رواج ڈالئے صاحب۔۔

روئے زمین پر بسنے والے افراد نے معاشرے میں اپنے رہن و سہن ،چال چلن اور بولنے کے مختلف ہونے کی وجہ سے رواج و رسومات کو تشکیل دے کر اپنے لئے اک پہچان وضع کرلی ہے چاہے وہ خوشی کا موقع ہو یا غمی کا۔رواج و رسومات کی ادائیگی کو فرض عین سمجھتے ہوئے کما حقہ ادا کرتے ہیں۔ چہ جائے کہ وہ اسلام کے منافی کیوں نہ ہو بس خاندان و معاشرہ راضی ہونا چاہئے۔
اگر اک نظر موجودہ خوشی و غمی کے موقعوں پر ہونے والی رسومات پر ڈالی جائے تو بہت ساری رسومات اسلام اور شرعی احکام کے منافی نظر آتے ہیں مگر پھر بھی ہم انہی رسومات کی ادائیگی اپنے لئے فرضِ عین سمجھتے ہیں،فضول اور لغو قسم کے رسومات میں دین دار ،باشعور طبقے کے افراد بھی صفِ اول میں نظر آتے ہیں۔
یقیناًہم سب بہت ساری ایسی رسومات و رواج سے واقف ہوں گے جن کا اسلام سے کوئی تعلق نہیں ہوتا بلکہ اسلام کے منافی ہوتا ہے مگر پھر بھی ہم اْنہیں ادا کررہے ہوتے ہیں۔اپنے آپ کو اس طرح کی رسومات ورواج سے دور رکھیں چہ جائیکہ آپ بھرے مجمعے میں وعظ و نصیحت کی گھٹری کھول کے بیٹھ جائیں۔اگر آپ اپنے معاشرے ،خاندان یا گھر میں ایسے رسومات یا رواج جو اسلام کے منافی ہے ختم کروانے کے اہل ہیں تو آہستہ آہستہ کوشش کرتے کرتے ضرور ختم کروائیں۔
شادی بیاہ کے موقعوں پر دیکھا گیا ہے کہ ہم بہت سارے رسومات و رواج اسلام کے منافی کرجاتے ہیں اور کررہے ہوتے ہیں بہرحال میرا آج کے اس مضمون کا مقصد ایک رواج ڈالنے کا ہے کہ مختصراًکہ ہم شادی کے خوشی میں ولیمے کے بعد جو پیسے دیتے ہیں کیا یہ پیسے ان کو ضرورت ہوتے ہیں؟یہ اسلام کے منافی ہے یا نہیں اس پر پھر کبھی اک مکمل نظر۔ ہم اکثر ولیمے کے بعد دولہے کو پیسے دیتے ہیں حالانکہ ان کو اس وقت پیسوں کی ضرورت نہیں ہوتی ہے۔
دوسری طرف غمی کا موقع لیا جائے تو ہم زیادہ ترفون کالز پر ہی خیریت و عافیت جان کر اپنا فرض ادا کرنا سمجھ لیتے ہیں نہ کہ وہاں جا کر مریض کی عیادت دریافت کر کے قدرے مریض کو تسلی دے دی جائے۔ہم عیادت کیلئے جاتے وقت چند سو کے فروٹس یا دیگر اشیاء لے کر چلے جاتے ہیں حالانکہ اس وقت اْن کو پیسوں کی ضرورت ہوتی ہے۔
آج سے رواج ڈالئے کہ ہم نے دولہا کو پیسے دینے کے بجائے مریض کی عیادت کرتے وقت ان کو حسب توفیق پیسے دیتے جائیں کیونکہ پیسوں کی ضرورت اْس دولہا کو نہیں جو اپنی خوشی کیلئے پیسا پانی کی طرح بہا دے بلکہ اس کو ضرورت ہے جو بسترمرگ پر شاید اپنی مفلسی کے سبب موت کا منتظر ہو اورمزید علاج کیلئے پیسے نہ ہوں۔آپ کے اس تعاون سے وہ اپنا مکمل علاج کرواسکے۔مختصراً یہ کہ ’’صاحب رواج ڈالئے دولہا کے بجائے مریض کو پیسے دینے کو ترجیح دیجئے‘‘۔

حصہ

جواب چھوڑ دیں