عافیہ کی واپسی ، کیوں ضروری؟

اگر ڈاکٹر عافیہ صدیقی کے معاملے کا ابتداء سے اب تک کا جائزہ لیں تو انتہائی شدت سے احساس ہوتا ہے اور کہیں اپنے وجود میں سے ایک صدا سنائی دیتی ہے کہ ’’کاش عافیہ ایک عام پاکستانی شہری کی بیٹی نہ ہوتی تو ہرگز اب تک اس بے چارگی کے عالم میں امریکی قیدناحق میں نہ ہوتی‘‘۔ہمارے ملک میں تو طبقہ اشرافیہ کا کلچر ایک ٹیلی فون کال پر اپنے مسائل حل کرالینا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ وزیراعظم، گورنر اور چیف جسٹس کے بیٹے بحفاظت بازیاب ہوجاتے ہیں۔ ایک پولیس افسر کا بیٹا شاہزیب بہن کی بے حرمتی برداشت نہیں کرسکتا اس لئے قتل کردیا جاتا ہے کیونکہ وہ طبقہ اشرافیہ سے تعلق نہیں رکھتا جبکہ فیوڈلز کو بچانے کیلئے اس سسٹم میں بہت گنجائش موجود ہے اگر نہ بھی ہوتو پیدا کرلی جاتی ہے۔
ڈاکٹر عافیہ پاکستانی شہری، ماہر تعلیم اور قوم کی ایسی ذہین بیٹی ہے جس نے بچوں کی ابتدائی تعلیم کے بارے میں پی ایچ ڈی کی اعلیٰ ترین ڈگری حاصل کررکھی ہے۔ جو تعلیم کے شعبے میں قوم کی خدمت کا جذبہ لے کر پاکستان واپس آئی تھی۔ تعلیم کے فروغ کیلئے جس کی اعلیٰ صلاحیتوں سے ریاستی سطح پر استفادہ کرنا چاہیے تھا لیکن وہ آج دنیا بھر میں مظلومیت کی داستان بن کر رہ گئی ہے۔
دختر پاکستان ڈاکٹر عافیہ صدیقی کی غیرقانونی امریکی حراست کو 15سال اور قوم کی نمائندگی کرنے والی تیسری قومی اسمبلی کی مدت پوری ہونے میں بھی چند دن ہی باقی رہ گئے ہیں۔پانچ سال قبل اگست 2012 ء میں ڈاکٹر عافیہ کی رہائی کیلئے سابق امریکی اٹارنی جنرل رمزی کلارک نے پاکستان کے دورے کے موقع پر واضح الفاظ میں کہا تھا کہ ’’ عافیہ بے گناہ ہے، میں اس کی رہائی کیلئے کام کروں گا۔ ان کا کہنا تھا کہ ڈاکٹر عافیہ کو اقتدار کیلئے بین الاقوامی سیاست کی نشانہ بنایا گیا ہے۔(Dr Aafia is innocent, I will work for her release. Dr Aafia was victimised by international politics for power)
امریکی اٹار نی جنرل کے علاوہ پاکستانی نژاد برطانوی قانون دان بیرسٹر نسیم احمد باجوہ، عافیہ کے امریکی وکلاء ٹینا فوسٹر، اسٹیون ڈانز، کیتھی مینلے، سابق چیف جسٹس سپریم کورٹ سعیدالزمان صدیقی مرحوم، سابق چیف جسٹس سندھ ہائی کورٹ وجیہہ الدین احمد ، معروف قانون دان رشید اے رضوی سمیت دیگر ملکی اورعالمی قانون دان ڈاکٹر عافیہ صدیقی کی بے گناہی پر متفق ہیں اور کراچی سے ڈاکٹرعافیہ کے اغواء،پاکستان سے افغانستان بعد ازاں امریکہ منتقلی، امریکی عدالت میں مقدمہ کی کاروائی سمیت 86سالہ سزا کے پورے عمل کو واضح طور پر غیرقانونی قرار دے کر مسترد کرچکے ہیں۔
