لوگ یہ سب بھولتے جارہے ہیں ، دنیامیں اوربھی توکام ہیں اس کام کے سوا۔

حصہ

جواب چھوڑ دیں