سقوط ڈھاکہ پر اپنا اپنا زاویہ

سولہ سمبر ۔ اہل پاکستان کیلئے نہایت دردناک اور الم ناک دن ہے ۔سقوط ڈھاکہ سے لے کر المیہ آرمی پبلک اسکول ۔ نہ صرف لہو رنگ داستان ہے بلکہ ایسا تلخ باب بھی ہے جس کو کبھی بھی درست طریقے سے پڑھنے کی توفیق اہل اقتدار اور اہل اختیار کو نصیب ہی نہیں ہوئی۔ دونوں سانحات کو اپنی اپنی عینک سے پڑھنے کی کوشش کی گئ اور اپنے اپنے نتائج اخذ کئے گئے ۔ ہم بھی ہر سانحہ اور المیہ کو ایک ہی تصور سے دیکھتے ہیں اور وہ ہے “الاسلام ھوالحل” جب اس زاوئیہ نگاہ کے علاوہ کوئی اور تصور کے تحت معاملات کو دیکھا جائے گا تو مباحث تو بہت ہوں گے حل کہیں نہیں ملے گا سانحہ باجوڑ۔ جو 2006 میں امریکی ڈرون حملے کے نتیجے میں رونما ہوا جس میں 69 بچے شہید ہوئے اور سانحہ آرمی پبلک اسکول 2014 جس میں 148 بچے امریکی ایجنٹوں کے ہاتھوں بہیمانہ طریقے سے شہید کئے گئے ۔ ہماری تاریخ کے دکھ بھرے دن ہیں۔

اولذکر سانحہ نے امریکہ کے خلاف نفرت کی آگ لگائی اور امریکہ اور اس کے اندرون ملک اور بیرون ملک حواریوں کے خلاف جدوجہد مہمیز ہوئی اور موخرالذکر کے بعد پاکستان میں موجود جہادی قوتوں سے ہر قسم کی ہمدردی و حمایت مفقود ہوگئ اور پوری قوم ایک پیج پر آگئ ۔

مولانا سید ابوالاعلی مودودی نے پاکستان کو مسجد قرار دیا اور اس کی حفاظت کو مسجد کی حفاظت سے تشبیہ دی اور پھر پیروان تحریک اسلامی نے عصبیت و قومیت کے کسی طوفان کو خاطر میں لائے بغیر۔ ہر قسم کی لادینیت اور قومیت کے طوفان کے آگے سینہ سپر ہوئے۔ گزشتہ 40 سالوں میں ڈھاکہ و سلہٹ سے لیکر کراچی کے گلی کوچوں میں قومیت کے خونی و ہیبت ناک عفریت کے سامنے خون اور جانوں کے نذرانے پیش کیے ۔ البدر اور الشمس مسلمانوں کی جدوجہد کی لازوال اور سنہری داستانوں میں سے ایک ہے جو تمام تر غلیظ لبرل پروپیگنڈہ کے برعکس اہل ایمان کیلئے زمین کا نمک اور پہاڑی کا چراغ ہیں ۔ حد یہ ہے کہ بنگلہ دیش میں پاکستان سے محبت کرنے والوں کو سولیاں تو آج بھی دی جا رہی ہیں مگر یہ سب کچھ جو بھی ہوا ۔ وہ صرف اسلئے ہوئے کہ حکامہ نےعدل اجتماعی کو ترک کر دیا اور امریکی کاسہ لیسی میں حد سے آگے بڑھ گئے ۔ اور یہ دونوں عوامل اسلئے ہوئے کہ ان کوکلمہ لا الہ الا الله محمد رسول الله کی قوت ، طاقت اور مضمرات سے واقفیت ہی نہیں ۔ جبکہ یہی ہر طاقت کا سرچشمہ ہے ۔ کوئی مانے یا نہ مانے۔

حصہ
mm
کاشف حفیظ صدیقی ایک تحقیقاتی ادارے سے وابستہ ہیں ۔ کراچی کے مقامی روزنامے میں طویل عرصہ "منظر۔پس منظر" کے نام سے کالمز بھی لکھتے رہے ہیں ۔ 7 تحقیقی کتب کے مصنف بھی ہیں ۔

جواب چھوڑ دیں