ہمارے سابقہ اور موجودہ حکمرانوں اور سرکاری حکام کی تمام تر بے حسی اور ناانصافیوں کے باوجودڈاکٹر عافیہ صدیقی امت مسلمہ کی وہ عظیم بیٹی ہے جس کی قید ناحق کے خاتمے کیلئے عالمی سطح پرجدوجہد جاری ہے، جس کی وجہ سے امریکی نظام انصاف کو دنیا کے سامنے بے نقاب ہوااور ہمیں اپنے سیاستدانوں کو پرکھنے کیلئے ایک کسوٹی بھی مل گئی ہے۔ پاکستان کے عوام اپنے ہمدرد یا پھربدعنوان یا پھر جھوٹے وعدے کرنے والے سیاستدانوں کو پرکھ سکتے ہیں۔عافیہ کو امریکہ کے حوالے کرنے کا ذمہ دارڈکٹیٹر پرویز مشرف ہے مگرڈاکٹرعافیہ کے امریکی جیل اور عقوبت خانوں میں 15سالہ غیرقانونی حراست کے آخری دس سال زرداری اور نواز شریف کے جمہوری دور میں گذرے ہیں۔ پہلے پانچ سالوں میں پیپلز پارٹی آصف علی زرداری کی حکومت تھی اور آخری پانچ سالوں میں مسلم لیگ ن کی حکومت جو اب تک جاری ہے جبکہ ابتدائی پانچ سال تک مشرف کے دور میں عافیہ اپنے تین کمسن بچوں سمیت لاپتہ رہی ہے۔ اگرسابق ڈکٹیٹر پرویز مشرف ، زرداری اور نواز شریف کے پانچ پانچ سالہ ادوار کو پرکھا جائے تو عام آدمی کو ریلیف اور انصاف فراہم کرنے کے معاملے میں تینوں ادوار میں کوئی فرق نظر نہیں آئے گا۔
ڈاکٹر عافیہ تعلیمی شعبے میں اپنی خداداد صلاحیتوں کی وجہ سے پاکستان کا قیمتی سرمایہ ہے۔ 2008 ء کے بعد ڈاکٹر عافیہ کی رہائی اور وطن واپسی کے کئی یقینی اور نادر مواقع ضائع کئے گئے۔ پاکستانی شہری اور بے گناہ ہونے کے ناطے ریاست کی ذمہ داری تھی کہ عافیہ کو باعزت طور پر وطن واپس لایا جاتامگر اسے قوم اور ملک کی بدقسمتی ہی کہی جاسکتی ہے کہ اس عرصہ کے دوران اقتدار پر نااہل اور بدعنوانوں کا ٹولہ قابض رہا۔ایک نہیں کئی مرتبہ عالمی سطح پر یہ بات کہی گئی کہ عافیہ کی واپسی میں رکاوٹ امریکہ نہیں بلکہ پاکستان کے اندر سے ہے۔
جب 2008 ء میں معروف برطانوی صحافی مریم ایوون ریڈلے نے بگرام، افغانستان کے خفیہ امریکی عقوبت خانے میں عافیہ کی موجودگی اور اس پر انسانیت سوز تشدد کی اسٹوری بریک کی تو یہ پہلا موقع تھاجب عافیہ کو بآسانی وطن واپس لایا جاسکتا تھا۔اس کے بعد جب عافیہ کو گولیاں مار کر زخمی حالت میں امریکہ منتقل کیا جارہا تھا تو یہ دوسرا اہم موقع بھی اس وقت کے حکمرانوں اور سرکاری حکام نے گنوا دیا کیونکہ پاکستانی شہری ہونے کی وجہ سے عافیہ کی افغانستان سے امریکہ منتقلی غیرقانونی تھی۔ غیرقانونی طور پر امریکہ منتقل کرنے کے بعد جب امریکی فوجیوں پر حملے کے لغو اور من گھڑت الزام پر مقدمہ کی کاروائی شروع کی گئی تو انتہائی کمزور دلائل و شواہد کی بناء پر عدالت میں موثر دفاع کرکے عافیہ کی یقینی رہائی کو ممکن بنایا جاسکتا تھا۔سال گذشتہ 2017ء میں ڈاکٹر عافیہ کے امریکی وکلاء نے صدارتی معافی کے ذریعے رہائی کا ایک راستہ ہموار کیا۔اس سلسلے میں عافیہ کے وکلاء اسٹیون ڈانز اور کیتھی مینلے نے حکومت پاکستان کو خطوط بھی لکھے۔ 2013 ء میں برسراقتدار آنے کے بعد مسلم لیگ ن کے قائد نواز شریف نے ڈاکٹر عافیہ کی والدہ اور بیٹی مریم کو گورنر ہاؤس بلایا کر 100دن میں عافیہ کی وطن واپسی کا وعدہ کیا تھا لیکن جب چار سال کے بعد ایک خط کے ذریعے ڈاکٹر عافیہ کی امریکی جیل سے رہائی اور وطن واپسی کا موقع آیا توسابق وزیراعظم نے ایک خط نہ لکھ کر یہ موقع بھی ضائع کردیا۔
عافیہ کی واپسی میں اصل رکاوٹ کمزور قومی قیادت اور عزم میں کمی رہی ہے۔یہ پاکستانی قوم کی بدقسمتی رہی ہے کہ ان پر ڈیل کے ذریعے ایسے حکمران مسلط ہوتے رہے ہیں جو اغیار کا ایجنڈہ لے کر آتے تھے۔گذشتہ پندرہ سالوں میں سب سے مایوس کن کردار پارلیمنٹ اور سیاستدانوں کا رہا ہے۔ عافیہ کی قید ناحق کے دوران یہ تیسری منتخب حکومت اور اسمبلی ہے جو کرپشن کے سنگین الزامات کے ساتھ اپنی مدت پوری کرنے جارہی ہے۔ گذشتہ دس سالوں میں ۲ وزراء اعظم نااہل قرار دیئے جاچکے ہیں۔
اس موقع پر کئی سال پہلے ڈاکٹر عافیہ کی رہائی کیلئے ملک بھر میں ’’کاروانِ غیرت‘‘کا وہ سفر یاد کیا جاسکتا ہے کہ جس کے منزل کے قریب پہنچنے کی صورت 2018ء کے آغاز میں نظر آرہی ہے۔ آج کی ہماری قومی قیادت امریکی صدر ڈونالڈ ٹرمپ کی دھمکیوں کے جواب میں ملک کو’’ عزت اور غیرت‘‘ کے ساتھ چلانے کا عزم ظاہر کررہی ہے اوراس نے ’’عزت کی قیمت پر امداد‘‘ کو مسترد کردیا ہے۔
عافیہ کی کتاب داستان کا ایک ایک ورق کسی بھی دردمند دل رکھنے والے فرد کے ضمیر کو جھنجھوڑنے کیلئے کافی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ15سال کا طویل عرصہ گذرنے کے بعد بھی دنیا بھر کے انسانیت دوست اور انصاف پسند رنگ ، نسل اور مذہب سے بالاتر ہوکردختر پاکستان عافیہ کی امریکی جیل سے رہائی اوراس کی وطن واپسی کے مطالبہ پر قائم ہیں۔ ڈاکٹر عافیہ صدیقی پر ڈھایا گیا ہر ظلم تاریخ کا حصہ بن چکا ہے۔ اسلامی تاریخ کے عظیم جرنیل محمد بن قاسم ،طارق بن زیاد، عباسی خلیفہ معتصم باللہ اور ترک خلیفہ سلطان محمد فاتح مظلوم بیٹیوں کی پکار پر لبیک کہہ کر تاریخ میں امر ہوگئے ہیں جبکہ عافیہ کے دور میں 60مسلم حکمران، ڈیڑھ ارب سے زائد مسلمان اور میں اور آپ ایسی تاریخ کا حصہ بن رہے ہیں کہ اگر عافیہ کو واپس نہ لایا گیا تو ہماری آنے والی نسلیں ہم پر قیامت تک لعن طعن کرتی رہیں گی۔

حصہ

جواب چھوڑ دیں